0
Friday 30 Nov 2018 18:44
ہمارا مقصد ملک کے مفادات کا تحفظ ہے، پہلے رائیونڈ کے محلات کا تحفظ ہوا کرتا تھا

آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا، اسی لئے اب دوست ممالک آگے آرہے ہیں، مشتاق غنی

وزیراعظم عمران خان کیساتھ بات کی ہے، ہمیں دیرینہ میں مسائل کے حل کے مثبت اشارے ملے ہیں
آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا، اسی لئے اب دوست ممالک آگے آرہے ہیں، مشتاق غنی
مشتاق احمد غنی مجنھے ہوئے سیاستدان ہونے کیساتھ ساتھ ممتاز ماہر تعلیم بھی ہیں۔ وہ ہزارہ ڈویژن کے ضلع ایبٹ آباد کے رہائشی ہیں جبکہ کئی عشروں سے تعلیمی انسٹیٹیوٹ چلا رہے ہیں۔ مشتاق احمد غنی 1997ء میں پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنے، یوں ہزارہ ڈویژن سے تحریک انصاف میں شامل ہونیوالی پہلی اہم شخصیت کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ اسی سال پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ مشتاق غنی 2001ء کے بلدیاتی الیکشن میں اپنی یونین کونسل کے ناظم منتخب ہوئے۔ اس دوران پاکستان تحریک انصاف سے بعض اصولی اور نظریاتی اختلاف کے باعث کچھ عرصہ تک پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کئے رہے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں قسمت آزمائی کی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ 2008ء کے الیکشن میں کامیاب نہ ہوسکے، تاہم انکی زوجہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئیں۔ 2013ء کے عام انتخاب میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی، جسکے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ ابتداء میں انہیں وزیراعلٰی کا مشیر برائے اعلٰی تعلیم مقرر کیا گیا، تاہم صوبائی حکومت نے چند ماہ بعد ہی بہترین کارکردگی، محکمے میں اصلاحات اور انتظامی امور کو دیکھتے ہوئے انہیں صوبائی وزیر کے عہدے پر ترقی دیدی، جسکے ساتھ محکمہ اطلاعات کی ذمہ داریاں بھی انکے حوالے کی گئیں۔ یہی وجہ تھی کہ ایک بار پھر انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، پارٹی قیادت نے انکی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسپیکر صوبائی اسمبلی کیلئے نامزد کیا۔ اسوقت صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان توازن رکھنے کیلئے اپنی کوششوں پر روشنی ڈالئے، کیونکہ آپکو نسبتاََ سخت اپوزیشن کا سامنا ہے۔؟
مشتاق غنی:
سب سے پہلے تو میں اپنی قیادت کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جس نے بغیر کسی مشاورت کے مجھے اس اہم عہدے کیلئے نامزد کیا، یہ مجھ پر اعتماد کا اظہار تھا، جس کیلئے قیادت کا شکر گزار رہوں گا، جب مجھے اس اہم عہدے کیلئے نامزد کیا گیا تو اسی وقت میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ پوری غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کردار ادا کروں گا۔ صرف ایوان کی کارروائی احسن طریقے اور مشاورت سے چلاؤں گا بلکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پل کا کردار بھی ادا کروں گا، کیونکہ یہ دونوں جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیئے ہیں۔ اسوقت مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوں ہو رہی ہے کہ اپوزیشن مکمل طور پر مطمئن ہے، اس کیساتھ ساتھ مجھے حکومتی بنچوں کو بھی مطمئن رکھنا ہوتا ہے، یہ بھی اہم ذمہ داری ہے۔ پارلیمانی نظام میں اسمبلیوں کا کردار اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کیونکہ اسی فورم پر اگر اپوزیشن نے حکومتی کمزوریوں پر گرفت کرکے کڑی تنقید کرنا ہوتی ہے تو حکومت کو بھی اس کا موثر جواب دینا ہوتا ہے، اسی لئے ہماری کوشش ہے کہ اس اہم پلیٹ فارم کو توازن کے ساتھ استعمال کریں، چنانچہ پہلی بار منفرد نوعیت کے اقدامات کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاحات بھی لا رہے ہیں۔

پہلی بار تمام جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز کو الگ الگ دفاتر دیئے جا رہے ہیں جبکہ ساتھ ہی ان کو مطلوبہ عملہ بھی مہیا کیا جائے گا۔ اسی طرح موجودہ اسمبلی میں اراکین کے بیٹھنے کیلئے مناسب جگہ نہیں ہے، ہم پچاس پچاس کی گنجائش کے کمرے بنا رہے ہیں، جہاں حکومتی اور اپوزیشن اراکین وقفے کے دوران بیٹھ سکیں گے۔ بڑی اور معیاری کینٹین بنا دی ہے، جبکہ بڑی لائبریری بھی بنا رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کو ان کے مقام کے مطابق بڑا دفتر دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ہمارے میڈیا کے ساتھی جو اپنی ڈیوٹی نبھانے اسمبلی آتے ہیں، ان کی سہولت کیلئے ایک مستقل ڈائس بنا کر اس پر فائبر گلاس کی چھت ڈال رہے ہیں، تاکہ دھوپ یا بارش ان کو پریشان نہ کرسکے۔ اسی طرح قریب کا کمرہ بھی ہر قسم کی ضروری سہولیات سے آراستہ کرکے ان کو دے رہے ہیں، تاکہ اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرسکیں۔ آپ جانتے ہیں کہ صوبائی محکمے اسمبلی کے ساتھ ہمیشہ سے غیر مناسب رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اب اس سلسلے میں رولز میں ترامیم لائی جا رہی ہیں۔

اسوقت ہوتا یہ ہے کہ اجلاس میں محکمہ کسی بھی گریڈ سترہ کے افسر کو بھجوا دیتا ہے، اب سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکرٹری سے کم عہدے کا افسر اجلاس میں نہیں آسکے گا۔ اس سلسلے میں ترامیم تو ہو رہی ہیں، تاہم اس سے پہلے ہی رولنگ بھی دیدی گئی ہے۔ اسی طرح اس بار ہماری کوشش ہے کہ اسمبلی اجلاسوں کیلئے نئی حکمت عملی ترتیب دی جائے، تاکہ محض 100 روز کی کارروائی مکمل کرنے کیلئے خانہ پری نہ کرنی پڑے۔ اس حوالے سے مختلف تجاویز زیرِ غور ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر پندرہ دن کے اندر چار پانچ دنوں کا اجلاس بلایا جاتا رہے، تاکہ معاملات منظم انداز میں آگے بڑھتے رہیں۔ نومنتخب اراکین کی بڑی تعداد نووارد ہے، اس لئے ان کی تربیتی نشستیں بھی شروع کی جاچکی ہیں، تمام ممبران کو تربیت کے مراحل سے گزارا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: خود احتسابی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کردار اہم رہا ہے، آپ اس سلسلے میں کب سے متحرک ہو رہے ہیں۔؟
مشتاق غنی:
آپ نے بالکل درست کہا، جب احتسابی ادارے نہیں بھی تھے تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹیاں موثر طریقے سے سرگرم تھیں۔ بیچ میں پھر کچھ عرصے کیلئے ان کو غیر فعال کر دیا گیا، تاہم اب ہماری حکومت بھرپور طریقے سے پی اے سی کی کو متحرک کر رہی ہے۔ صوبائی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی بنا دی گئی ہے اور تین دسمبر سے اس کے اجلاس شروع ہونے والے ہیں، ہم نے نئی مثال قائم کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں اپنی ہی سابق حکومت کے دور کے حسابات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، چونکہ پچھلی حکومتوں کا کچھ حصہ بھی باقی ہے، اس لئے ایک سال ان کا بھی زیر غور آئے گا۔ ہم ان شاء الله ثابت کر دیں گے کہ احتساب کے معاملے میں ہم امتیازی رویئے پر یقین نہیں رکھتے، ہم نہیں ہمارا عمل بولتا نظر آئے گا۔ مالی بے ضابطگیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے ذمہ داروں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت ہوگی۔

اسلام ٹائمز: ایوان کی قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل کا معاملہ تاحال کیوں التواء کا شکار چلا آرہا ہے۔؟
مشتاق غنی:
اس کی بڑی وجہ اپوزیشن جماعتوں کے بڑھتے مطالبات ہیں، ہم اس سلسلے میں مکمل اتفاق رائے سے کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اسوقت ہاؤس کی چار کمیٹیاں بن چکی ہیں، جبکہ 33 سٹینڈنگ کمیٹیوں کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے۔ ہم نے اپوزیشن جماعتوں کو ان کے تناسب کے مطابق 8 کمیٹیاں دینے کی پیشکش کی ہوئی ہے، مگر ان کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ حالانکہ رولز کے مطابق کمیٹیوں کی تشکیل ایوان میں ووٹنگ کے ذریعے ہونی چاہیئے، اگر ایسا کیا جاتا ہے تو اپوزیشن کو ایک بھی کمیٹی نہیں ملے گی۔ مگر ہمارے صوبے میں یہ روایت نہیں رہی، یہاں ہمیشہ ایوان اختیار اسپیکر کو دے دیتا ہے، جن کی طرف سے پھر اتفاق رائے سے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اور ہم بھی یہی کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اگلے چند روز میں پارلیمانی لیڈروں کے ساتھ جلد ہی مشاورتی اجلاس میں معاملات طے کر لئے جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف کرپشن کے خاتمے کے دعوے کئے جا رہے ہیں تو دوسری طرف صوبائی حکومت نے اپنے ہی احتساب کمیشن کو ختم کر دیا ہے، کیا یہ دوعملی نہیں۔؟
مشتاق غنی:
پہلی بات تو یہ ہے کہ احتساب کمیشن کے خاتمے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم نے کرپشن کے خاتمے کے ایجنڈے کو پسِ پشت ڈال دیا ہے، جس وقت ہم نے احتساب کمیشن بنایا تھا، اسوقت نیب کمزور تھا اور احتساب کے نام پر مذاق کا سلسلہ جاری تھا۔ اسی بداعتمادی کی وجہ سے ہم نے اپنا ادارہ قائم کیا، مگر بدقسمتی سے ڈی جی اور احتساب کمشنرز کے مابین اختیارات کی جنگ چھڑ گئی، جس سے کارکردگی متاثر ہوئی اور وقت ضائع ہوا۔ اس قانون میں کئی سقم بھی سامنے آئے تھے، جس کیلئے پھر ہم ترامیم بھی لائے، کسی کی گرفتاری کو جج کی اجازت سے مشروط کر دیا، تاکہ بے گناہوں کی عزت نفس مجروح نہ ہوسکے۔ اس کے بعد ہم نے نئے ڈی جی کیلئے ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ نامزدگی وہ کرے۔ اسی دوران نیب متحرک ہوا اور پہلی بار ملک میں موثر احتسابی عمل شروع ہوا تو کمیشن کی ضرورت ہی ختم ہوگئی۔

اسلام ٹائمز: مرکز اور صوبے میں عرصے بعد ایک ہی جماعت برسرِ اقتدار آئی ہے، تو اسوقت مرکز سے صوبے کے حقوق کے حصول کی کس قدر امید رکھی جاسکتی ہے۔؟
مشتاق غنی:
اس سلسلے میں وزیراعلٰی محمود خان پہلے دن سے ہی سرگرم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے متعدد مواقع پر وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بات کی ہے اور ہمیں دیرینہ میں مسائل کے حل کے مثبت اشارے ملے ہیں، جس کے بعد ہمیں امید ہے کہ صوبے کے درپیش مسائل جو سابق وفاقی حکومتوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے حل طلب چلے آرہے تھے، اب تیزی سے حل ہونا شروع ہو جائیں گے، ہم اپنا حق کسی صورت نہیں چھوڑیں گے، ہم نے بھیک بھی نہیں مانگی، صرف مرکز سے جائز حق ہی مانگا ہے۔ موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام دیرینہ مسائل جلد حل ہو جائیں گئے، صوبے کی معاشی حالت تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہے، ہم نے اخراجات کافی حد تک کم کر دیئے ہیں۔ ہمارے ہاں جیبیں بھرنے والا کلچر ہے ہی نہیں۔ ان شاء الله کوئی بھی کرپشن نہیں کرسکے گا۔ ماضی میں بہت بڑی رقم کرپشن کی نذر ہوتی رہی ہے، اسی طرح صوبے کے قدرتی وسائل سے بھی کماحقہ استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ مگر اب ایسا نہیں ہوگا، ہم سی پیک پر سیاست نہیں بلکہ اس کی سمت درست کریں گے۔ ہمارا مقصد ملک کے مفادات کا تحفظ ہے، پہلے رائیونڈ کے محلات کا تحفظ ہوا کرتا تھا، اب ایسا نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اخراجات میں کمی کی بات کی، یہ بتائے کہ صوبائی اسمبلی سیکرٹریٹ کے اخراجات میں کسی حد تک کمی لائی گئی ہے۔؟
مشتاق غنی:
ظاہر ہے کہ کفایت شعاری کی پالیسی پورے ملک کیلئے ہے، اس سے صوبائی اسمبلی کیسے مبراء ہوسکتی ہے۔ ہم نے صوبائی اسمبلی کے اخراجات کافی حد تک کم کر لئے ہیں۔ اے سی کا استعمال محدود تر کر دیا جائے گا۔ بِلاضرورت اور بلا استحقاق لگائے جانے والے تمام اے سیز اتارے جا رہے ہیں۔ بجلی کے استعمال پر سخت چیک رکھا گیا ہے، عدم موجودگی پر جس کے کمرے میں بتیاں روشن پائی جائیں گی، ان سے جواب طلی ہوگی۔ دیگر اخراجات بھی کم کرکے سالانہ کروڑوں کی بچت کرکے دکھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کے 100 دن پورے ہوچکے ہیں، کیا کوئی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔؟
مشتاق غنی:
یہ اعزاز بھی عمران خان کو حاصل ہوا کہ ملک میں 100 روز میں بہت کچھ کرکے دکھانے کی روایت ڈال دی ہے۔ حالانکہ یہ بہت مشکل فیصلہ تھا، مگر عمران خان مشکلات میں ہی آگے بڑھنے کا فن جانتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ کافی تبدیلیاں نظر آنے لگی ہیں، صحت انصاف کارڈ کا دائرہ کار پورے ملک تک پھیلایا جا رہا ہے، یہ فلاحی ریاست کے قیام کی طرف پہلا قدم ہے۔ اسی طرح مسافروں کیلئے شیلٹر ہومز بنائے جا رہے ہیں، پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے حوالہ سے بھی عملی پیشرفت شروع ہوچکی ہے۔ یہ پہلی حکومت ہے، جس نے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی لئے اب دوست ممالک آگے آرہے ہیں، دنیا بھر میں ملک کا وقار بڑھ چکا ہے۔ ملائیشیا نے ہمارے لئے ویزے کی شرط ختم کر دی ہے، سرمایہ کار تیزی کے ساتھ رابطوں میں مصروف ہیں، کیونکہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے انکا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبے میں بیروزگاری بہت بڑا مسئلہ ہے، اس سے نمٹنے کیلئے اقدامات پر بھی روشنی ڈالیں۔؟
مشتاق غنی:
اگر ہم اپنے صوبے کی بات کریں تو یہاں بھی حالات بہتر ہو رہے ہیں، بجلی منصوبوں کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کے ساتھ معاہدے ہوچکے ہیں۔ سرمایہ کاروں نے صوبے کا رُخ کر لیا ہے۔ بہت بڑی سرمایہ کاری ہونے والی ہے، جس سے صوبے میں صنعتی و تجارتی سرگرمیاں بڑھیں گی اور بیروزگاری کا خاتمہ کیا جاسکے گا، ہم نے گذشتہ دور حکومت میں صنعتی پالیسی دی تھی۔ صنعتکاروں کو مراعات دین، فریٹ چارجز حکومت نے اپنے ذمے لے لئے تھے، بجلی کے نرخوں میں بھی رعایت دی تھی۔ ان شاء اللہ وہ دور آنے والا ہے، جب ہمارا صوبہ صنعتی و معاشی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا۔ رشکئی اکنامک زون میں سرمایہ کاری کیلئے بیرونی سرمایہ کاروں کے رابطے جاری ہیں۔ بہت سے سرمایہ کار تو مجھ سے رابطے میں ہیں۔ ہم اپنی فاضل گیس سے بجلی پیدا کرکے صنعتوں کو بلاتعطل فراہم کریں گے۔ سی پیک کی وجہ سے بھی کافی مواقع ہیں، ہم نے اپنی سابق حکومت کے دور میں چین کے ساتھ 21 ایم او یوز پر دستخط کئے تھے، جن میں سے 12 نے اب باقاعده معاہدوں کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اصل چیز قوت ارادی اور خلوص نیت ہے، جس کے بعد کوئی مشکل باقی نہیں رہتی۔

اسلام ٹائمز: جب ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری آنے لگی تو اچانک بدامنی کے واقعات کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس حوالے سے حکومت کیا کر رہی ہے۔؟
مشتاق غنی:
سب کو علم ہے کہ ملک کے اندر بھی دشمن ہیں اور ملک کے باہر بھی ہمارے دشمن موجود ہیں، جب ہم احتساب کی بات کرتے ہیں، حساب مانگتے ہیں تو جمہوریت کی دہائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح جب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگتا ہے تو بیرونی طاقتیں سرگرم ہو جاتی ہیں، تاہم میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ماضی کی نسبت ملک میں کافی امن ہے۔ بدامنی کے یہ چند واقعات ثابت کرتے ہیں بیرونی قوتوں سے ہماری ترقی برداشت نہیں ہو رہی۔ ملک کو خطرات سے نکالنے اور قوم کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ہمیں امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہوگی۔ عمران خان نے جس طرح امریکی صدر ٹرمپ کو برابر کی سطح پر دو ٹوک جواب دیا ہے، اس نے ہمارے ملک میں نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔ دیگر ممالک میں جب ایسے مراحل آتے ہیں تو اپوزیشن جماعتیں حکومت کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی ہیں، مگر ہمارے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کو مقدم رکھتی ہیں، مگر اب قوم سب سمجھتی ہے۔ اس لئے اس کا اعتماد اپنی منتخب حکومت پر بڑھتا جا رہا ہے، جس سے اندرونی و بیرونی دونوں قسم کے دشمن ناکامی سے دوچار ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: پانچ سال آپ حکومت کا حصہ رہے، اپنے علاقہ کے عوام کا اعتماد کیسے برقرار رکھا۔؟
مشتاق غنی:
ہمارے لوگوں کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کرتا تھا کہ پشاور ہمارے حقوق دبائے ہوئے ہے، مگر ہم نے یہ تاثر ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی، کیونکہ ہم نے پانچ سال میں بہت کام کئے۔ ہر ضلع بالخصوص ایبٹ آباد میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل کروائے۔ شہر میں پہلی یونیورسٹی قائم کی، 3 گرلز کالجز بنائے، شہر کی خوبصورتی کیلئے ایک ارب روپے کا منصوبہ مکمل کروایا، جس سے شہر کا حلیہ ہی تبدیل ہو رہا ہے۔ سڑکیں بن رہی ہیں، ایبٹ آباد کو حقیقی معنوں میں روشنیوں کا شہر بنا دیا ہے۔ مری روڈ کا پہلا فیز مکمل ہوچکا، اب دوسرے فیز کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ 18 کلومیٹر کا بائی پاس بن رہا ہے، جو پونے دو ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ اس سے شہر پر ٹریفک کا دباؤ کم ہو جائے گا۔ ایک ماہ تک موٹروے ایبٹ آباد تک مکمل ہو جائے گی۔ رش کم ہوتے ہی مانسہرہ روڈ کی کشادگی کا کام بھی شروع کر دیا جائے گا۔ ایبٹ آباد میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل کرنے کیلئے بڑے ذخیرے کی تعمیر کا منصوبہ ہے، جس میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ اس سے پورے شہر کا مسئلہ حل ہو جائے گا، ہم چونکہ عام لوگوں کے درمیان رہتے ہیں، اس لئے ہمیں حقیقی مسائل کا بخوبی علم ہے اور اب باقی مانده مسائل بھی حل کرکے دم لیں گے۔ سیاحت کے شعبے میں بھی ہزارہ کو آگے لے جا رہے ہیں، کئی نئے مقامات سیاحوں کیلئے کھولے جا رہے ہیں، جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار مل سکے گا۔
خبر کا کوڈ : 764090
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش