0
Sunday 2 Dec 2018 09:30

گلگت بلتستان کو اکنامک سٹیٹ کی طرف جانا ہوگا، شمس میر

جی بی کو سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے تحت عبوری آئینی صوبہ بنانا تحریک انصاف کے بس کی بات نہیں
گلگت بلتستان کو اکنامک سٹیٹ کی طرف جانا ہوگا، شمس میر
شمس میر گلگت بلتستان حکومت کے مشیر اطلاعات ہیں، انکا تعلق گلگت سے ہے، نون لیگ میں شامل ہونے سے پہلے پیپلزپارٹی کی مرکزی میڈیا ٹیم کا حصہ تھے، شمس میر شہید بینظیر بھٹو کے کافی قریب سمجھے جاتے تھے، بعد میں نون لیگ کے موجودہ صوبائی صدر اور وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن کیساتھ گلگت بلتستان چمبر آف کامرس میں رہے اور وہیں سے انکی قربتیں بڑھیں، قراقرم یونیورسٹی گلگت میں بطور لیکچرار بھی خدمات انجام دیں، بعد میں حفیظ الرحمن کی دعوت پر انہوں نے نون لیگ میں شمولیت اختیار کرلی، نون لیگ نے انہیں پارٹی کا صوبائی ترجمان مقرر کردیا۔ 2015ء کے الیکشن میں جب گلگت بلتستان میں مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی تو حکومت نے انہیں جی بی بورڈ آف انویسمنٹ کا سی ای او تعینات کر دیا، بعد میں پارٹی کی ضروریات کے تحت انہوں نے بورڈ آف انویسمٹ سے استعفیٰ دیدیا اور وزیراعلیٰ نے شمس میر کو مشیر اطلاعات مقرر کر دیا۔ اسلام ٹائمز نے شمس میر سے گلگت بلتستان کی سیاسی اور آئینی حیثیت سے متعلق ایک انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانیکی باتیں چل رہی ہیں، کیا عمران خان کی حکومت یہ فیصلہ کر پائے گی؟ اس صورت میں نون لیگ کا موقف کیا ہوگا۔؟
شمس میر:
تحریک انصاف نے گلگت بلتستان کو حقوق دینے کا ایک اچھا موقع گنوا دیا، میں تو کہوں گا کہ یہ پی ٹی آئی کے بس میں ہی نہیں کہ وہ گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنائے، ان کو گورننس کا کوئی پتہ نہیں، پہلے تو یہ وفاقی کابینہ کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں تھا، اسے ایڈیشنل ایجنڈے کے طور پر شامل کیا گیا اور اس پر بحث بھی نہیں کرائی گئی، اب ہماری آخری امید سپریم کورٹ ہے، عدالت کا ہر فیصلہ قبول کرینگے، دیکھا جائے تو مسلم لیگ نون نے تمام کام مکمل کئے ہیں، سرتاج عزیز کمیٹی نے تمام ماڈل کو سامنے رکھا ہے، صرف ان پر عملدرآمد کی بات ہے۔ دیکھیں اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کے پاس کوئی بہانہ نہیں ہے، وہ یہ بہانہ نہیں کرسکتی کہ بھئی ہمیں کم از کم دو تین سال وقت دیدو تاکہ ہم اس پر غور کرسکیں، سب کچھ تیار ہے، مسلم لیگ نون نے سرتاج عزیز کمیٹی کی صورت میں تین سال تک تفصیلی غوروحوض کرکے جامع سفارشات مرتب کی ہیں، اس پر عملدرآمد کی بات ہے، تاہم اگر تحریک انصاف کی حکومت سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بناتی ہے تو نہ صرف ہم اس کی حمایت کرینگے بلکہ بھرپور ساتھ دیں گے۔

اسلام ٹائمز: نون لیگ نے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کے بجائے ایک اور آرڈر کیوں جاری کیا۔؟
شمس میر:
ایک خطے کیلئے جب کوئی نیا ماڈل دیا جاتا ہے تو پہلے اس کی پریکٹس کی ضرورت ہے، تاریخ کو دیکھیں تو جارج واشنگٹن نے سترہ سال تک صرف پروانہ آزادی پر ہی امریکہ کو چلایا، پھر کہیں جا کر امریکہ کا آئین بنتا ہے، وہ بھی صرف تین ریاستوں میں، آزاد کشمیر 1947ء میں آزاد ہوا لیکن ان کا عبوری آئین 74ء میں بنا، کیونکہ آئین سے پہلے پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے، ہمارے ہاں بھی اس طرح کی پریکٹس کی ضرورت ہے، پہلے ایمپاورمنٹ کی طرف جانا ہے، بعد میں جا کر آئین بنتا ہے، گورننس آرڈر2009ء بھی ایک امپاورمنٹ ہے، آرڈر 2018ء کے ذریعے بھی عوام کو امپاور کیا گیا ہے۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے بہت سے ماڈلز پر غور کیا ہے، ان میں سے ایک عبوری آئینی صوبہ اور آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ ہے، سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے دو مرحلے تھے، پہلا مرحلہ آرڈر 2018ء تھا، جس کے ذریعے گلگت بلتستان کو معاشی اختیارات منتقل ہوئے اور اس آرڈر کا مقصد ایک قسم کی پریکٹس ہے، دوسرے مرحلے میں سرتاج عزیز کمیٹی کی باقی سفارشات پر عمل ہونا تھا، جس پر مکمل عملدرآمد 2020ء میں ہونا تھا، لیکن جب حکومت تبدیل ہوئی تو ظاہر ہے کہ بہت سی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آرڈر 2018ء کی تیاری میں کیا تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت شامل تھی۔؟
شمس میر:
جب پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کیلئے گورننس آرڈر تیار کر رہی تھی، اس وقت میں کوپن ہیگن میں موجود تھا اور حفیظ الرحمن بھی ساتھ تھے، انہوں نے کہا کہ اس طرح کی کوئی ڈاکومینٹس آئی ہیں، اس کو پڑھیں میں نے پڑھا اور خامیوں کی نشاندہی کی، بعد میں صدر پاکستان کے سامنے بھی ان غلطیوں کی نشاندہی کی، پھر جب مسلم لیگ نون کی حکومت آئی تو نواز شریف نے ہمیں بلایا اور کہا کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ہم کام کرنے جا رہے ہیں، اپنی اپنی تجاویز دیدیں، جس پر ہم نے جواب دیا کہ سب سے پہلے گلگت بلتستان کے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہونی چاہیئے، 26 جون 2015ء کو ہماری حکومت آئی 20 ستمبر 2015ء کو ہم نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور کہا گیا کہ سب اپنی اپنی تجاویز تحریری صورت میں پیش کریں، سب نے پیش کیں، اس کو سرتاج عزیز کمیٹی میں پیش کیا گیا، بعد میں سرتاج عزیز کمیٹی نے اپنی رپورٹ تیار کی اور اس میں چار آپشنز زیر بحث لائے گئے، پہلا عبوری صوبہ، دوسرا آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ، تیسرا پارلیمنٹ تک رسائی اور چوتھا آرٹیکل 370 طرز کا ماڈل۔ اس وقت نواز شریف نے فیصلہ بھی کیا تھا کہ گلگت بلتستان کو ملک کا پانچویں یونٹ بنایا جائے گا، جبکہ آزاد کشمیر کو چھٹا یونٹ بنانے کا فیصلہ بھی زیر غور آیا تھا، کشمیری پہلے مان گئے تھے، بعد میں انکاری ہوگئے، میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ آرڈر 2018ء سرتاج عزیز سفارشات کا پہلا مرحلہ تھا، جس پر مرحلہ وار عمل درآمد ہونا تھا۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کیلئے بہترین سیٹ اپ کیا ہوسکتا ہے۔؟
شمس میر:
میں تو کہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کو اکنامک اور سوشل ڈویلپمنٹ کی گارنٹی والا ماڈل ملنا چاہیئے، لیکن اگر ہم آئین کو دیکھیں اس میں چار یونٹس ہیں، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے۔ ان صوبوں کی حالت سب کے سامنے ہے، بلوچستان، سندھ اور کے پی کے کو دیکھیں بیروزگاری، غربت جیسے سنگین مسائل یہاں موجود ہیں، اس کے باؤجود کہ یہ صوبے مکمل طور پر پاکستان کے آئین میں موجود ہیں، یہاں بیروزگاری اور غربت کے سنگین مسائل ہیں، چونکہ ہمارے ہاں آئینی حقوق کا نعرہ بڑا مشہور ہے، اس لئے سارے لوگ اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، ہاں ریاست پاکستان کے اندر رہو، پاکستان ہے تو ہم ہیں، لیکن اس کے باؤجود ہمیں معاشی اور سیاسی طور پر ایک ایسے ماڈل سٹیٹس کی ضرورت ہے، جس سے ہم اپنی آنے والی نسلوں کو خوشحال بنا اور خوشحال مستقبل دے سکیں، بدقسمتی سے ہم لکیر کے فقیر بنے اور نعروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آرڈر 2018ء کے تحت گلگت بلتستان کو کون سے اختیارات حاصل ہوگئے؟ کیا عوام کیلئے کچھ فائدہ ہوا۔؟
شمس میر:
جب عوام کا مجموعی رویہ ایک خاص سمت کی طرف جاتا ہے تو اس سے نکلنے کو تیار نہیں ہوتے، چاہے وہ سمت درست ہو یا غلط، پوری دنیا میں ماڈرن سٹیٹ میں حکومتوں کی کارکردگی چانچنے کے کئی پیمانے ہوتے ہیں، پہلا یہ کہ یہ حکومت کس حد تک ریفارمز لاسکتی ہے، سوشل اور اکنامک ڈویلپمنٹ کا تصور کیا ہے، گلوبلائزیشن کے بعد اس وقت دنیا میں اکنامک سٹیٹ کا تصور سامنے آرہا ہے، جدید تصور کے مطابق جو ملک جتنا اکنامک سٹیٹ ہوگا، وہ ڈکلیئرڈ ریاست تصور ہوگی، ہمیں اکنامک سٹیٹ کی طرف جانا چاہیئے۔ اگر آپ دیکھیں تو پیپلزپارٹی نے گورننس آرڈر کے ذریعے گلگت بلتستان کے چار اہم ترین شعبے اٹھا لئے تھے، معدنیات، منرلز، سیاحت اور جنگلات کے شعبے وزارت امور کشمیر کے پاس تھے، وہاں سے قانون سازی ہوتی تھی اور وہاں سے ہی منرلز کے لیز جاری ہوتے تھے، میں اس وقت پیپلزپارٹی سے اسی بات پر لڑتا تھا کہ آپ لوگوں نے اہم ترین وسائل کو وفاق کے حوالے کیوں کیا، گلگت بلتستان کو اگر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو ان چاروں سبجیکٹ کو واپس لانا ہوگا، آرڈر 2018ء میں ان چاروں شعبوں کو واپس لایا گیا اور گلگت بلتستان کو معاشی اختیارات منتقل ہوگئے۔

اسلام ٹائمز: تقریباً تمام جماعتوں کا کہنا ہے کہ آرڈر سے عوام کو کچھ فائدہ نہیں ہوا۔؟
شمس میر:
آرڈر 2018ء جب رائج ہوگیا تو اسی وقت بعض لوگ اس کو سپریم اپیلیٹ کورٹ لے گئے اور وہاں سے سٹے ہوگیا، پھر وہاں سے معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان تک جا پہنچا، جب آپ نے اس کو چلنے ہی نہیں دیا تو اس کے فائدے کیسے حاصل ہونگے، ہمارے آٹھ سے دس ماہ ضائع ہوگئے۔ اس سے پہلے آپ کو یاد ہوگا جب گلگت بلتستان آنے والے سیاحوں کیلئے این او سی کی شرط رکھی گئی تو ہم نے مزاحمت کی اور یہ معاملہ حل ہوگیا، آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ گلگت بلتستان میں لاکھوں سیاح آرہے ہیں تو یہ صرف آرڈر 2018ء کی وجہ سے ہے، اسی آرڈر کے تحت گلگت بلتستان کی این ایف سی میں نمائندگی تھی، اسی بات پر سندھ اور کے پی کے نے بائیکاٹ کیا تھا کہ این ایف سی میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کیوں ہے، انہیں ہم اپنے حصے کیوں دیں، جس پر نواز شریف نے کہا تھا کہ آپ دو یا نہ دو، گلگت بلتستان کی نمائندگی ضرور رہے گی اور انہیں ایوارڈ میں حصہ وفاق سے ملے گا۔

اسلام ٹائمز: وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے کون کون سے اہم منصوبے ختم کئے؟ اس کیخلاف صوبائی حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔؟
شمس میر:
وفاقی پی ایس ڈی پی سے جب گلگت بلتستان کے منصوبوں کی کٹوتی شروع ہوگئی تو وزیراعلیٰ گلگت بلتستان دو ہفتے تک اسلام آباد میں بیٹھے رہے، پہلے تو عمران خان نے ملاقات سے انکار کیا اور طرح طرح کے بہانے بنائے گئے، بعد میں جب میٹنگ ہوئی تو وہ کافی حوصلہ افزا تھی، کیونکہ وفاق نے کچھ اچھی یقین دہانیاں کرائی تھیں، جہاں تک منصوبوں کی کٹوتی کی بات ہے تو آٹھ ارب روپے کی لاگت کا گلگت کا سوریج لائن پراجیکٹ، شغر تھنگ پاور پراجیکٹ، سدپارہ منصوے سمیت دیگر کئی اور اہم منصوبے روک دیئے گئے ہیں، یہ سارے منظور شدہ منصوبے تھے، ساتھ جاری منصوبوں جیسے گلگت سکردو روڈ منصوبے کیلئے ریلیز میں 25 فیصد کمی کی گئی، جس کی وجہ سے منصوبے پر کام کی رفتار پہلے سے بہت کم ہوگئی ہے۔ یہ تحریک انصاف کی سو دن کی کارکردگی ہے، اگر آپ پلاننگ کمیشن کی آخری میٹنگ ہی دیکھ لیں تو حقیقت واضح ہو جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 764404
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش