0
Monday 3 Dec 2018 20:25
وزیراعظم طالبان کی حمایت کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے

نواز شریف کی مثال ذوالفقار بھٹو اور عمران خان کی مشرف اور ضیاء الحق جیسی ہے، رانا افضل

نواز شریف کی مثال ذوالفقار بھٹو اور عمران خان کی مشرف اور ضیاء الحق جیسی ہے، رانا افضل
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماء رانا محمد افضل خان وزیر مملکت برائے خزانہ، پارلیمانی سیکرٹری برائے فنانس، ریوینیو، اقتصادی امور اور نجکاری رہ چکے ہیں۔ پارٹی میں اہم مقام اور قومی، علاقائی اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ 1949ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ڈھاکہ سے حاصل کی، 1971ء میں این ای ڈی یونیورسٹی سے انجینئرنگ مکمل کی، پاک آرمی میں خدمات انجام دیں، یونیورسٹی آف بلوچستان سے ماسٹر مکمل کیا، فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 82 سے 2013ء میں الیکشن جیتے، اس سے قبل پہلی بار 1997ء سے 1999ء اور دوسری بار 2008ء سے 2013ء تک پنجاب اسمبلی کے رکن اور 2013ء کے قومی انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی 100 دن پورے پونے، بدلتے سیاسی ماحول، پاک بھارت تعلقات اور افغانستان کے حوالے سے سامنے آنے والی نئی پالیسی اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کو متاثر کرنیوالے داخلی امور سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: فافن نے رپورٹ جاری کی ہے کہ عام انتخابات 2018ء ماضی کے تینوں انتخابات کی نسبت بہتر اور شفاف تھے، کیا تبصرہ کرینگے؟
رانا افضل:
کچھ عرصہ قبل ہی عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے چلنے والی این جی اوز پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے، فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک کی جانب سے اپنی رپورٹ میں مبینہ دھاندلی کی نشاندہی سے متعلق اہم نکات ہی حذف کیے گئے ہیں۔ فارم 45 پر پولنگ ایجنٹ کے دستخط جیسا اہم مسئلہ ہی فافن کی رپورٹ میں موجود نہیں، رپورٹ سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دستخط کے مسئلے کی تحقیقات ہوں گی، کیونکہ ہر فارم 45 پر پولنگ ایجنٹ کے دستخط ضرور ہونے چاہیں۔ فافن کی جانب سے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ غیر متعلقہ مسائل کو اجاگر کرنے میں عمل پیرا ہے اور انتخابی عمل سے متعلق تمام مسائل کو اس کے اندر دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ فافن بھی اس دباؤ کا شکار نہیں ہوگا جس کا شکار میڈیا ہوچکا ہے۔ پھر بھی یہ الیکشن اپنی ساکھ کھو چکے ہیں، نہ ہی اس حکومت کی کوئی ساکھ ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کرتار پور راہداری کو گوگلی قرار دیتے ہوئے کیا ایک خاص تاثر دیا ہے، بھارت کو اس کی زبان میں بات کیے بغیر موقف سمجھایا جا سکتا ہے؟
رانا افضل:
ہم ہمیشہ سے اس کے حامی ہیں، کرتار پور کوریڈور کھلنے سے نہ صرف سکھ برادری مذہبی مقام کی زیارت کے لیے آسکے گی، بلکہ اس کی مدد سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت اور سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ لیکن کرتار پور کوریڈور کا سہرا صرف ایک ہی شخص کے سر نہیں جانا چاہیے۔ سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی سکھ یاتریوں کی آمد و رفت کے لیے کرتار پور کوریڈور بنانے کے لیے کوششیں کیں۔ ایسے کوریڈور مزید کھلنے چاہیئں تاکہ خطے میں تجارتی سرگرمیوں میں بہتری لائی جاسکے۔ پاکستان کو اپنے ہمسائیوں سے تعلقات کو بہتر کرنے چاہیئں اور تجارت، ثقافت، تعلیم اور لوگوں کے درمیان روابط کو بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہیئں۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے جس بنیاد پہ یہ بیان دیا ہے، یہ کچھ زیادہ ہو گیا ہے۔

یہ بھی درست ہے کہ کرتار پور راہداری کے حوالے سے بھارتی میڈیا کی منطق بدنیتی پر مبنی ہے، لیکن ہمیں نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ پوری دنیا سے سکھ برادری کا انتہائی مثبت جواب ملا تھا، وزیر خارجہ نے حماقت ہی کی ہے، اس سے بڑھ کر غیرسنجیدگی کیا ہو سکتی ہے، انہوں نے انڈیا کو کہنے کا موقع دیا ہے کہ پاکستان کے نزدیک سکھ برادری کے جذبات کا کوئی احترام نہیں اور آپ تو صرف گوگلی کراتے ہیں، یہ سفارت کاری نہ ہوئی کھیل ہو گیا، انہیں دیکھنا چاہیے تھا، ایک تو انہوں نے آپ کی ایک نہیں سنی، لیکن وزیراعظم خود چلے گئے راہداری کے افتتاح کیلئے، اب انہوں نے اور بھی منفی انداز اپنایا ہے، سفارتی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ حریف آپ کا اثر لیں جس سے آپ کی بات آگے بڑھ سکتی ہو، یا دنیا مثبت انداز میں آپ کا موقف قبول کرے۔ یہ انکی بدقسمتی ہے کہ یہ ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو اپنا وزن سنبھال نہیں پاتے اور دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں، صدر ٹرمپ کو عمران خان نے اچھا جواب دیا لیکن وزیر خارجہ کے ٹوئیٹ نے موقف کمزور بنا دیا۔

اسلام ٹائمز: معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے انڈوں اور مرغیوں کے منصوبے کارگر ثابت ہونگے؟
رانا افضل:
غربت ایک سنگین مسئلہ ہے، جسے ہر صورت میں حل ہونا چاہیے، لیکن آپ اس کے لیے منصوبے بناتے رہیں، ساتھ آپ کی کرنسی کی قیمت کم ہوتی رہے، عوام اور غریب آدمی پر بوجھ بڑھتا رہیگا، اس میں اضافہ ہوگا۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے تبدیلی لانے کی بات کی تھی لیکن وہ تبدیلی مہنگائی کے تحفے کے طور پر عوام کو دی جارہی ہے۔ عمران خان کے 100 روز میں ڈالر 142روپے تک جا پہنچا، جس سے قرض میں 13 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، اس سے بڑی افسوسناک بات کیا ہوگی کہ ہمارے حکمران بیرون ملک جاکر کہتے ہیں کہ پاکستان میں سب چور ہیں۔ حکومت عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، ان کی ناقص پالیسیوں کے باعث ڈالر مہنگا ہوگیا اور ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہوچکا ہے۔ روپے کی کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ وزیر اعظم کی حالیہ تقریروں کا نتیجہ ہے۔ کاہلی اور نااہلی کو چھپانے کیلئے ہر طرف کرپشن کا شور مچایا جا رہا ہے، اب تو آپ خود حکومت میں ہیں، اختیار اور ذمہ داری آپ کی ہے، دوسروں کیخلاف الزام لگانے اور بہانے بنانے سے نہ تو ملک ترقی کریگا نہی غربت ختم ہو سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ درست ہے لیکن حکومت جب کرپشن کیخلاف کاروائی کی بات کرتی ہے تو اپوزیشن کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ یہ مخصوص افراد کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے؟
رانا افضل:
یہ فقط اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے بہانے ہیں۔ چونکہ فہم و ادارک سے عاری ہیں، اس لیے صرف اونچا بولنے اور دھونس دھنادلی اور چلانے سے  اور  طاقت کے مظاہرے سے کبھی معیشت ٹھیک نہیں ہوگی، ہم نے ہر وقت یہ بات کی ہے کہ ہم ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں،جیل بھجوا دوں گا، لٹکا دوں گا کہنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے، لہٰذا مل کر بیٹھنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کو کس نے تباہ کیا اور کرپشن کی بنیاد ڈالی۔ چیف جسٹس صاحب نے خود کہا ہے کہ اعظم سواتی کو قصوروار ٹھہرایا اور لکھا کہ اعظم سواتی نے غلط بیانی کرتے ہوئے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور ایک وفاقی وزیر کو خصوصی پروٹوکول دیا گیا، سوال یہ ہے کہ غریبوں اور کمزوروں کو کیوں دھمکیاں دی جاتی ہیں، مقدمہ بنتا ہے تو بنایا جائے۔ نیب مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے خلاف تو چھان بین کرتی رہتی ہے، انہیں یہ بھی تحقیقات کرنی چاہیے کہ علیمہ خان نے جائیداد کیسے بنائی۔ قوم جاننا چاہتی ہے کہ علیمہ خان کی جائیداد کے پیچھے کون ہے، علیمہ خان شوکت خانم ہسپتال کے بورڈ کی ممبر بھی ہیں۔ خود جسٹس صاحبان کہہ رہے ہیں کہ عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، لگتا ہے دو چار کلرک ہی وفاقی حکومت چلا رہے ہیں، عدالتی فیصلوں کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن بار بار کیوں کہہ رہی ہے کہ عمران خان اپنے آپ کو وزیراعظم مان لیں، کیا حلف اٹھانے اور 100 دن پورے کرنیکے بعد بھی آپ کو یقین نہیں ہے کہ وہ وزیراعظم ہیں؟
رانا افضل:
حیرت کی بات یہ ہے کہ عمران خان خود ہی کہہ چکے ہیں کہ ان کی اہلیہ انہیں بار بار یہ بتاتی ہیں کہ وہ وزیراعظم ہیں، ایسا شخص ملک کو کیا دے سکتا ہے، جسے یہ یقین ہی نہیں کہ وہ وزیراعظم ہے۔ جنہیں حکمران بنایا گیا ہے، وہ سیاستدان نہیں، آج کل سیاست دان کا چہرہ خراب کرکے پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، سیاست دانوں نے آمریت کے ہر دور میں سختیاں برداشت کیں، لیکن اپنی جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اپنے کردار کے باعث ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے فوجی آمر آج ماضی کا قصہ بن گئے ہیں، عمران خان کا کردار بھی ایسے ہی ہے، جبکہ نواز شریف اپنے اصولوں کی وجہ سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ہمیشہ پاکستانی قوم کیلئے باعث فخر قرار پائیں گے۔ عمران خان کا اصل چہرہ سامنے آنا ابھی باقی ہے، یہ کنٹینر سے اترے، وقت کیساتھ قوم کو نواز شریف جیسی قیادت کے نہ ہونے کا احساس زیادہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: 100 روزہ حکومتی کارکردگی کا گذشتہ حکومتوں سے موازنہ کرتے ہوئے کیا کہیں گے، مستقبل میں حکومت اپنی سمت برقرار رکھ پائے گی؟
رانا افضل:
اپنی زبانی جو انہوں نے کارکردگی بتائی ہے، وزیراعظم عمران خان نے جھوٹ کا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے، کیونکہ انہیں جھوٹ بولنے کی عادت ہے، نہ ہی انہیں جھوٹ بولنے سے شرم آتی ہے۔ سو روزہ حکومت ایک ایسا جھوٹ ہے، جسے پاکستان سمیت دنیا کی کوئی حکومت نہیں توڑ سکتی۔ انکی ٹیم بھی ایسی ہے، حکومتی وزراء میں اب بھی جھوٹ بولنے کا سخت مقابلہ جاری ہے، یہاں جو وزیر سب سے بڑا جھوٹ بولے گا، عمران خان کے نزدیک بڑا مقام پائے گا۔ 100 روز کی کارکردگی دکھانے کے لیے نااہل حکومت کو ہمارے دور کے افتتاح کردہ منصوبوں کا سہارا لینا پڑرہا ہے۔ عمران خان کے جھوٹ اور ناکامی کی حقیقت کو چھپانے کے لیے یوٹرن پہ مبنی 100 جھوٹ گھڑے ہیں۔ یہی انکی مہارت ہے۔ اس پر سب متفق ہیں کہ حکومت کے 100 دن عوام کے لیے اذیت ناک دن تھے۔

پی ٹی آئی کے اپنے ووٹرز اور سپورٹرز کے لیے ناامیدی، ملک کے لیے بدنامی اور شرمندگی کے دن تھے۔ جو منصوبے ہم نے لگائے انہیں حکومت کھولنے کے لیے تیار نہیں ہے، جن میں لاہور ملتان موٹروے منصوبہ شامل ہے، جو مکمل ہوچکا ہے لیکن اسے فعال نہیں کیا جارہا۔ ہمارے دورِ حکومت میں کسان خوش تھا، کھاد سستی تھی اور اشیاء خورونوش سستے ہونے کی وجہ سے عوام بھی خوش تھے۔ نواز شریف نے چین کے ساتھ مل کر جے ایف 17 تھنڈر تیار کیا، 100 روز میں ایک بھی وعدہ پورا نہی ہوا اور اگر مسائل کو حل کرنا ہیں تو ٹیکس چوری روکنا اسکا واحد طریقہ ہے۔ ایک کروڑ ملازمتیں کیسے دی جائیں گی اور 50 لاکھ گھر کیسے بنائے جائیں گے، حکومت نے نہیں بتایا، 100 دن میں جی ڈی پی میں کمی آئی تو روزگار کیسے آئیگا، افراطِ زر میں اتنا اضافہ ہوا، ایسا پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ وزیراعظم صاحب نے کہا تھا کہ ہمارے پاس پائلٹ پروگرام ہیں، یہ کون سے پائلٹ پروگرام تھے کہاں پر گئے، کس نے کیے، کس کے خرچے سے کیے گئے اور ان کا کیا مقصد تھا، اس حوالے سے کوئی ذکر نہیں ہے۔

عمران خان نے ٹیکسز چوری روکنے کا ذکر تک نہیں کیا، اس ملک میں سب سے بڑی چوری ٹیکس کی ہوتی ہے، لیکن وزیر خزانہ نے، نہ وزیراعظم نے اس کی بات کی، حکومت ہمارے طریقہ کار پر عمل کر لے، ٹیکس چوری رک جائے گی، عمران خان کو بہت افسوس ہے کہ وہ نیب میں ایک چپڑاسی بھرتی نہیں کر سکے، ہم دعا گو ہیں کہ انہیں اس کا موقع ملے، 100 روز میں ایک بھی وعدہ پورا نہی ہوا، عمران خان آپ نے کہا تھا کہ 90 دن میں ملک سے کرپشن ختم کردوں گا، لیکن 100 دن میں خیبر پختونخوا میں احتساب کمیشن کو رول بیک کردیا گیا۔ کیا خیبر پختونخوا حکومت احتساب سے بالا تر ہے؟۔ عمران خان حکومت کے رولز آف بزنس کو ہی آج تک سمجھ سکے، 100 روز گزرنے کے بعد بھی حکومت کے پاس نہ وِژن ہے نہ روڈ میپ۔ بلاشبہ وہ یوٹرن لینے میں مصروف تھے، وہ 100 دن انتقامی کارروائیاں کرنے اور سیر سپاٹے کرنے میں مصروف تھے۔ ہم 3 سالوں میں شرح ترقی 5 اعشاریہ 8 فیصد پر لائے، خان صاحب بتاتے کہ وہ اس سال کیا گروتھ ریٹ لائیں گے۔ ہر گزرتے دن کیساتھ یہ ثابت ہوتا جائیگا کہ عمران خان کے پاس نہ اہلیت ہے، نہ ان کو چیلنجز کا احساس ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے کہا ہے کہ پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، کیا پاکستان پر دباؤ ہے کہ دوبارہ کسی جنگ کا حصہ بنے؟
رانا افضل:
ایسا کوئی دباؤ نہیں، لیکن ہوگا تو یہ ظاہر نہیں کرینگے اور خاموشی سے یوٹرن لے لیں گے، جیسے انہوں نے آئی ایم ایف جانے کے بارے میں لیا۔ میں تو انکے بیان کو انکے ماضی کی روشنی میں دیکھوں گا، وہ طالبان کے حامی تھے، یہ بیانات انکے اسی بیانیے کا تسلسل ہے، وہ حالیہ تاریخ کے غلط فہم کو ترک کرنے پر ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان دوسروں کی مسلط کردہ جنگ لڑ رہا ہے اور یہ کہ پی ٹی آئی حکومت پاکستانی سرزمین پر اب ایسی کسی جنگ کو لڑنے کی اجازت نہیں دے گی، تو انہیں اپنا ماضی یاد رکھنا چاہیے کہ وزیرستان ان چند علاقوں میں سے ہیں جہاں طالبان شورش نے اس قدر شدید نقصان پہنچایا، کہ تاحال جہاں حالات معمول پر لانے کی کوششیں جاری ہیں، یہ تباہی انہی دہشت گردوں نے پھیلائی ہے عمران خان جن کے حامی رہے ہیں، وزیر اعظم ایک بدترین اور پرعزم دشمن کے خلاف عوام کے دفاع کی خاطر پاکستانی ریاست کی جانب سے لڑی جانے والی بدترین جنگ کے محاذوں پر غیر معمولی قربانیاں اور اپنی جان دینے والوں کی بے قدری کرتے دکھائی دیے۔

وہ اب بھی طالبان کی حمایت کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔ وہ اب بھی اپنوں سے مراد طالبان ہی لیتے ہیں، پاکستان جن کیخلاف جنگ لڑ رہا ہے، دہشت گردی کیخلاف جنگ کو وہ غیروں کی جنگ سمجھتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ وہ قابل قبول ہیں۔ ان کے لیے نہ کوئی ڈان لیکس ہیں نہ غداری کے الزامات۔ عمران خان پاکستان میں دہشتگردی، جارحیت اور انتہاء پسندی کے خلاف جنگ پر خیالات کے اظہار میں بالکل بھی محتاط نہیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جب بات ملک کے اندر پرتشدد انتہاء پسندی اور دہشتگرد نیٹ ورکس کی باقیات کے خلاف جنگ کی آئے تو سیکیورٹی ڈھانچے کہ سویلین سائیڈ کے محاذ پر رہنما کردار ادا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم کی انتہاء پسندی کے خلاف جنگ کے حوالے سے سوچ اور اس طرف اپروچ کو اسی تناظر میں لیا جائیگا کہ وہ طالبان کی حامی قوتوں کا موقف دہرا رہے ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ پاکستان غیروں کی جنگ لڑتا رہا ہے، یا لڑ رہا ہے، تو اس سے یہی مراد ہے۔
خبر کا کوڈ : 764590
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش