0
Friday 14 Dec 2018 12:13

بھاجپا جس رام کو اپنے حقیر مفادات کیلئے آج تک استعمال کرتی آئی، اسی رام نے انہیں دھول چٹائی ہے، عمر عبداللہ

بھاجپا جس رام کو اپنے حقیر مفادات کیلئے آج تک استعمال کرتی آئی، اسی رام نے انہیں دھول چٹائی ہے، عمر عبداللہ
عمر عبداللہ کا تعلق جموں و کشمیر کے عبداللہ خاندان سے ہے، وہ شیخ محمد عبداللہ کے پوتے اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے بیٹے ہیں، عمر عبداللہ مقبوضہ کشمیر کے 11ویں وزیراعلٰی رہ چکے ہیں، وہ بھارتی لوک سبھا کے ممبر بھی رہے ہیں، جہاں وہ جموں و کشمیر کی نمائندگی کرتے تھے، عمر عبداللہ اٹل بہاری واجپائی کی این ڈی اے حکومت میں کم عمر ترین یونین منسٹر رہ چکے ہیں، 2002ء میں انہوں نے این ڈی اے حکومت سے استعفٰی دے دیا، انہوں نے سیاسی میدان کی شروعات 1998ء سے بحثیت لوک سبھا ممبر کی، 2015ء میں انہوں نے جموں و کشمیر کے بیروہ سے انتخاب لڑا اور اسمبلی کیلئے منتخب ہوئے، وہ جموں و کشمیر نیشنل پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں، انہوں نے ہند و پاک مذاکرات کی ہمیشہ زوردار وکالت کی ہے، انہوں نے اسلام آباد میں پرویز مشرف کیساتھ ون ٹو ون مذاکراتی میٹنگ بھی کی اور وہاں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا ہے۔ اسلام ٹائمز نے عمر عبداللہ سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارت کی کئی ریاستوں میں بی جے پی کی انتخابات میں شکست پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
عمر عبداللہ:
گذشتہ چار برسوں کے دوران بھاجپا کو رام مندر کی تعمیر یاد نہیں آئی، لیکن انتخابی ماحول کے گرم ہوتے ہی بھاجپا نے بھگوان رام کے نام پر لوگوں کا استحصال شروع کر دیا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس رام کو اپنے حقیر مفادات کے لئے آج تک استعمال کرتی آئی، اسی رام نے آج انہیں دھول چٹائی ہے۔ بھارتی عوام نے آج ثابت کر دیا کہ انہیں مذہب کے نام پر تقسیم قبول نہیں ہے۔ بھارتی عوام نے سیکولر روایات کو زندہ رکھتے ہوئے مندر اور مسجد کی سیاست کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ لوگوں نے بی جے پی کے خلاف اس وجہ سے ووٹ دیا کیونکہ انہوں نے کبھی بھی لوگوں سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: کیا اس تبدیلی کے اثرات یہاں کشمیر میں مرتب ہوسکتے ہیں۔؟
عمر عبداللہ:
موجودہ انتخابی نتائج سے کشمیر میں بھی مثبت تبدیلی واقع ہوگی اور اس کے کشمیر میں دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آئندہ کی تبدیلی سے کشمیری عوام کی تقدیر بھی بدل کر رہے گی۔

ا
سلام ٹائمز: اگر بھارت میں بھاجپا کی حکومت جاری رہی تو اسکے اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔؟
ع
مر عبداللہ: دیکھیئے بھاجپا حکومت آئین کے سیکولر اقدار کو مٹانے پر تلی ہوئی ہے، لیکن ہمیں ان مذموم عزائم کو ناکام بنانے اور بالخصوص جموں کشمیر کی سیکولر شبیہ کو بنائے رکھنے کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے لال قلعہ سے پہلی بار ترنگا لہراتے ہوئے کب سوچا ہوگا کہ بھارت میں ایسے ارباب اقتدار بھی پیدا ہوں گے، جو ملک کے ٹکڑے کر دیں گے۔ غرض مودی کی حکومت بھارت کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لئے کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کر رہی ہے اور کوئی نہیں جانتا ہے کہ اگر اقتدار ان کے ہاتھوں میں رہا تو یہ ملک کو کتنے حصوں میں بانٹ دے گی۔

ا
سلام ٹائمز: آپ نریندر مودی کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے۔؟
عمر عبداللہ: نریندر مودی کو صلاح دینا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے عہدے کا تقدس بحال رکھتے ہوئے حقیر سیاست نہ کریں۔ انہیں اپنے پیشروؤں کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے۔ انہیں واجپائی سے سیکھنے کی ضرورت ہے، جو بس میں بیٹھ کر پاکستان گئے تھے۔ انہیں عمران خان کے مذاکرات کی پیشکش کا بھی مثبت جواب دینا چاہیئے۔
 
اسلام ٹائمز: بھاجپا کیجانب سے رام کے نام پر ووٹ مانگنے کی سیاست کو آپ کس نگاہ سے دیکھتےہیں۔؟
عمر عبداللہ: دیکھیئے بھارت میں نفرت کا ماحول اس قدر خطرناک رخ اختیار کر گیا ہے کہ گذشتہ ایام اترپردیش کے بلند شہر میں مبینہ گاؤ کشی معاملہ پر مشتعل بھیڑ نے ایک پولیس افسر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، لیکن ریاست کے وزیراعلیٰ کبڈی کھیلنے میں مشغول تھے اور رام کے نام پر ووٹ مانگ رہے تھے۔ ایسے میں ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں۔ اللہ اور رام کو ہمارے ووٹ نہیں چاہیں، ہمیں رائے دہندگان کو اپنے پروگرام اور پالیسیوں سے مطمئن کرنا چاہیئے، لیکن بی جے پی اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہنے کے بعد مذہب کے نام پر سیاست کر رہی ہے۔ ہندو اور مسلمان کے نام پر لوگوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے اور اس سے ملک کمزور ہو رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 765326
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش