QR CodeQR Code

بھارت، ایران اور افغانستان سے تجارت کرنا ہوگی

حکومت نے غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا، علی رضا عابدی

افغانستان میں ثالثی کا کردار ادا کر پائے تو اچھی بات ہوگی

13 Dec 2018 13:30

اسلام ٹائمز کیساتھ اپنے خصوصی انٹرویو میں ایم کیو ایم پاکستان کے سابق رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ اب وقت ہے کہ ہم سی پیک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انڈیا سے افغانستان کی سڑکیں اور ایران سے انڈیا تک سڑکیں تعمیر کروائیں، اگر ہم یہ نیٹ ورکر بنا پاتے ہیں تو ہم تمام ہمسائیوں سے ٹریڈ کرسکتے ہیں۔ ایران گیس پائپ لائن معاہدے کو بھی اپنے انجام تک پہنچنا چاہیئے۔


متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سید علی رضا عابدی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں، الیکشن 2018ء کے انتخابات میں این اے حلقہ 243 کراچی شرقی سے الیکشن لڑا، تاہم اس بار وزیراعظم عمران خان سے ہار گئے۔ ملکی اور عالمی حالات پر خاص نگاہ رکھتے ہیں، ایم کیو ایم میں اندرونی تقسیم پر شدید نالاں ہیں، یہی وجہ بنی کہ انہوں نے پارٹی کی بنیادی رکنیت سے ہی استعفیٰ دے دیا۔ تاہم فاروق ستار کیساتھ کھڑے اور اسوقت پارٹی کو جوڑنے کیلئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مستقبل، تجاوزات کیخلاف آپریشن، تبدیلی سرکار کے 100 دن اور خطے کی صورتحال سمیت خارجہ پالیسی پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے۔ جو اسلام ٹائمز کے قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کراچی میں تجاوزات کیخلاف آپریشن پر سوال اٹھ رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ پنجاب میں آپریشن چل رہا تھا تو سب ٹھیک تھا مگر کراچی میں ٹھیک نہیں، وجہ۔؟ جبکہ پنجاب میں لیگی رہنماوں سے بھی تجاوزات ختم کرائی گئی ہیں، مگر وہاں سوال نہیں اٹھا۔؟
علی رضا عابدی:
تجاوزات کے خلاف آپریشن خاص طور پر سپریم کورٹ کی ہدایات پر ایمپرس مارکیٹ اور صدر ٹاوں کیلئے کروایا گیا۔ اب آواز اس لئے اٹھ رہی ہے کیونکہ یہاں جو دکانیں تھیں، وہ کے ایم سی کی لیز پر تھی اور یہ آج سے نہیں بلکہ پچھلے ساٹھ سال سے تھیں اور نوٹس دیئے بغیر ختم کرائی گئیں، باقی جو دکانوں کے آگے کا حصہ تھا، اس نے تو ہٹنا تھا اور ہٹایا بھی گیا، لیکن اس ساری پریکٹس کا خاص فائدہ بھی تو نہیں ہوا، کیونکہ ٹھیلے ایمپرس مارکیٹ کے اطراف لگ چکے ہیں تو اس سارے معاملے میں ایک ڈیپارٹمنٹ نہیں کوئی ہماری تیس پینتیس ایجنسیز ہیں، جس میں ہر ڈیپارٹمنٹ نے اپنا ایک بندہ بٹھایا ہوا ہے اور وہ ان سے منتھلی لیتا ہے، جس کی وجہ سے یہ پتھیارے اور ٹھیلے چل رہے ہوتے ہیں، اس لئے ان کو تو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ البتہ ایپریس مارکیٹ میں جو دکانیں گرائی گئیں ان کو ضرور فرق پڑا ہے اور وہ اس لئے شور بھی مچا رہے ہیں۔ اسی طرح ایمپرس مارکیٹ کے اطراف جو مارکیٹیں تھیں، یہ سب ورلڈ بینک کا بھی ایک پروجیکٹ تھا کہ جو کہ سنٹرل سٹی بنا رہے تھے، اس منصوبے کے لئے سندھ حکومت نے ورلڈ بینک سے 100 میلین ڈالر بھی مانگے تھے۔ میرے خیال میں چیف جسٹس صاحب کو لینڈ مافیا اور ڈویلپرز نے مس گائیڈ کرکے یہ فیصلہ لیا ہے، تاکہ متعلقہ لوگوں کو اٹھوایا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اب شور مچ رہا ہے، نام تجاوزات کا لیا گیا مگر دکانیں گرائی گئیں، پنجاب میں حقیقی طور پر تجاوزات کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے جبکہ یہاں ایسا نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم 3 دھڑوں میں تقسیم ہوگئی، مستقبل کیا ہے۔؟
علی رضا عابدی:
آپ کو متحدہ قومی مومنٹ تین ڈھڑوں میں تقیسم نظر آرہی ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو پانچ ڈھڑوں میں بٹ چکی ہے، 90ء کی دہائی میں اصل ایم کیو ایم تھی، پھر حقیقی بنی اور پھر ایم کیو ایم رہی، پھر پی ایس پی، پی آئی پی، بہارآباد اور پھر لندن بنی، اگر ان میں اس طرح تقسیم ہی رہی تو ظاہر ہے انکا کوئی مستقبل نہیں، کیونکہ اکیلے اکیلے باتیں سب ہی ایک جیسی کرتے ہیں، منزل بھی ایک ہے، باتیں ایک جیسی کرنے کے باوجود الگ الگ رہتے ہیں اور پھر یہ خود بھی اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ عوام بھی الجھ کر رہ گئی ہے، یہ بھی واضح نہیں ہو پا رہا کہ الطاف بھائی واپس آئیں گے یا نہیں۔ جب یہ چیزیں واضح نہیں ہوں گی تو کیا مستقبل ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا فاروق ستار اور آپ کسی نئی جماعت کی بنیاد ڈالنے والے ہیں۔ کیا آپس میں ابھی بھی جڑنے کی کوئی گنجائش ہے۔؟
علی رضا عابدی:
میں اور فاروق بھائی کوئی نئی تنظیم نہیں بنا رہے، فاروق بھائی نے اپنی او آر سی بنائی ہے اور میں نے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جو مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہتی ہے، کراچی کے عمائدین، بزرگوں اور مہاجروں کے پاس جا کر گزارش کر رہا ہوں کہ اثر و سوخ استمعال کرتے ہوئے ان تمام ڈھڑوں سے کہیں کہ مل بیٹھیں اور اپنے مسائل خود حل کریں، سچ بولیں، تحفظات کو دور کریں اور مصالحت کرکے آگے بڑھیں۔ کم از کم مقامی حکومت، میئر کراچی کے اختیارت، ایجوکیشن، صحت کے مسائل پر ایک بات کریں، سندھ، حیدر آباد، اربن سندھ اور رورل سندھ کے لئے ایک ہی بات کریں۔ میں اخلاقی طور پر فاروق بھائی کی حمایت کرتا ہوں، کیونکہ وہ پارٹی سے نکال دیئے گئے ہیں اور میں نے بھی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی 100 روز کارکردگی پر کیا کہتے ہیں۔؟
علی رضا عابدی:
حکومت کی سو روز کی کارکردگی کے بارے میں یہی کہوں گا کہ وہ اپنے وعدوں میں سے کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کرسکی، الٹا کنفیوژن اور غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ خاص طور پر ہماری معاشی حالت دیکھیں تو اسد عمر صاحب اگر آنے کے بعد صرف یہی کہہ دیتے کہ ہم کوشش کریں گے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں، لیکن اگر جانا بھی پڑا تو آپشن موجود ہیں، کہہ دیتے کہ ہمارے پاس دو تین آپشنز ہیں، جن میں سے چار پانچ دوست ممالک سے بھی رابطہ کر رہے ہیں، وہ کیا دے سکتے ہیں اور ہمارے لئے کیا شیئر کرسکتے ہیں، اگر شیئر کرسکتے ہیں تو ہم اپنی جگہ پر بھی چیزوں کو سیدھا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر دوست ممالک کا شیئر مناسب ہوگا تو ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ اس وجہ سے مارکیٹ میں کنفیوژن پیدا ہوئی اور پیسے کا فلو متاثر ہوا۔ اب جو ایک ارب ڈالر سعودی عرب نے رکھوانے کے لئے بھیجوایا ہے، اس سے زیادہ پیسہ مارکیٹ سے نکل چکا ہے، فقط اس غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر۔

اسلام ٹائمز: آئندہ کا سیاسی منظر نامہ کیا نظر آرہا ہے۔؟
 علی رضا عابدی:
آئندہ کا منظر نامہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کو نقصان ہوگا، وہ صرف اور صرف معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ہوگا۔ جو ان کو لائے ہیں، وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ جو بنیادی چیزیں ہی ٹھیک نہیں کر پا رہے، وہ ملک کیا چلائیں گے، کیونکہ تمام چیزوں کا انحصار مانٹیری پالیسی، مانیٹری انکم اور اخراجات پر کیا جاتا ہے، یہ دیکھنا ان کے لئے ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کی خارجہ پالیسی پر کیا رائے ہے، امریکہ کو جس انداز میں جواب دیا گیا اور کہا جا رہا ہے کہ اب ہم پرائی جنگ نہیں لڑینگے۔؟
علی رضا عابدی:
جیسے دوسری پالیسز کا حال ہے، ویسے ہی غیر یقینی کی صورتحال خارجہ پالیسی میں بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے مودی سرکار کی جانب سے مبارکباد کے خط کو ایسے پیش کیا، جیسے اب مودی سرکار بات چیت کے لئے تیار ہوگئی ہے۔ ٹرمپ صاحب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہاتھ ملایا تو انہوں نے کہا کہ ٹرمپ بہت اچھی بات کر رہے ہیں اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کا ساتھ دینا چاہتے ہیں جبکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی، پھر کرتارپور بارڈر کی جو اوپننگ ہوئی اور اسکے علاوہ جو شاہ محمود صاحب نے گگلی والی بات کی، اس سے جو اچھا تاثر جا رہا تھا، وہ خراب ہوگیا، کیونکہ اس سے یہ تاثر ابھرا جیسے پاکستان کی نیت انڈیا کو نیچا دیکھانے کی ہے، ناکہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے اچھے اقدام کی یا سیاحت کو فروغ دینے کی۔ اگر مذہبی ٹوریزم کا فارغ چاہتے ہیں تو بےشمار ایسے مقامات ہیں، جن کو ڈیویلمپ کرکے دنیا بھر میں پبلی سٹی کرکے سیاحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے، اسی طرح اگر کرتار پور راہداری کھولنے کا مقصد تجارت ہے تو اسکردو سمیت کئی مقامات پر سرحدیں کھل سکتی ہیں، جس سے تجارت کو فروغ مل سکتا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے کرتارپور کی بات آئی تو اسکے بارے میں کوئی ذکر نہیں ہوا اور نہ ہی توجہ دی گئی، ابھی جو ٹرمپ صاحب نے کہا ہے کہ ہم پاکستان سے مدد لینا چاہتے ہیں تو اس میں دو باتیں ہیں، ایک تو یہ کہ خان صاحب طالبان کی طرف تھوڑا سوفٹ کارنر رکھتے ہیں اور شائد ٹرمپ انتظامیہ کو سمجھ میں آیا ہو کہ یہ ہماری مدد کرسکتے ہیں اور دوسرا یہ کہ ٹرمپ ہمیں دنیا کے سامنے بےنقاب کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اگر ہم ثالثی کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ پاکستان کے لئے ایک خوش آئند بات ہوگی۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کہتے ہیں کہ ہم یمن جنگ میں ثالثی کا کردار ادا کرینگے، کیا واقعی پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ ثالثی کا کردار ادا کرسکے۔، جبکہ سعودیہ سے قرضہ بھی لیتے ہیں۔؟
علی رضا عابدی:
جہاں تک یمن اور سعودی عرب میں ثالثی کا کردار ہے تو وہاں یمن کو بھی چھ ارب ڈالر نہیں دیتا پڑیں گے، ورنہ آپ برابری نہیں کرسکتے، ایک سائیڈ سے پیسے لیکر آپ ثالثی نہیں کراسکتے، کیونکہ جس سے پیسے لئے ہیں، وہی یمن کو برباد کر رہے ہیں۔ اس سے بات کرنا مناسب نہیں ہوگا، دوسرا یمن بھی آپ کو سجیدہ نہیں لے گا اور ایران بھی اگر تیسرا فریق ہے تو وہ بھی آپ کو سنجیدہ نہیں لے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا ایران گیس پائپ لائن مکمل ہوتی نظر آرہی ہے۔؟
علی رضا عابدی:
دیکھیں ہماری گوادر سے چین تک یعنی شمال سے جنوب تک سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے اسی طرح ایران، انڈیا اور افغانستان تک بھی سڑکوں کا جال بجھنا چاہیئے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ سی پیک کی سڑکیں پہلے بناتے اور پھر چائنہ کو راہداری دیتے، اس سے ہماری آمدنی شائد زیادہ ہوتی، اب وقت ہے کہ ہم سی پیک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انڈیا سے افغانستان کی سڑکیں اور ایران سے انڈیا تک سڑکیں تعمیر کروائیں، اگر ہم یہ نیٹ ورکر بنا پاتے ہیں تو ہم تمام ہمسائیوں سے ٹریڈ کرسکتے ہیں۔ ایران گیس پائپ لائن معاہدے کو بھی اپنے انجام تک پہنچنا چاہیئے۔


خبر کا کوڈ: 766462

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/766462/حکومت-نے-غیر-یقینی-صورتحال-پیدا-کرکے-ملکی-معیشت-کو-نقصان-پہنچایا-علی-رضا-عابدی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org