1
0
Friday 14 Dec 2018 10:57
معمولی سے اسرائیل نے پوری اسلامی دنیا میں آگ لگائی ہوئی ہے

پاکستان کو اقبال سے جدا کریں تو اسکے قیام کا جواز تلاش کرنا بھی مشکل ہوجائیگا، صاحبزادہ سلطان احمد علی

قائداعظم ہندوستان کے وہ واحد لیڈر تھے جو اپنی قانون پسندی کیوجہ سے ایک بار بھی جیل نہیں گئے
پاکستان کو اقبال سے جدا کریں تو اسکے قیام کا جواز تلاش کرنا بھی مشکل ہوجائیگا، صاحبزادہ سلطان احمد علی
صاحبزادہ سلطان احمد علی اصلاحی جماعت تنظیم العارفین کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مسلم انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ہیں۔ مسلم انسٹی ٹیوٹ نظریہ پاکستان، مفکر پاکستان، بانی پاکستان اور اساس پاکستان پہ گہری تحقیق رکھتا ہے۔ شاعر مشرق، مفکر پاکستان، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال پہ مسلم انسٹی ٹیوٹ حقیقی معنوں میں دقیق تحقیق رکھنے کیساتھ ساتھ اقبال سمجھنے، سمجھانے، پڑھنے، پڑھانے اور فکر اقبال پھیلانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ صاحبزادہ سلطان احمد علی اسی مسلم انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ہیں۔ سلطان احمد علی صاحب کا سلسلہ سلطان الفقر حضرت سلطان باہو (رہ) سے ملتا ہے، انہی کے گدی نشین خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں پہ عبور رکھنے کیساتھ ساتھ عصر حاضر میں ہونیوالی تبدیلیوں اور انکے محرکات پہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے صاحبزادہ سلطان احمد علی کیساتھ شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے موضوع پہ جو گفتگو کی ہے، اسکا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان اور ڈاکٹر علامہ اقبال کا آپس میں کیا تعلق ہے۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی:
پاکستان کی پہچان اور پاکستان کی شناخت بنیادی طور پر علامہ اقبال ہیں۔ اقبال کا مطلب پاکستان اور پاکستان کا مطلب اقبال۔ اگر دونوں کو الگ کرکے دیکھا جائے تو پاکستان کے ہونے کا، پاکستان کے قیام کا جواز تلاش کرنا بھی مشکل ہو جائے گا، کیونکہ پاکستان طلوع ہی اقبال کے نظریئے سے ہوا ہے، اقبال کی سوچ سے ہوا ہے اور اقبال کی فکر سے ہوا ہے۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت بانی پاکستان خود ہیں۔ انہوں نے اپنے خطوط جو جاری کئے علامہ اقبال کے، وہ انتہائی اہم خطوط جو کہ قائداعظم محمد علی جناح کے نام تھے، اس کا پریفرنس جو قائداعظم نے لکھا، اس میں کہا کہ ہم نے جو 23 مارچ کی قرارداد علامہ اقبال کی اس تجویز پہ لی تھی کہ جس میں علامہ اقبال نے کہا تھا کہ اسلامیان ہند کی بقا ایک الگ مملکت اور ایک الگ ریاست کے اندر ہے۔ اس لئے پاکستان کا مطلب علامہ اقبال کی فکر ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو بھی بیرونی شخصیات پاکستان آکر پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب کرتی ہیں، وہ چاہے رجب طیب اردگان ہوں یا جن شن پنگ ہوں یا اور لیڈرز ہوں، وہ جب یہاں اپنی بات کا آغاز کرتے ہیں تو حکیم الامت علامہ اقبال سے کرتے ہیں۔ اس لئے وہ اس قوم کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اگر پاکستانی قوم کی کوئی پہچان ہے، کوئی شناخت ہے تو ہمارے نزدیک وہ پہچان، وہ شناخت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ہیں۔

اسلام ٹائمز: چند افراد کے خیال میں اقبال مقامی شاعر تھے، جنہیں باہر کوئی نہیں جانتا، کس حد تک درست ہے۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی:
کسی اور پاکستانی رائٹر، ادیب، شاعر، سکالر کے نصیب میں اتنی زیادہ عالمی پذیرائی نہیں آئی، جتنی بڑی اور زیادہ پذیرائی ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو ملی ہے۔ آپ دنیا کی کسی بھی زبان کا نام لیں، اس زبان میں آپ کو علامہ اقبال کی شاعری کے تراجم ملیں گے۔ اردو، فارسی، فرنچ، جرمن، اٹالین، لاطینی، جاپان، چین، روس آپ جتنی بھی زبانوں کے نام لے لیں، ان میں اگر آپ کو پاکستان کا کوئی نمائندہ ترجمہ کئے ہوئے ملے گا تو وہ ذات حکیم الامت کی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے دانشور اگر پاکستان کی شناخت کسی کو سمجھتے ہیں تو وہ ڈاکٹر علامہ اقبال کو سمجھتے ہیں۔ یہاں کے کچھ بدنصیب اقبال پہ یہ جملہ کستے تھے کہ اقبال تو ایک مقامی شاعر ہے، اس کو تو باہر کوئی جانتا نہیں ہے، گذشتہ سال 2017ء میں ہم نے اقبال پہ ایک عالمی کانفرنس کرائی، جس میں دنیا کے چار براعظموں کے اٹھارہ ممالک سے ان کے نظام تدریس سے وابستہ ماہرین یہاں پہ آئے اور ان سب نے کہا کہ ہمارے لئے اگر پاکستان کی کوئی شناخت ہے، کوئی پہچان ہے کہ جس کی روشنی میں ہم پاکستان کی نفسیات کو سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ علامہ اقبال ہیں۔ خبر نہیں یہ کون لوگ ہیں جو اقبال پہ، اقبال کی فکر پہ انگلی اٹھاتے ہیں۔ کون لوگ ہیں، جو اس قوم سے اس کا اقبال چھیننا چاہتے ہیں۔ اقبال کے معنی بخت ہیں۔ اقبال مقدر کی بلندی کو کہتے ہیں۔ ہمارا اقبال، ہمارا اقبال ہے۔ ہم اپنے اقبال کو گنوا نہیں سکتے، اس کو کھو نہیں سکتے۔ ہم کسی کو اپنے ہاتھوں سے اپنا اقبال چھینے کی کوشش میں کامیاب ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔ اقبال نے اس قوم کی جس طرح رہنمائی کی ہے، وہ اس قوم کے بچوں پہ قرض ہے۔ ہمیں اس مد میں بھی ابلیس کو ناکام کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی فکر سے اور کن ممالک یا اقوام نے استفادہ کیا۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی:
ایک انقلابی شاعر کے اندر یہ قوت ہوتی ہے کہ وہ قوموں کے جغرافیہ اور انکی تقدیر کو بدل کے رکھ دیتا ہے۔ بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان یہ تینوں ممالک ایک انقلابی مفکر کے ایک خطبہ کے اوپر بنے ہیں۔ جسے خطبہ الہ آباد کہتے ہیں۔ جس میں پہلی مرتبہ ایک مفکر نے مطالبہ کیا کہ اگر اسلام کو ہندوستان میں زندہ رکھنا ہے تو اس کے لئے الگ مملکت چاہیئے۔ ایران میں جس وقت انقلاب آیا تو اس وقت وہاں بھی لوگ علامہ اقبال کے ترانے پڑھتے تھے، وہاں کے در و دیوار پہ حکیم الامت کے اشعار انقلابی نعروں کی صورت میں لکھے ہوتے تھے۔ علامہ اقبال ہندوستانی خطے کے وہ واحد شاعر ہیں جو پورے افغانستان میں مشہور ہیں۔ تاجکستان میں روس سے آزادی کیلئے قوم کو بیدار کرنے کیلئے علامہ اقبال کے ترانوں سے استفادہ کیا گیا۔ مصر، عرب اور تاجکستان اور کئی ممالک میں اقبال ان کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہیں۔ بوسنیا کے صدر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ہمارے ہاں اسلام تو تھا لیکن ہمیں یہ پتہ نہیں تھا کی لا الہ کا مطلب کیا ہے۔ اقبال کے اشعار سے قوم کے اندر شعور آیا اور پھر اسلام کو از سر نو بوسنین قوم کے اندر زندہ کیا۔ علامہ اقبال نے اپنے زمانے میں بھی اور اپنے بعد کی دنیا کو بھی تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اس کا اندازہ آپ یوں بھی لگا سکتے ہیں کہ یوم اقبال کی تقریبات کی صدارت خود بانی پاکستان قائداعظم کیا کرتے تھے۔ ہمیں یہ اعزاز لینا چاہیئے، ہمیں یہ فخر کرنا چاہیئے کہ اقبال ہمارے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ہم دنیا کے سامنے اقبال کو کماحقہ پیش کر پائے ہیں۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی:
بالکل نہیں، حالانکہ اقبال کے سوا ہمارے پاس دنیا کے سامنے پیش کرنے کیلئے کوئی سافٹ امیج موجود بھی نہیں ہے۔ آپ ترکی کو دیکھتے ہیں، وہ اپنے رومی کو اپنے سافٹ امیج کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایران اپنی کیلی گرافی کو پیش کرتے ہیں۔ ہندوستان اپنے بالی وڈ کلچر اور یوگا کو سافٹ امیج کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں پاکستان کا سافٹ امیج کیا ہے، میرے نزدیک یہ امیج علامہ اقبال ہیں۔ آپ چین کو دیکھیں، وہ جہاں جاتے ہیں، کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کھولتے ہیں۔ وہاں کنفیوشس پہ چند جملوں کی بات ہوتی ہے، اس کے علاوہ وہ آئیڈیاز پہ بات کرتے ہیں۔ پاکستان کے بیشتر شہروں میں یہ انسٹی ٹیوٹ کھولے گئے ہیں، کیونکہ چینی سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا سافٹ امیج ہے۔ ہماری خوش قسمتی جہاں یہ ہے کہ ہمارے پاس سافٹ امیج کی صورت میں اقبال جیسی ہستی موجود ہے، وہاں ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اسے دنیا کے سامنے کماحقہ لیکر نہیں گئے۔ ہم اس طرح اقبال کو پیش نہیں کر پائے، جس طرح کرنا چاہیئے تھا۔ آپ مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں۔ آپ بیسویں صدی کی فلاسفی کا مشاہدہ کریں، آپ کو اس صدی میں فلسفے میں مسلمانوں کا جو واحد نمائندہ نظر آئیگا، وہ علامہ اقبال ہیں۔ اقبال کے بعد اگر پاکستان کا دوسرا جو سافٹ امیج تھا، وہ نصرت فتح علی خان صاحب تھے۔ بدقسمتی سے ان کے بعد کوئی بھی اتنا بڑا چہرہ پیدا نہیں کرسکے، جسے دنیا کے سامنے سافٹ امیج کے طور پر پیش کیا جا سکے۔
 
اسلام ٹائمز: عصر حاضر میں امت مسلمہ کو درپیش مسائل کی دوا کیا فکر اقبال میں میسر ہے۔؟ 
صاحبزادہ سلطان احمد علی: میرے خیال میں تو ان مسائل کا حل اور دوا ہی فکر اقبال میں پنہاں ہے۔ اسلام ایک الہامی مذہب۔ اس کی بنیادیں الہام اور روحانیت کے اوپر مبنی ہیں اور فکر اقبال بانگ درا سے لیکر ارمغان حجاز تک جگہ جگہ اقبال نے اسلام کے اسی تشخص کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال نے جگہ جگہ یہی بتایا ہے کہ اگر مسلمان کسی چیز کے ذریعے قوت حاصل کرسکتے ہیں تو وہ ان کے اندر کی روحانی طاقت ہے۔ اسی کے بل بوتے پہ ان کے کردار کو نکھارا جا سکتا ہے، اس قوم کی آبیاری کی جا سکتی ہے۔ اسی لئے اقبال نے خودی کا تصور پیش کیا۔ خودی کے متعلق خود اقبال بتاتے ہیں کہ خودی وہ راز درون کائنات ہے۔ اس کی آسان ترین تعریف جو اقبال نے کی ہے وہ ’’اپنے من میں ڈوب کر توں پا جا سراغ زندگی‘‘ یعنی اپنے دل میں اترنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ خودی کا وہی تصور ہے کہ جو ہمارے صوفیاء نے، ہمارے اولیاء نے پنجابی میں اور دوسری زبانوں مین ترجمہ کرکے بتایا۔ سلطان باھو فرماتے ہیں کہ ’’اے تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ہو‘‘ یعنی کہ من کی کائنات میں اتر کے دیکھو۔ اقبال اس نظم میں بنیادی پیغام دیتے ہیں کہ مسلمان اپنے من کے اندر جھانکنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ اپنی کائنات میں اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کیونکہ جو اپنے من میں جھانک لیتا ہے، اسے ابلیس اغوا بھی نہیں کرسکتا اور اس کو گمراہ بھی نہیں سکتا اور بھٹکا بھی نہیں سکتا۔
 
ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہمارا روحانی ورثہ کیا ہے، ہماری روحانی اساس کیا ہے۔ ہماری اٹھان کس چیز پہ ہے۔ بنیادی طور پر ہمارا جو صوفیانہ نظام ہے، جو صوفیانہ کلچر ہے، یہ اس خطے کا سافٹ امیج ہے، جس کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیئے۔ ’’اگر جہاں میں میرا جوہر آشکارا ہوا، قلندری سے ہوا ہے، تونگری سے نہیں‘‘۔ قلندری اندر کی طاقت کو کہتے ہیں اور تونگری مال و دولت ہے۔ اقبال ہمیشہ طاقت والی چیز پہ زور دیتے ہیں۔ جو اپنی قوت کے بل بوتے پہ پھوٹتی ہے۔ اقبال کی ایک نظم فوارہ میں اقبال نے کہا ہے کہ ندی اور فوارے کا موازنہ پیش کیا ہے۔ اس میں کہتے ہیں کہ 
یہ آب جو کی روانی یہ ہم کنار یہ خاک
میری نگاہ میں ناخوب ہے یہ نظارہ
ادھر نہ دیکھ، ادھر دیکھ اے جوان عزیز
کہ زور اندروں سے پھوٹتا ہے فوارہ

اقبال کہتے ہیں کہ پاکستان کی پہچان اس میں ہے کہ یہاں کے لوگ خواب بڑے دیکھیں اور محنت زیادہ کریں اور تونگری کے بجائے قلندری پہ یقین کریں، سبب کچھ اور دولت کم ہونے سے انسان ناکام نہیں ہوتا، انسان اپنی حمیت اپنی غیرت اور خودی کم ہونے کی وجہ سے ناکام ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا ڈاکٹر علامہ اقبال کو آنیوالے حالات اور ممکنہ طور پر درپیش چیلنجز کا ادراک تھا۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی: ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی ایک نظم ہے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ یہ دراصل اقبال کی ایک نظم نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی فکر کے نقطہ عروج کی ترجمان ہے۔ اس میں اقبال نے بین الاقوامی سیاست اور حالات حاضرہ بالخصوص مسلمانوں کے زوال کے اسباب پہ جس طرح بات کی ہے، وہ بہت دلپذیر اور خوبصورت ہے۔ اس کا آغاز بہت ڈرامائی انداز میں کیا ہے۔ ابلیس اپنی مجلس شوریٰ میں موجود ہوتا ہے، جس میں ابلیس انہیں اپنے نظام کے اوپر ایک تفصیلی بریفنگ دیتا ہے، جس میں وہ اشتراکیت، جمہوریت اور جنگ عظیم اول کے آغاز کے متعلق بات کرتے ہیں۔ ابلیس کی مجلس کے مشیر اسے کہتے ہیں کہ تو نے جو اتنی محنت کرکے یہ سرمایہ دارانہ نظام تشکیل دیا ہے۔ روس کے اندر اٹھنے والے اشتراکی نظام کے نتیجے میں تیرا یہ بنایا ہوا سرمایہ دارانہ نظام تہس نہس ہو جائے گا۔ ابلیس کو اپنے مشیروں کے اندر جب اتنی بددلی دکھائی دیتی ہے تو وہ انہیں بتاتا ہے کہ میرے نظام کیلئے اشتراکیت، سوشلزم، کارل مارکس کی تحریک، لینن کی تحریک کسی بھی حوالے سے میرے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
 
ابلیس اپنے مشیروں کو خود کو لاحق خطرے سے متعلق بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ 
 کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!

ابلیس اپنے مشیروں کو بتاتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں روسی انقلاب یا اشتراکی نظام ابلیسی نظام کیلئے خطرہ نہیں ہے، بلکہ آنے والے وقت میں اسلام میرے لئے سب سے بڑا خطرہ اور چیلنج ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ 1970ء میں روس میں آنے والا انقلاب دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک جب افریقہ اور ایسٹ ایشیاء کے اندر جب پھیل جاتا ہے تو فقط ستر برس کے مختصر عرصے کے اندر اس روسی سلطنت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اس کے نام لیوا سر چھپاتے پھرتے ہیں۔

ابلیس یہ بتاتا ہے کہ جو نظام محض ستر برس بھی اپنا دفاع نہیں کرسکا۔ وہ میرے لئے خطرہ نہیں ہوسکتا بلکہ میرے لئے خطرہ وہ نظام ہوسکتا ہے کہ جو چودہ سو سال سے چل رہا ہے اور ہمیشہ ایک تازہ شکل اختیار کرکے نئی زندگی کا پیغام لیکر ایک نئے انقلاب و تہذیب، جذبے اور ولولے کے ساتھ جو طلوع ہوتا ہے، ابلیسی نظام کیلئے وہ سب سے بڑا خطرہ نظام اسلام بن سکتا ہے۔
ابلیس کس طرح کے مسلمانوں سے ڈرتا ہے۔
ہے طواف حج کا ہنگامہ جو باقی تو کیا
کند ہوکر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام

ابلیس کہتا ہے کہ اگر بائیس، تئیس لاکھ لوگ اکٹھے ہوکر حج کو جاتے ہیں تو مجھے ان سے کوئی خطرہ نہیں ہے، کیونکہ وہ واپس آئیں گے اور واپس آکر کہیں گے کہ سنی کو مارنا جنت کا ٹکٹ ہے، شیعہ کو مارنا جنت کا ٹکٹ ہے۔ یہ بائیس تیئس لاکھ لوگوں کے ہجوم سے میں نہیں ڈرتا۔ مجھے صرف وہ وحدت ڈرا سکتی ہے کہ جو مسلمان اپنی روحانی بیداری کے ذریعے اپنے سینے میں پیدا کر لیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا فکر اقبال میں عالم اسلام کے دیرینہ مسائل کا ذکر اور انکا حل موجود ہے۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی: سب سے پہلے تو ہم سب پہ یہ واضح ہونا چاہیئے کہ امت مسلمہ اس وقت ہی اپنے دشمن کا مقابلہ کرسکتی ہے، جب اس کے اندر اتحاد و یکجائی ہو۔ تاہم معاملہ یہ ہے کہ عرب دنیا کے قلب میں ایک ایسا ملک بنایا گیا، جس کی بیشتر آبادی یورپ سے مہاجرت کے ذریعے یہاں لا کر بسائی گئی۔ اتنی بڑی اسلامی دنیا کے مقابلے میں معمولی سا اسرائیل ہے، مگر اس اسرائیل نے پوری دنیا میں آگ لگائی ہوئی ہے۔ اقبال فلسطینی نوجوان کے نام اپنی نظم میں کہتے ہیں:
تیرا علاج جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے

قائداعظم کا آن دی ریکارڈ بیان ہے کہ امریکہ کے مٹھی بھر صہیونی امریکہ و برطانیہ جیسی طاقتوں کو جہاں چاہیں، ناک سے پکڑ کر کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا گیا اور جب سے عرب دنیا میں اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی ہے، تب سے عرب دنیا باہم دیگر دست و گریباں ہے، انتشار اور فساد کا شکار ہے۔ انتہائی افسوس ناک ہے، مقام افسوس ہے کہ میں اسرائیل کا گلہ تو اس وقت کرتا، جب فلسطینیوں کو صرف اسرائیلی مار رہے ہوتے۔ یہی دیکھ لیں کہ کتنے پاکستانی بھارتی فوج نے مارے ہیں اور کتنے پاکستانی خود پاکستانیوں یا مسلمانوں نے مارے ہیں۔ یہی صورتحال کئی جگہوں پہ ہے۔

اقبال جاوید نامہ میں کہتے ہیں کہ
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملت افغان در آن پیکر دل است
از کشاد او، کشاد آسیا
وز فساد او، فساد آسیا
تا دل آزاد است، آزاد است تن
ورنہ کاہی، در رہ باد است تن

آج سے آٹھ عشرے قبل اقبال نے یہ کہا تھا کہ ایشیا ایک خاکی وجود ہے اور اس وجود کے اندر ملت افغان ایک دل کی حیثیت رکھتی ہے اور جون 2012ء میں اسی ملت افغان کے مرکز کابل میں ہارٹ آف ایشیا منسٹر کانفرنس منعقد کی گئی، وہ لوگ جو عالمی سیاست میں اثرورسوخ رکھتے ہیں، وہ اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں کہ افغانستان ایشیا کا دل ہے، جو کہ آٹھ عشرے قبل اقبال نے کہا تھا۔

اسلام ٹائمز: ایک عام پاکستانی تحریک آزادی فلسطین کیلئے کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی:
آزادی فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنا، فلسطینی نوجوانوں، بہنوں، ماؤں اور بچوں کے حق میں آواز بلند کرنا ہمارا اخلاقی، انفرادی و اجتماعی فریضہ ہے۔ ہم بظاہر اس اہم مسئلہ کو حکومتی ذمہ داری شمار کرتے ہوئے اس سے بری الذمہ ہونے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں، حکومتی سطح پہ کام ہونا گرچہ لازم ہے، مگر عام آدمی کی حیثیت سے انفرادی سطح پہ ہماری اپنی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ جو ہمیں مسئلہ فلسطین کے عنوان سے ادا کرنی ہیں۔ میں آپ کو بتاؤں کہ عام آدمی کا تحرک اور کردار اس اہم مسئلہ میں نہایت پراثر ہے۔ قائداعظم فرماتے ہیں کہ 26 اگست 1938ء کو پورے ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تحت یوم فلسطین منایا گیا اور اس میں ہزاروں کی تعداد میں اجتماعات ہوئے، ہزاروں مجالس و محافل منعقد کی گئیں۔ جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے اور اسی کے نتیجے میں پورے ہندوستان کے اندر لوگوں میں مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بیداری پھیلی۔ میں سمجھتا ہوں کہ گھروں میں ہمیں اپنے بچوں کو بٹھا کر اس حوالے سے تعلیم دینی چاہیئے، انہیں آمادہ کرنا چاہیئے۔ اپنے گھروں میں مسئلہ فلسطین اور وہاں پہ جاری انسانی المیہ کے حوالے سے آگاہی دینی چاہیئے۔ ہمارے اساتذہ، لیکچررز، پروفیسرز، اسکالرز کو سکولز، کالجز ، یونیورسٹیز میں اس عنوان سے تعلیم دینی چاہیئے۔ مظلوم فلسطینیوں کی مدد اور وہاں پہ جاری بحران کے حل کیلئے ہماری اسمبلیوں میں مخلصانہ گفتگو اور ثمرآور مکالمہ ہونا چاہیئے۔ یہ ہم سب کا اخلاقی فرض ہے، ہمیں انفرادی سطح پہ اپنا یہ فرض ادا کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔؟
صاحبزادہ سلطان احمد علی:
قائداعظم ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے کہ تیرہ سو برس پہ مشتمل مسلمانوں کی جو تاریخ ہے اور جو ان کی تہذیب و کلچر ہے، وہ ہندوستان میں رائج ہو۔ اس کا مطلب محض خود مختاری بھی نہیں ہے اور محض فقط آزادی بھی نہیں بلکہ اس اسلامی ثقافت اور تہذیب کی ترویج مقصود ہے، اس کا نفاذ مقصود ہے۔ قائد اعظم وہ اسلامی ثقافت و تہذیب رکھنے والے پاکستان چاہتے تھے۔ برطانیہ کے اندر جتنی قانون سازی ہو رہی تھی، وہ ساری کی ساری اس بات کی حمایت پہ مبنی تھی کہ کسی بھی طور ہندوستان تقسیم نہ ہو۔ مگر قائداعظم نے کوئی اشتعال انگیز بات نہیں کی، کوئی جنگ لڑنے کی یا خلاف قانون، یا مار دھاڑ پہ مبنی قطعاً کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی انہوں نے ایسی کوئی بھی تحریک چلانے کی مسلمانوں کو اجازت دی کہ جس کے نتیجے میں بدامنی یا قانون شکنی کا اندیشہ ہو۔ قائد اعظم وہ واحد سیاسی لیڈر ہیں، ہندوستان کے کہ جو اپنی قانون پسندی کی وجہ سے کبھی ایک دن کیلئے بھی جیل نہیں گئے، تو قائداعظم نے اپنی قانون جنگ قانونی سہولت نہ ہونے کے باوجود لڑی اور 1940ء میں پاکستان کا مطالبہ کیا گیا اور سات سال بعد 14 اگست 1947ء یعنی سات سال کی قانونی جنگ لڑ کر، دلائل کی جنگ لڑ کر پاکستان حاصل کیا۔ قائد اعظم کا یہ بھی بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے کثیر کے اوپر غلبہ حاصل کیا۔
خبر کا کوڈ : 766577
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بلال حیسن
Pakistan
ماشاءاللہ
ہماری پیشکش