0
Tuesday 18 Dec 2018 12:01
موجودہ حکومت امریکہ کے سامنے کھڑی نہیں ہوگی بلکہ عوام کو دھوکہ دیگی

امریکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کیساتھ نسلی تعصب کی بنیاد پر ہونیوالی کارروائیوں کی سرپرستی کر رہا ہے، سراج الحق

امریکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کیساتھ نسلی تعصب کی بنیاد پر ہونیوالی کارروائیوں کی سرپرستی کر رہا ہے، سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سراج الحق ضلع لوئر دیر میں 5 ستمبر 1962ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی سکول سے حاصل کی۔ 1990ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی دور میں مولانا مودودیؒ کی کتب سے متاثر ہو کر اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے، 1988ء سے 1991ء تک اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلٰی رہے۔ 2002ء کے جنرل الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لئے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے، صوبائی وزیرخزانہ رہے، 2013ء کے عام انتخابات میں سراج الحق جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر دوسری بار رکن صوبائی اسمبلی خیبرپختونخوا منتخب ہو گئے۔ 30مارچ 2014ء کو وہ جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گئے۔ جون 2014ء ہی میں وزارت خزانہ سے استعفی دے دیا۔ پانامہ کیس سپریم کورٹ میں لیکر گئے۔ 14 اگست 2014ء میں انہیں جمہوریت کے فروغ کے لئے کی جانے والی کوششوں پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ گزشتہ سینیٹ الیکشن میں وہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ اسلسم ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سقوط ڈھاکہ کے زخم ابھی تازہ ہیں، پاکستان بحران کی زد میں ہے، اسکی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
سراج الحق:
بنگلہ دیش کا قایم ہو یا موجودہ بحران، اس میں دشمن کی سازشیں بھی ہیں اور ہماری اپنی کمزوریاں بھی۔ حالات کی خرابی کوئی ایک لمحے میں وقوع پذیر نہیں ہوتی، یہ ایک طویل داستان ہے، جو اب تقریباً پونا صدی پر مشتمل ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا جغرافیہ تو آزاد ہو گیا، لیکن اس کی سیاسی اور معاشی طور پر ہم ابھی غلام ہی ہیں۔ بانی پاکستان کے بعد ہمارا نظام ایک سمت پر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ سارا نظام قوم کی خواہشات کے مطابق نہیں، نہ ہی انکی ضروریات پوری کرتا ہے، بلکہ مخصوص گروہ کی خواہشات کے تابع رہا، جو کبھی فوجی جرنیل تو کبھی بڑے بڑے جاگیردار رہے، درست بات یہ ہے یہاں کبھی بھی آئین، قانون یا نظام کی حکمرانی نہیں رہی۔ یہاں افراد، ذاتی مفادات اور ان کی خواہشات کی حکومت رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمہوریت بھی اس کے گرد گھومتی ہے۔
 
یہ معاملہ ہوتا ہی نظام حکومت کے پاس ہے، جس کے پاس بھی اقتدار ہو، وہی ذمہ دار ہوتا ہے، چاہے جمہوری حکومت ہو یا آمریت، مارشل لاء بھی انہی کے لیے استعمال ہوا، تو میرے خیال میں خرابی کی اصل جڑ ساری دنیا میں حکومت ہی ہوتی ہے۔ عوام کیا کریں؟ عوام ٹیکس دیں، بل دیں، کوئی مصیبت آجائے تو عوام ہی قربانی دیں، آپ کو یاد ہوگا کہ جب قرضہ اتارو اور ملک سنوارو کی اپیل کی گئی تو لوگوں نے اپنے زیورات تک دے دیئے۔ 65ء کا معرکہ آیا تو مرد تو کیا خواتین بھی قربانی کے لیے آگے بڑھیں، یوں ہر ہر لمحے اور موقع پر پاکستانی قوم نے اپنے ملک کے ساتھ محبت کا ثبوت دیا۔ لیکن یہاں ایک مخصوص ٹولہ ماضی سے چلتا آ رہا ہے، جن کی شکلیں بدلتی رہی ہیں، پارٹیاں بدلتی رہی ہیں، وہ کبھی جھنڈے بدلتے ہیں تو کبھی نام، لیکن یہ ٹولہ آج تک ویسے کا ویسا ہی ہے، جیسے ماضی میں تھا۔ تو جب تک ہماری قوم ایک اجتماعی جدوجہد کے ذریعے اس Status quo سے نجات پانے میں کامیاب نہیں ہوجاتی تو آج آپ رونا روتے ہیں تو کل آپ کا کوئی چھوٹا بھائی بھی یہی رونا روئے گا۔ اس مصیبت سے چھٹکارے کیلئے سب کو کوشش کرنی چاہیے، حقیقی تبدیلی عوام ہی لا سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے، کیا یہ تاثر درست نہیں کہ پانامہ اسکینڈل صرف نواز شریف کے لئے تھا اور آپ ایک بار پھر پانامہ کیس میں استعمال ہو گئے؟ جیسے 2003ء میں مشرف دور میں ہوئے یا 2008ء میں نواز شریف کے ہاتھوں ہوئے۔
سراج الحق:
ہماری جد و جہد شفاف اور کرپشن سے پاک پاکستان کیلئے ہے، ہم نے پانامہ لیکس میں جو جنگ لڑی ہے، وہ ان تمام عناصر کے خلاف تھی، جن کا نام پانامہ لیکس میں شامل ہے، وہ یعنی 436 افراد ہیں اور نواز شریف صاحب کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ہم دوبارہ پٹیشنر کے طور پر گئے ہیں کہ اب باقی لوگوں کو بھی بلایا جائے۔ پہلے دن سے میرا جو موقف ہے میں اسی جگہ پہ کھڑا ہوں، یعنی شفاف اور تمام تر امتیازات سے بالاتر احتساب، یعنی سب کا احساب ہونا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان 436 افراد کا بھی احتساب ہو، جن کا نام پانامہ لیکس میں شامل ہے۔ تو ہم تو پیچھے نہیں ہٹے، تاہم اگر کہیں کوئی کوتاہی یا غلطی ہے تو وہ ذمہ داروں کی ہے، جن کی یہ ذمہ داری ہے۔ وہ نواز شریف صاحب کی نااہلی کے بعد ان لوگوں کو بھی سمن کرکے ان کو بھی بلاتے، عدالت اور عوام کے کٹہرے میں کھڑا کرتے۔ اس میں استعمال ہونیوالی کوئی  بات نہیں، جماعت اسلامی اسی جذبہ، اسی سپرٹ اور اسی عزم کے ساتھ کرپشن کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے گی اور ہماری ڈیمانڈ اب بھی یہی ہے کہ ان 436 لوگوں کو بھی بلایا جائے، ان کا بھی احتساب کیا جائے، اگرچہ یہ مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہیں اور اپنے عہدوں کو انجوائے کر رہے ہیں، لیکن ہیں تو وہ تمام لوگ قومی مجرم، جنہوں نے یہاں لوٹ مار کرکے پیسہ باہر منتقل کیا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی سیاست ایک بالکل نئے رخ پہ جا رہی ہے، آصف زرداری اور نواز شریف صاحب کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟
سراج الحق:
پیپلز پارٹی کا معاملہ اس حوالے سے مختلف ہے، اسی طرح آصف زرداری صاحب کا معاملہ پیپلز پارٹی کی گذشتہ قیادت سے بالکل الگ ہے، اسی طرح نواز شریف یا مسلم لیگ ہمیشہ اقتدار میں ہو تو زندہ رہتی ہے، یہ ایک خاص درجہ حرارت کی عادی جماعت ہے اور اگر وہ درجہ حرارت میسر نہ ہو تو اس کا پنپنا اور باقی رہنا خاصا مشکل ہوتا ہے اور شروع ہی سے یہ اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ ہیں، اس کی چھتری تلے ہی یہ جماعت یہاں تک پہنچی ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کا سہارا نہ ہو تو یہ زیادہ دیر تک قائم رہ سکتے ہیں۔ ٹھیک ہے جیسے صحرا میں پانی کچھ وقت تک باقی رہتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ خشک ہو جاتا ہے، یہی صورت حال مسلم لیگ نون کی ہے۔ یہ ایک آفاقی اصول ہے، اسکی مثال غبارے کی ہوا جیسی ہے۔ نظریہ، اصول، جد و جہد اور سب سے اہم لوگوں کی خدمت اور اللہ کی رضا ہے، ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی ہے، ورنہ سب کچھ نقش بر آب ثابت ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: جماعت اسلامی مسلم لیگ نون کے قریب رہی ہے، لیکن موجودہ وزیراعظم کے نعروں جیسے مدینہ کی فلاحی ریاست اور کرپشن کیخلاف اقدامات، آپ کے نعروں سے ملتے جلتے ہیں، آپ کو تائید اور حمایت نہیں کرنی چاہیے؟
سراج الحق:
نعرے کیساتھ بلکہ اس سے پہلے نظریہ ہے، نعرے تو جو بھی سیاست میں آتا ہے، اچھے ہی سامنے لاتا ہے، بات نظریات کی تو اب چونکہ پی ٹی آئی کو حکومت ملی ہے، تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا وہ اپنے نظریات میں سچے ہیں؟ اچھا پھر یہ کہ ہماری دعا اور خواہش ہے کہ جو انہوں نے وعدے کئے ہیں، وہ پورے کریں، ہم متعصب نہیں، ہم نفرت کی سیاست کے قائل نہیں ہیں، انہوں نے مدینہ کی اسلامی و فلاحی ریاست کی بات کی ہے، جس کے ہم منتظر ہیں، انہوں نے ایک کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں دینے کا کہا ہے، ہم اس کے منتظر ہیں، 50 لاکھ گھر دینے کا اعلان کیا، ہمیں خوشی ہو گی کہ وہ یہ کام کریں، قرضوں سے نجات دلانے کا کہا ہے، ہمیں بہت خوشی ہو گی، اگر ایسا وہ کرتے ہیں اور اس میں ہم چاہیں گے کہ وہ کامیاب ہوں، اس لئے کہ اگر عوام نے الیکشن میں حصہ لے کر انہیں کامیاب کروایا ہے تو وہ حکومت کریں اور جن کاموں کا انہوں نے اعلان یا وعدہ کیا ہے، انہیں پورا کریں، ہم خوش ہوں گے کیوں کہ ہم گندی سیاست کے قائل نہیں، تعصب میرے مزاج میں ہے نہ سیاست میں۔

اگر حکمران چاہیں تو مدینہ کی فلاحی ریاست کا ماڈل موجود ہے، جو تمام انسانیت کیلئے نمونہ ہے۔ جس پر عمل کرنا مشکل نہیں کیونکہ اسلام میں جہاں اللہ سے تعلق اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، وہیں ہماری اجتماعی زندگی اور معاشرت کا مرکز مفادِ عامہ ہے، یعنی فلاحی ریاست میں فلاحی معاشرے کا قیام ضروری ہے۔ قرآنِ پاک میں جس طرح نماز اور زکوٰۃ کی تلقین ہے، اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم بھی ہے۔ خون کے رشتوں کے احترام اور ان کو نفقہ اور میراث کے قوانین کے ذریعے ایک سوشل سیکورٹی کے نظام میں مربوط کرنا ضروری ہے۔ پھر سوسائٹی کے مظلوم اور محروم طبقات، خصوصیت سے یتامٰی، مساکین اور بیوائوں کی کفالت کے لیے فکرمندی اور زکوٰۃ اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ انفرادی اور اجتماعی ایثار کے ذریعے وسائل فراہم کرنے کی ہدایت۔ اسلام کا یہ فلاحی نظام اخلاق اور قانون دونوں کو مؤثر طور پر استعمال کرتا ہے اور یتیم اور مسکین کے حق سے لاپروائی کو دین اور یومِ آخرت کے انکار سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ عمل مدینے کے فلاحی نظام کو تاریخ کا ایک منفرد نظام بنا دیتا ہے۔ اب یہ ہماری خواہش اور نیتوں کی صداقت پہ منحصر ہے کہ ہم اپنے زمانے میں اسلام کے ہمیشہ باقی رہنے والے اور قابل عمل اصولوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں یا نہیں۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی مدینہ کی فلاحی ریاست کا نعرہ جو لگایا ہے، وہ اندر سے اسلامی اصولوں سے خالی ہے، پہلے سو دن مکمل ہوتے ہی قومی اسمبلی کے ایوان میں موجودہ اور سابقہ حکومتی جماعتوں کے اراکین کا شراب پر پابندی کے بل کے خلاف جس طرح کا اتحاد دیکھا وہ بھی بڑا مایوس کن ہے۔ حالانکہ ملک میں شراب کی فروخت اور شراب نوشی آئین کے تحت ممنوع ہے، مگر اس قانون پر عمل درآمد کے لیے بھی ہمارے ملک میں قانون سازی کرنی پڑ رہی ہے، یہی ایک بڑا مذاق ہے۔ اگر قانون اور اس پر عمل درآمد کے لیے بھی مزید قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے، تو پھر دیگر قوانین کے لیے بھی ایسا ہی کیا جائے۔ شراب پر مکمل پابندی کے لیے بل پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ایوان میں موجود مسلم اکثریت پر مبنی معزز اراکین، نے ہی اس بل کی مخالفت کردی اور یہ ثابت کردیا کہ وہ مسلمان تو ہیں مگر اسلامی تعلیمات سے نابلد بھی ہیں۔ بل ہندو کمیونٹی کے رکن نے پیش کیا تھا، افسوس کی بات یہ تھی کہ اس بل کو مدینے کی ریاست بنانے کا خواب دکھانے والی تحریک انصاف کی حکومت کے اراکین کی مدد سے مسترد کردیا گیا۔ اس سے اسلامی احکامات پر عمل درآمد سے محبت تو واضح ہوگئی، لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کتنے مذہب پرست لوگوں پر مشتمل ہے، یہ بھی سبھی کے سامنے عیاں ہوگیا۔

اسلام ٹائمز:پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کی وجہ کشمیر کا مسئلہ ہے، حکومتی دعووں کی روشنی میں یہ تناؤ کم یا ختم ہوسکتا ہے؟
سراج الحق:
بھارت کے ساتھ ہمارا مسئلہ جغرافیائی نہیں بلکہ نظریاتی اور کشمیر کا ہے، اگر کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے، کشمیریوں کو وہ حقوق مل جائیں، جو ساری دنیا تسلیم کرتی ہے، سوائے بھارت کے، تو ہم بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے مخالف نہیں ہیں اور اگر وہ ہماری شہ رگ پر قبضہ کرکے قتل عام کر رہا ہو اور ہمارا پانی بند کر رکھا اور یہاں دہشت گرد بھیج رہا ہو تو ایسے میں ہم ان کے ساتھ آلو ٹماٹر کی تجارت کریں تو یہ درست نہیں۔ پھر آپ دیکھیں کہ کلبھوشن کون ہے؟ اور وہ آج کس کی جیل میں ہے؟ تو ہم تو ثبوت اور دلائل کی بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں کہ بھارت یہاں دہشت گردی کروا رہا ہے اور ان کے پاس سوائے الزام تراشیوں کے کچھ بھی نہیں۔ اسی طرح ہم ڈائیلاگ کے مخالف نہیں، مسئلہ کشمیر پر اگر ڈائیلاگ ہو تو ہم اس کی حمایت کریں گے، لیکن اگر یہ ڈائیلاگ آلو، ٹماٹر کے لئے ہونا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، اور اس ڈائیلاگ میں کشمیری ایک اہم فریق کی حیثیت سے موجود ہوں۔ بھارت تو پہلے ہی یہ سب کچھ کر رہا ہے اور تھا، ان کی 8 لاکھ فوج وہاں کیا کر رہی ہے؟ جو ہر گھر کے دروازے کے سامنے کھڑی ہے۔ ہم تو اس لمحے کے منتظر ہیں جب مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے لوگ مل کر یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ، میں یہ مانتا ہوں کہ جب کشمیری اٹھتے ہیں، لڑتے ہیں، مرتے ہیں، آواز بلند کرتے ہیں تو پاکستان اپنی سپورٹ کا وہ حق ادا نہیں کر پاتا، جو اسے کرنا چاہیے، جس وجہ سے انہیں ہمیشہ مایوسی ہوتی ہے اور ہم ہمیشہ اپنی حکومتوں سے اسی معاملہ پر لڑتے آ رہے ہیں کہ کشمیری جب مرتے وقت اعلان کرتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے تو پھر آپ کو بھی یہ کہنا چاہیے کہ کشمیری ہمارے ہیں اور ہم ان کے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آبادی پر کنٹرول کے حوالے سے سمپوزیم میں سیاستدانوں، دانشوروں کے علاوہ مولانا طارق جمیل نے بھی گفتگو کی، آپ اس سلسلے میں کیا رائے دینگے؟
سراج الحق:
حکمران جانتے ہیں کہ پاکستان کے عوام اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، اسلام ہی سکہ رائج الوقت ہے، اس لیے انہوں نے اقتدار تک پہنچنے کے لیے مدینہ کی ریاست کا نعرہ لگایا، مگر عوام نے حکومت کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت کو سمجھ لیا ہے۔ عوام جانتے ہیں کہ اسلامی و فلاحی ریاست کے دعوے کرنے والے کس سوچ کے لوگ ہیں۔ دنیا ہر معاملے میں پیچھے کی طرف دیکھ رہی ہے اور اپنی آبادی بڑھانے کے منصوبے بنارہی ہے، جبکہ ہمارے حکمران آج بھی آبادی کنٹرول کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ دنیا جان گئی ہے کہ مستقبل اسلام کا ہے، خود امریکہ اور برطانیہ کے ماہرین اور مفکرین جان چکے ہیں کہ آئندہ دو عشروں میں ان دونوں عالمی طاقتوں پر مسلمان حکمران ہونگے اس لیے پاکستان سمیت عالم اسلام میں بھی اسلام سکہ رائج الوقت سمجھا جارہا ہے اور وہ لوگ بھی اسلامی حکومت کے نعرے لگاتے ہیں، جن کو اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ کا کبھی خیال نہیں آیا۔ خوف خدا رکھنے والی جس دیانت دار قیادت کی ضرورت پاکستان اور عالم السلام کو ہے، وہ صرف اسلامی نظام زندگی پر غیر متزلزل ایمان والے دے سکتے ہیں اور اسلام ہی وہ قیادت پیدا کرتا ہے۔ ہارورڈا ور آکسفورڈ نے دنیا کو جو قیادت دی ہے وہ اپنی کرپشن اور بدیانتی کے حوالے سے پوری دنیا میں بدنام ہوچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات سے بہت زیادہ پر امید ہیں، آپ کو ان توقعات کے پورے ہونے کی امید ہے؟ 
سراج الحق:
ہم بھی چاہتے ہیں کہ افغانوں کی مشکلات ختم ہوں، لیکن پے در پے شکست کے باوجود امریکہ ایک جارح ہے، جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، ابھی دیکھیں، امریکہ کی طرف سے پاکستان کو مذہبی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا ہے، امریکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ نسلی تعصب کی بنیاد پر ہونے والی کاروائیوں کی سرپرستی کر رہا ہے، امریکہ نے آج تک فلسطین اور کشمیر کے مسئلے کو حل نہیں ہونے دیا، جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے دیگر عالمی اداروں کی سینکڑوں رپورٹوں میں کشمیر اور فلسطین میں جاری مسلمانوں کے قتل عام کا اعتراف کیا ہے، خود امریکہ میں مسلمانوں کو نسلی امتیاز کی بنا پر آئے روز ہونے والے واقعات میں معصوم بچوں اور خواتین تک کو تشدد اور مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مسلم خواتین کے نقاب اور برقعے نوچ کر انہیں سر بازار اور سڑک پر بے پردہ کرنے، گالیاں دینے اور تضحیک کانشانہ بنانے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا اور مغرب اور یورپ میں تو مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے نسلی امتیاز کے واقعات کو ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ مذہبی آزادیوں کے حوالے سے امریکہ مغرب اور یورپ میں سب سے زیادہ استحصال مسلمانوں کا ہورہا ہے، جہاں مسجدوں تک کو جلا دیا جاتا ہے، جبکہ پاکستان کے آئین میں تمام اقلیتوں کو اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے، اس کے باوجود امریکہ کی طرف سے یہ الزام ڈھٹائی اور پاکستان دشمنی کی بد ترین مثال ہے۔

یہ پاکستان کا المیہ ہے کہ ہمارے حکمران جرات سے عاری ہیں، اسی لیے جلد عالمی طاقتوں سے امیدیں باندھ لیتے ہیں، کیونکہ ملک کی داخلی سیاست، علاقائی تنازعات اور عالمی کش مکش آپس میں باہم منسلک ہیں۔ جس طرح قومی زندگی مختلف شعبوں میں تقسیم ہونے کے باوجود یہ شعبے ایک دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں، اسی طرح عالمی تناظر کے بغیر ہم قومی زندگی کے اصل رخ کو نہیں دیکھ سکتے۔ پاکستان میں حکومتوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تعلق بھی اسی بات سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ فوجی آمریتوں کی حکمرانی کی تاریخ ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اگر آتی ہے تو اس کا بھی ایک عالمی تناظر ہے۔ اس لیے نئی حکومت کے ساتھ بھی سب سے بڑا چیلنج علاقائی اور عالمی سیاست ہے۔ وزیراعظم نے جو خوش خبری سنائی ہے کہ اب امریکہ ہمیں ڈومور کہنے کے بجائے ہماری بات سننے لگا ہے، لیکن یہ تاثر حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ امریکہ نئے انداز سے پاکستان پر اپنا دبائو ڈال رہا ہے۔ ماضی کی طرح ہمیں اب بھی یقین نہیں ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ اب بھی قومی خودداری کے مطابق اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمراں طبقات کو دو بیماریاں لگی ہوئی ہیں، ایک خوف اور دوسری طمع و لالچ۔ ان اخلاقی بیماریوں کے ساتھ قومی قیادت کے فرائض ادا نہیں ہوسکتے۔ تبدیل شدہ حالات یہ ہیں کہ دنیا کی سب سے غریب اور پسماندہ قوم افغانوں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو شکست دی ہے۔ اس شکست نے عالمی منظرنامے کو تبدیل کیا، امریکہ اپنے حربے استعمال کریگا، وزیراعظم نے بھی دعا کی ہے ہمیں بھی دعا کرنی چاہیے کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ ہمیں ایسے کوئی اشارے نظر نہیں آئے، جن سے ظاہر ہو کہ پاکستان کی حقیقی اور مصنوعی قیادت بڑی طاقتوں کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت رکھتی ہے، البتہ قوم کو ضرور فریب میں مبتلا کرسکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 767243
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش