0
Saturday 29 Dec 2018 14:00
پن بجلی منافع پر صوبے کا کیس تیار کیا جاچکا ہے

بجلی منافع کا ایشو خیبر پختونخوا کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے، حمایت اللہ خان

اسی مشن کیلئے حکومت کا حصہ بنا ہوں جیسے ہی مشن مکمل ہوجائیگا میں چادر جھاڑ کر اپنی راہ لے لونگا
بجلی منافع کا ایشو خیبر پختونخوا کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے، حمایت اللہ خان
خیبر پختونخوا کے دوسرے بڑے شہر مردان کے زرخیز علاقے بخشالی سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ سینہئر بیوروکریٹ حمایت اللہ خان ان دنوں خیبر پختونخوا حکومت میں بطور مشیر برقیات و توانائی خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں۔ حالیہ انتخابات سے قبل جب صوبے میں نگران سیٹ اپ کیلئے وزیراعلٰی کے ناموں پر غور کیا جا رہا تھا تو ان کا نام بھی پینل میں شامل تھا۔ محمود خان کی سربراہی میں جب موجودہ صوبائی حکومت نے چارج سمبھالا تو حکومت نے حمایت اللہ خان کے وسیع تر تجربے سے فائدہ حاصل کرنیکی غرض سے انکو مشیر برقیات و توانائی نامزد کیا اور اس حیثیت میں وہ روز اول سے ہی بجلی منافع کے معاملے پر کیس کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اس سلسلے میں انکی کوششیں حتمی مراحل میں داخل ہوچکی ہیں۔ تیل و گیس سے تعلق رکھنے والے اہم ترین وفاقی اداروں میں پہلی بار صوبے کو نمائندگی دلانے کا مقدمہ بھی جیت چکے ہیں اور اب پی پی ایل، او جی ڈی سی ایل اور ایس این جی پی ایل میں صوبے کو نمائندگی ملنے والی ہے۔ حمایت اللہ خان سے پن بجلی کے یک نکاتی ایجنڈے پر اسلام ٹائمز کے نمائندے نے خصوصی گفتگو کی، جسکی تفصیل نذر قارئین ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: آپ اسوقت مشیر برقیات کے طور پر خدمات انجام دینے میں مصروف ہیں، یہ بتایئے کہ بجلی منافع کا کیس کس مرحلہ پر ہے اور آپکے آنے سے پہلے کیا صورتحال تھی۔؟
حمایت اللہ خان:
پہلی بات تو میں ضرور کرنا چاہوں گا کہ بجلی منافع کا ایشو خیبر پختونخوا کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے، کیونکہ مستقبل میں ہماری معیشت اور تعمیر و ترقی کا تمام تر دارومدار اسی ایشو پر ہے۔ اس سلسلے میں ہماری خواہش ہے کہ صوبے کے عوام کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھیں۔ اس سلسلے میں ہمیں تین سال پیچھے جانا پڑے گا، یہ 2015ء کی بات ہے، جب اس معاملے کو ایک بار پھر زنده کر دیا گیا تھا، بجلی منافع کا معاملہ 1973ء کے آئین میں شامل کر دیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں آئین کا آرٹیکل 161 اور اس کی ذیلی دفعہ دو بالکل واضح ہے، اس کی بنیاد پر پن بجلی کا خالص منافع ہمارا حق بنتا ہے، جس سے ہمیں ایک عرصے سے محروم رکھا گیا۔ یہ کریڈٹ پی ٹی آئی کی گذشتہ صوبائی حکومت کو جاتا ہے کہ اس نے یہ معاملہ پھر سے گرم کر دیا تھا۔ پرویز خٹک کو یہ کریڈٹ دیا جانا چاہیئے کہ انہوں نے اس مسئلے میں بھرپور دلچسپی لی۔ اسوقت تک یہ ایک ڈیڈ ایشو بن چکا تھا مگر پرویز خٹک نے اس کو دوبارہ اجاگر کیا۔ دراصل ان کی وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کے ساتھ ذاتی دوستی تھی، چنانچہ جب 15-2014ء میں واپڈا ٹیرف پٹیشن طے کرنے کا موقع آیا تو تو خواجہ آصف کے ذریعے اس میں بجلی منافع کا ایشو بھی شامل کیا گیا۔

اس دوران جب ٹیرف پٹیش عوامی سماعت کیلئے نیپرا کے پاس آئی تو اس وقت میں بھی نیپرا کا رکن تھا، عوامی سماعت کے موقع پر وزیراعلٰی پرویز خٹک تمام اپوزیشن پارلیمانی رہنماؤں کے ساتھ شریک ہوئے اور صوبہ کا مقدمہ بھ پور طریقے سے پیش کیا۔ اس مرحلے پر انہوں نے واپڈا کے ٹیرف کی مشروط حمایت کرتے ہوئے واضح کیا کہ پہلے تو یہ عارضی بندوبست کے طور پر ہونا چاہیئے اور دوسرا اصل فیصلہ پھر اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ہی ہونا چاہیئے۔ اُس وقت جب نیپرا نے ٹیرف کا تعین کیا تو صارفین پر اضافی 33 پیسے فی یونٹ ڈال دیئے گئے، اگرچہ یہ فیصلہ بھی غلط اور نامناسب تھا، صارفین پر بوجھ میں اضافہ نہیں کرنا چاہیئے تھا، مگر ہماری حکومت نے اسے عارضی حل کے طور پر قبول کر لیا۔ اُس وقت ہمیں سالانہ 18.5 ارب روپے ملنے تھے، جبکہ اس سے پہلے یہ رقم اس سے بھی کم تھی، اے جی این قاضی فارمولے کے تحت یہ رقم 80 ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔ اس موقع پر صوبائی حکومت نے بہت بڑا رسک لیتے ہوئے قاضی فارمولے پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا، کیونکہ خدشہ یہ تھا کہ ایسا کرنے کی صورت میں صوبہ ساڑھے اٹھارہ ارب روپے سے بھی محروم ہوسکتا ہے، تاہم میرے مشورے پر پرویز خٹک ڈٹ گئے اور یوں یہ فارمولہ پھر سے زندہ ہوگیا اور ایک بار پر مشترکہ مفادات کونسل میں چلا گیا۔

اسلام ٹائمز: مگر اس سے قبل بھی تو اس فارمولے پر ہی مرکز سے رقم مانگی جاتی رہی ہے۔؟
حمایت الله خان:
بالکل ایسا ہی ہے، 1991ء میں جب پانی کا معاہدہ ہوا تو اس کے بعد بجلی منافع کیلئے اے جی این قاضی کمیٹی قائم کی گئی تو سب سے پہلے اسی سال مشترکہ مفادات کونسل نے اسی فارمولے کے تحت صوبہ کو بجلی کا منافع دینے کی منظوری دی۔ اس کے بعد سات مرتبہ اس فارمولے کی منظوری دی جاچکی ہے۔ 1993ء بھر 1997ء اور پھر اس کے اگلے سال اس فارمولے کی منظوری دی گئی، جس کے بعد 2016ء میں سی سی آئی میں یہ معاملہ پھر سے اٹھایا گیا۔ پھر اسکے اگلے سال بھی منظوری دی گئی اور رواں سال پہلے اپریل اور پھر 24 ستمبر کو آٹھویں بار یہ فارمولہ منظور کیا گیا، جبکہ اپریل میں تو اس کی منظوری کے ساتھ ہی عملدرآمد کیلئے کمیٹی قائم کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا، تاکہ اصل رقم کا تعین کیا جاسکے، جب محمود خان نے وزارت اعلٰی کا منصب سنهالا تو 24 ستمبر کو سی سی آئی کے اجلاس میں یہ معاملہ پوری شدت کے ساتھ اُٹھایا اور یہ کریڈٹ ان کو جاتا ہے کہ اپریل میں جس کمیٹی کے قیام کا اعلان ہوا تھا، اس کا اعلامیہ جاری کروا دیا، جس کے بعد عملی پیشرفت کا آغاز ہوا۔

اسلام ٹائمز: اس کمیٹی میں کون شامل ہے اور اسوقت تک کتنی پیشرفت ہوچکی ہے۔؟
حمایت الله خان:
خصوصی کمیٹی ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن خسرو بختیار کی سربراہی میں قائم ہے، جس میں وفاقی سیکرٹری پاور، وفاقی سیکرٹری واٹر، وفاقی سیکرٹری پلانگ، خود میں جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چیف سیکرٹری شامل ہیں۔ اس کمیٹی کا ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں تینوں اطراف یعنی واپڈا، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی طرف سے اپنے اپنے اعداد و شمار پیش کرنے کیلئے ایک ذیلی کمیٹی قائم کی گئی، جس میں وفاقی سیکرٹری پاور، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سیکرٹری توانائی، ممبر پلاننگ کمیشن وغیرہ شامل ہیں۔ اس کمیٹی کے پہلے اجلاس میں ہم نے اپنے اعداد و شمار پیش کر دیئے ہیں۔

اب دوسرے اجلاس میں پنجاب اور واپڈا نے اپنا اپنا حساب پیش کرنا ہے۔ اس کمیٹی کے قیام کے بعد حسب سابق بیورو کریسی نے روایتی چال چلتے ہوئے اس کے ٹی او آرز اس قدر وسیع اور مبہم رکھے کہ جو کمیٹی کے دائرہ اختیار سے ہی باہر تھے، جس پر ہماری طرف سے ایک سخت مراسلہ ارسال کرتے ہوئے یاد دلایا گیا کہ کمیٹی کا مینڈیٹ بہت ہی محدود ہے اور روایتی چکر بازی سے گریز کیا جائے، کمیٹی پر واضح کیا گیا کہ اس کا مینڈیٹ صرف اعداد و شمار لے کر اے جی این قاضی فارمولے کی روشنی میں سفارشات مرتب کرنا ہے، حتمی فیصلہ سیاسی قیادت کرے گی۔ ہمارے واضح موقف کے باعث ان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی اور کمیٹی اپنے اصل کام پر واپس آگئی، یوں بیوروکریسی کی طرف سے اس معاملہ میں دو سے تین سال ضائع کرانے کی کوشش پہلے ہی مرحلے میں ناکام بنا دی گئی اور اب جلدی ہی یہ کمیٹی اپنی رپورٹ خصوصی کمیٹی کو پیش کر دے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوبے کا کیس تیار ہے اور یہ بتایئے کہ سالانہ منافع کی رقم کتنی بنتی ہے۔؟
حمایت اللہ خان:
(ہنستے ہوئے) کہہ نہیں سکتے بلکہ عملاََ پن بجلی منافع پر صوبے کا کیس تیار کیا جاچکا ہے، اب ہم ہی معاملہ ہر فورم پر پوری شدت و تیاری کے ساتھ اٹھانے کی پوزیشن میں آچکے ہیں، ہم نے سال 17-2016ء کیلئے 128 ارب روپے کا کیس تیار کیا ہے، جس میں ہر گزرتے سال کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا جائے گا، کیونکہ تربیلہ فور جلد کام شروع کر دے گا۔ اسی طرح تربیلہ فائیو 4 سال بعد جبکہ داسو ڈیم 5 سال بعد فعال ہوچکا ہوگا، جس سے اندازہ ہے کہ ہمارا پن بجلی منافع بڑھ کر 200 ارب سالانہ سے بھی تجاوز کر جائے گا، جو صوبے کی معیشت کے لئے بہت سودمند ثابت ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیس کی تیاری کے بعد سیاسی قیادت اور اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میں لیا جائیگا۔؟
حمایت اللہ خان:
جی بالکل! وزیراعلٰی محمود خان کے ساتھ تو قریبی رابطہ رہتا ہے، جبکہ اسپیکر صوبائی اسمبلی مشتاق غنی کے ساتھ بھی بات ہوئی ہے، جلد ہی تمام صوبائی پارلیمانی لیڈروں اور اراکین صوبائی اسمبلی کو اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلی سے متفقہ قرارداد منظور کرانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں، سینیٹر شبلی فراز سے بات ہوئی ہے، جو قومی اسمبلی اور سینیٹروں کو ایک جگہ اکٹھا کریں گے، جن کو ہماری طرف سے بریفنگ دی جائے گی۔ یہ صوبہ کیلئے بہت بڑا موقع ہے، اسوقت ہم سالانہ 22 ارب روپے منافع لے رہے ہیں، جبکہ اس کیساتھ ساتھ 24 ارب کے بقایا جات بھی مل رہے ہیں۔ گذشتہ سال ان دونوں مدتوں میں ہمیں 60 ارب روپے ملے تھے۔ اس کے مقابلے میں تمام قسم کے صوبائی ٹیکسز اور دیگر محصولات کی مد میں پورے سال کے دوران 40 ارب روپے حاصل کئے جاسکے تھے، اس لئے ہماری کوشش ہے کہ اس تاریخی موقع پر تمام سیاسی قیادت کو اس ایک نکتہ پر اکٹھا کیا جائے، یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، یہ پورے صوبے کے مفاد کا معاملہ ہے، اس میں کسی قسم کی سیاست بازی کی کوئی گنجائش نہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو اب یک زبان ہو کر یہ مقدمہ ہمارے ساتھ مل کر لڑنا ہوگا، جس کیلئے جلد ہی ہم سب کے ساتھ رابطے کرنے والے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ حلقے یہ کہہ کر ڈراتے ہیں کہ صوبے کو منافع کی رقم دینے کیلئے بجلی مہنگی کرنی پڑیگی، کیا واقعی ایسا ہے۔؟
حمایت اللہ خان:
آپ نے بجا اور بروقت سوال کیا ہے، واقعی ہمیشہ سے قاضی فارمولے کے مخالفین یہ پروپیگنڈا کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ اگر خیبر پختونخوا کو اس فارمولے کے تحت منافع دیا جائے گا تو اس سے بجلی مہنگی ہو جائے گی، کیونکہ صوبے کو منافع دینے کیلئے صارفین سے پیسے لینے پڑیں گے، مگر صورتحال اس کے برعکس ہے، اس سلسلے میں وضاحت بہت ضروری ہے کہ اسوقت صوبے کو عارضی بندوبست کے تحت جو 18 ارب سے زائد کی رقم مل رہی ہے، وہ اسی فارمولے کے تحت ہی ہے۔ قاضی فارمولے کے تحت رقم ملنے سے صارفین پر کوئی اضافی بوجہ نہیں پڑے گا۔ اس سلسلے میں پن بجلی کا جو ٹیرف طے ہوا ہے وہ 12.5 روپے فی یونٹ ہے، جبکہ تربیلہ سے بجلی محض 64 پیسے فی یونٹ کے عوض حاصل ہو رہی ہے، یوں 64 پیسے اور ساڑھے 12 روپے کے بیچ جو رقم ہے، یہی پن بجلی کا منافع ہے۔ گویا صارف نے تو اپنی طرف سے منافع ادا کر دیا ہے، بدقسمتی سے نیپرا والے گیس، تیل اور کوئلہ سے حاصل ہونے والی مہنگی بجلی کے ساتھ اس سستی بھی کو ملا کر ٹیرف طے کرتے ہیں تو زیادتی کی انتہاء ہے۔ گویا ان کی مہنگی بجلی کو مصنوعی طریقے سے ستا دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس سلسلے میں ہم نے جو کیس سی سی آئی کو بھجوا رکھا ہے، اس میں واضح طور پر کہا ہے کہ منافع کا بوجھ کسی بھی صورت صارفین پر متقل نہ کیا جائے، وفاق کے مہنگے پاور پلانٹس کا بوجھ ہم اور صارفین کیوں اُٹھائیں؟ اب ہم بیوروکریسی کو کوئی چال نہیں چلنے دیں گے، ویسے بھی ہم بار بار بتا چکے ہیں کہ ہمارے صوبے میں 30 ہزار سستی پن بجلی پیدا کرنے کے مواقع موجود ہیں، تو وقاق اس سے فائدہ کیوں نہیں اُٹھاتا؟ اسی طرح ہم ان دنوں چار منصوبوں سے 74 میگا واٹ بجلی محض 4 روپے میں پیدا کر رہے ہیں، مگر وفاقی حکومت ہم سے وہ سستی بجلی خریدنے کیلئے تیار نہیں۔ پہیور پراجیکٹ 2010ء سے کام کر رہا ہے، مگر ہم سے ہی چار روپے فی یونٹ والی سستی بجلی تو نہیں خریدی جا رہی، جبکہ 25 روپے فی یونٹ والی بجلی خرید رہے ہیں۔ اسی لئے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اسوقت چونکہ مرکز، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پہلی بار ایک ہی جماعت برسراقتدار ہے تو ہمیں تاریخی موقع ملا ہے کہ اپنا حق لے لیں اور یہ موقع کسی صورت ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اگر وفاق ہم سے سستی بجلی نہیں خریدتا تو ہم اسے خود استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اس میں کیا مشکل ہے۔؟
حمایت اللہ خان:
اس میں کوئی مشکل نہیں اور اسوقت ہماری حکومت اسی حوالے سے تیاریوں میں مصروف ہے۔ ہم اپنی یہ 74 میگاواٹ بجلی اپنی صنعتوں کو سستے نرخوں پر فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں گدون اور سرحد چیمبر کے ساتھ کامیاب مذاکرات ہوچکے ہیں، آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اپنے وسائل سے پیدا ہونے والی پن بجلی صوبے کی صنعتوں کو سستے داموں فراہم کرنے کیلئے صوبائی ڈسٹری بیوشن کمپنی اور اپنی ٹرانسمیشن لائنیں بچھانے پر غور شروع کر دیا ہے، جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ صوبے میں اسوقت چار مختلف مقامات پر 74 میگاواٹ پن بجلی پیدا ہو رہی ہے، جس کی بڑی مقدار ضائع جا رہی ہے جبکہ کچھ مقدار میں واپڈا والے بہت سستے داموں خرید رہے ہیں، جس سے صوبے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت نے یہی بجلی صوبے کی صنعتوں کو سستے داموں فراہمی کیلئے ویٹنگ سسٹم کے ساتھ ساتھ متوازی نئے سسٹم پر بھی غور شروع کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کرلی گئی ہیں، جو صوبے کی فاضل بجلی مقامی صنعتوں کو فراہم کرنے کے حوالے سے مناسب میکنزم کی تشکیل کے حوالے سے تجاویز تیار کرے گا۔ اس سلسلے میں جلدی مثبت پیش رفت کی توقع ہے، اس صورت میں صوبے میں صنعتوں کو تیزی سے فروغ حاصل ہوگا، جس سے بیروزگاری کے خاتمے میں بھی مل سکے گی۔

اسی طرح اضافی گیس بھی سستی بجلی پیدا کرکے صنعتوں کو دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔ میری معاون خصوصی برائے صنعت عبد الکریم خان کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئی ہیں، جلد ہی اس حوالے سے بھی فیصلہ ہو جائے گا۔ کراچی آج اپنی پورٹ کا اور پنجاب خام مال کا فائدہ اپنی صنعتوں سے بھرپور طریقے سے اٹھا رہے ہیں۔ تو وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی سستی پن بجلی کا پورا پورا فائدہ اٹھائیں، اس سے نہ صرف ہمیں فاضل بجلی سے واپڈا کی نسبت کئی گنا زیادہ رقم حاصل ہوگی اور ساتھ ہی صنعتی انقلاب کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ موجودہ حکومت تمام سیاسی قیادت، اپوزیشن جماعتوں، کاروباری و صنعتی برادری اور میڈیا کے تعاون سے اس بار یہ معرکہ سر کرنے کی پوری پوری کوشش کر رہی ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں ہم اپنے صوبے کے لوگوں کو خوشخبری دینے کے قابل ہو جائیں گے، جس سے پھر پسماندگی اور بیروزگاری کے خاتمے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔ میں اسی مشن کیلئے حکومت کا حصہ بنا ہوں، جیسے ہی مشن مکمل ہو جائے گا، میں اپنی چادر جھاڑ کر اپنی راہ لے لوں گا۔ اس مرحلے پر ایک بار پھر گزارش کروں گا صوبے کا ہر طبقہ بشمول میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے۔
خبر کا کوڈ : 768843
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش