QR CodeQR Code

معاشرے میں قرآن فہمی کی طلب اور پیاس تو موجود ہے مگر اس پہ گرد و غبار چھایا ہے

قرآن فہمی کے حوالے سے ہمیں جو کردار ادا کرنا چاہیئے تھا، وہ ہم نہیں کر پائے، سید علی عباس نقوی

کوئٹہ کے ہر محلے میں قرآنی سنٹرز موجود ہیں جہاں بہترین قاری پروان چڑھ رہے ہیں

30 Dec 2018 04:02

ادارہ التنزیل کے چیئرمین اور البصیرہ کے وائس چیئرمین نے اسلام ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ بتوفیق الہیٰ ہم دو رنگوں میں ایک قرآن حکیم کچھ اس انداز سے شائع کریں کہ جس میں ایک رنگ ان 86 فیصد حروف و کلمات کی نشاندہی کر رہا ہو، جو کہ تکراری ہیں اور جن کے معانی آپ ترجمہ و مفاہیم قرآن نصاب کے مطالعے سے سیکھ چکے ہیں جبکہ دوسرا رنگ دیگر 14 فیصد کلمات کی نشاندہی کرے۔ اس مجوزہ قرآن حکیم کو الفاظ کے معانی کیساتھ شائع کیا جائیگا۔ اس طرح قرآنی کلمات کے ترجمہ و معانی تک صد در صد رسائی ممکن ہو جائیگی۔


علامہ سید علی عباس نقوی ادارہ التنزیل کے چیئرمین اور علمی و تحقیقی مرکز البصیرہ کے وائس چیئرمین ہیں۔ بنیادی طور پر لاہور کے دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، بچپن میں ہی حوزہ علمیہ قم سے وابستہ ہوئے۔ ایران اور پاکستان سے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ادارہ التنزیل سے قرآن مجید کی تعلیم دینے اور عوام میں قرآن فہمی کو فروغ دینے کی عملی اور موثر کوششوں میں مصروف ہیں، اسلام ٹائمز نے معاشرے میں قرآن فہمی کی ضرورت اور ادارہ التنزیل کی خدمات کے عنوان سے علامہ سید علی عباس نقوی کیساتھ جو گفتگو کی ہے، وہ انٹرویو کی صورت میں پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو آپ اپنے تعلیمی سفر اور ادارہ التنزیل کے متعلق بتائیں۔؟ 
سید علی عباس نقوی:
مکمل نام سید علی عباس نقوی ہے اور لاہور سے تعلق ہے۔ دینی اور انقلابی گھرانہ میں پیدائش ہوا۔ بچپن سے ہی دینی تعلیمی حاصل کرنے کی خواہش رہی۔ شہید قائد سید عارف حسین الحسینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے میری اس خواہش کی تکمیل کے لئے دعا فرمائی تھی۔ آپ کی شہادت کے بعد یہ دعا قبول ہوئی اور خداوند نے مجھے چھوٹی عمر میں ہی حوزہ علمیہ قم میں دینی تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب بت شکن زمان امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ خالق حق سے جا ملے۔ اس وقت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ایک وفد امام خمینی کے چہلم میں شرکت کے لئے پاکستان سے گیا، اس وفد میں میں اپنے والدین کے ہمراہ تھا اور ہم امام کے چہلم میں شرکت کے بعد ایران ہی رہ گے۔

سکول کی ابتدائی تعلیم قم المقدس میں مکمل کی اور پھر دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے اصفہان کے شہر خوانسار میں حوزہ علمیہ ولی عصر (عج) میں داخلہ لیا۔ چند سال خوانسار میں رہنے کے بعد دینی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے حوزہ علمیہ قم کا رخ کیا۔ اسی دوران چونکہ عصری تعلیم ضروری تھی تو چند سال لئے حوزہ علمیہ سے چھٹیاں لے کر پاکستان آیا اور میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات دیئے پھر دینی تعلیم کو جاری رکھنے لئے حوزہ علمیہ قم کا رخ کیا۔ دینی تعلیم کے دیگر مراحل کو چند سال آگے بڑھایا۔ ایسے میں عصری تعلیم کو جاری رکھنے لیے چند سال کے لیے پھر پاکستان آنا ہوا۔ پنچاب یونیورسٹی سے بی اے کے امتحانات دیئے اور ایک بار پھر حوزہ علمیہ قم چلا گیا۔

جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ سے علوم قرآن و حدیث کے شعبہ سے تفسیر نمونہ اور تفہیم القرآن کا سیاسی اور اجتماعی بحثوں میں تقابلی مطالعہ میں ایم فل مکمل کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قم کے عالی سطح کے فقہ کے درس خارج آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی اور اصول کے درس خارج آیت اللہ العظمیٰ جعفر سبحانی میں شرکت کی اور ساتھ ساتھ تفسیر قرآن کے عالی سطح کے کورسز مکمل کیے۔ اس دوران ایم فل کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے تہران یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اب حال ہی میں پاکستان کے شیعہ مفسرین کی تفسیری منہج و روش پر پی ایچ ڈی مکمل کی ہے۔ دینی تعلیم کے دوران ہی میں نے اپنی علمی، ثقافتی اور اجتماعی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔

ایسے میں مجھے حوزہ علمیہ قم المقدس کے دینی طلباء کے تنظیمی حلقوں میں بطور فعال سرگرم رکن رہنے کی توقیق حاصل رہی۔ جن میں سے طلاب اردو زبان کمیٹی، تنظیم ثامن الائمہ مدرسہ امام خمینی نمایاں ہیں۔ علاوہ ازین مجھے ہدیٰ، نیوا اور میزان نامی رسالوں میں بطور ایڈیٹر کام کرنے کی سعادت حاصل رہی۔ دوران تعلیم، علوم و معارف قرآن کریم کی اہمیت کے پیش نظر نیز قرآن حکیم کو اس کی مہجوریت سے نکالنے اور عملی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے حوزہ علمیہ قم القدس میں شعبہ علوم و معارف کے کچھ طالب علموں، علماء اور اساتذہ کے تعاون سے ادارہ التنزیل کی بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ معارفِ قرآنی کے احیا میں گذشتہ ایک دہائی سے پاکستان بھر میں سرگرم ہے، جس کا مرکزی دفتر لاہور میں واقع ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی منفرد علمی و تحقیقاتی ادارے البصیرہ میں وائس چیئرمین کی حیثیت اپنے فرائض انجام دے رہا ہوں۔

اسلام ٹائمز: معاشرے میں قرآن فہمی کے حوالے سے اب تک کتنا کام ہوا ہے اور کتنی ضرورت موجود ہے۔؟
سید علی عباس نقوی:
ہم جانتے ہیں کہ قرآن کریم مبارک ہے، نئی فکر دیتا ہے، تبیان ہے، ذکر ہے، احسن الحدیث ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ بہترین راستہ قرآن کا موعظہ ہے نیز قرآن مجید کی داستانیں ہی بہترین داستانیں ہیں۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ قرآن کریم اسلام کی حقانیت کی سند، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا زندہ معجزہ ہے، جو ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے۔ تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ احادیث کو پرکھنے کا معیار فقط قرآن حکیم کو حاصل ہے۔ علاوہ ازیں قرآن کریم وہ حقیقی نور ہے، جو فرد اور معاشرے کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قرآن مجید سے ہمارا تعلق اور واسطہ فقط مردوں کے لیے تلاوت کرانے، قسمیں اٹھانے، حق مہر کے طور پر دینے، تجوید پڑھنے پڑھانے، ترتیل و حفظ اور حسن قرات کے مقابلوں میں شرکت کرنے کی حد تک محدود ہے۔ یہ سب اس لیے کہ قرآن میں تدبر کیا جائے، جو ابھی تک معاشرے میں رواج نہیں پا سکا۔ یہ بات ہمارے لیے باعثِ مسرت ہے کہ اہل سنت کے ہاں کافی ادارے اور شخصیات قرآن فہمی کے حوالے سے عرصے دراز سے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں کافی نصاب مرتب کیے گئے ہیں، ان میں سے چند کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ بیت القرآن اس قرآن فہمی ادارے کے روحِ رواں محترم عبد الرحمن طاہر ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ترجمہ کو آسان اور سائٹیفک انداز میں سکھانے اور پڑھانے کے حوالے سے ایک خصوصی ملکہ عطا فرمایا ہے، ان کی اس کوشش کے دو رنگ اور پیرائے ہمارے سامنے ہیں۔ ایک مفتاح القرآن کی شکل میں جبکہ دوسرا مصباح القرآن کے رنگ میں موجود ہے۔

مصباح القرآن میں ترجمہ قرآن کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اس میں روز مرہ زندگی میں اردو میں استعمال ہونے والے بیشتر الفاظ کو سیاہ رنگ میں پیش کیا گیا ہے، تکرار کے ساتھ استعمال ہونے والے فیصد الفاظ کو نیلا اور دوسرے اہم الفاظ کو سرخ میں پیش کرکے ان کے فہم کے الگ الگ دائرے متعین کر دیئے ہیں۔ مفتاح القرآن میں گرامر کی علامتوں کو مختلف گروپ کی شکل میں اسباق میں پیش کیا گیا ہے اور ان علامات کا عملی انطباق مصباح القرآن میں بھی موجود ہے، تاکہ ایک استاد یا طالبِِ قرآن ان کی مدد سے قرآن کا خصوصی فہم حاصل کرے۔ یاد رہے کہ مصباح القرآن دو جلدوں پر مشتمل ہے۔

قرآنیات اور اس کے مفاہیم کو عام کرنے کے لیے قرآن ہاوس سوسائٹی گذشتہ کئی سالوں سے پروفیسر خاور بٹ کے زیر نگرانی سرگرم ہے۔ قرآن ہاوس نے قرآن فہمی کے حوالے سے چند کتابیں شائع کی ہیں اور یہ ادارہ اس سلسلے میں کورسز بھی منعقد کرواتا ہے۔ ان میں سے چند کا ذکر میں یہاں ضرور کروں گا۔
آسان کورس، اس کتاب میں بیالیس آیات کو چالیس گھنٹوں میں علامات کے ذریعے پڑھایا جاتا ہے۔
تکمیل قرآن حکیم، جو اس کورس سے طالب علم فارغ التحصیل ہوتے ہیں، انہیں سورہ الفاتحہ تا الناس سبقاً سبقاً کلمات اور جملوں کی ترکیب کے ساتھ احادیث کی مدد سے تفہیم قران کی استعداد پیدا کی جاتی ہے۔ یہ کورس (365) گھنٹوں میں تکمیل کے مراحل طے کرتا ہے۔ پاکستان میں قرآن فہمی کے حوالے سے کافی ادارے کام کر رہے ہیں، جن کے نصاب کا میں نے خود مطالعہ بھی کیا ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مکتب میں اس کی کمی ہے۔

گذشتہ عشرے سے ہمارے دوستوں نے ٹیم ورک کام کا آغاز کیا ہے، الحمدللہ کافی حد تک ہم کامیاب بھی ہوئے ہیں، مگر پھر بھی اس سلسلے میں سب کو شریک ہونا چاہیئے۔ حال ہی میں اسی سلسلے میں ہم نے ایک اور شعبہ سفیران قرآن کے حوالے سے فعال کیا ہے، جس پہ تفصیل سے بات پھر کبھی۔ علاوہ ازیں ہمیں اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیئے کہ قرآن فہمی کے حوالے سے ہمیں جو کردار ادا کرنا چاہیئے تھا، دوسروں کی نسبت ہم وہ نہیں کرسکے۔ البتہ رواں عشرے میں چند اہم کاوشیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک علم و عمل ٹرسٹ کے ذیلی ادارہ المھدی قرآن آکادمی نے قرآن فہمی کے حوالے سے "آئیے قرآن سمجھیں" کے عنوان سے تین جلدوں پر مشتمل کورس جاری کیا ہے، جو کہ درحقیقت عربی زبان کے قواعد پر مشتمل ہے۔ 

جیسا کہ پہلے بھی کہا ہے کہ معاشرے میں قرآن فہمی کے حوالے سے دنیا بھر میں اور خاص طور پر پاکستان میں بہت سے ادارے اور افراد مصروف خدمت ہیں۔ ہم ان کی زیادہ سے زیادہ کامیابی اور عنداللہ بہتر سے بہتر اجر کیلئے دعاگو ہیں۔ ہم نے بھی اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ لوگوں کو سادہ اور آسان طریقے سے قرآن کے مطالب تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ علم صرف و نحو اور معانی و بیان کی تدریس زبان دانی کے لئے نہایت ضروری ہے، لیکن ان علوم کی باریکیوں اور گردانوں سے عام لوگوں کو سروکار نہیں ہوتا۔ ہم نے روزمرہ تجربات، عوام کے مزاج اور ان کی سطح معرفت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن فہمی کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ جس کے ذریعے قرآن کے معانی و مفاہیم کو جلدی اور بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: عوام میں قرآن فہمی یا اسکے مطالب کا شعور حاصل کرنیکی کتنی پیاس یا طلب ہے۔؟
سید علی عباس نقوی:
پیاس اور طلب تو موجود ہے مگر اس پیاس پر گرد و غبار چھایا ہے اور اس پر ہر طرف خاک ہی خاک ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو شدید پیاس ہو اور جب اس کے لیے پانی لایا جائے، اس میں مٹی و خاک ملا دیں تو کیا وہ پانی پیئے گا۔ ہرگز نہیں، پیاس تو ہے، تشنگی تو ہے مگر اس سے گرد و غبار دور کرنا ہوگا، اس خاک کو دور کرنے کے لیے متوجہ کرنا اور متوجہ ہونا ضروری ہے۔ اس کی ذمہ داری معاشرے کے خواص کے علاوہ ہر فرد پر عائد ہوتی ہے، خواہ وہ معاشرے میں کسی بھی شعبہ سے منسلک ہو، اسے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے قرآن فہمی سے متعلق اس پیاس اور طلب کو پورا کرنے کے لیے اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ میرے نزدیک قرآن کی طرف رغبت، اس کی منفعت اور اس حوالے سے تشنگی دور کرنے کا سفر کئی مرحلوں پر مشتمل ہے۔

سب سے پہلے تو قرآن کی اہمیت و عظمت کا احساس ضروری ہے، الحمدللہ مسلمانوں میں یہ احساس باقی ہے، جسے مزید قوی کرنے اور کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے مرحلے پر قرآن کی رو خوانی (ناظرہ) اور اس کی درست تلاوت کی باری آتی ہے۔ قرآت و تجوید کے اصولوں کی ضرورت اسی مرحلے پر ہوتی ہے۔ عالم اسلام میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص اس شعبے میں بہت کام ہوا ہے اور مسلسل جاری ہے۔ اس حوالے سے نہایت گراں قدر کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ یہ تمام کام قابل قدر ہے۔ تیسرا مرحلہ قرآن کے مطالب و مفاہیم تک رسائی کا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا سمجھتے ہیں کہ قرآن فہمی کے ذریعے کس حد تک معاشرتی امراض کا علاج ممکن ہے۔؟
سید علی عباس نقوی:
سورہ یونس، آیت نمبر57 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،
یایہا الناس قد جآتکم موعِظ مِن ربِکم و شِفآ لِما فِی الصدورِ و ہدی و رحم لِلمومِنِین
یعنی: اے لوگو! تمہارے پروردگار کی طرف سے (یہ قرآن) تمہارے پاس نصیحت اور تمہارے دلوں کی بیماری کے لیے شفا اور مومنین کے لیے ہدایت اور رحمت بن کر آیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ قرآن دل کے تمام روحانی امراض کے لیے شفا ہے۔ قرآن میں تعصب کے بغیر غور و فکر کرنے سے دلوں میں موجود تمام شکوک و شبہات کے لیے تشفی، ہر قسم کے تزلزل اور اضطراب کے لیے عافیت مل جاتی ہے اور شرک، کفر، نفاق، باطل پرستی، ظلم و عداوت کا موثر ترین علاج میسر آجاتا ہے۔ لیکن پڑھنے اور تلاوت کرنے میں سمجھنے کا عمل بھی کار فرما ہونا چاہیے اور سمجھنے کے بعد اس کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کرنا ہوگا۔ تب ہی جا کر معاشرتی اور روحانی علاج ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں عمومی طور پر جب بھی قرآت یا قرآن فہمی کے حوالے سے کوئی تقاریب یا اجتماعات منعقد ہوتے ہیں تو ان میں تشیع نمائندگی خال خال ملتی ہے۔ وجہ کیا ہے۔؟
سید علی عباس نقوی:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر قرآنیات میں ہماری نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ البتہ اس آخری عشرے میں قرآنیات پر مختلف ادارے معرض وجود میں آئے ہیں، جو قرآن کریم کے مختلف شعبوں پر کام کر رہے ہیں اور انہوں نے ملکی سطح پر تشیع کی نمائندگی کی ہے اور ہمارا سر فخر سے بلند بھی کیا ہے۔ ان میں سے ایک ادارہ جو حفظ قرآن کریم پر گذشتہ دس سالوں سے کام کر رہا ہے، اس کا نام جماران ہے، اس کا مرکز کراچی میں ہے اور پاکستان کے دیگر شہروں میں اس کے چند شعبے ہیں۔ ان مراکز سے سینکڑوں بچے اور بچیاں مختلف روشوں اور طریقوں سے قرآن کریم حفظ کرچکے ہیں، انہوں نے نہ صرف قرآن کریم کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہے بلکہ یہ قرآن کے ترجمہ اور اس کے مفاہیم پر بھی مکمل عبور رکھتے ہیں۔ جماران کی طرز پر اور بھی حفظ کے ادارے قائم ہوئے ہیں۔

میری رائے میں قرآت و تجوید کے حوالے سے ہمارے ہاں کمی نہیں، یہ بات میں اس لیے کر رہا ہوں، چونکہ مجھے دو سال قبل سردیوں میں ایک ماہ کے لیے کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا اور حیران رہ گیا کہ وہاں ہر محلہ میں قرآنی سینٹر قائم ہیں، ان میں ناظرہ تو پڑھایا جاتا ہے مگر قرآت، ترتیل اور خوش لحنی پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔ سینکڑوں قاری تیار ہو رہے ہیں مگر ان کا ہمارے ہاں تعارف نہیں ہے، ان کو پاکستان کی سطح پر متعارف کروانے کی ضرورت ہے اور مقابلہ جات میں شریک کرانے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے بعض نے بین الاقوامی مقابلہ جات جو ایران میں سالانہ منعقد ہوتے ہیں، شرکت کی ہے اور پہلی چند پوزیشن بھی حاصل کی ہے۔ حتی کہ بعض خوش الحان قاریوں نے میڈیا کی طرف سے مقابلہ جات میں شرکت کی اور انعام کے مستحق بھی قرار پائے ہیں۔ ان سب کے باوجود یہ بات بھی حقیقت ہے کہ اس شعبے میں کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت اور گنجائش موجود ہے۔

اسلام ٹائمز: ادارہ التنزیل 72 گھنٹوں میں 86 فیصد مطالب و معارف کا کیسے درس دیتا ہے۔؟
سید علی عباس نقوی:
یاد رہے کہ گذشتہ چند دہائیوں میں قرآن مجید کے ترجمہ اور مفاہیم کی تعلیم کا کوئی آسان طریقہ پیش کرنے کے لئے بہت سی کوششیں کی گئی ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجے میں متعدد علمی اور عملی نئی روشیں سامنے آئیں ہیں۔ وہ روشیں جن کے وسیلے سے قرآن کے معانی و مفاہیم کو جلدی اور بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ انھی میں سے ایک روش، قرآن میں زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ کی بنیاد پر قائم ہے۔ پورے قرآن میں 87 ہزار الفاظ ہیں، جن میں بہت سے مکرر استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن فہمی کے اس مجموعہ میں 1200 سے زیادہ قرآن کے الفاظ کو ترجمہ و مفاہیم قرآن کریم ایک تعلیمی نصاب کی صورت میں اور قرآنی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے پیش کیا گیا ہے۔ یہ نصاب اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ قرآن سیکھنے والے حضرات ایسی بہت سی سادہ آیات کا مفہوم سمجھ سکتے ہیں، جو انھیں الفاظ سے مرکب ہوئی ہیں، چونکہ تقریباً سارے قرآنی اہم مفاہیم و معارف انھیں آیات میں ہیں، لہذا مفاہیم قرآنی تک ان حضرات کی رسائی آسان ہو سکتی ہے۔

اس نصاب میں متعلمین قرآن کریم، قرآن میں زیادہ استعمال ہونے والے تقریباً 1200 الفاظ سے آشنا ہو جاتے ہیں۔ یہ الفاظ اسباق اور تین جلد کتابوں پر مشتمل ہیں اور ہر درس کا دورانیہ 90 منٹ ہے۔ دیگر یہ کہ ہر سبق کے چھ حصے ہیں۔ ایک موضوع دس آیات، مانوس اور نئے الفاظ، مشق اور سوالات، قرآن کی زبان، مفاہیمِ قرآن سے آشنائی، اختیاری مشق۔ درحقیقت یہ کورس ورک بک اور جدید و آسان طریقے سے قرآنی مفاہیم تک رسائی کی آزمودہ و سریع رفتار تکنیک ہے۔ جو افراد اردو پڑھنا جانتے ہوں اور قرآن پڑھنا جانتے ہوں، وہ خدا کی مدد اور محنت کے ساتھ اس نصاب کو اپنا سکتے ہیں، تاکہ ایک پرکشش اور سادہ روش کے ذریعہ قرآن کی بہت سی آسان آیتوں کا ترجمہ کرسکیں اور قرآن کے 86 فیصد سے زیادہ الفاظ سے آشنا ہو جائیں۔

یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ان بیشتر الفاظ کے معانی سمجھنے کا مطلب یہ نہیں کہ متعلمین قرآن صرف اتنے فیصد آیات ہی کا ترجمہ جانتے ہیں، کیونکہ قرآن کے ترجمے کو سمجھنے کے لئے لغوی معانی کے علاوہ دیگر امور سے آشنائی بھی ضروری ہے اور اس نصاب کا پڑھنے والا طالب علم ان امور میں سے بعض کو اس نصاب میں حاصل کرسکتا ہے۔ یاد رہے کہ قرآن کریم میں دو طرح کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ایک مانوس الفاظ اور دوسرے نئے الفاظ، ایک تحقیق کے مطابق قرآن کریم میں بیشتر الفاظ مانوس ہیں۔ اس نصاب میں ان الفاظ کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے، تاکہ متعلمین قرآن کریم کی معلومات سے استفادہ کیا جائے اور ان کے لئے یہ واضح ہوسکے کہ قرآن کی بہت سی آیتوں کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔

آخر میں عرض کرتا چلوں کہ ان تین جلدوں کے بعد ہمارا ارادہ ہے کہ بتوفیق الہیٰ ہم دو رنگوں میں ایک قرآن حکیم کچھ اس انداز سے شائع کریں کہ جس میں ایک رنگ ان 86 فیصدحروف و کلمات کی نشاندہی کر رہا ہو، جن کے معانی آپ ترجمہ و مفاہیم قرآن نصاب کے مطالعے سے سیکھ چکے ہیں جبکہ دوسرا رنگ دیگر 14 فیصد کلمات کی نشاندہی کرے۔ اس مجوزہ قرآن حکیم کو الفاظ کے معانی کے ساتھ شائع کیا جائے گا۔ اس طرح قرآنی کلمات کے ترجمہ و معانی تک صد در صد رسائی ممکن ہو جائے گی۔ اس گفتگو کے دوران اس بات کی یاد دہانی ضروری ہے کہ مذکورہ نصاب درحقیقت قرآن سے قریب ہونے کا نقطہ آغاز ہے۔ لہذا کسی بھی صورت میں اس کو پڑھنے والا تفسیر قرآنی سے بے نیاز نہیں ہوسکتا، بلکہ اسے قرآن کو سمجھنے کی طرف راغب کرے گا اور اس کے اندر قرآنی مفاہیم و معارف حاصل کرنے لئے ذوق و شوق پیدا کرے گا۔ اہم بات یہ کہ ہمارے لئے یہ امر باعث انبساط ہے کہ دینی مدارس کے علاوہ بعض سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں نے اس نصاب کو اپنے ہاں شامل کر لیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جہاں بھی اس کا تجربہ کیا جائے گا، اس کی افادیت کا احساس ہوگا۔ البتہ اسے بہتر بنانے کی ہر تجویز کا ہم خیرمقدم کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا باقاعدہ قرآت وغیرہ کا درس دیتے ہیں یا معانی و مطالب کی حدتک۔؟ نیز یہ کہ التنزیل مسلکی شناخت کیساتھ مصروف عمل ہے یا اس سے بالاتر۔ اور کیا دیگر مسالک کے قاری یا قرآن پہ عبور رکھنے والے افراد کی بھی خدمات حاصل ہیں۔؟
سید علی عباس نقوی:
ادارہ التنزیل کا تبلیغ و ترویج کا دائرہ کار صرف فہم قرآن کریم تک محدود نہیں بلکہ قرآنیات کے تمام شعبوں میں کم و بیش فعال و سرگرم ہے۔ ادارہ التنزیل صرف پاکستان میں معارفِ قرآن کے احیا کے لیے کوشاں نہیں ہے بلکہ ادارہ دیگر ممالک میں بھی اپنے فرائض اساتذہ اور اپنے بین الاقوامی شعبہ کے تعاون سے قرآنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ ہم قرآنی سرگرمیوں کے انجام دہی کے سلسلے میں کبھی بھی اپنے آپ کو مسلکی شناخت کے ساتھ محدود نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ تمام مسالک کے افراد اور دیگر قرآنی اداروں کے تعاون کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے اور وقتاً فوقتاً ان کی خدمات سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: التنزیل حوزہ علمیہ قم سے منسلک ہے۔؟ یا صرف اساتذہ ہی وہاں سے فارغ التحصیل ہیں۔؟
سید علی عباس نقوی:
التنزیل کسی ادارے، مدرسے، جامعہ یا تنظیم سے منسلک نہیں ہے بلکہ مستقل طور پر پوری ملت کیلئے کام کر رہا ہے۔ البتہ مختلف مدراس، اداروں، سکولز، کالجز اور مختلف سنٹرز کے تعاون سے ورکشاپس، کلاسز اور قرآنی نمائش کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ حوزہ علمیہ قم ایک علمی و تربیتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے، جہاں کے طلباء فارغ التحصیل ہو کر دینا بھر میں اپنی اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ہر ادارے کے کچھ اہداف ہوتے ہیں، التنزیل کے کیا اہداف ہیں اور دس سال کے سفر میں کس حد تک حاصل ہوئے ہیں۔؟
سید علی عباس نقوی:
ادارہ التنزیل حقیقی معارفِ قرآن کی تبلیغ اور قرآنی معاشرہ کی تشکیل کی عملی جدوجہد کے لیے گذشتہ دس سالوں سے ان اہداف پر گامزن ہے۔
قرآن کریم کو خصوصاً جوانوں کے لیے کتاب زندگی کی حیثیت سے پیش کرنا اور ان کے درمیان قرآن سینس، تفکر و تدبر کا شوق و اشتیاق پیدا کرنا۔
قرآن سے متعلق ہر قسم کی مفید معلومات فراہم کرنے کی حتی الامکان سعی و کوشش کرنا۔
ملکی اور بین الاقوامی سطح پر قرآنی اداروں، شخصیات سے روابط برقرار کرنا اور ان کے درمیان مستحکم روابط کے لیے موثر اقدامات کرنا۔
عصر حاضر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے قرآن سے متعلق شبہات کی متقن جوابدہی
علوم و معارف قرآن کی تبلیغ و ترویج کے لیے ہر ممکن اقدام اور اس کے لیے جدید ذرائع سے بھرپور استفادہ کرنا۔
قرآنی یونیورسٹی، دارالقرآن، دارالتحفیظ، مکتب القرآن الکریم اور دیگر قرآنی سینٹرز کا اجرا۔
شکر الحمد ہم کافی حد تک اپنے اہداف میں کامیاب ہیں مگر یہ سفر طویل اور جاری ہے۔


خبر کا کوڈ: 769291

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/769291/قرآن-فہمی-کے-حوالے-سے-ہمیں-جو-کردار-ادا-کرنا-چاہیئے-تھا-وہ-ہم-نہیں-کر-پائے-سید-علی-عباس-نقوی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org