0
Monday 31 Dec 2018 21:35
مصنوعی امن کے دعوے ہماری نسلوں کے مستقبل کو بھیانک بنا دینگے

نیب حکومت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہا ہے، میاں افتخار حسین

امریکہ کا پاکستان کو امن مذاکرات میں کردار ادا کرنیکا خط درحقیقت ڈومور کا مطالبہ تھا
نیب حکومت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہا ہے، میاں افتخار حسین
میاں افتخار حسین 5 اپریل 1958ء کو پبی ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ انکے والد میاں محمد رفیق ایک محنت کش انسان تھے، جنہوں نے فوج میں بطور وائرلیس آپریٹر فرائض انجام دیئے۔ گورنمنٹ کالج پشاور میں داخلہ لینے کے ساتھ ہی پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوگئے۔ تھرڈ ایئر میں اپنے کالج کے پختون اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے صدر بن گئے، جبکہ فورتھ ایئر میں پختون ایس ایف کیجانب سے یونین کا صدارتی الیکشن لڑا، جسے وہ جیت نہ سکے۔ 1979ء میں بی اے کیا۔ بی اے کے دوران اپنی ماموں زاد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک بیٹے اور بیٹی سے نوازا، ان کے اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کو چند سال قبل دہشتگردوں نے شہید کر دیا۔ میاں افتخار نے 1980ء میں پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1982-83ء کے سیشن میں ایم اے سوشل ورک کی ڈگری حاصل کی۔ 1980ء میں یونیورسٹی کے طالبعلم کی حیثیت سے پختون ایس ایف کے صوبائی صدر منتخب ہوئے۔ 1983ء سے لیکر 1986ء تک مختلف اوقات میں جیل گئے۔ مجموعی طور پر ساڑھے تین سال جیل کاٹی۔ اس دوران انہوں نے 1983ء میں ایم اے پشتو کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1986ء میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔ 1987ء میں افغانستان گئے جبکہ دو اڑھائی ماہ سوویت یونین میں بھی گزارے۔ 1988ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ الیکشن لڑنے کیساتھ ہی انہوں نے پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے اے این پی میں جست لگائی۔ اسکے بعد امریکہ چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد وطن لوٹ آئے۔ 90ء کا الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ صوبائی اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی سیکرٹری اور ضلعی ڈیڈک کمیٹی کے چیئرمین بنے۔ 1993ء کا الیکشن پی پی پی کے مقابلے میں صرف 149 ووٹوں سے ہارا۔ 1997ء کا الیکشن پھر جیتا۔ 2002ء کا الیکشن پھر پی پی پی کے مقابلے میں ہارا، لیکن 2008ء کا الیکشن جیت لیا اور صوبائی وزیر اطلاعات، ٹرانسپورٹ اور کلچر مقرر کئے گئے۔ 2013ء کے انتخابات میں اپنی جماعت کے اکثر امیدواروں کی طرح وہ بھی ناکام ٹھہرے۔ اسوقت وہ اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔ منجھے ہوئے اور مدبر سیاستدان میاں افتخارحسین ملکی اور بین الاقوامی حالات پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ انکو صورتحال کا خوب ادراک بھی ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بھی ایشو پر انکی رائے کو اہم جانا جاتا ہے۔ موجودہ ملکی، خطے اور بین الاقوامی حالات و واقعات کے حوالے سے اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے گفتگو کی، جسکا احوال قارئین کی نذر ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: تسلسل کیساتھ خیبر پختونخوا میں معصوم بچیوں کیساتھ جنسی زیادتی کے واقعات جاری ہیں، اس حوالے سے حکومتی اقدامات کو کس طرح دیکھ رہے ہیں۔؟
میاں افتخار حسین:
معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا رونما ہونا انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کو چاہیئے کہ معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کا نوٹس لے اور ان واقعات کی قیمت پر اپنی کامیابی کے دعوؤں سے گریز کرے، وزیراعلٰی اور دیگر وزراء کو متاثرہ خاندان کی داد رسی کیلئے میدان میں آنا چاہیئے۔ خیبر پختونخوا میں معصوم بچیوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کئے جانے والے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، تاہم بدقسمتی سے میڈیا اور سول سوسائٹی ان واقعات پر چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہے، جبکہ اے این پی لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے اور ببانگ دہل ان واقعات کی مذمت کرتی ہے، ہم متاثرہ خاندان کے ساتھ ہر مشکل میں شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ ہمارے نوٹس میں ہے کہ ان واقعات کو تسلسل سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے، درندگی کے یہ واقعات دہشت گردی کی نئی شکل ہے اور حکومت ایسے واقعات پر پردہ ڈال کر دنیا کو سب اچھا کا پیغام دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔

مرکزی و صوبائی حکومتیں معصوم بچیوں کی جانوں کی قیمت پر پوائنٹ سکورنگ سے گریز کریں، مناہل واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ ڈی آئی خان، مردان، حویلیاں اور نوشہرہ میں بچیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی ایف آئی آر تک نہیں کاٹی گئی، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ صوبائی حکومت مجرموں پر پردہ ڈال رہی ہے۔ جرائم کی بیخ کنی کرنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے والے حکومت کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے، بچی کو زیادتی کے بعد قتل کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بچی قاتل کو جانتی ہے، لہٰذا مشکوک افراد کو حراست میں لے کر ڈی این اے کرایا جائے اور جو بھی مجرم ثابت ہو، اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت میڈیا سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ ان واقعات کے خلاف آواز اٹھائیں، تاکہ مزید غریب لوگوں کی گود اجڑنے سے بچ سکے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کیسا دیکھ رہے ہیں اور پاک افغان تعلقات کس طرف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔؟
میاں افتخار حسین:
تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے بغیر خطے میں ترقی ناممکن ہے اور اس مقصد کیلئے آزاد خارجہ پالیسی کی تشکیل ملک کے بہتر مفاد میں ہے، پاکستان کو ماضی میں بنائی گئی ناکام خارجہ پالیسیوں کے باعث کٹھن مراحل اور ادوار سے گزرنا پڑا، جس کا خمیازہ قوم نے بھگتا، بین الاقوامی صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور موجودہ حالات ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان دونوں اپنی ناکام داخلہ و خارجہ پالیسیاں تبدیل کرکے انہیں قومی مفاد میں تشکیل دیں۔ سپر پاورز کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی پالیسیوں نے خطے کے امن کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہم باچا خان بابا کے عدم تشدد کے پیروکار ہیں اور پوری دنیا میں امن کے خواہاں ہیں، جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور مسائل کے حل کیلئے مذاکرات سے بہتر کوئی آپشن نہیں۔

اے این پی کے دور میں ملاکنڈ میں امن عامہ کیلئے ہم نے مذاکرات کو ترجیح دی تھی، تاہم طالبان کی جانب سے اس عمل کی خلاف ورزی کے بعد تمام سٹیک ہولڈرز اور پوری قوم نے کارروائی کی ضرورت محسوس کی۔ حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ پاکستان کیلئے تجارت کے لحاظ سے سب سے بڑی منڈی افغانستان ہے اور اگر اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا گیا تو ملک تجارتی منڈی سے محروم ہو جائے گا، پاکستان اور افغانستان میں امن کے قیام میں پختونوں کا کردار تاریخی اہمیت کا حامل ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیئے کہ کرتار پور راہداری کھولنے کے بعد اب پاکستان اور افغانستان کے پختونوں کے درمیان تجارتی و ثقافتہ رشتوں کو مضبوط کرنے کیلئے عملی اقدامات کرے تاکہ عوام کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو بھی فائدہ حاصل ہو۔

اسلام ٹائمز: افغان طالبان امن مذاکرات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ ان مذاکرات کے تنائج کیا ہوسکتے ہیں۔؟
میاں افتخار حسین:
افغان امن مذاکرات خوش آئند ہیں، تاہم افغانستان میں امن کے قیام کیلئے کی جانے والی کوششوں میں افغان حکومت کو بھی اعتماد میں لیا جائے، افغانستان میں امن مذاکرات کی کامیابی کی کنجی تمام سٹیک ہولڈرز کے ہاتھ میں ہے، امن مذاکرات کے ساتھ ساتھ داعش کے مستقبل بارے میں بھی حکمت عملی واضح کئے جانے کی انتہائی ضرورت ہے۔ امریکہ کا پاکستان کو امن مذاکرات میں کردار ادا کرنے کا خط درحقیقت ڈومور کا مطالبہ تھا، جسے ہماری حکومت نے درخواست کا نام دیا، البتہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب رہا ہے۔ اگر افغانستان حکومت کی شرکت کے بغیر امن مذاکرات ہوتے ہیں تو وہ مذاکرات لا حاصل ہونگے اور اس سے مسائل بڑھنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ روس اور چین کا ان مذاکرات میں کردار مسلمہ ہے اور ان ممالک کی شرکت کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا، کیونکہ موجودہ بین الاقوامی صورتحال میں امریکہ اور چین دو سپر پاورز خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھے ہوئے ہیں۔

پاکستان کو بھی چاہیئے کہ بدلتے ہوئے حالات سے فائدہ اٹھائے اور تمام ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات برابری کی بنیاد پر قائم کرے، جیسے کہ انڈیا نے۔ انڈیا نے روس کے ساتھ تعلقات قائم رکھے، لیکن امریکہ کو بھی ناراض نہیں کیا، اب مشرف اور ضیاء الحق کی پالیسیوں سے سبق سیکھنا ہوگا اور مستقبل میں ایسی غلطیاں دہرانے سے گریز کرنا ہوگا، اگر افغانستان سے امریکی انخلاء کو دیکھا جائے تو انخلاء سے قبل امریکہ نے وہاں کے انفراسٹرکچر کی تعمیر اور افغان فوج کو تربیت کے لحاظ سے اس قابل کر دیا کہ آنے والے حالات میں وہ ملک سنبھال سکے، مگر داعش کی موجودگی اہم سوالیہ نشان ہے، اگر امن مذاکرات میں داعش کو باہر رکھا گیا ہے تو مستقبل میں امن کو خطرات درپیش رہیں گے، لہٰذا اس کے تدارک کیلئے بھی تمام سٹیک ہولڈرز کو حل سوچنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: علی رضا عابدی سمیت سیاسی رہنماؤں کے قتل کا ذمہ دار کسے سمجھتے ہیں۔؟
میاں افتخار حسین:
 امن پسند دنیا شہید ہونے والے سیاسی رہنما کے خون کی مقروض ہے۔ دہشت گردی کے خلاف واضح اور دو ٹوک موقف اپنانا ہی ان سیاسی رہنماؤں کی شہادت کا باعث بنا اور آج تک دہشت گردوں کی جانب سے وہی لوگ اور سیاسی پارٹیاں نشانے پر ہیں، جو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑی اور زیادہ قیمت سیاسی قیادت اور سیاستدانوں نے چکائی ہے، میں علی رضا عابدی، بشیر احمد بلور، ہارون بلور، بینظیر بھٹو اور امن کے تمام شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ دہشت گردی کے مسلط کردہ جنگ میں پاکستان عموماً اور خیبر پختونخوا خصوصاً انتہا پسندی کی زد میں رہا، آج بھی حکومتوں کی جانب سے مصنوعی امن کے دعوے کئے جا رہے ہیں، مصنوعی امن کے دعوے ہماری نسلوں کے مستقبل کو بھیانک بنا دیں گے، سکیورٹی حکام کو سیاسی رہنماؤں کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔

سب سے زیادہ تھرٹس اے این پی کو ہیں اور ہمارے ادارے ہم سے سکیورٹی واپس لے رہے ہیں۔ ان کشیدہ حالات کا ذمہ دار آپ کسی کو بھی نہیں ٹہرا سکتے، پُرامن پاکستان کا مستقبل افغان امن عمل کی کامیابی سے جڑا ہے، اگر خدانخواستہ افغان امن عمل ناکامی سے دوچار ہوتا ہے تو اُس کا سب سے زیادہ اثر پورے خطے کے امن وامان پر پڑے گا، اسی لئے افغان امن عمل کے کامیابی کیلئے پاکستان، روس اور چائنہ کو خلوص دل سے کردار ادا کرنا ہوگا، تب جاکر کہیں ممکن ہوگا کہ افغانستان میں امن کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا اور اس طرح روز روز کی دہشت گردی سے جان چھوٹے گی۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان نیب کی پکڑ میں ہیں، اپوزیشن کیمطابق اس اقدام سے "جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے" آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
میاں افتخار حسین:
نیب نے اپوزیشن اراکین کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، لیکن دوسری جانب حکومتی اراکین کے کیس بھی نیب میں چل رہے ہیں، جو مسلسل تاخیر کا شکار ہیں۔ قوم ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال کے کیس کا انتظار کر رہی ہے، نیب کو چاہیئے کہ وزیراعظم کو احتساب کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے، کیونکہ ان کے بقول اس سے ملک کا وقار بلند ہوگا، ہیلی کاپٹر کیس اور اراضی قبضے کی مکمل تحقیقات ہونی چاہیئے اور تحقیقات مکمل ہونے تک وزیراعظم کو اخلاقی طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیئے، جیسے وہ ماضی میں مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ سیاسی قوتوں کے خلاف نام نہاد کیسز اور پابند سلاسل کرنے سے اپوزیشن کو کمزور نہیں کیا جاسکتا، عمران خان بنی گالہ میں اراضی پر ناجائز قبضہ کا اقرار کرچکے ہیں، جرم کا اقرار کرنے والا صادق امین کیسے ہوسکتا ہے؟ دن رات احتساب کا ورد کرنے والے خود کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں، جبکہ چیف جسٹس کرپٹ عناصر کو معمولی جرمانے کرکے ایمانداری کا لائسنس دینے میں مصروف ہیں۔

احتساب بلا امتیاز ہونا چاہیئے اور مسلط وزیراعظم کو ان کی ہمشیرہ سمیت احتساب کی گرفت میں لایا جانا چاہیئے، پی ٹی آئی کی گذشتہ پانچ سالہ حکومت میں کرپشن اور کمیشن کی بنیاد پر شروع کی گئی، بی آر ٹی پشاور کے عوام کیلئے وبال جان بن چکی ہے اور احتسابی ادارے کرپشن کے ثبوت ملنے کے باوجود خاموش ہیں۔ بی آر ٹی 35 سے 82 ارب روپے تک جا پہنچی، لیکن نیب اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، جس سے ان شکوک و شبہات کو تقویت مل رہی ہے کہ نیب حکومت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ آپ دیکھیں کہ خیبر بنک کرپشن سکینڈل میں خود صوبائی حکومت ملوث تھی جبکہ احتساب کمیشن صرف مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کیلئے شروع کیا گیا اور جب اس کمیشن نے حکومتی وزراء پر ہاتھ ڈالا تو اسے تالے لگا دیئے گئے، ان کو احتساب کمیشن پر آنے والے اربوں روپے کے اخراجات کی وضاحت کرنی چاہیئے۔ اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے باوجود کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی تو ہم اسے کیا سمجھیں؟

مالم جبہ اراضی سکینڈل، بلین ٹری سونامی کے نام پر اربوں کے گھپلے اور دیگر کرپشن کیسوں کے باوجود احتساب صرف اپوزیشن کا ہو رہا ہے، ملک میں اقتصادی و معاشی نظام وینٹی لیٹر پر ہے اور وزیراعظم بھینسوں، انڈوں اور مرغیوں سے ملکی نظام چلانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ 100 دن کا پلان پی ٹی آئی کے اپنے نقشے پر بھی کہیں دکھائی نہیں دے رہا، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر چند شیلٹر ہومز میں تبدیل کرکے خاموشی اختیار کرلی گئی جبکہ 1 کروڑ نوکریاں دینے کی بجائے لاکھوں خاندانوں کو تجاوزات کے نام پر بے روزگار کردیا گیا۔ یوٹرن کو معیار بنانے والا شخص قوم کی رہنمائی کیسے کرسکتا ہے، حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات آخری سانسیں لے رہے ہیں اور ملک عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوچکا ہے۔

ملک کی ناکام داخلہ و خارجہ پالیسیوں کے باعث دنیا کا ہر ملک پاکستان پر اعتبار کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ زرعی پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے غریب کاشتکار زبوں حالی کا شکار ہے، تعلیم، صحت اور زراعت جیسے شعبوں پر حکومتی غٖفلت اور لاپرواہی نے عوام کو تذبذب میں مبتلا کر دیا ہے، میڈیا پر پابندی لگا کر حکمران اپنی مرضی سے ملک کا دیوالیہ کرنے پر تلے ہیں اور پارلیمنٹ کو زیرو کرکے آرڈیننس کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ ملک کی ترقی، امن کے قیام اور جمہوریت کی بالادستی کیلئے احتساب کا عمل حکومت سے شروع کیا جائے اور کٹھ پتلی وزیراعظم ہیلی کاپٹر اور اراضی ناجائز قبضے کی مکمل تحقیقات تک عہدے سے الگ ہو جائیں۔

اسلام ٹائمز: سیاسی جماعت کیلئے سوشل میڈیا کا کردار اہم ہوتا ہے، آپکی جماعت آج کے جدید دور میں کہاں کھڑی ہے۔؟
میاں افتخار حسین:
آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا ابلاغ کا مؤثر ذریعہ ہے اور نوجوانوں کی سوشل میڈیا سے وابستگی بھی خوش آئند ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے فاصلے ختم ہوگئے ہیں اور بہترین سہولیات میسر آنے کی وجہ سے پارٹی پالیسیوں اور پروگرامز کو دوسروں تک پہنچانا بہت آسان ہوگیا ہے۔ ہماری پارٹی سوشل میڈیا پر اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے، جہاں پارٹی کارکن اور خصوصاً پختون نوجوان سوشل میڈیا پر شائستہ اور مہذب انداز کے ساتھ پارٹی پروگرام آگے بڑھا رہے ہیں۔ نوجوان افراد پارٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کی تربیت کا سلسلہ جاری رکھنا نہایت ہی اہم ہے۔ پارٹی پالیسی کے مطابق تمام اضلاع میں نوجوانوں پر مشتمل سوشل میڈیا ٹیمیں تشکیل دی گئی اور ان کی تربیت کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کو مثبت اور بہتر طریقے سے استعمال کرنے کیلئے وقتاً فوقتاً ورکشاپس کا انعقاد کر رہے ہیں۔ ہمارے رہنما اور کارکن فیس بک اور ٹویٹر پر متحرک رہنے کیلئے پوری طرح تیار ہیں، باچا خان مرکز میڈیا ڈویژن کی ہدایات کی روشنی میں علمی، مدلل اور شائستہ انداز میں پارٹی کیلئے سوشل میڈیا پر اپنی خدمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 769468
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش