0
Saturday 5 Jan 2019 23:17
اگر شیخ رشید بے بس ہیں تو کابینہ کو چھوڑ دیں

حکومتی اقدامات کیوجہ سے پاکستان کو 100 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے، شاہد خاقان عباسی

حکومتی اقدامات کیوجہ سے پاکستان کو 100 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے، شاہد خاقان عباسی
پاکستان کے اکیسویں وزیراعظم 1958ء میں پیدا ہوئے، مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنماء 1988ء سے 1999ء اور دوبارہ 2008ء سے 2018ء تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ انہوں نے لارنس کالج مری، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور جارج واشگنٹن یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ امریکہ اور خلیجی ممالک میں بظور انجینئر کام کیا، 1988ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد سیاسی کیئریر کا آغاز کیا، پیٹرولیم اور قدرتی وسائل، کامرس کے وزیر اور پی آئی اے کے چیئرمین رہے۔ اکتوبر 2018ء میں این اے 124 لاہور سے پی ایم ایل این کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انکے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال، حکومتی کارکردگی اور اپوزیشن کی حکمت عملی کے متعلق اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئیں کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ کو ہمیشہ اعتراض رہا ہے کہ عمران خان نامناسب زبان استعمال کرتے ہیں، اب وہ کچھ بدلے ہیں تو آپ انکے خلاف وہی زبان استعمال کر رہے ہیں، کیا اصول بدل گئے ہیں؟
شاہد خاقان عباسی:
اصول نہیں بدلے، یہ لوگ حکومت ملنے کے بعد بے نقاب ہو رہے ہیں، ہم تو کل بھی سچ کہہ رہے تھے اور آج بھی یہ سچ سامنے آ رہا ہے کہ یہ جھوٹوں کا تولہ ہے۔ یہ لوگوں کو سبز باغ دکھا رہے ہیں، یہ نہیں بتا سکتے کہ کس طرح افراط زر میں اتنا اضافہ 10 سال میں نہیں ہوا، جتنا گزشتہ 6 ماہ میں ہوا ہے، معیشیت کی شرح نمو آدھی ہو کر رہ گئی ہے، پاکستان کو 1400 ارب کا نقصان برداشت کرنا پڑے گا، پالیسی ریٹ کی وجہ سے 400 ارب روپیہ اضافی خرچہ لینا ہو گا، اضافی خرچہ لینے کے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اب دوسرا منی بجٹ متوقع ہے، غیر یقینی صورتحال سے اسٹاک مارکیٹ اور برآمدات متاثر ہوئی ہیں، حکومت کو ذمہ داری سے بات کرنی چاہیے۔ یہ جھوٹوں کا ٹولہ ہے، ایک بیان دوسرے سے نہیں ملتا، وزیراعظم، وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات منہ بند رکھیں یا جھوٹ بولنا چھوڑ دیں۔ یہ پہلے فیصلہ کر لیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے یا نہیں؟ عوام پر اضافی ٹیکس لگانا چھوڑ دیں۔ غریب آدمی امیر کی جگہ ٹیکس دے رہا ہوتا ہے، حکومت نے ٹیکس ریفارمز واپس کرنے کی کوشش کی، ہم نے 5 سال میں ثابت کیا کہ معیشت آئی ایم ایف پروگرام میں جاسکتی ہے۔

پاکستان نالائقوں کے حوالے کردیا ہے، عمران خان کی حکومت نے پاکستان کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا، اب جو عمران خان کو لے کر آئے ہیں وہ آج پچھتا رہے ہیں۔ سول آمریت کی حکومت سے عوام کی جان جلد چھوٹے گی، یہ نااہل حکمران ہے، جو اس وقت بھکاری بنا ہوا ہے، پاکستان کا وزیر اعظم کشکول لے دنیا میں گھوم رہا ہے۔ اب انکے حمایتی یہ کہہ رہے کہ عمران خان میں فہم بچوں کی طرح ہے اور مزاج میں ایک لاابالی پن اور شعبدہ بازی ہے۔ جعلی مینڈیٹ کی طرح حکومت کے نوٹیفکیشن بھی جعلی ہیں۔ حکومت کے تمام اعلانیہ اور غیر اعلانیہ مشیروں کے نوٹیفکیشن عوام کے سامنے آنے چاہیں، ایسا نہ ہو کہ کل یہ لوگ سامان اٹھا کر بھاگ جائیں کہ نوٹیفکیشن ہی نہیں ہوا تھا، وزیراعظم عمران خان کا نوٹیفکیشن بھی سامنے لایا جائے، جنہیں روز ان کی بیگم وزیراعظم ہونے کا بتاتی ہیں۔ پوری تحقیقات ہونی چاہیے کہ بغیر نوٹیفکیشن کے لوگ کس طرح کابینہ کے اجلاسوں میں بیٹھ رہے تھے؟ نوٹیفکیشن کے بغیر لوگوں کی کابینہ اجلاسوں میں شرکت خطرناک ہے، فرخ سلیم کابینہ میں بیٹھتے رہے۔

آج وزیر اطلاعات یہ کہتے ہیں ان کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا تھا۔ یہ معیار عمران خان نے خود طے کیے ہیں اور وہ اب ان اصولوں پر پورا نہیں اتر رہے، یہ دوہرا معیار ہے، کیونکہ شیخ رشید نے ایل این جی کے ٹھیکے پر درخواست دی تھی اور دوسری جانب رزاق داﺅد عہدہ رکھنے کے باوجود ٹھیکہ حاصل کر رہے ہیں۔ رزاق داﺅد کی کمپنی بہت اچھی ہے، لیکن انہیں عہدے سے علیحدہ ہو جانا چاہیے، کیو نکہ وہ کاروبار سے علیحدہ نہیں ہوسکتے، کاروبار ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، رزاق داﺅد نے مشرف دور میں بھی وزارت لے کر بہت سے فائدے حاصل کیے، جن کے کیسز بھی نیب میں چلے۔

اسلام ٹائمز: ایک رائے یہ ہے کہ جس طرح پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی ہے، اس وجہ سے موجودہ وزیراعظم کی ٹیم میں خوداعتمادی ہے، جس وجہ سے وہ کھل کر بات کرتے ہیں، جو گذشتہ حکومتوں میں ممکن نہیں تھا، کیا کہیں گے؟
شاہد خاقان عباسی:
خوداعتمادی کہیں یا آزادی کہیں، لیکن کچھ لوگوں کو موجودہ حکومت کی ناکامی اور نااہلی کا شدت سے احساس بھی ہو رہا ہے، ڈاکٹر فرخ سلیم نے معیشت سے متعلق خطرناک باتیں کی ہیں، معاشی امور پر انہوں نے جو کہا وہ انتہائی غیرمعمولی باتیں ہیں، حکومت معاشی مسائل کو حل نہیں کر رہی، حکومت جھوٹ بول رہی ہے، اضافی قرضے لیے جا رہے ہیں۔ اندر سے حکومت کی پالیسی کو چیلنج کیا جا رہا ہے اور تنقید بھی ہو رہی ہے، خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے، ہم فرخ سلیم کی بات پر یقین کریں یا وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات کے بیان پر یقین کریں۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے، کچھ اور سوچنے کی ضرورت ہے، اگر خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں تو سب کو تشویش ہونی چاہیے، ایسے غیرمعمولی حالات کبھی پاکستان میں پیدا نہیں ہوئے، زرمبادلہ کے ذخائر دس سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ اس حکومت میں اکثر لوگوں کو پتا نہیں ہوتا کہ ان کا کیا کام ہے، عمران خان بھی اکثر بھول جاتے ہیں کہ وہ وزیراعظم ہیں۔ نوبت یہاں تک آئی ہے کہ حکومتی ترجمان خود ہی تنقید کر رہا ہے، ایسا گزشتہ 32 سال میں نے دیکھا گیا۔

اسلام ٹائمز: آپ پر یہ الزام ہے کہ آپ نے پی آئی اے جیسے اداروں کو تباہ کیا، لیکن پبلک اکاونٹس کمیٹی آپ کو طلب کرنے کی بجائے نئے وزراء کو بلا کر پوچھ رہی ہے کہ وہ حساب دیں، کیا یہ درست ہے؟
شاہد خاقان عباسی:
موجودہ حکومت کے وزراء اب بھی جیب میں پستول لے کر پھرتے ہیں، انہین کیا معلوم کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں سیکرٹری کو پیش ہونا ہوتا ہے۔ میں ڈھائی سال پی آئی اے میں رہا ہوں، ریکارڈ دیکھ لیں، اب بھی جب کمیٹی بلائے گی یا عدالت حاضر ہو جاؤں گا، ایئر بلیو 2004ء میں بنائی، لیکن میں اب اس کا مالک نہیں ہوں، میرا 5 سال سے ایئر بلیو کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ کمپنی اب بھی موجود ہے اور ٹیکس دے رہی ہے۔ اب اگر اصول کی بات کر رہے ہیں تو میں رزاق داؤد کو 20 سال سے جانتا ہوں وہ ایک باوقار شخص ہیں۔ مہمند ڈیم کی بنیاد نواز شریف حکومت نے رکھی اور عبدالرزاق داؤد نے مہمند ڈیم کے لیے بھی بولی لگائی تھی، جسے ہماری حکومت نے قبول کیا تھا۔ رزاق داؤد اب سیاست میں ہیں، فیصلہ انہیں کرنا ہے، وہ خود وضاحت کریں کہ حکومت میں رہتے ہیں یا اس بولی سے نکلتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ دونوں اپوزیشن جماعتیں اپنی بقاء اور احتساب سے بچنے کیلئے باہم شیر و شکر ہو رہی ہیں، لیکن نعرے اٹھارویں ترمیم اور آئین کی حفاظت کا لگا رہے ہیں، کیا احتسابی عمل سبوتاژ ہونا چاہیے؟
شاہد خاقان عباسی:
یہ ایک حقیقت ہے کہ احتساب کے نام پر اپوزیشن کو انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جہاں تک آئین کا تعلق ہے، انہوں ابھی تک ایک بل تک پاس نہیں کروایا، نہ ہی یہ آئین اور دستور کی اہمیت کو سمجھتے ہیں، 18ویں ترمیم کے حوالے سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں باقاعدہ طور پر بحث ہوئی تھی، پارلیمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے بحث کی گئی۔ تمام مسائل کوحل کیا جاسکتا ہے مگر یہاں مقصد 18ویں ترمیم کو ختم کرنا ہے، ملک دو بار صوبائی خودمختاری کی وجہ سے تقسیم ہوا، ایک بار 47ء میں اور ایک بار 71ء میں۔ مشترکہ مفادات کونسل کا مقصد صوبوں کے درمیان مسائل کو حل کرنا ہے، اس لئے تمام مسائل کے حل کے لئے کونسل کو استعمال کرنا چاہئے۔ 18ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے، کیوں کہ تمام صوبے اپنے علاقے کی ترقی کے لئے جواب دہ ہیں۔ حکومت گورننس کرنے کے طریقہ کار سمجھنے سے قاصر نظر آ رہی ہے۔

بعض حلقوں کی جانب سے عمران خان کے نئے پاکستان سے امید کی جا رہی تھی کہ محرومیوں زدہ علاقوں کا خیال رکھا جائے گا تاہم ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومت عوام کی توقعات پر پوری نہیں اترسکی، ان میں حکومت چلانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، حکمراں الزام تراشیاں کر کے نظام چلا رہے ہیں۔ ایک وزیراعظم کو احتساب کے نام پر نکال دیا گیا، کروڑوں ووٹ چوری کرنے والوں کا حساب کب ہو گا؟ تمام سنجیدہ طبقات کو کرپشن اور اس کے خلاف جاری کارروائیوں پر تشویش ہے۔ آج وفاق خطرے میں ہے، آج چھوٹے صوبے ٹھیکیداروں کے طرز سیاست سے نالاں ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم پر کھلے عام حملے کیے جا رہے ہیں، آج آئین کی بالادستی، انسانی حقوق پر بات کرنیوالوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔  کوئی بھی غیر منتخب شخص دو تہائی اکثریت سے منظور آئین کو ختم نہیں کرسکتا۔

اسلام ٹائمز: احتسابی عمل جو پانامہ کیس سے شروع ہوا، اسکی مکمل نگرانی تو اعلیٰ عدلیہ کر رہی ہے، پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ یک طرفہ ہے؟
شاہد خاقان عباسی:
آب خود دیکھ لیں پچھلے کچھ دنوں سے کیسز بند ہونا شروع ہوگئے ہیں اور کونسے سے کیس بند ہوئے ہیں، جن میں شامل عناصر پر ہاتھ نہیں ڈالا جاسکتا، سیاستدان پر ہاتھ ڈالنا آسان ہوتا ہے۔ پاکستان میں نئے چیف جسٹس کی تقرری کی منظوری کے بعد کئی حلقوں میں یہ بحث ایک بار پھر چھڑ گئی ہے کہ عدالتوں میں زیر التوا لاکھوں مقدمات کا مستقبل کیا ہے، کئی یہ ایک سوال ہے، جو بالکل درست بات ہے کہ نئے چیف جسٹس کی تقرری کی منظوری کے بعد عدالتوں میں زیر التواء لاکھوں مقدمات کا مستقبل کیا ہے اور اس تاخیر کا ذمہ دار کون ہے؟۔ پارلیمان میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں تین لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں، وہ کیوں ہیں، نچلی عدالتوں کے زیر التواء مقدمات کو ملا لیا جائے تو ایسے مقدمات کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔ یہ جو جے آئی ٹی کا سہارا لیا جا رہا ہے، یہ صرف سیاستدانوں کیخلاف ایک پھندا بنایا جاتا ہے، کہ جس کو چاہیں لٹکا دیں، نہ صرف ادارے تباہ ہو رہے ہیں بلکہ ملک بھی بدنام ہو رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: شیخ رشید نے کہا ہے کہ شہباز شریف کو پی اے سی چیئرمین بنانا آئین و قانون کے منافی ہے، اگر اپوزیشن لیڈر کیخلاف مقدمات ہیں تو انہیں اس عہدے سے دستبردار نہیں ہو جانا چاہیے تھا؟
شاہد خاقان عباسی:
شیخ رشید کے جدوجہد کے نام پر بنائے گئے ٹریننگ کیمپ کے ثبوت موجود ہیں، جسے انہوں نے جوئے کے اڈے کے طور پر چلایا اور اس طرح کشمیر کاز اور کشمیریوں سے غداری کی۔ شیخ رشید اس ٹریننگ کیمپ کے ذریعے لوگوں سے بھتہ بھی لیتے رہے، انہوں نے تمام جائیداد جوئے، بھتے اور حرام کی کمائی سے بنائی اور حرام کی کمائی سے اپنے بھائیوں اور بھتیجوں کے نام پر کاروبار کیا۔ شیخ رشید فطرتاً جھوٹا اور فراڈیا ہے۔ شیخ رشید نے وزارت میں پہلے بھی کرپشن کی اور اب بھی کرپشن کر رہے ہیں، اس معزز ایوان میں ان کا موجود ہونا ایوان کی توہین ہے۔ شیخ رشید نے ہر عزت دار شخص کو ڈسا ہے،  یہ جس کے ساتھ رہا بعد میں اس کے خلاف گھٹیا گفتگو کی۔ شیخ رشید نے ساری زندگی ڈکٹیٹروں کے تلوے چاٹ کر سیاست کی، گھٹیا گفت گو کرے گا تو ایسا ہی جواب ملے گا۔ شیخ رشید کو تکلیف ہوتی ہے، تو اپنی زبان کنٹرول کرے، ہم کب تک خاموش رہیں گے، اپنے حلقے میں جاتے ہیں تو لوگوں کا تقاضا ہوتا ہے کہ اسے جواب دیں۔

نیب اور حکومت دونوں مل گئے ہیں، دونوں کی پالیسیاں ملکی معیشت کی تباہی کی ذمہ دار ہیں، پاکستان کو موجودہ صورتحال تک پہنچانے میں پرویز مشرف جیسے آمروں نے بھی حصہ ڈالا ہے۔ تحریک انصاف خود اپنے اور دوسروں کیلئے بحران پیدا کرتی ہے، عمران خان اور شیخ رشید کا قبلہ ایک ہے، شیخ رشید تحریک انصاف سے زیادہ عمران خان کے قریب ہیں اور شیخ رشید کو پارٹی کے لوگوں سے زیادہ اہمیت ملتی رہی ہے۔ اگر شیخ رشید واقعی شہباز شریف کے چیئرمین پی اے سی بننے کو سنجیدہ مسئلہ سمجھتے ہیں تو عدالت جانے کی بجائے عمران خان سے کہہ کر یہ فیصلہ واپس کروا دیں اور اگر عمران خان یہ فیصلہ واپس نہیں لیتے تو کابینہ چھوڑ دیں، وہ عدالت کا وقت کیوں ضائع کرتے ہیں؟۔ ملک میں انصاف اور احتساب کے نام پر انتقام ہورہا ہے جو زیادہ دیر نہیں چلے گا، یہ وقت بدلے اور بہت جلد بدلے گا، ہمارے ہاتھ صاف ہیں، ضمیر مطمئن ہے۔ سابق وزیر اعظم نوازشریف پر مقدمات بنتے رہے ہیں اور بنا ئے جاتے رہیں گے، کیسوں سے بری ہوجائیں گے، ہمیں خوشی اس وقت ہوتی جب اصغرخان کیس میں پیسے دینے والوں کے خلاف کارروائی ہوتی، یہ وہ لوگ ہیں جن سے پیسے لے لیں تب بھی آدمی پھنس جاتا ہے اور نہ لیں تو تب بھی پھنس جاتے ہیں۔ نواز شریف کے حوصلے بلند ہیں اور انہیں پوری توقع ہے کہ وہ جس طرح ماضی میں ہائی جیکنگ کے کیس سے بری ہوگئے تھے، اسی طرح پاناما اور منی لانڈرنگ کے کیسوں سے جلد یا بدیر بری ہوجائیں گے۔

یہ سول آمریت ہی نہیں بلکہ آمریت کی بدترین شکل ہے۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے اس وقت پاکستان کو سو بلین ڈالر سے زیادہ نقصان ہوچکا، تحریک انصاف معیشت کو بہت نیچے لے آئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس ملک کو دوچیزیں پوری کرکے دیکر گئی ہے اور وہ بجلی اور گیس ہیں، جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے حوالے سے غیر سنجیدہ رد عمل دکھایا ہے، جس پر کئی افواہیں سامنے آرہی ہیں، اس پر بھی جے آئی ٹی بنائی جائے، خراب معیشت (ن) لیگ کو بھی ملی تھی، لیکن (ن) لیگ نے ملک کی معیشت کو بہتر کیا، لیکن تحریک انصاف کی حکومت ملکی معیشت کو بہت نیچے لے آئی ہے، اب ان ناکامیوں اور کمزوریوں سے توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کی حقیقی قیادت کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور نعرہ احتساب کا لگایا جا رہا ہے۔ حکمراں جماعت کے رہنما اپوزیشن پر ڈیم کو متنازعہ بنانے کا الزام تو لگا رہے ہیں، لیکن اپنے وزیراعظم کے مشیر رزاق داﺅد کو عہدے سے علیحدہ کر کے ڈیم کو متنازعہ بنانے سے نہیں روک رہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اس کنٹریکٹ کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے وزیراعظم آفس، چیئرمین نیب، سپریم کورٹ اور چیئرمین پی اے سی کو خط لکھا ہے، اس معاملے پر اگر کسی ادارے نے نوٹس نہ لیا تو چیئرمین پی اے سی شہباز شریف اس معاملے پر لازمی طور پر نوٹس لیں گے، یہ انکی آئینی ذمہ داری ہے۔
 
اسلام ٹائمز: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے خواہشمند اور عمران خان سے ملاقات کے منتظر ہیں، آپ کیا کہیں گے؟
شاہد خاقان عباسی:
اگر امریکا، پاکستان کی اہمیت کو سمجھ کر آگے بڑھے تو معاملات مزید بہتری کی طرف جائیں گے۔ پاکستان کا امن افغانستان سے جڑا ہوا ہے اور افغانستان میں استحکام کے تناظر میں امریکہ کا کردار اہم ترین ہے۔ امریکا سے تعلقات میں بہتری خطے کے استحکام کے لیے اہم ہے۔ پاکستان کو افغان جنگ کے اثرات جھیلنا پڑے، اگر امریکا یہ بات سامنے رکھ کر آگے بڑھے تو معاملات مزید بہتری کی طرف جائیں گے۔ لیکن ایک افسوسناک بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں دہشت گردی کے خلاف اقدامات سرد خانے کی نذر ہیں۔  اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں، دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہمدردوں و سہولت کاروں کا بھی صفایا کیا جائے۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے، دہشت گردی کے خلاف اقدامات سرد خانے کی نذر ہیں، ضروت اس امر کی ہے موجودہ وزیراعظم دہشت گردوں سے متعلق اپنے نظریات و مؤقف سے یوٹرن لیں۔ ورنہ پاکستان اپنے مقاصد کے حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 770077
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش