1
0
Friday 4 Jan 2019 15:33

گلگت بلتستان کیلئے 2019ء فیصلہ کن سال، آئینی حقوق لیکر رہینگے، ڈاکٹر محمد اقبال

ماضی کیطرح اس سال کو بھی وعدوں، طفل تسلیوں اور کمیٹیوں کی نذر نہیں ہونے دینگے
گلگت بلتستان کیلئے 2019ء فیصلہ کن سال، آئینی حقوق لیکر رہینگے، ڈاکٹر محمد اقبال
ڈاکٹر محمد اقبال گلگت بلتستان کے وزیر تعمیرات ہیں، انکا تعلق گلگت سے ہے، پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، ملائشیا میں دس سال تک خدمات انجام دیتے رہے، بعد میں مسلم لیگ نون کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا تو 2015ء کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور صوبائی حکومت میں وزیر قانون اور بعد میں وزیر تعمیرات بن گئے۔ اسوقت وہ دیگر کئی ممبران اسمبلی سے ملکر پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے اور لانگ مارچ کی تیاریاں کر رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے ڈاکٹر اقبال سے احتجاجی پروگرام اور خطے کی مجموعی صورتحال پر گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پارٹی پالیسی کے برعکس آپ نے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا، آئینی حقوق کی تحریک سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں، کتنے اراکین اسمبلی ساتھ ہونگے۔؟
ڈاکٹر محمد اقبال: 2019ء گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کیلئے فیصلہ کن سال ہوگا، کم از کم 15 اراکین اسمبلی ہمارے ساتھ ہونگے، ممبران کی سطح پر مشاورت جاری ہے، جس کے تحت پہلے عوامی سطح پر آگاہی مہم شروع کی جائے گی، فیصلہ کن تحریک کا آغاز کرنے جا رہے ہیں، ہم میدان میں آئے ہیں اس مسئلے کو حل کرکے ہی رہیں گے۔ حکمرانوں کے پاس سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کا بہترین موقع ہے کہ ان پر عمل کرکے مسئلے کو مزید پیچیدہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے، جب عوام اٹھیں گے تو عبوری آئینی صوبے سے بھی کام نہیں چلے گا، اس وقت حکومت پاکستان کو ہاں یا ناں میں جواب دینا ہوگا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں یا نہیں؟

احتجاجی پروگرام کے حوالے سے رابطہ مہم کیلئے رکن اسمبلی جاوید حسین کو کوارڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے، وہ اراکین اسمبلی سے رابطہ کریں گے اور انہیں ایک ٹیبل پر اکٹھا کریں گے، ستر سال کا عرصہ گزر گیا، ہم بنیادی انسانی حقوق سے محروم چلے آرہے ہیں، ہمارے آباو اجداد نے جس مقصد کیلئے قربانیاں دی تھیں، وہ ابھی تک ادھورے ہیں، مگر ہر سال کی طرح یہ سال بھی صرف وعدوں، طفل تسلیوں اور کمیٹیوں کی نذر نہیں ہونے دینگے، نہ ہی آرڈر اور پیکج سے اس قوم کو بہلایا جاسکے گا، منتخب نمائندے، سیاسی پارٹیاں اور طلباء تنظیمیں ہر قسم کی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر مل کر جدوجہد کرینگے اور ان شاء اللہ قوم متحد ہوگی تو منزل بھی آسان ہوگی۔ عوامی نمائندوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم آگے آگے ہونگے، ہمارے پیچھے عوام ہونگے۔

اسلام ٹائمز: وفاق ممکنہ نئے آرڈر کے ذریعے بنیادی اختیارات منتقل کرتا ہے تو اس صورت میں عوام کیلئے کس حد تک قابل قبول ہوگا کیونکہ آرڈر تو آپکی اپنی پارٹی نون لیگ کی حکومت نے بھی جاری کیا تھا۔؟
ڈاکٹر محمد اقبال: دیکھیں ہم تمام سیاسی جماعتوں بشمول اپنی پارٹی نون لیگ سے مایوس ہوچکے ہیں، وفاق میں جو پارٹی حکومت میں آتی ہے، وہ ہر دفعہ نیا نام دے کر آرڈر جاری کرتی ہے، میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے کسی آرڈر، پیکج یا مسئلہ کشمیر کیلئے قربانی نہیں دی تھی، عوام نے اس خطے کو پاکستان میں شامل ہونے کیلئے آزاد کرایا تھا، اس لئے اب ہم کسی آرڈر یا پیکج چاہے وہ جس شکل میں بھی ہو یا جو بھی نام دیدیں، ہرگز قبول نہیں کرینگے۔ ہمارا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنایا جائے، اس سے کم منظور نہیں ہے۔ ہمارا بنیادی مطالبہ پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے، آئینی صوبے سے کم کوئی بھی سیٹ اپ قبول نہیں کرینگے، سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے مطابق سینیٹ اور قومی اسمبلی میں تین تین نشستیں دی جائیں، پارلیمنٹ میں نمائندگی کا مطالبہ اس لئے کر رہے ہیں کہ جب تک ہماری آواز پارلیمنٹ کے اندر نہیں پہنچے گی، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان اور فاٹا کو بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل ہے، ان کی اہمیت گلگت بلتستان سے کہیں زیادہ ہے، بلوچستان جتنا پسماندہ کیوں نہ ہو، وہاں سے چیئرمین سینیٹ بن سکتا ہے، وزیراعظم بھی بن سکتا ہے، حکومت سازی میں ان کا بنیادی کردار ہے، لیکن ہمارا کوئی کردار نہیں۔

بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں نمائندگی ضروری ہے، چاہے تعداد میں کم ہی کیوں نہ ہو، ایک رکن اسمبلی یا سینیٹ کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ جب تک جی بی کو قومی دھارے میں شامل نہیں کیا جاتا، بنیادی حقوق جیسے قومی اسمبلی، سینیٹ میں نمائندگی نہیں دی جاتی، ہمارے آبا و اجداد کی جانب سے ملک پاکستان کیلئے دی گئی قربانیوں کا کوئی صلہ نہیں ملے گا۔ گلگت بلتستان کے نوے فیصد سے زائد لوگ پاکستان میں ضم ہونا چاہتے ہیں، اسی لئے جب تک ہمیں پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ملے گی، عوام میں احساس محرومی بڑھتا جائے گا، خصوصاً نوجوانوں میں بے چینی کی لہر مزید بڑھ جائے گی۔ اسی احساس محرومی کو بنیاد بنا کر ہمارا دشمن پاکستان مخالف جذبات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا، ہم نہیں چاہتے کہ ایسے حالات پیدا ہوں، چاہتے ہیں کہ فیصلہ ساز ادارے صورتحال کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے ایک مرتبہ ہی سہی عوامی کو ان کی خواہشات کے مطابق ان کا حق دیں۔

اسلام ٹائمز: آئینی حقوق کی تحریک میں آپکی اپنی پارٹی کے اندر بھی کوئی مشاورت ہوئی ہے؟ کیا وزیراعلیٰ کو اعتماد میں لیا گیا ہے؟ احتجاج میں اپوزیشن کیساتھ حکومت کے کتنے ممبران ساتھ ہونگے۔؟
ڈاکٹر محمد اقبال:
آپ کو معلوم ہے کہ قانون ساز اسمبلی نے کئی مرتبہ متفقہ قراردادوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں نمائندگی کا مطالبہ کیا، پھر مسلم لیگ نون کی حکومت آئی تو آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی، اے پی سی نے بھی پارلیمنٹ میں نمائندگی کا مطالبہ کیا، عوام کا منتخب نمائندہ ہونے کے ناتے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان مطالبات کو لے کر آگے بڑھیں اور ارباب اختیار تک پہنچائیں، لیکن جہاں تک وزیراعلیٰ کا تعلق ہے، وہ بلحاظ منصب خود سے کچھ نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ ایک صوبے کے سربراہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ احتجاج اور مظاہرے ان کا کام نہیں، یہ ہمارا کام ہے، تاہم وزیراعلیٰ کی مشاورت ضرورت شامل ہوگی، مجھے یقین ہے کہ وہ بھی ہماری اس تحریک کو بھرپور سپورٹ کرینگے۔ یہ معاملہ کسی ایک فرد یا پارٹی کا نہیں، یہ گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کو مشترکہ مسئلہ ہے، اس لئے ہر ایک کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوتا جا رہا ہے، ارباب اقتدار کو چاہیئے کہ وہ کسی بھی عوامی ردعمل سے پہلے ہی مطالبات منطور کرلیں، یہ مسئلہ ہر صورت حل ہونا ضروری ہے، ہم عوام سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اب اٹھیں اور مل کر جدوجہد کریں، جب فاٹا قومی دھارے میں شامل ہوسکتا ہے تو جی بی کیوں نہیں۔

اسلام ٹائمز: پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی جاوید حسین اجتماعی استعفوں کی دھمکی بھی دے چکے ہیں؟ آپ استعفے کیلئے تیار ہیں۔؟
ڈاکٹر محمد اقبال :
دیکھیں، استعفیٰ دینے سے مسئلہ حل ہوتا ہے تو ہم آج ہی مستعفی ہونے کو تیار ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ آخری آپشن ہونا چاہیئے، اگر ضرورت محسوس ہوئی تو مستعفی ہونے میں دیر نہیں لگائیں گے، لیکن پہلے استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو کمزور کرنا نہیں چاہتے، پہلے بحیثیت منتخب نمائندہ بھرپور آواز بلند کرینگے، پھر پروگرام کے مطابق احتجاجی تحریک کو آگے بڑھائیں گے، تاہم جب ہم محسوس کریں گے کہ اب مستعفی ہونے کے علاوہ مسئلے کے حل کیلئے اور کوئی آپشن نہیں تو تقریباً تمام ممبران اسمبلی استعفیٰ دینے کو تیار ہیں۔ ہمارا مطالبہ کوئی غیر قانونی یا پاکستان کیخلاف نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں شامل کیا جائے، اس میں کسی کا نقصان نہیں ہے، یہ ملک کے وسیع تر قومی مفاد میں ہے، لیکن جب حقوق نہیں ملیں گے تو بدامنی، فسادات اور علیحدگی پسند تحریکیں شروع ہوتی ہیں، بلوچستان کی مثال ہمارے سامنے ہے، جب لوگوں میں احساس محرومی بڑھے گا تو لامحالہ حالات خراب ہونا شروع ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: سپریم کورٹ کے فیصلے تک انتظار نہیں ہوسکتا، ہوسکتا ہے گلگت بلتستان کیلئے کوئی تاریخی فیصلہ آجائے اور عوام کی ستر سالہ محرومیاں بھی دور ہوجائیں۔؟
ڈاکٹر محمد اقبال:
وفاقی حکومت ہو یا سپریم کورٹ، سب کے تیور بدل گئے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ چیف جسٹس پہلے بڑی بڑی باتیں کرتے تھے، انہوں نے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کیلئے حکومت کو ڈیڈ لائن بھی دیدی تھی، جس کے بعد وزیراعظم نے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی سفارشات کی حمایت بھی کی تھی، لیکن ایک لابی کے دباؤ پر عمران خان نے راتوں رات یوٹرن لیا، اس کے بعد چیف جسٹس کی باتیں تبدیل ہونا شروع ہوئیں، فیصلے اور رویئے تبدیل ہونا شروع ہوئے۔ ہم نے محسوس کیا کہ یہ لابی بہت طاقتور ہے، کیونکہ یہ لوگ بہت متحد ہیں، ہم نے اس وقت اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا۔ اسی لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ مل کر جدوجہد کرینگے، تاکہ ہم مزید کسی ''کاز'' کے نام پر فٹ بال نہ بن سکیں، یہ کونسا مسئلہ کشمیر ہے، جس کی بنیاد دوسروں کے حقوق دبانے پر قائم ہے، مسئلہ کشمیر ایک بہانے کے سوا کچھ نہیں، یہ رویہ اور بہانہ مزید برداشت نہیں کیا جائیگا، ہم میدان میں آئے ہیں اور آئینی حقوق کے مسئلے کو منطقی انجام تک پہنچا کر دم لیں گے۔

اسلام ٹائمز: سب سے اہم رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس رکاوٹ کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔؟
ڈاکٹر محمد اقبال:
گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان میں شامل ہونے کیلئے آزادی حاصل کی تھی، مسئلہ کشمیر میں شامل ہونے کیلئے نہیں، یہ حکمرانوں کا ایک بہانہ ہے اور بیوروکریسی کی چال بھی۔ بیوروکریسی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن رہی ہے۔ جب بھی گلگت بلتستان سے آواز بلند ہوئی تو یہاں فسادات کرائے گئے، قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، فرقہ واریت کا زہر پھیلایا گیا اور عوام کو تقسیم کیا گیا، لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی کہ آئینی صوبہ بننے سے ایک طبقے کو فائدہ ہوگا، اس طرح لوگ تقسیم ہوگئے، حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ جمہوریت میں لوگوں کو اپنی صلاحتیں منوانے کا موقع ملتا ہے، جس میں صلاحیت ہوگی، وہ آگے جائے گا، چاہے وہ جس طبقے یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو۔ خطے کے عوام نے خود کو تقسیم کرنے کی اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔

ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ تنظیموں کا اثر ختم ہوچکا ہے، اس کی جگہ سیاسی جماعتوں نے لے لی ہے، یہ ایک اچھی پیشرفت ہے، اس کو مزید جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان میں جتنی سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی، وفاق سے رابطہ اور مضبوط ہوگا، وفاق سے جڑے رہنے سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔ اسی لئے جب پارلیمنٹ میں نمائندگی ملے گی تو وفاق اور صوبے کے درمیان مضبوط رابطہ قائم ہوگا، جس سے دشمن کی سازشیں بھی ناکام ہونگی، آئینی حقوق نہ صرف ہمارے مفاد میں ہیں بلکہ پاکستان کے مفاد میں بھی ہیں، ورنہ پاکستان کیلئے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، ایسے وقت میں جب سی پیک کے تناظر میں خطے کی اہمت اور بھی بڑھ گئی ہے، اسی لئے ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور گلگت بلتستان کا رابطہ مضبوط سے مضبوط تر ہو۔
خبر کا کوڈ : 770171
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Soba banana gay
ہماری پیشکش