2
Saturday 5 Jan 2019 17:58
قاتل وہی ہیں جنہوں نے متحدہ کو دھڑوں میں تقسیم کیا

علی رضا عابدی کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے، قاتل گرفتار نہیں ہونگے، سید راشد رضوی

ایک مسنگ پرسن پہ ہائی پروفائل قتل ڈال کر کیس خراب کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے
علی رضا عابدی کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے، قاتل گرفتار نہیں ہونگے، سید راشد رضوی
سید راشد عباس رضوی ایڈووکیٹ شیعہ مسنگ پرسنز تحریک کے کنوینئر ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں سے جبری گمشدہ اہل تشیع مسلمانوں کی بازیابی کیلئے بھرپور آواز اٹھائی اور اس تحریک کے نتیجے میں کئی لاپتہ افراد بازیاب بھی ہوئے۔ اسکے علاوہ سیاست بالخصوص کراچی کی سیاست میں دخیل ہیں۔ حالیہ انتخابات میں انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلی سندھ این اے 254 اور پی ایس 125 سے بیک وقت حصہ لیا۔ سید راشد عباس رضوی پاسبان عزا پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ یہ تنظیم کراچی کی سطح پہ عزاداری کے اجتماعات کے انعقاد کے سلسلے میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔ بنیادی طور پر حیدر آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکی پیدائش اور ابتدائی تعلیم حیدر آباد سے ہے۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔ یہ براہ راست کسی سیاسی یا قومی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے، تاہم پاکستان میں تکفیری گروہوں کی سرگرمیوں کے سامنے بند باندھنے کیلئے قانونی اور اخلاقی جنگ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے تکفیری گروہوں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کی انتخابی سرگرمیوں پہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ علاوہ ازیں وہ کالعدم جماعتیں جو نام بدل کر دوبارہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، انکی سرگرمیوں کیخلاف بھی مسلسل آواز حق بلند کئے ہوئے ہیں۔ کراچی کے ماحول، سیاست، حالات سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس بارے میں اپنا تجزیہ بناء کسی لگی لپٹی کے بیان کرنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ایک طویل نشست کا اہتمام کیا، جس میں تین موضوعات پہ سیرحاصل بات کی گئی، اول شہید علی رضا عابدی کے قتل کے محرکات، دوئم انکے قتل کے الزام میں گرفتار نوجوان کا پس منظر اور سوئم علماء کا دورہ وزیرستان اور نتائج۔ موضوعات کی وسعت اور گفتگو کی طوالت کے باعث یہ انٹروویو دو حصوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اسکا اول حصہ ملاحظہ فرمائیں۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: شہید علی رضا عابدی ایک سیاسی ،مذہبی، سماجی اور انسان دوست شخصیت تھے، آپ انکے قتل کو کس زاویئے سے دیکھتے ہیں۔؟
سید راشد عباس رضوی:
 یہ ضروری ہے کہ شہید علی رضا عابدی قتل کے حوالے سے تمام تر پہلو زیر بحث آئیں، ان پہ بات ہو۔ شہید علی رضا عابدی بھائی انتہائی شائستہ اور وضعدار شخصیت کے مالک تھے۔ وہ کسی کے ساتھ اختلاف بھی کرتے تھے تو اتنی اچھی اور شائستہ زبان استعمال کرتے کہ مخالفین کو بھی ان کا لہجہ برا نہیں لگتا تھا۔ ان کی زبان سے، لہجے سے، ان کی تعلیم، تربیت، مزاج اور ان کے خاندانی اقدار کا پتہ چلتا۔ وہ مدلل گفتگو کرتے اور اپنے پرائے
سبھی کے ساتھ نرمی اور اپنائیت سے بات کرتے تھے۔ جہاں تک ان کے بہیمانہ قتل کا سوال ہے کہ شہید علی رضا عابدی کا قتل کس نے کیا ہے تو اس کے بارے میں مختصراً یہی کہوں گا کہ انہی قوتوں نے شہید علی رضا عابدی کو قتل کیا ہے کہ جنہوں نے ایم کیو ایم کو توڑ کر دھڑوں مین تقسیم کیا تھا۔


شہید علی رضا عابدی ایم کیو ایم کے ان تقسیم شدہ دھڑوں کو ملانے کی کوشش کر رہے تھے اور انہیں ایک کرنا چاہتے تھے اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ وہ یکجا ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں تو انہوں نے استعفٰی دیکر علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس لیے کہ وہ لڑائی جھگڑا اور گروہ بندی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے اور اسے بالکل یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان پہ کیچڑ اچھالے۔ متحدہ سے ان کی علیحدگی کی وجہ ہی یہ گروہ بندی تھی۔ وہ اپنے ٹوئٹس میں اپنے پیغامات میں سب سے زیادہ زور گروہ بندی اور انتشار کے خاتمے پہ لگا رہے تھے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شہید علی رضا عابدی کے قتل کے پیچھے ان طاقتوں کا ہاتھ ہے کہ جو متحدہ قومی موومنٹ کے مختلف دھڑوں کو اکٹھا نہیں دیکھنا چاہتے۔ شہید علی رضا عابدی کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اس قتل میں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی یا کسی تکفیری مسلح گروہ کا ہاتھ ہے۔ پوری دنیا کو جو محسوس ہو رہا ہے، وہ یہی ہے کہ شہید علی رضا عابدی بھائی کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ اس کیلئے میں دلیل یہ دوں گا کہ قتل سے تین چار روز قبل انہیں جو دھمکی آمیز کالز موصول ہو رہی تھیں، یہ دھمکیاں اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے تھیں۔

اسلام ٹائمز: جو موقف آپ بیان کر رہے ہیں کیا یہ ملک و سماج دشمن عناصر کیلئے باعث تقویت نہیں ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
یہ بات درست ہے کہ علی رضا عابدی بھائی کے قتل کے عنوان سے جو سوال اٹھ رہے ہیں، وہ ملک و سماج دشمن عناصر کیلئے باعث تقویت ہیں۔ اندرونی و داخلی انتشار کا فائدہ ہمیشہ بیرونی دشمن کو ہی ملتا ہے، مگر اس سے نبٹنے کیلئے بھی تو تینوں طاقتوں کو سوچ وچار کے ساتھ اس مسئلہ کو حل کرنا ہوگا کہ جس کی وجہ سے عوام کی جانب سے اداروں پہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ چاہے وہ ریاستی ادارے ہوں یا حکمران۔ حکومت اور اداروں کو چاہیئے کہ ان لوگوں کو انصاف فراہم کریں کہ جو اپنے حق کیلئے آواز بلند کر رہے ہیں نہ کہ ان آوازوں کو کچلیں اور انہیں دبائیں، نہ ہی اس طرز عمل کو پاکستان کے شہری پسند کرتے ہیں اور نہ ہی دنیا بھر میں انسانی حقوق کے ادارے اس کو نظرانداز کرتے ہیں۔ کوئی شخص اگر اپنی قوم کی، اپنے لوگوں کی احساس محرومی کا تذکرہ کرتا ہے تو بنیادی طور پر اس
خرابی کی نشاندہی کر رہا ہوتا ہے کہ جو ریاست اور اس کے شہریوں کیلئے حال یا مستقبل میں خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔


ریاست کے اداروں کو یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان کے جو شہری ہیں، ان کے اپنے ہیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کے اپنے حقوق ہیں اور یہ وہ حقوق ہیں کہ جو انہیں آئین و قانون نے دیئے ہیں۔ ان کے حقوق سلب کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہ ہے اور نہ ہی ہونا چاہیئے۔ طاقت کے ذریعے کسی بھی آواز کو کچلنا انتہائی نامناسب ہے۔ کسی قوم کے ساتھ ناجائز زیادتی ہو رہی ہے، ان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تو اسے حل کرنا چاہیئے، ان شکایات کا ازالہ کرنا چاہیئے۔ بجائے اس کے کہ شکایت کرنے والے کی آواز کو ہی دبا دیا جائے۔ اس آواز کو ہی کچل دیا جائے تو اس کی اجازت آئین و قانون تو نہیں دیتا، اس خلاف قانون و انصاف عمل کی کوئی بھی توجہیہ قابل قبول نہیں ہوسکتی۔

اسلام ٹائمز: فیصل رضا عابدی صاحب کی اسارت کو بھی اسی تناظر میں شمار کرتے ہیں۔؟
سید راشد عباس رضوی:
آپ دیکھ لیں کہ فیصل رضا عابدی کا جرم کیا تھا۔ یہی کہ انہوں نے حق سچ کی آواز بلند کی۔ شکایت ہی کی ہے نا۔ دہرے معیار، دہرے رویوں اور دہرے کردار کی۔ شکایت پہ تو بحث بعد کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ شکایت کا حل، اس کا ازالہ کرنا ہے یا اس زبان کو خاموش کرا دینا کہ جو شکایت کرے۔ فیصل رضا عابدی پہ مقدمات قائم کر دیئے۔ ان میں دہشتگردی کی دفعات شامل کر دیں، یہاں تک کہ اسے معافی مانگنے پہ مجبور کیا، کس بات کی معافی۔؟ شکایت کرنے کی معافی۔ اس معافی کے بعد آپ نے اسے رہا تو کر دیا، مگر کیا اس معافی والے طرز عمل کو عوام نے پسند کیا۔؟ بالکل نہیں کیا۔ اس عمل سے آپ نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام کو پیغام کیا دیا ہے۔ ان کی گرفتاری، مقدمات پھر معافی کے بعد رہائی، ہر عمل سے عوام تک منفی پیغام گیا ہے۔ یعنی کلیہ یہ سمجھایا ہے آپ نے کہ جو آواز اٹھے، اسے جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر، الجھا کر جھکایا جائے۔ جس پہ مقدمات قائم نہ ہوسکیں تو اسے نامعلوم افراد کے ذریعے قتل و غارت گری کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح کے کسی بھی عمل کو کہ چاہے وہ اسیری کا عمل ہو یا قتل و غارت گری کا، اسے پاکستان کا شہری اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ رہا ہے۔ ان مسائل کو عدلیہ اور ریاستی اداروں کو مل کر حل کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس کا حتماً فائدہ ملک دشمن، سماج دشمن بیرونی و اندرونی عناصر اٹھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: شہید علی رضا عابدی کے قتل کا سیاسی فائدہ کس جماعت نے اٹھایا ہے اور سیاسی خسارے میں کونسی پارٹی رہی۔؟
سید راشد عباس رضوی:
شہید علی رضا
عابدی کی شہادت کا سب سے زیادہ نقصان ان کی اپنی جماعت ایم کیو ایم کو پہنچا ہے۔ وہ پہلے ہی ٹکڑوں کا شکار ہے، پارٹی میں علی رضا عابدی جیسے پڑھے لکھے اور مثبت سوچ والے سیاستدان جو کہ ایم کیو ایم کے دھڑوں کو پھر سے جوڑنے کی کوشش کر رہے تھے، وہ بھی بددل ہوکر خاموش ہوکر اپنے گھر بیٹھ جائے گا۔ ایم کیو ایم کے اپنے کارکن اور اس جماعت سے تعلق رکھنے والے عوام بھی اپنے لیڈرز کے اس طرح کے قتل دیکھنے کے بعد اپنے گھر میں خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گے۔ چاہے وہ ڈر و خوف کی وجہ سے گھر بیٹھیں یا کسی اور وجہ سے۔ اس قتل کا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچا ہے، جتنی ہی متحدہ کمزور ہوگی، اتنا ہی فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچے گا۔ متحدہ کی گروہ بندی کا نقصان متحدہ کو پہنچا ہے اور اس گروہ بندی کا فائدہ پی ٹی آئی نے اٹھایا ہے۔ پی ٹی آئی کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ متحدہ مضبوط ہو اور کراچی میں دوبارہ سے اپنا مینڈیٹ حاصل کرلے۔ اس کی خواہش ہے کہ یہ جماعت اسی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہے، متحدہ کا ہی مینڈیٹ چھین کر پی ٹی آئی نے کراچی سے 14 سیٹیں حاصل کی ہیں۔


اگر یہ سیٹیں پی ٹی آئی نہ لیتی تو اس کی حکومت نہیں بن سکتی تھی اور نہ ہی عمران خان وزیراعظم بن سکتے تھے۔ انہی سیٹوں نے حکومت سازی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک منظم سازش کے تحت متحدہ کے دھڑے کرائے گئے۔ متحدہ کے اپنے اندر کمانڈ اینڈ کنٹرول کی بے حد خطائیں اور کمزوریاں ہیں۔ ان کے اپنے دہشتگرد بے لگام ہوگئے تھے۔ لوٹ مار، بھتہ خوری، قتل و غارت ،انہوں نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ سب سے زیادہ قصور متحدہ کا اپنا ہے۔ نہ یہ موقع دیتے نہ ان کے خلاف آپریشن ہوتا۔ پی ٹی آئی کے نامزد کردہ گورنر سندھ نے واضح کہا ہے کہ ہماری ذمہ داری نہیں ہے علی رضا عابدی بھائی کے قاتلوں کو گرفتار کرنا بلکہ یہ ذمہ داری سندھ گورنمنٹ کی ہے۔ صوبائی حکومت وفاق پہ ذمہ داری ڈال رہی ہے اور وفاقی حکومت سندھ حکومت پہ ڈال رہی ہے حالانکہ سبھی کی ذمہ داری ہے، دوسروں کے کندھوں پہ ذمہ داری ڈالنا انتہائی نامناسب عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: شہید علی رضا عابدی کے قتل کے الزام میں کسے گرفتار کیا گیا ہے۔؟ اس گرفتاری کا پس منظر کیا ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
علی رضا عابدی کے قتل سے متعلق بول ٹی وی نے ایک باقاعدہ ویڈیو رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں نام لیکر کہا گیا ہے کہ عباس چھوٹو نام کے بندے کو ائیرپورٹ سے گرفتار کیا گیا ہے، جو کہ شہید علی رضا عابدی بھائی کے قتل میں ملوث ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس لڑکے کا نام عباس چھوٹو نہیں بلکہ عباس ہے۔ میڈیا پہ اس سے متعلق کیا کیا جھوٹ بولا
گیا، بلکہ میڈیا سے کہلوایا گیا ہے، کیونکہ میڈیا کو نہیں پتہ کہ عباس چھوٹو کون ہے، کہاں سے گرفتار ہوا اور کس جرم میں گرفتار ہوا۔ ظاہر ہے کہ جو رپورٹ میڈیا کو جاری کی گئی، وہی اس نے نشر کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ شیعہ مسنگ پرسنز کا کیس ہے۔ یہ لڑکا دبئی میں نوکری کرتا تھا، اسٹیٹ ایجنسی میں۔ دو سال میں دو سے تین مرتبہ یہ لڑکا پاکستان آیا۔ بیس سال عمر ہے اس کی۔ تین مہینے پہلے رینجرز نے اسے کراچی ائیر پورٹ سے گرفتار کیا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ ائیر پورٹ پہ اس لڑکے کی فیملی بھی موجود تھی جو کہ اس کے استقبال کیلئے آئی تھی ائیرپورٹ پہ، رینجرز نے شناخت کرکے بتایا تھا کہ ہم اسے تحقیقات کیلئے لے جا رہے ہیں۔ اگر یہ بے گناہ ہوا تو ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ اس لڑکے کی فیملی نے اس گرفتاری میں مزاحمت کی کوشش کی تو ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی۔ ویگو گاڑیوں میں باوردی اہلکار اسے لیکر گئے۔ بعد میں ان کی فیملی نے ہمارے ساتھ رابطہ کیا۔


اسلام ٹائمز: عباس کی فیملی نے آپ سے رابطہ کس بنیاد پہ کیا اور عباس کی بازیابی کیلئے قانونی سطح پہ کیا کوششیں ہوئیں۔؟
سید راشد عباس رضوی:
میں مسنگ پرسنز ریلیز کمیٹی کا کنونیئر ہوں۔ عباس کی فیملی کی جانب سے رابطہ کئے جانے کے بعد ہم نے نیشنل ہیومن رائٹس حکومت پاکستان جو کہ انسانی حقوق کا حکومتی ادارہ ہے، وہاں رپورٹ کی۔ عباس کی فیملی نے اس کی گرفتاری کی رپورٹ ایک مہینے کے اندر داخل کر دی تھی۔ دو مہینے پہلے سے عباس کا کیس ہیومن رئٹس کمیشن میں باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ دو مہینے پہلے عباس کے اغوا کی رپورٹ تھانے میں درج ہے، ظاہر ہے انہوں نے ایف آئی آر تو نہیں کاٹی، مگر باقاعدہ درخواست جمع کرائی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کورٹ میں جبری اغوا کی پٹیشن بھی دائر کی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بول ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ وہ جعلی پاسپورٹ پہ سفر کر رہا تھا اور ساؤتھ افریقہ گروپ سے اس کا تعلق ہے، قتل و غارت گری میں ملوث تھا۔

بول ٹی وی نے اپنی رپورٹ میں سراسر جھوٹ بولا ہے۔ عباس کے پاسپورٹ کی کاپی ہم نے سوشل میڈیا پہ جاری کر دی ہے۔ عباس کا کوئی غیر ملکی پاسپورٹ نہیں ہے۔ اس نے کبھی ساؤتھ افریقہ کا سفر نہیں کیا۔ اس کے علاوہ متحدہ کے کسی دھڑے سے اس کا کبھی بھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ شہید علی رضا عابدی بھائی کے قتل کیس کو جان بوجھ کر خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کیس سے ذہن ہٹانے کی باقاعدہ پلاننگ کی گئی ہے۔ ایک شیعہ کے قتل کا کیس دوسرے لاپتہ شیعہ پہ ڈال معاملہ لپیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب اس کیس کا چلان عدالت میں پیش ہوگا تو
عباس کی فیملی نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ تمام ثبوتوں کے ساتھ پریس کانفرنس کرکے عوام کے سامنے اپنا کیس رکھیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنے دامن کے داغ کو دھونے کیلئے شہید علی رضا عابدی بھائی قتل کا کیس خراب کر رہی ہے۔ 


اسلام ٹائمز: شہید علی رضا عابدی مسنگ پرسنز کے معاملے پہ کیا موقف رکھتے تھے۔؟ 
سید راشد عباس رضوی:
انہوں نے ہمیشہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کیلئے آواز بلند کی ہے اور صرف شیعہ مسنگ پرسنز کیلئے ہی آواز بلند نہیں بلکہ متحدہ جو کہ کبھی بھی اپنے کسی لاپتہ کارکن یا عہدیدار کی بازیابی کیلئے کھل کر سامنے نہیں آسکی، شہید علی رضا عابدی بھائی نے متحدہ کے مسنگ پرسنز کیلئے بھی آواز بلند کی۔ شیعہ مسنگ پرسنز کیلئے نو محرم کا جو احتجاج تھا، تو وہ متاثرہ فیملیز سے ملاقات کیلئے آئے تھے۔ میرے ساتھ انہوں نے میڈیا کے سامنے باقاعدہ بیان بھی جاری کیا اور پھر ہماری درخواست پہ پارلیمنٹ میں بھی اس ایشو کو اٹھایا۔ وہ ویڈیو ریکارڈ پہ ہے۔ انہوں نے صاف کہا کہ کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو عدالتوں میں پیش کریں، عدالتیں فیصلہ کریں گی، مجرم و ملزم ہونے کا۔ شہید علی رضا ہمیشہ مظلوم کے حق میں بولے۔ جب بھی شیعہ مسنگ پرسنز کی بات ہوئی تو انہوں نے سبھی مسنگ پرسنز کی بازیابی کی بات کی۔ ہمارا بھی یہی معاملہ ہے کہ ہم بھی فقط شیعہ مسنگ پرسنز کی بات نہیں کرتے بلکہ ان تمام پاکستانیوں کی بات کرتے ہیں، جو کسی کی بھی جبری تحویل میں ہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت اور اداروں کے کونسے اقدامات آپ کیلئے قابل اطمینان ہونگے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
ان کے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے اقدامات سست اور ناقص دکھائی دے رہے ہیں۔ ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹی کے ہر سگنل پہ کیمرے لگے ہیں۔ کہیں کی بھی ویڈیوز سامنے نہیں آئی ہیں، قتل کی جو ویڈیو جاری ہوئی ہے، وہ بھی گھر کے نجی کیمرے کی ہے۔ آخر ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹی کے اپنے کیمروں کی ویڈیوز کہاں ہیں، جگہ جگہ گارڈز کی گھومتی موبائلز میں سے کسی نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ جیو فینسنگ یا شہید علی رضا عابدی بھائی کے وائس میسج کہ جس میں وہ دھمکی دینے والوں کے متعلق بات کر رہے ہیں۔تو ان چیزوں کو شامل نہ کرنا اور تین ماہ پہلے کے مسنگ پرسن کو قاتلوں میں شمار کرنا اداروں کی غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ شہید علی رضا عابدی کے قاتل پکڑے جائیں گے یا انہیں سزا ہوگی، کیونکہ جن معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہو تو وہاں قاتل کبھی گرفتار نہیں ہوتے۔ یہی کچھ خرم ذکی بھائی کے قتل میں ہوا اور یہی عسکری رضا کیس میں ہوا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 770394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش