QR CodeQR Code

بتایا جائے کہ کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ کو کس کارنامے پہ شیلڈ سے نوازا گیا

ہمارے محافظ ہی ہمارے قاتلوں کی اقتداء میں نماز ادا کر رہے ہیں، سید راشد عباس رضوی

جنرل اسد درانی نے اعتراف کیا ہے کہ سانحہ اے پی ایس ہماری غلط حکمت عملی کا شاخسانہ تھا

8 Jan 2019 23:47

شیعہ مسنگ پرسنز تحریک کے کنوینئر اور پاسبان عزا کے صدر نے اسلام ٹائمز کے ساتھ تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیا کو ہم یقین دلاتے پھر رہے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف ہماری بیش بہا قربانیاں ہیں اور ہم دہشتگردوں کے خلاف ہیں، 80 ہزار سے زائد جانیں قربان کرنے کے باوجود بھی ہم پہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ملا عمر، ملا منصور، اسامہ بن لادن یہاں سے برآمد ہو رہے ہیں اور جنہوں نے دہشتگردی کو ختم کرنا ہے، وہی دہشتگرد گروہ کے سربراہ کی اقتداء میں نمازیں ادا کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ہم کیسے محفوظ ہوسکتے ہیں، ہمارا ملک کیسے محفوظ ہوسکتا ہے، ہم معاشی بحرانوں کا شکار ہونگے یا نہیں۔ تکفیری دہشتگرد گروہوں کی ہم مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ ہم نے اس ملک کے قیام کیلئے قربانیاں دیں ہیں۔ اگر آپ دہشتگردوں کو شیلڈ دینگے تو اس سے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی، جو ہمیں قطعاً قبول نہیں۔


سید راشد عباس رضوی ایڈووکیٹ شیعہ مسنگ پرسنز تحریک کے کنوینئر ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے مختلف شہروں سے جبری گمشدہ اہل تشیع مسلمانوں کی بازیابی کیلئے بھرپور آواز اٹھائی اور اس تحریک کے نتیجے میں کئی لاپتہ افراد بازیاب بھی ہوئے۔ اسکے علاوہ سیاست بالخصوص کراچی کی سیاست میں دخیل ہیں۔ حالیہ انتخابات میں انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلی سندھ این اے 254 اور پی ایس 125 سے بیک وقت حصہ لیا۔ سید راشد عباس رضوی پاسبان عزا پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ یہ تنظیم کراچی کی سطح پہ عزاداری کے اجتماعات کے انعقاد کے سلسلے میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔ بنیادی طور پر حیدر آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکی پیدائش اور ابتدائی تعلیم حیدر آباد سے ہے۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔ یہ براہ راست کسی سیاسی یا قومی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے، تاہم پاکستان میں تکفیری گروہوں کی سرگرمیوں کے سامنے بند باندھنے کیلئے قانونی اور اخلاقی جنگ میں مصروف ہیں۔ انہوں نے تکفیری گروہوں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کی انتخابی سرگرمیوں پہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ علاوہ ازیں وہ کالعدم جماعتیں جو نام بدل کر دوبارہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، انکی سرگرمیوں کیخلاف بھی مسلسل آواز حق بلند کئے ہوئے ہیں۔ کراچی کے ماحول، سیاست، حالات سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس بارے میں اپنا تجزیہ بناء کسی لگی لپٹی کے بیان کرنے میں ہچکچاتے نہیں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ایک طویل نشست کا اہتمام کیا، جس میں تین موضوعات پہ سیرحاصل بات کی گئی، اول شہید علی رضا عابدی کے قتل کے محرکات، دوئم انکے قتل کے الزام میں گرفتار نوجوان کا پس منظر اور سوئم علماء کا دورہ وزیرستان اور نتائج۔ موضوعات کی وسعت اور گفتگو کی طوالت کے باعث یہ انٹروویو دو حصوں میں پیش کیا گیا، جس کا اول حصہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں، دوسرا اور آخری حصہ پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: آپ کہتے ہیں کہ شہید علی رضا عابدی قتل کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا ہے، حالانکہ اس قتل کے بعد ایم کیو ایم اور پی پی پی نے خود کو زیادہ مظلوم بناکر پیش کیا، جبکہ اسی قتل کے ذریعے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پہ تنقید کا سلسلہ جاری ہے، اس لحاظ سے تو پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان اور اسٹیبلشمنٹ کی بدنامی ہوئی۔؟
سید راشد عباس رضوی:
 میں یہ انکشاف پہلی مرتبہ کر رہا ہوں، اس سے پہلے یہ بات کبھی کسی کے ساتھ شیئر نہیں کی، جہاں تک الطاف حسین کی دھمکیوں کی بات ہے تو شہید علی رضا عابدی بھائی ایم کیو ایم کے تمام گروپوں سے متنفر تھے اور ان کے دل میں الطاف حسین کیلئے ہمدردی تھی، وہ الطاف حسین کے حمایتی نہیں تھے اور نہ ہی ان کے گروپ میں شامل تھے، مگر وہ الطاف حسین کو پسند کرتے تھے، یہ بات الطاف حسین کو بھی معلوم تھی، لہذا میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ الطاف حسین کا ان کے قتل میں ہاتھ نہیں ہوسکتا۔ ایم کیو ایم کو پری پول دھاندلی میں ہرانے اور پی ٹی آئی کو لانے کا اندازہ یہیں سے لگا لیں کہ حالیہ عام انتخابات میں میں نے جس حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیا، چند روز قبل وہاں میں ایک نماز جنازہ میں گیا تو میں نے وہاں کے ایک ووٹر سے پوچھا کہ آپ کے حلقے سے کون منتخب ہوا ہے تو انہیں اپنے کامیاب امیدوار کا نام تک معلوم نہیں تھا، حالت تو یہ ہے۔ دھاندلی اس طرح کی ہوئی ہے۔

آپ ان 14 حلقوں کی تحقیق کرلیں، جہاں سے پی ٹی آئی کو جتوایا گیا، تو ان حلقوں میں سے بیشتر ووٹرز کو اپنے کامیاب امیدوار کا نام تک نہیں معلوم۔ یہ الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن تھے۔ الطاف گروپ کا شہید علی رضا عابدی کے قتل میں ہاتھ نہیں ہوسکتا۔ 
یہ بات اسٹیبلشمنٹ کو معلوم تھی کہ علی رضا عابدی الطاف حسین سے ہمدردی رکھتا ہے، ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ملانے کی کوشش کرتا ہے، اسی بات پہ ہی انہیں دھمکی دی گئی کہ آپ لندن گروپ سے ہمدردانہ جذبات اور خیالات کا اظہار بند کر دیں، انہیں ڈر تھا کہ اگر شہید علی رضا عابدی بھائی کامیاب ہوگئے تو ایم کیو ایم پھر ایک طاقت بنکر سامنے آئیگی اور پی ٹی آئی کا صفایا ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: شہید علی رضا عابدی تو ایم کیو ایم کو چھوڑ کر پی پی پی میں شامل ہونے جا رہے تھے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
جہاں تک آصف زرداری سے ملاقات کا تعلق ہے اور پی پی پی میں شمولیت کی بات ہے تو سیاستدان کبھی بھی اور کسی کے لیے بھی اپنے دروازے بند نہیں کرتا بلکہ وہ سب سے ملتا ہے، چاہے جس سے اختلاف بھی ہو۔ آصف زرداری سے ملاقات سیاسی ملاقات تھی۔ شہید علی رضا عابدی کے والد بھی ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے تھے اور یہ خود بھی۔ خاندانی نسلی ایم کیو ایم سے تھے، پی پی پی میں یہ جانیوالے نہیں تھے۔ دیگر لوگ بھی ایم کیو ایم کو چھوڑ کر گئے۔ اب حالات ایسے نہیں کہ اس بات پہ ان کا قتل ہو۔ پی ٹی آئی کو نقصان نہیں بلکہ اس قتل سے فائدہ پہنچا ہے۔ اگر نقصان ہوا ہوتا تو فوراً جوڈیشل کمیشن بن جاتا، روزانہ کی بنیاد پہ تحقیقات کا دائرہ بڑھتا۔ وفاقی حکومت اس معاملے میں خصوصی دلچسپی لیتی جبکہ وفاق نے تو نوٹس ہی نہیں لیا۔ غیر سنجیدہ کوششیں وفاقی حکومت کی ہیں۔ متحدہ جتنی کمزور ہوگی، پی ٹی آئی اتنی ہی مضبوط ہوگی۔

اسلام ٹائمز: کیا پی پی پی میں شمولیت کا ارادہ ایم کیو ایم کے نزدیک ناقابل معافی جرم ہوسکتا ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
ایم کیو ایم چھوڑنے کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ الیکشن ہارے تھے تو انہوں نے علی الاعلان کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے دھاندلی کی ہے۔ انچولی میں مجھے اپنے بیٹے نے بتایا کہ ہمیں باہر نکال دیا گیا ہے اور پولنگ ایجنٹس واٹس ایپ پہ رزلٹ کسی کو بھیج رہے تھے۔ ضمنی الیکشن میں جب شہید علی رضا عابدی بھائی نے دو بار کاغذات نامزدگی جمع کرائے تو ایم کیو ایم بہادر آباد نے انہیں ٹکٹ نہیں دیا۔ اسٹیبلٹمنٹ نے پی ایس پی کو خریدا ہوا ہے اور پی ایس پی بی ٹیم کے طور پہ کام کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ نے متحدہ کا بھی ایک دھڑا بہادر آباد خریدا ہوا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہی پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم بہادر آباد کا معاہدہ کرایا۔ جس کے تحت انہیں دو وزارتیں دی گئیں۔ فاروق ستار کی ٹیم نے مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر نہیں کیا۔ اس لیے انہیں سائیڈ لائن کیا گیا۔

عدلیہ کے ذریعے بہادر آباد گروپ کو چیئرمین شپ دلوا دی۔ اس کے بعد جب فاروق ستار، صلاح الدین اور دیگر لوگ جب جا کر ملے تو انہیں 22 میں سے 4 ٹکٹ دیئے گئے کیونکہ فاروق ستار گروپ کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا، اس لیے انہوں نے یہ چار ٹکٹ قبول کئے جبکہ اسٹیبلشمنٹ نے ان چاروں سیٹوں پہ انہیں ہرایا۔ بہادر آباد، پی ایس پی دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہیں۔ اس قتل کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ دونوں گروپس اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہیں، جبکہ فاروق ستار گروپ جو مکمل طور پر زیر نہیں ہوا، اس کا ایک مضبوط رکن بھی قتل کر دیا گیا۔ اگر آپ شہید علی رضا عابدی بھائی کے ٹوئٹر اکاونٹ کو دیکھیں اور ان کے آخری تین ماہ کے ٹوئٹس کو مانیٹر کریں تو وہ تمام کے تمام ٹوئٹس پی ٹی آئی حکومت کے خلاف ہیں، جو سب سے زیادہ حکومت کے خلاف بات کر رہا تھا ، اس کو خاموش کرا دیا گیا۔ 


اسلام ٹائمز: حال ہی میں مختلف مکاتب کے علماء کو وزیرستان کا دورہ کرایا گیا ہے، یہ کس حد تک قابل قبول ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
کسی طور بھی کسی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ میری نگاہ میں جن علماء کو وزیرستان کا دورہ کرایا گیا ہے، وہ علماء حق نہیں تھے۔ ان میں تکفیری جماعتوں کے سربراہ شامل تھے، جن کے لشکر جھنگوی، طالبان اور داعش سے تعلقات تھے۔ ان کے ہاتھوں پہ ہزاروں پاکستانیوں کا خون ہے۔ میں سنی شیعہ کی بات نہیں کروں گا۔ میں پاکستانیوں کی بات کروں گا۔ ان دہشتگردوں نے ہندو، کرسچن، احمدی، شیعہ، سنی سبھی کو قتل کیا ہے۔ اے پی ایس کے بچے بھی انہوں نے مارے ہیں اور کوئٹہ کے سینکڑوں ہزارہ بھی۔ پارا چنار میں بھی انہوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہے اور کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی۔ انہوں نے قتل عام کی سنچریاں ماریں اور پھر ان سنچریوں کے ترانے پڑھے۔

رمضان مینگل ان کا صوبائی صدر ہے، جس نے الیکشن بھی لڑا تھا۔ جس وقت جولائی 2018ء میں انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی تھی تو میں نے اس کے خلاف پٹیشن بھی دائر کی تھی۔ وہ کیس ہارنے سے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ ان کی سرکاری سرپرستی کی جا رہی ہے، انہیں حکومت اور اداروں کی آشیرباد حاصل ہے۔ اب اسی کالعدم دہشتگرد جماعت کے سربراہ کو وزیرستان کا دورہ کرایا گیا تو بات بالکل واضح ہوکر سامنے آگئی ہے۔ آپ خود سوچیں کہ شہداء کے خانوادوں پہ کیا گزر رہی ہوگی۔ یہ وہ دہشتگرد ہیں جنہوں نے ذمہ داریاں قبول کی ہیں۔ فورتھ شیڈول میں شامل ہیں۔ کالعدم جماعتیں ہیں۔ جب جماعتیں کالعدم ہیں، ان پہ کیسز ہیں، پھر سرکاری اداروں کی جانب سے انہیں پروٹوکول اور سرکاری دورے کیا معنی رکھتے ہیں۔


اسلام ٹائمز: آپ فرماتے ہیں کہ وزیرستان کا دورہ کرنیوالے علماء حق نہیں تھے، پاکستان میں علماء حق کی نشاندہی فرمائیں۔؟
سید راشد عباس رضوی:
علماء حق کی اکثریت آپ کو پاکستان میں نہیں بلکہ دیگر ممالک میں ملے گی۔ پاکستان میں محض پانچ فیصد علماء حق ہیں، باقی 95 فیصد علماء سو ہیں۔ لبنان، ایران، شام، عراق، مصر، یمن، نائیجیریا اور دیگر ممالک میں آپ کو علماء حق کی بڑی تعداد ملے گی، تاہم پاکستان میں یہ تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے، وجہ یہاں کا کرپشن زدہ ماحول ہے، جس میں عوام اور لیڈرز نے پرورش پائی، اسی ماحول میں علماء نے بھی پرورش پائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حالات میں آپ کو پاکستان میں صرف درباری ملا ملتا ہے۔ جو علماء حق ہیں، انہیں یا تو قتل کر دیا جاتا ہے یا پھر سائیڈ لائن کیا جاتا ہے۔ میں یہاں علماء حق میں مولانا حسن ظفر نقوی صاحب کا نام ضرور لینا چاہونگا۔ انہوں نے ہر مشکل میں نعرہ حق بلند کیا ہے۔ انہوں نے ہر معاملے میں مظلوم کے حق میں آواز بلند کی۔ وہ کبھی درباری نہیں بنے، وہ کبھی دہشتگردوں کے ساتھ نہیں بیٹھے۔

اسلام ٹائمز: کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ کو شیلڈ بھی پیش کی گئی، آپکے خیال میں ایسا کیوں کیا گیا ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
جی یہ سوال تو ہر محب وطن شہری اٹھا رہا ہے کہ آخر کس بنیاد پہ آپ انہیں شیلڈ دے رہے ہیں۔ آپ کیسے انہیں سرکاری دورے کرا رہے ہیں اور انہیں اپنی کارکردگی دیکھا رہے ہیں۔ آپ انہی کو اپنا امام بنا کر انکے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں، جو قاتل ہیں، با وردی جوانوں کے، بے گناہ شہریوں کے، معصوم بچوں کے، انہی قاتلوں کی اقتداء میں آپ نماز ادا کر رہے ہیں۔ آخر آپ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ یہ کہ ایک تکفیری دہشتگرد جماعت کے سربراہ کو آخر شیلڈ کس بات کی دی گئی ہے۔ کن خدمات کے عوض دی گئی ہے، کیا پاکستانی شہریوں کا خون بہانے پہ دی گئی ہے۔ تکفیری نعروں پہ دی ہے، ملک میں جابجا قتل و غارت پہ شیلڈ دی ہے۔ مذہبی، مسلکی نفرین پہ شیلڈ دی گئی ہے۔ ہمیں لدھیانوی صاحب کا کوئی ایک کارنامہ بتایا جائے، جس کے صلے میں اسے شیلڈ سے نوازا گیا۔ کوئی ایک کارنامہ تو بتا دیا جائے۔ لشکر جھنگوی انہوں نے بنائی۔ داعش، طالبان کے ساتھ ملکر یہی لوگ کام کر رہے ہیں۔

دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھنے کے الزام میں ہم لوگ گرے لسٹ میں پہلے سے شامل ہیں، بلیک لسٹ میں ڈالے جانے کا اندیشہ ہے۔ دنیا کو ہم یقین دلاتے پھر رہے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف ہماری بیش بہا قربانیاں ہیں اور ہم دہشتگردوں کے خلاف ہیں، 80 ہزار سے زائد جانیں قربان کرنے کے باوجود بھی ہم پہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ملا عمر، ملا منصور، اسامہ بن لادن یہاں سے برآمد ہو رہے ہیں اور جنہوں نے دہشتگردی کو ختم کرنا ہے، وہ دہشتگردوں کے پیچھے نمازیں پڑھ رہے ہیں، ہمارے محافظ ہی ہمارے قاتلوں کی اقتداء میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ ان حالات میں ہم کیسے محفوظ ہوسکتے ہیں۔ ہم معاشی بحرانوں کا شکار ہوں گے یا نہیں۔ تکفیری دہشتگرد گروہوں کی ہم مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ ہم نے اس ملک کے قیام کیلئے قربانیاں دیں ہیں۔ اگر آپ دہشتگردوں کو شیلڈ دیں گے تو اس سے دہشتگردوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

چند روز قبل ہی اسد درانی صاحب نے اپنے انٹرویو میں یہ قبول کیا ہے کہ سانحہ اے پی ایس ہماری غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے، یعنی آپ قبول کر رہے ہیں کہ اتنا بڑا اور ناقابل تلافی سانحہ ہماری غفلت کا نتیجہ ہے، دہشت گردوں کی سرپرستی کی ہماری غلط حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ اسد درانی صاحب قبول کر رہے ہیں کہ دہشتگردوں کو ہم نے افغانستان کے خلاف بنایا تھا اور انہی نے ہمیں نقصان دیا۔ پوری دنیا میں ایسے دہشتگردوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا ہے، پاکستان میں انہی دہشتگردوں کے سرغنے کو شیلڈ دی جا رہی ہیں۔ جو علماء کرام ایسے افراد کے ساتھ اتحادی بن کر چل رہے ہیں۔ ان سے بھی عوام کو احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ سب اپنے مفادات کی لالچ میں ہیں۔


اسلام ٹائمز: یہ کالعدم یا دہشتگرد جماعتوں پہ نئے سرے سے جو سرکاری مہربانیاں جاری ہیں، کیا اس میں کوئی بیرونی فیکٹر بھی شامل ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
پیغام پاکستان بیانیہ، ریاستی اداروں نے حکمت عملی یہ بنائی کہ چور کو ساہو کار بنا دیا جائے۔ دہشتگردوں کو مین سٹریم میں لا کر اداروں میں بٹھا دیا جائے۔ سعودی عرب سے جو فنڈ آرہے ہیں، وہ کالعدم تکفیری جماعتوں میں تقسیم کیا جائے اور انہیں سرکاری پروٹوکول کے ساتھ تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ حکمت عملی اداروں کی ہے اور یہ درست نہیں ہے، قیام پاکستان سے اس حکمت عملی نے بے تحاشہ نقصان پہنچایا۔ کیسے کیسے ہیرے قتل کر دیئے گئے۔ دنیا کے کسی ملک میں دہشتگردوں کو کبھی بھی وزارتوں میں نہیں لایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ باقی دنیا میں امن بھی ہے۔ اگر کسی ملک کو کبھی دہشتگردوں پہ خرچ کرنا بھی پڑے تو وہ اپنے ملک کے اندر نہیں کرتے بلکہ اپنے ملک سے باہر کرتے ہیں، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جسے اپنے ملک کے اندر ہی دہشتگرد پالنے کا خبط ہے، یہ حکمت عملی فی الوقتی فائدہ دے سکتی ہے، طویل المدت صرف نقصان ہی نقصان ہے۔ دیت کا اختیار صرف اور صرف مقتولین اور شہداء کے خانوادوں کو ہے، حکومت یا اداروں کو ہرگز ہرگز حاصل نہیں ہے۔ شہداء کے ورثا یہ فیصلہ کریں گے کہ ان دہشتگردوں کو معاف کرنا ہے یا نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں دہشتگردی سے نجات کیسے ممکن ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
تمام کالعدم جماعتیں، ان کے سربراہان، ان کے ماسٹر مائنڈ، سب کو گرفتار کیا جائے۔ ان سب کو بند کیا جائے، چاہے وہ کسی بھی مسلک، زبان یا علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، تاکہ شہریوں کا تحفظ ہوسکے۔ کالعدم جماعتوں پہ پابندی حقیقی ہونی چاہیئے، ڈھونگ نہیں ہونا چاہیئے۔ شہید علی رضا عابدی جیسے قتل کیسز میں فوری طور پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جانا چاہیئے، جو کہ 90 دن کے اندر اندر نتیجہ دے۔ یہاں یا تو تحقیقاتی کمیٹیاں بنتی ہیں، جس کا مطلب معاملے کو دفن کر دو یا پھر کمیشن بنتے ہیں تو ان کی رپورٹس کبھی سامنے ہی نہیں آتیں۔ ایسے معاملات میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دیکر انہیں رپورٹ کیلئے زیادہ سے زیادہ نوے دن کا وقت دینا چاہیئے کہ وہ اس وقت کے اندر اندر اپنی رپورٹ مرتب کرے۔ سارے دہشتگرد اور ان کے سہولت کاروں پہ شکنجہ کسا جائے۔ کرپشن کو ختم ہونا چاہیئے۔ میں انتقامی سیاست کی بات نہیں کر رہا بلکہ روزانہ کی بنیاد پہ جس کا سامنا عوام کرنے پہ مجبور ہیں۔ معاشرے کی کئی خطرناک ترین بیماریاں اسی کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں، چنانچہ اس کی تمام راہیں مسدود کرنے کی ضرورت ہے، اسی کے ذریعے ہی پائیدار امن کا قیام ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: مسنگ پرسنز کی جاری تحریک میں کیا پیشرفت ہوئی ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
مسنگ پرسنز کی ہماری تحریک چل رہی ہے۔ جب تک ہمارے تمام لوگ بازیاب ہوکر اپنے گھروں کو نہیں پہنچتے ہیں تو ہماری یہ تحریک جاری رہے گی۔ مستقبل قریب میں اس تحریک کے حوالے سے بڑا اقدام بھی لینے لگے ہیں، تاکہ مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ ابھی مقامی ہوٹل میں ہیومن رائٹس کی ایک کانفرنس ہوئی تھی، اس کانفرنس میں ہم نے اپنا اصولی موقف پیش کیا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ کون گناہ گار ہے اور کون بے گناہ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ کم از کم جو گم کر دیئے گئے ہیں، انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ اسی کانفرنس میں اختر مینگل سے ہماری بات ہوئی، ہم نے درخواست کی کہ آپ بلوچستان میں پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں۔ آج تک شیریں مزاری کی جانب سے مسنگ پرسنز کے عنوان سے کوئی بیان کوئی موقف سامنے نہیں آیا۔ میں نے ان سے یہ کہا کہ آپ عمران خان حکومت کے اتحادی ہیں، اس پہ دباؤ ڈالیں، تاکہ مسنگ پرسنز والا معاملہ کچھ حل ہو۔

اختر مینگل نے جواب دیا کہ ہم نے عمران خان حکومت کو ایک سال کا وقت دیا ہے۔ اگر وہ مسنگ پرسنز کی بازیابی کے حوالے سے کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکے تو ہم اس حکومت سے الگ ہو جائیں گے اور وہ پارلیمنٹ میں بھی مسنگ پرسنز والے معاملے پہ بھرپور انداز میں بات کریں گے۔ میری رضا ربانی سے بھی ملاقات ہوئی تو انہوں نے بھی کہا کہ وہ اس حوالے سے جو بھی ہوسکا، وہ بات کریں گے اور اس معاملے پہ بات کریں گے۔ ہماری تحریک جاری ہے، مگر ہم پارلیمنٹیرین سے بھی مدد لے رہے ہیں، تاکہ ایوانوں میں بھی منظم انداز میں یہ معاملہ پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی مسنگ پرسنز کی فیملیز کے ہمراہ ہماری دو دفعہ ملاقات ہوئی، مگر ان ملاقاتوں کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوسکے۔ صرف اور صرف انہوں نے تسلیاں دیں، جس کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس کے باوجود کہ محرم و چہلم میں ہم نے بڑی مضبوط تحریک چلائی۔ چہلم میں ہمارا بہت بڑا دھرنا ہوا۔ کراچی میں چہلم کا مرکزی جلوس مسنگ پرسنز کی بازیابی کے مطالبے کے ساتھ احتجاجاً کافی دیر تک رکا رہا۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت کی اب تک کی کارکردگی اور سمت کس حد تک قابل اطمینان ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
عمران خان کی حکومت کو تقریباً چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ ان کی حکومت نے عوام کو مایوس کیا ہے۔ یو ٹرن دراصل وعدوں سے مکر جانے کو یا جھوٹ بولنے کو کہتے ہیں۔ انہوں نے جتنے بھی وعدے کئے، جتنے دعوے کئے سب جھوٹے ثابت ہوئے۔ سعودی عرب سے بھی مزید خیرات کسی بھی طور مناسب عمل نہیں ہے۔ ماضی میں بھی پراکسی وار سے پاکستان نہیں نکل سکا۔ پہلے امریکہ سے پیسے لیکر ان کی پالیسی کے مطابق ملک چلاتے تھے۔ اب آپ نے سعودی عرب کو اپنا ناخدا بنا لیا ہے، شائد اسی کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردوں کو مین سٹریم میں لانے کیلئے مختلف اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے۔ پیسہ لیکر دوسروں کی ایماء پہ ملک چلانے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیئے۔ اداروں سے کرپشن کا خاتمہ اور ملک میں موجود قدرتی وسائل کو بروئے کار لاکر اپنے پیروں پہ ملک کو کھڑا کیا جائے۔ ہمارے پاس وسائل زیادہ ہیں، مگر المیہ یہ ہے کہ ہم نے بھیک اور امداد پہ گزارا کرنے کی عادت اپنا لی ہے۔

اس کے اثرات عام شہریوں کو بھی فیس کرنے پڑتے ہیں کہ جو ملک سے باہر سفر کرتے ہیں۔ انہیں وہ کس نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ڈالر کو راتوں رات کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ بات ایک کروڑ نوکریوں کی اور یہاں بیروزگاری میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ لوگوں نے عمران خان کو نہیں بلکہ تبدیلی کے نعرے کو ووٹ دیا ہے۔ اگر نواز اور زرداری نے کچھ کارکردگی دکھائی ہوتی تو کسی صورت آج پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کی کامیابی کی وجہ اداروں کی مدد، پی پی پی اور نواز لیگ سے عوام کی بیزاری ہے۔ تمام تر مشینری کے تعاون کے باوجود بہرحال پی ٹی آئی حکومت ایک کمزور حکومت ہے اور اپنے وعدوں سے یوٹرن لیکر غیر مقبول بھی ہو رہی ہے۔ یہ حکومت تین سال بھی پورے نہیں کر پائے گی۔


اسلام ٹائمز: کراچی میں پینے کے پانی کا کیا مسئلہ ہے، حقیقی ہے یا خود ساختہ ہے۔؟
سید راشد عباس رضوی:
کراچی میں اس وقت پانی کی کمی شدت اختیار کرچکی ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں، جہاں کئی کئی دن تک پانی نہیں آتا۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی پانی کی کمی کا شہریوں کو سامنا ہے۔ مگر عجیب معاملہ ہے کہ ٹینکرز کے ذریعے پانی سبھی کو مل رہا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پانی ہر شخص کو مل رہا ہے، مگر نلکوں کے بجائے ٹینکرز کے ذریعے عوام کو دیا جا رہا ہے بلکہ ٹینکروں کے ذریعے پانی دیکر عوام کو لوٹا جا رہا ہے۔ یعنی حکومت کے پاس شہریوں کو سپلائی کرنے کیلئے پانی نہیں ہے، مگر ٹینکرز مافیا کے پاس پانی ہے۔ سستا پانی نہیں بلکہ مہنگا پانی عوام کی پہنچ میں ہے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ اور بڑی کرپشن ہے۔ حکومت کو اس کا فی الفور نوٹس لینا چاہیئے۔ اینٹی کرپشن ادارے کو تو ختم ہی کر دینا چاہیئے کہ اس کا تو کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اس کی ستر سالہ کارکردگی صفر ہے۔ یہ ادارہ تھانوں سے رشوت لیتا ہے، دیگر اداروں سے لیتا ہے۔ یعنی کرپشن کے اوپر کرپشن کا ادارہ بنا ہوا ہے۔

فیصل واوڈا صاحب کبھی چائینز ایمبیسی میں مجرموں سے لڑنے پہنچ جاتے۔ کبھی مجرموں کو پکڑنے کی بات کرتے ہیں۔ بھائی آپ پانی کے وزیر ہو، وزیر داخلہ نہیں ہو۔ 
آپکی اولین کوشش ہونی چاہیئے کہ لوگوں کو پانی ملے۔ اپنا کام ہوتا نہیں، دوسروں کا کام کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ پانی کی وزارت آپ کے پاس، بات ہمیشہ آپ داخلہ کی وزارت سے متعلق کرتے ہیں۔ یہی حال عدالتوں کا ہے۔ لاکھوں کیسز زیر التویٰ ہیں۔ متاثرین عشروں سے عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ ان کی شنوائی نہیں ہو رہی۔ مسنگ پرسنز کی بازیابی نہیں ہو رہی۔ انصاف مل نہیں رہا اور انصاف دینے والے ڈیم بنانے نکل پڑے ہیں۔ کہنے کا مقصد ہے کہ جو آپ کا کام ہے، آپ وہی کریں۔ اپنا کام چھوڑ کر دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑائیں گے تو پھر آپ کا کام کون کرے گا۔ آخرکار آپ کا کام کوئی دوسرا نجی حیثیت میں کرنا شروع کر دے گا۔ نیا سال شروع ہوچکا ہے، امید ہے کہ حکمران اور اداروں کے سربراہان عوام کی شکایات کا ازالہ کریں گے اور اخلاص کے ساتھ ملک اور قوم کے مفاد میں کام کریں گے۔ دعا گو ہوں کہ یہ نیا سال خوشحالی کا، امن کا، انصاف کا سال ثابت ہو۔آمین


خبر کا کوڈ: 771004

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/771004/ہمارے-محافظ-ہی-قاتلوں-کی-اقتداء-میں-نماز-ادا-کر-رہے-ہیں-سید-راشد-عباس-رضوی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org