0
Thursday 17 Jan 2019 00:08
پاکستان اور سعودی عرب طالبان کی افغان حکومت کے نمائندؤں سے ملاقات کی کوشش میں ہیں

نواز شریف کی سربراہی میں لوٹ مار کرنیوالے چوروں کی قیادت اب آصف زرداری کر رہے ہیں، علیم خان

نواز شریف کی سربراہی میں لوٹ مار کرنیوالے چوروں کی قیادت اب آصف زرداری کر رہے ہیں، علیم خان
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اور پنجاب کے وزیر برائے لوکل گورنمنٹ اور کیمونٹی ڈیولپمنٹ 1972ء میں پیدا ہوئے۔ 2002ء میں مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا، 2013ء میں مذکورہ جماعت کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے، پنجاب کے وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی رہے۔ 2012ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، 2016ء میں پی ٹی آئی سنٹرل پنجاب کے صدر بنے، 2018ء میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ وفاقی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی کھینچا تانی اور گھمبیر سیاسی صورتحال کے متعلق صوبائی وزیر کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت مین پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان تحریک انصاف کے نئے 26 اکاؤنٹس سامنے آنے پر اپوزیشن نے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، کیا حکومت جے آئی ٹی بنائیگی۔؟
علیم خان:
ہمارے گیارہ اکاونٹس ہیں، جن کی تفصیلات الیکشن کمیشن کے پاس جمع ہیں۔ جو اکاونٹ بند ہوچکے ہیں، ان کو بھی ساتھ ملایا گیا ہے۔ اگر کوئی انفرادی اکاؤنٹ کھولا گیا ہے تو پارٹی اس پر کارروائی کرے گی۔ نون لیگ کے دور حکومت میں یہ کیسز آئے، اکبر ایس بابر نے کیس اسی دور میں درج کروایا، اگر ان کے پاس ثبوت موجود ہیں تو اداروں سے رجوع کریں۔ ہمارے پاس منی ٹریل نہیں ہے تو اپوزیشن اس کے خلاف عدالت کیوں نہیں جاتی۔ عمران خان پر کبھی بددیانتی اور کرپشن کا الزام نہیں لگا۔ اکبر ایس بابر کے پاس کوئی ثبوت نہیں، اگر ہم اداروں پر دباؤ ڈالتے تو اسٹیٹ بینک سے اکاؤنٹس سامنے نہ آتے۔  آصف زرداری کے اثاثوں سے متعلق تحریک انصاف کو ناقابل تردید ثبوت ملے ہیں، اسی بنیاد پر سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔

اسلام ٹائمز: جعلی اکاونٹس کیس میں وزیراعلیٰ کا نام تو ای سی ایل میں ڈال دیا گیا، لیکن علیمہ خان کیس میں جے آئی ٹی کیوں نہیں بنائی گئی۔؟
علیم خان:
پاکستان پیپلز پارٹی نے اس قوم کو کیسے لوٹا ہے، کیسے اومنی اور منی لانڈرنگ کے ذریعے عوام کا پیسہ کھایا گیا۔ سندھ ہمارا بھی صوبہ ہے، اگر یہ حکومت میں ہیں تو ہم بھی اپوزیشن میں ہیں۔ علیمہ خان کیس میں اگر جے آئی ٹی بنتی ہے تو بنانی چاہیئے۔ اگر عمران خان اور ان کی بہن کا مشترکہ اکاؤنٹ ہے تو عمران خان پر الزام لگتا ہے، مگر ایسا ہے نہیں۔ آصف زرداری کے خلاف اور ثبوت آگئے ہیں، جن کو جلد منظر عام پر لائیں گے، ہماری ذمہ داری ہے کہ کوئی غلط کام کرے تو اسے پکڑیں گے۔ کرپٹ لوگوں کا آپس میں مک مکا ہے، جب ان کے خلاف کارروائی کریں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ 18ویں ترمیم ختم ہونے والی ہے، جمہوریت خطرے میں ہے یا معاشی صورتحال بہت خراب ہوگئی ہے۔ اگر نواز شریف کی طبیعت خراب ہے تو انہیں ہر طرح کی صحت کی سہولت ملنی چاہیئے، تاکہ وہ صحت یاب ہو کر عوام کی لوٹی ہوئی رقم کا حساب دے سکیں۔ تحریک انصاف کے اکاؤنٹس کا موازنہ آصف علی زرداری کے اکاونٹس سے نہیں کیا جا سکتا، یہ کسی ایک فرد کے نہیں بلکہ پارٹی کے اکاؤنٹس ہیں۔ وزیراعظم عمران خان وہ واحد لیڈر ہیں، جن کو سپریم کورٹ نے صادق اور امین قرار دیا ہے، لہذا کسی کے کچھ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ وہ سندھ پر یلغار کامیاب نہیں ہونے دینگے، کیونکہ پی ٹی آئی انتقامی کارروائی اور عجلت بازی سے سندھ حکومت کو نشانہ بنا رہی ہے۔؟
علیم خان:
سندھ حکومت کی اب تک کیا کارکردگی ہے، انہوں نے صرف لوٹ مار کی جبکہ ان کے دور میں صرف غربت میں اضافہ ہوا۔ جے آئی ٹی میں بچوں پر الزامات نہیں لگے بلکہ پیپلزپارٹی قیادت کے نام شامل ہیں۔ اپوزیشن اپنی کرپشن چھپانے کے لئے علیمہ خان پر الزامات لگا رہی ہے۔ وہ کبھی بھی عوامی عہدے پر نہیں رہیں۔ اپوزیشن کی کوشش ہے کہ عمران خان کو بھی اپنی قیادت کی طرح کرپٹ ثابت کریں۔ انہوں نے قوم کا ہر ادارہ تباہ کیا ہے جبکہ عمران خان نے ملک کو اسپتال اور یونیورسٹی دی ہے۔ پاکستان کی عوام کو عمران خان کی قیادت پر اعتماد ہے۔

اسلام ٹائمز: اعتراض وزیراعظم سے زیادہ ٹیم ممبرز پر ہے، پی ٹی آئی کے وزرائے اطلاعات کا رویہ سخت ہے، اپوزیشن نے اسے توہین آمیز قرار دیا ہے، وفاق اور صوبوں کی کشیدگی میں کمی لائے بغیر ملک چلانا کیسے ممکن ہے۔؟
علیم خان:
فواد چوہدری کا رویہ جارحانہ جواب دینے کے لئے ہوتا ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن سے ہونے کی روایت اچھی نہیں، اس طرح گذشتہ حکومت کا احتساب نہیں ہوسکتا۔ اگر اپوزیشن حکومت کیخلاف عوام  سڑکوں پر لے آسکتی ہے تو لے آئے۔ سیاسی ماحول میں تلخی بڑھنا اچھی بات نہیں ہے۔ جو لوگ نے گذشتہ 40 سالوں سے کرپشن کر رہے ہیں، اُن کا احتساب تو ہوگا۔ ملک اور قومی کا پیسہ لوٹنے والوں کو عدالتوں کا سامنا تو کرنا پڑے گا۔ وزیراعظم کی ہمشیرہ علیمہ خان آل شریف اور آل زرداری کے لیے مشعل راہ ہیں، جنہوں نے اپنی جائیداد کی ساری تفصیلات اور ثبوت سپریم کورٹ میں پیش کیے ہیں، جبکہ انہوں نے ایک چھوٹی سے غلطی پر ایف بی آر کو جرمانہ بھی ادا کر دیا ہے۔ شریف فیملی گذشتہ تین سالوں میں پانامہ کیس میں 14 وکلا تبدیل کرچکی ہے جبکہ صرف خواجہ حارث کو اڑھائی ارب روپے فیس کی مد میں دیئے گئے ہیں، لیکن وہ نہ تو لوٹی ہوئی رقم واپس کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی اب تک کوئی کاغذی ثبوت عدالت میں جمع کروا سکے ہیں۔ جتنے چور نواز شریف کی سربراہی میں تھے، وہ اب یہ ٹولہ بنا کر آصف علی زردراری کی سربراہی میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ حکومت میں رہ کر اپنے خزانے بھرنے کی عادی لوگ احتجاج نہیں کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن تو حکومت کیخلاف ایکا کرچکی ہے، گرینڈ الائنس بن رہا ہے، حالات میں تلخی تو بڑھ رہی ہے، اگر حالات 2014ء والے بن جاتے ہیں تو پی ٹی آئی کا طرز عمل کیا ہوگا۔؟
علیم خان:
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی آج پہلی دفعہ اکٹھے نہیں ہوئے، اس میں کوئی بڑی بات نہیں، یہ دونوں جماعتیں تو ہمیشہ سے اکٹھی ہی تھیں۔ حکومت کو اپوزیشن کے اتحاد سے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے، اپوزیشن جماعتیں انتخابات سے پہلے ایک دوسرے کو برا بھلا کہتی ہیں اور انتخابات کے بعد اکٹھی ہو جاتی ہیں۔ اپوزیشن ہماری حکومت پر بہت تنقید کرتی ہے، لیکن انہیں اپنا کیا ہوا یاد اور نظر کیوں نہیں آتا۔؟ لیکن پھر بھی وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ تمام ترجمان اپنے رویوں میں عاجزی لائیں، اور لوگوں کو اس مشکل وقت میں امید دیں، عمران خان کبھی سندھ میں گورنر راج کی جانب نہیں جائیں گے۔ مایوسی کا ماحول پاکستان کی سیاست اور معیشت کیلئے زہرِ قاتل ہے، لیکن کرپشن پر کوئی کمپرومائز نہیں کرینگے۔ عمران خان کے الفاظ ایک بار پھر سچ ثابت ہوئے کہ یہ دونوں پارٹیاں کرپشن بچانے کے لیے ہمیشہ ساتھ ہیں۔ اب وہ پیش ہونے کی بجائے چیئرمین نیب کو پارلیمنٹ میں طلب کرنیکی باتیں کر رہے ہیں، چیئرمین قومی احتساب بیورو کو پاکستان تحریک انصاف نے نہیں، مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی نے اختیارات دیئے تھے اور ہم بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں۔ لیکن جمہوریت اسی کا نام ہے، ہر ادارہ پارلیمان کو جوابدہ ہے اور اگر چیئرمین نیب پارلیمنٹ میں آکر جواب دیتے ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن یہ صرف اپنی کرپشن پر پردہ ڈالنے کیلئے نہیں ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: وفاقی وزراء یا صوبائی ذمہ دار کیطرف سے جو سخت بیانات آرہے ہیں، کیا عمران خان کے کہنے پہ ایسا ہو رہا ہے۔؟
علیم خان:
ہمیں ایک دیانتدار وزیراعظم کی ضرورت تھی اور عمران خان کی شکل میں ایسا وزیراعظم ملا ہے، جنہوں نے وہ کام کئے ہیں، جو کسی ڈکٹیٹر نے بھی نہیں کئے تھے۔ لوگ حیران ہیں کہ کیسے پاکستان ان سخت حالات میں اپنے دوستوں سے مالی امداد لے لی، اسکی مثال نہیں ملتی، اس کے علاوہ ایکژون نوبل کی کمپنی لمبے عرصے کے بعد پاکستان آئی ہے اور کیسے امریکی صدر نے پاکستان کے وزیراعظم سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور انہوں نے طالبان کے مسئلے پر پاکستان کے نظریئے کی تائید کی، پہلی بار پاکستان بیک وقت ایران اور سعودی عرب کو لے کر چل رہا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ جنھیں سمجھا جاتا تھا کہ کوئی چھو نہیں سکتا، آج ان کا احتساب ہو رہا ہے اور اسی احتساب کے لئے پاکستان تحریک انصاف کو بڑے پیمانے پر ووٹ ملا ہے۔ دو بڑی پارٹیوں کے لیڈران کے خلاف احتساب ہو رہا ہے، اسی وجہ سے ان کی پارٹی کے لوگ چیخ رہے ہیں۔ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اپوزیشن بھی محض پریس کانفرنس کے ذریعے ہی حکومت پر دباو ڈال رہی ہے۔ بلاول بھٹو آصف زرداری کے فرنٹ مین بنے ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کیلئے اپوزیشن کا تعاون درکار ہوگا، حکومت کیا کریگی۔؟
 علیم خان:
ہماری حکومت کے پاس کسی کو این آر او دینے کا اختیار نہیں۔ اگر کوئی ڈیل مانگ رہا ہے تو علم میں نہیں۔ ہماری حکومت کی ترجیح ہے کہ معیشت کی بنیادیں درست کریں۔ ماضی کی حکومتوں کے اثرات نئی حکومت پر پڑتے ہیں اور معیشت نیچے چلی جاتی ہے۔ ملک میں قرضے کا اضافہ ہوا ہے۔ معاشرے میں کرپشن موجود ہے اور ماضی میں این آر او بھی ہوتے رہے ہیں۔ وزیراعظم نے سب کو ذمہ داری سے بات کرنے کی ہدایت کی ہے، ہم سندھ حکومت نہیں گرائیں گے۔ احتساب اور جمہوریت الگ الگ چیزیں ہیں، اگر عوامی مسائل کے لئے اکٹھے ہوں گے تو یہ جمہوریت سے ہی حل ہوں گے، اس ایجنڈے میں اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ سب کو معلوم ہے کہ کون کس سے این آر او مانگ رہا ہے۔ ہم نے اگر ملکی اداروں کو نقصان میں ڈالا ہے تو ہم ذمہ دار ہیں، ملک کو آگے لے کر جانا چاہتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے معاملے پر مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی کا یوٹرن نظر آرہا ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ تاثر بھی ہے کہ عمران خان بھی نواز شریف کی طرح خلائی مخلوق کی مدد سے اقتدار میں آئے ہیں، یہ سول آمریت تو فوجی آمریت سے بھی بدتر ہے۔؟
علیم خان:
دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف سب سے زیادہ جمہوری جماعت ہے۔ عمران خان اور نواز شریف کے سیاسی میں آنے کے عوامل مختلف ہیں، عمران خان کا تعلق سیاسی خاندان سے نہیں تھا، نہ ہی انہوں نے کسی مارشل لاء میں طالع آزما کا ساتھ دیا ہے، جمہوری اور منتخب وزیراعظم ہیں، مقبول رہنماء ہیں، انکی لیڈرشپ سے مسلم دنیا متاثر ہے۔

اسلام ٹائمز: گورنس بہتر نہ ہونے کیوجہ سے حکومت کی اہلیت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے، چیف جسٹس نے بھی نیت اور قابلیت دونوں کے فقدان کی طرف اشارہ کیا ہے، کیا پاکستان کے مسائل کا حل موجودہ سیٹ اپ کے بس میں نہیں ہے۔؟
علیم خاں:
حکومتیں آنی جانی ہیں، پالیسی واضح ہونی چاہیے، معاشی اور خارجہ چیلنجز پر پالیسی کی ضرورت ہے۔ ٹیکس بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ برآمدات میں اضافے کے لیے ہوگا۔ سی پیک کے اگلے مرحلے میں صنعتی پیداوار اور تجارت پر فوکس کریں گے۔ پچھلے سال کے شروع میں پاکستانی معیشت کے حوالے سے کارٹون چھپا تھا، جس کو آئی ایم ایف کی ڈرپ لگی ہوئی تھی، لیکن اب وہ ڈھانچہ تبدیل ہو رہا ہے، جبکہ منی بجٹ سرمایہ کاری اور بزنس میں اضافے کا سبب بنے گا۔ یہ وہ منصوبے تھے، جو پہلے فائنلائز نہیں ہوئے تھے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا جذبہ ہے کہ ملک میں ڈیم بنے اور پانی کی قلت دور ہو۔ ہم چیف جسٹس کی کاوشوں کو سراہتے ہیں، مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی جھوٹی خبریں پھیلانے اور پروپیگنڈے میں مصروف ہیں، لیکن وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہم عوام کی خدمت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تحریک انصاف جلد پنجاب اسمبلی سے مزید عوامی بل پاس کرائے گی، جبکہ گذشتہ ساڑھے چار مہینوں میں صنعی پالیسی، زرعی پالیسی اور لیبر پالیسی کا بل ہم پاس کرا چکے ہیں جبکہ کلچر پالیسی کا بل بھی وزارت سے منظور ہو چکا ہے۔ 

 70 سال کی غلط معاشی پالیسیوں کے باعث مسائل کا سامنا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کے باعث مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈالر کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے، تاہم پاکستان کی فارما سوٹیکل کی ایکسپورٹ کو بڑھانے کے لئے حکومت اور ایسوسی ایشن مل کر کام کرے گی اور اگلے دو سے تین برسوں میں فارما سیوٹیکل کی ایکسپورٹ دو ارب ڈالر تک لے جائیں گے. ملک کو بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، تین مہینوں میں 70 سال کے مسائل حل نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ ہمیں ملک کو مستحکم کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ ہمیں گذشتہ حکومتوں کی جانب سے لئے گئے قرضوں کا سود بھی ادا کرنا پڑ رہا ہے، موجودہ حکومت کو تھوڑا سا وقت دیا جائے، جلد حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں گے۔

منی بجٹ میں ٹیکسوں کا حجم نہیں بڑھے گا۔ سٹاک مارکیٹ کے لئے خوشخبری ملے گی۔ تاجر برادری کو ری فنڈ کی مد میں 50 فیصد نقد دیا جائے گا، جبکہ باقی ادائیگیوں کے لئے بانڈ جاری کئے جائیں گے۔ اب خارجہ پالیسی کا محور تجارت ہوگی۔ گویا پاکستان کی معاشی صورتِ حال کی بہتری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ سعودی عرب، پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے، گوادر میں دُنیا کی تیسری بڑی آئل ریفائنری قائم کی جا رہی ہے۔ سعودی وزیر توانائی، صنعت و معدنی وسائل شہزادہ خالد بن عبدالعزیز الفاتح اپنے وفد کے ہمراہ گوادر کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان سخت دباؤ میں ہے، طالبان کیجانب سے مذاکرات کیلئے انکار کے بعد افغان امن پراسس بھی آگے نہیں بڑھے گا، پاکستان کو کیا کرنا چاہیئے۔؟
علیم خان:
پاکستان کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار دینے والا امریکہ اب پاکستان سے کہہ رہا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ کی مدد کرے، افغان طالبان کو مذاکرات کی میز تک لائے۔ پاکستان کو طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے پشت پناہ کا طعنہ دینے والا امریکہ افغانستان میں پاکستان کی امن کاوشوں کا شکرگزار بن رہا ہے۔ پاکستان کی عالمی قدر و قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دُنیا دیکھ رہی ہے کہ طالبان، دُنیا کی قدیم اور غیر ترقی یافتہ قوم ہیں۔ امریکی دُنیا کی جدید ترین اور تہذیب یافتہ اعلیٰ ترین تہذیبی، تمدنی، معاشی اور عسکری قوت ہونے کے باوجود طالبان کی شرائط پر ان کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں اور یہ سب کچھ پاکستان کی کاوشوں سے ہی ممکن ہوسکا ہے۔

پاکستان کی پوزیشن مستحکم ہو رہی ہے، سعودی عرب، پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے، گوادر میں دُنیا کی تیسری بڑی آئل ریفائنری قائم کی جا رہی ہے۔ سعودی وزیر توانائی، صنعت و معدنی وسائل شہزادہ خالد بن عبدالعزیز الفاتح اپنے وفد کے ہمراہ گوادر کا دورہ بھی کرچکے ہیں۔ سعودی شہزادے نے کہا کہ سعودی عرب پاکستان میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرے گا۔ پاک چین اور سعودی عرب کی دوستی اور باہمی اشتراک عالمی مثال ہوگا۔ پاکستان اور سعودی عرب طالبان کی افغان حکومت کے نمائندؤں سے ملاقات کی کوشش میں ہیں۔ امریکہ ان مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے، طالبان کا ایک ہی موقف ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کی تاریخ دے تب ہم افغان حکومت سے مذاکرات کریں گے۔
خبر کا کوڈ : 772510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش