0
Monday 21 Jan 2019 18:32
ملک کو دانستہ انتشار اور انتقام کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے

جنہوں نے اس ملک میں آئین کو توڑا انکے خلاف کیوں جے آئی ٹی نہیں بنتی، مصطفیٰ نواز کھوکھر

جنہوں نے اس ملک میں آئین کو توڑا انکے خلاف کیوں جے آئی ٹی نہیں بنتی، مصطفیٰ نواز کھوکھر
سینیٹ آف پاکستان کے رکن اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2011ء میں سابق صدر آصف علی زرداری کی دعوت پر پارٹی میں شامل ہوئے، 2018ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ موجودہ سیاسی صورتحال میں اپوزیشن کے موقف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی حکمت عملی سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جعلی اکاونٹس کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے، انصاف کے تقاضے پورے ہونگے، اس سے وفاق کو کیسے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔؟
مصطفیٰ نواز کھوکھر:
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیاسی مقاصد کیلئے پورے نظام کو مرکزیت پسند، جنگ پسند اور غیر جمہوری قوتوں کی مرضی کے مطابق بدلنے کے لیے تحریک انصاف کو لایا گیا ہے، حالانکہ ان کو غیر جمہوری ارادوں کا مقابلہ کرنا چاہیے، کیونکہ حکومت عارضی اور نظام مستقل ہوتا ہے۔ آج کی صورتحال میں وفاق اور وفاقیت پھر نشانے پر ہے، طاقت کے مرکز پر کنٹرول رکھنے والی قوتیں جمہوری تشکیل، منشاء اور وفاقی اکائیوں کی صوبائی خود مختاری پر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کو پہلے ہی کمزور وزراء اعلیٰ کی شکل میں مرکز سے ریموٹ کنٹرول یا پراکسیوں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے اور بلوچستان میں ایسی حکومت کو لایا گیا ہے، جس کی نہ کوئی بنیاد ہے اور نہ کوئی پارٹی یا تنظیم۔ اسٹیبلشمنٹ تعریف کی مستحق ہے کہ بڑی بڑی جمہوریت پسند قوتوں کی موجودگی میں اس نے ایسا کھیل کھیلا، جو کسی بھی بڑے سے بڑے جادوگر کے بس کی بات نہ ہوتی، سندھ ان کی دسترس سے باہر ہے، جو آنکھوں میں کھٹک رہا ہے، ہر وقت اس پر حملہ آور ہونے کے بہانے تلاش کئے جا رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وفاق کو کس چیز سے خطرہ ہوسکتا ہے، یہ مقدمات تو فقط بہانہ ہیں۔ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ جنہوں نے اس ملک میں آئین کو توڑا ان کے خلاف کیوں جے آئی ٹی نہیں بنتی۔

اسلام ٹائمز: چیئرمین بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا، مقدمات برقرار رہینگے، پی پی پی کیا لائحہ عمل اختیار کریگی۔؟
مصطفیٰ نواز کھوکھر:
انتقامی کارروائیوں اور وفاقی حکومت کے غیر جمہوری طرز عمل پر خاموش نہیں رہ سکتے۔ ملک کو دانستہ انتشار اور انتقام کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے، پاکستانی عوام اقتصادی بدحالی اور حکومتی پالیسیوں سے سخت پریشان ہیں اور وفاقی وزراء بھی بدزبانی کر رہے ہیں، اب ہم خاموش نہیں رہ سکتے، کارکن جوش میں ہیں کہ قیادت اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی اجازت دے۔ اگر ملک و جمہوریت بچانی ہے، تو ہمیں بڑے اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے، قانونی جنگ عدالتوں میں اور سیاسی جنگ سڑکوں و پارلیمان میں لڑی جائے گی، حکومتی پالیسیوں اور انتقامی کارروائیوں کے خلاف پیپلزپارٹی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرے گی۔ سندھ میں جو کچھ مشق شروع کی گئی ہے، وہ محدود نہیں رہے گی، گورنر کے آئین کے اندر طے شدہ کردار سے تجاوز کیا جا رہا ہے، وہ ان ارکان اسمبلی کے ساتھ گھوم رہے ہیں، جو حکومت کو غیر مستحکم کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو نیب نے طلب کیا، تفتیش کے بعد باہر آکر بتایا کہ انہوں نے نیب کو مطمئن کر دیا ہے، اگلے دن نیب نے کہا کہ ہمیں ضرورت پڑی تو ہم دوبارہ طلب کریں گے، خیبر پختونخوا سے بسم اللہ کریں، وہاں کے وزیراعلیٰ استعفی دیں۔ ان سب سوالوں کے جواب تبدیلی سرکار کو دینا ہونگے۔

اسلام ٹائمز: مہنگائی سمیت کئی مسائل ہیں، ان ایشوز پر تو اپوزیشن نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا اعلان کبھی نہیں کیا، نہ دھرنے کی دھمکی دی ہے، مقدمات کے خاتمے سے ملک کی مشکلات ختم ہو جائینگی۔؟
مصطفیٰ نواز کھوکھر:
دو وزراء صرف اس کام کیلئے رکھے ہوئے ہیں، جو عجیب عجیب بیانات دیتے ہیں، حکومت جب سے آئی ہے کہہ رہی ہے کہ ہمیں خسارے میں ملک ملا، لیکن اپنی نالائقی کو نہیں دیکھ رہے۔ اس سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ آرمی چیف نے جاکر بزنس کمیونٹی سے معیشت پر بات کی۔ اداروں کی تجاوزات زہر قاتل ہیں، حکومت کی کوئی سمت درست نہیں۔ حکومت مدت پوری نہیں کرے گی، پالیسیوں سے یہی نظر آتا ہے، حکومت نا اہل ہے۔ ملک کی معاشی صورتحال پہلے ہی خراب ہے اور حکومت منی بجٹ لا رہی ہے، ہیلتھ کارڈ لانا تھا لیکن ادویات کی قیمت بڑھا دی گئیں، جس سے عام آدمی متاثر ہوا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہیے کہ نیشنل ایشوز پر جمع ہوں، تاکہ عام آدمی کو اس کا فائدہ ہو۔ حکومت آتے ہی غیر مقبول ہوگئی، معاشی صورتحال ابتر اور ڈالر تیزی سے اوپر جا رہا ہے ۔حکومت کو سی پیک، گوادر بندر گاہ اور کراچی موٹر وے سے متعلق صورتحال سے آگاہ کرنا چاہیے، اب منی بجٹ آرہا ہے، جبکہ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ حکومت اپنا 100 روزہ ایجنڈا پورا کرنے میں مکمل ناکام رہی اور جب بلاول بھٹو عوامی حقوق کی بات کرتے ہیں تو نیب اور جے آئی ٹی کی تلوار لٹکا دی جاتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ  قوتیں ایسی ہیں، جو عدالتی فیصلوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ منی بجٹ آرہا ہے، 155 ارب کے نئے ٹیکس لگ رہے ہیں، آئی ایم ایف سے مذاکرات یا غیر ملکی دوروں پر پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردی میں واضح کمی کا سہرا فوج کی قربانیوں کے سر ہے، سول اداروں میں اصلاحات کی ضرورت باقی ہے، فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے دہشتگردی کے مکمل خاتمے پہ پارٹی کا اتفاق کیوں نہیں۔؟
مصطفیٰ نواز کھوکھر:
ملک میں جمہوریت کیلئے سب سے زیادہ قربانیاں پیپلز پارٹی نے دی ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی آج بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے، فوجی آپریشن اور فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے نتیجے میں جو امن آیا ہے وہ عارضی ہے، اصل کام حکومت اور سول سوسائٹی کا ہے، جب تک سویلین ادارے اپنے حصے کا کام نہیں کریں گے، تب تک دہشتگردی کو جڑ سے نہیں اکھیڑا جا سکے گا۔ ہم کسی دباؤ میں نہیں، نہ ہی کسی ڈیل کیلئے فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کر رہے، 18ویں ترمیم کو کرپشن کا ذریعہ کہنا، پارلیمنٹ اور اکائیوں کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے، جمہوری اقدامات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، یہ معاشرے اور ریاست کے لئے نہایت خطرناک رجحان ہے، اس طرح سے معاشرے میں انارکی اور آمریت فروغ پائے گی، اگر میثاق جمہوریت نہ ہوتا تو ملک میں آمریت بہت پہلے آگئی ہوتی، سول اداروں کو اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرنا چاہیئے، ایف آئی اے نے اصغر خان کیس بند کرنے کا کہا ہے، اگر وزیراعظم کے پاس اس حوالے سے سمری نہیں گئی تو یہ خطرناک بات ہے، اس سے یہ لگے گا کہ بیوروکریسی پر حکومت کی گرفت نہیں۔ امریکہ افغانستان مذاکرات پر بھی پارلیمان کو نہیں بتایا گیا، اس حوالے سے حکومت ان کیمرہ میٹنگ رکھ سکتی ہے، فوری طور پر پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی بنائی جائے۔

اسلام ٹائمز: امریکی سفارتکار، عرب شہزادے عمران خان کے وژن کی تعریف کر رہے ہیں، وزیر خارجہ بھی متحرک ہیں، پاکستان کو تنہائی سے نکالنے کیلئے پوری قوم کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیئے۔؟
مصطفیٰ نواز کھوکھر:
یکجہتی اور اتفاق کی ضرورت تو ہر دور میں رہی ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ موجودہ سلیکٹڈ حکمران خود عالمی برادری اور ذرائع ابلاغ کے سامنے پاکستان کو کرپٹ ملک کے طور پر پیش کرکے بدنام کر رہے ہیں۔ ہر دوسرے شہری کو منی لانڈرنگ، منشیات فروشی اور مجرم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے بارے میں انتقامی رویہ ملک کو کبھی بھی فائدہ نہیں پہنچائے گا، نہ پاکستان کی ساکھ بہتر ہوگی، اسکے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بلا امتیاز احتساب کے بغیر کرپشن کا یہ شور کوئی روک پیدا نہیں کر رہا، بلکہ جرائم پیشہ افراد کے بیانیے کی حمایت کر رہا ہے۔ احتساب عدالت کے ذریعے ہونا چاہیئے، نہ کہ میڈیا ٹرائل یا مشتہر تحقیقات اور پروپیگنڈے کے ذریعے، یہ تو قانون کے خلاف ہے، ملک کے لیے بھی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ ایک طرف تو میڈیا کے ذریعے سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا احتساب خود ہمارے ملک اور ہم وطنوں کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہے اور دوسری جانب ہم ملک میں سرمایہ کاری کا رونا روتے ہیں، کیونکہ سرمایہ کار نہ صرف اپنی جان اور سلامتی سے متعلق خدشات میں مبتلا ہیں، بلکہ فراڈ اور سرمایہ کاری سے متعلق غیر مستحکم ماحول کی وجہ سے سرمائے کے نقصان کے خوف میں بھی مبتلا ہیں۔ سرمایہ کاروں کے خوف کی وجہ قانون شکنی کی صورت میں کسی قانونی روکاوٹ کی عدم موجودگی ہے۔ جب سرمایہ کار اپنی جان اور سرمائے سے متعلق عدم تحفظ کا شکار ہو جائے، تو وہ اپنا سرمایہ ملک میں لگانے کی بجائے سری لنکا، بنگلا دیش، کینیڈا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک میں منتقل کر رہا ہے۔ امریکی سینیٹر نے وزیراعظم کی تعریف میں کہا ہے کہ عمران خان اور صدر ٹرمپ کی ملاقات ضروری ہے، کیونکہ دونوں ایک جیسی شخصیات کے مالک ہیں، اس لیے ان دونوں میں خوب نبھے گی۔

اسلام ٹائمز: سانحہ ساہیوال نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ایسے واقعات کا تدارک کیسے ممکن ہے۔؟
مصطفیٰ نواز کھوکھر:
اس حادثے کے بعد سی ٹی ڈی کی سابقہ کارروائیاں سوالیہ نشان بن گئی ہیں، یہ واقعہ دل دہلا دینے والا ہے، جہاں معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، ساہیوال حادثے سے ہر شخص دلی دکھ محسوس کر رہا ہے۔ عوام کو امید تھی کہ پنجاب میں پولس کلچر تبدیل ہوگا اور اس کے رویوں میں تبدیلی آئے گی، مگر افسوس کا مقام ہے کہ پولیس اپنے پرانے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور عوام کو دہشت زدہ کرنے میں اپنی مثال آپ بنی ہوئی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت جو پولیس نظام کو تبدیل کرنے کی بات کرتی تھی، عوام کو پولیس کے ظلم وستم سے بچانے میں بری طرح ناکام ہے۔ یہ ضروری ہے کہ واقعہ کے ذمہ داروں کو فوری عبرت ناک سزا دی جائے اور حکمران عوام کے تحفظ کے لئے پولیس کے نظام کو جلد تبدیل کریں۔ بچوں کے سامنے والدین کا قتل گڈ گورننس کے جھوٹے دعویداروں کے منہ پر طمانچہ ہے، اتنے بڑے سانحے کے بعد حکومت لاپتہ ہوگئی۔

ریاستِ مدینہ کی پیروی کے دعویدار آج کے حکمران بتائیں، سانحہ ساہیوال کا ذمہ دار کون ہے؟ نیازی سرکار کی تحقیقات پر کسی کو اعتماد نہیں، ایس ایس پیز اور آئی جیز کا تبادلہ کرنے والوں سے انصاف نہیں ہوگا۔ ٹوئٹر والی سرکار دروغ گوئی اور مخالفین پر الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی، نئے پاکستان کے نام پر ملک میں جنگل کا قانون لاگو کر دیا گیا ہے۔ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 3 چھوٹے بچوں کے سامنے ماں، باپ، بہن اور ڈرائیور کے قتل نے انسانیت کو شرما دیا ہے اور قومی ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، سانحہ ساہیوال نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ دہشتگردی کی روک تھام کرنے والے اداروں کو کھلی چھوٹ نہیں دینی چاہیئے کہ وہ بغیر تحقیق اور تفتیش کے بے گناہوں کا قتل عام کرتے پھریں۔ ساہیوال کے اندوہناک واقعے نے بحرانی حساس کیفیات سے نمٹنے کے حوالے سے ہمارے اداروں کی صلاحیت کے سیاہ پہلوئوں کو بے نقاب کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 773347
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش