0
Monday 21 Jan 2019 18:59

اگر گلگت بلتستان کی حیثیت متنازعہ ہے تو پھر ہم اپنی نئی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں، کیپٹن (ر) شفیع

اگر گلگت بلتستان کی حیثیت متنازعہ ہے تو پھر ہم اپنی نئی جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں، کیپٹن (ر) شفیع
کیپٹن شفیع اسوقت گلگت بلتستان اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، اسلامی تحریک پاکستان کیطرف سے حلقہ نمبر تین سے وزیر تعمیر ڈاکٹر اقبال کیخلاف الیکشن لڑا تھا لیکن ہار گئے تھے، اسکے بعد اسلامی تحریک انہیں ٹیکنو کریٹ کی سیٹ پر لائی اور کچھ عرصہ قبل اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے۔ اسوقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے ہمراہ اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کیجانب سے سنائے جانے والے فیصلے پر گلگت بلتستان کے لوگوں کا کیا موقف ہے؟، یہ اور دیگر امور پر اسلام ٹائمز نے ان سے انٹرویو لیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز۔ عوامی ایکشن کمیٹی نے سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مکمل طور پر فیصلہ مسترد کیا ہے یا جزوی طور پر اعتراض کیا ہے۔؟
کیپٹن (ر) شفیع:
میں سمجھتا ہوں کہ یہ عدالت کے ڈومین میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس چیز پر ہاتھ ڈالتی۔ اس لئے ہم نے فقط عدالتی آرڈر کو مکمل طور پر مسترد کیا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب عدالت خود ہی ہماری شناخت کو متنازعہ کر رہی ہے تو پھر حقوق کیسے دے رہے ہیں، عدالت نے یہاں تک سیاسی جماعتوں کو پابند بنایا ہے کہ اگر عبوری آرڈر میں کوئی تبدیلی لانی ہے تو وہ بھی عدالت کے ذریعے ہی لائی جائے، یہ دنیا میں پہلی مثال قائم ہوئی ہے کہ عدالتی حکومت قائم ہوگئی ہے، عدالت کا یہ ڈومین ہی نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آرڈر میں عدالتی منشا کے بغیر تبدیلی یا ترمیم نہیں ہوسکتی۔ عدالت کو یہ اختیار کیسے ہے، جب ہم ہیں ہی متنازعہ شناخت والے۔؟ ہم اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: جغرافیائی لحاظ اور زمینی حقائق کی روشنی میں عوامی ایکشن کمیٹی کا اب کیا مطالبہ ہے۔؟
کیپٹن (ر) شفیع:
ہم یہی چاہتے ہیں کہ اگر ہم واقعی متنازع ہیں، ہماری شناخت متنازع ہے تو 13 اگست 1949ء کی اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق ہمارے اسٹیٹس کو تسلیم کریں اور اسی قرارراد کے تحت جو سٹیٹ سبجکٹ رول ہے، جس کو معطل کیا گیا ہے، اس کو بحال کیا جائے، وہ اسٹیٹ سبجکٹ رول آج بھی آزاد کشمیر میں نافذ العمل ہے، جو مقبوضہ کشمیر میں نافذ ہے، اسے گلگت بلتستان میں بھی نافذ کیا جائے۔ کیونکہ اگر ہم مذکورہ متنازع علاقوں کی اکائی ہیں تو پھر یہاں کیوں اسٹیٹ سبجکٹ رول نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تین چیزیں جن میں کرنسی، دفاع اور خارجہ پالیسی ہے، اس کے علاوہ ہمیں اپنے معاملات خود چلانے دیئے جائیں،ہمیں طاقتور بنایا جائے۔

اسلام ٹائمز: اس مطالبہ پر وفاقی حکومت اور وفاق کی جماعتیں کیا موقف رکھتی ہیں۔ بلآخر آپکی سب سے ملاقاتیں ہوتی ہیں۔؟
کیپٹن (ر) شفیع:
یہ سب منافقت کرتے ہیں، ہمارے سامنے کوئی نہیں کہتا کہ آپکی بات غلط ہے یا ہماری بات میں وزن نہیں، ہر کوئی کہتا ہے کہ آپکی ڈیمانڈز جائز ہیں، لیکن پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ اپنے مفادات اور کشمیری لابی کی وجہ سے پریشر میں آکر کھل کر بات نہیں کرتے۔

اسلام ٹائمز: یہ کیا بات ہے کہ جب بھی گلگت بلتستان کے حقوق کی بات سامنے آتی ہے تو کشمیری قیادت مخالفت میں کھڑی نظر آتی ہے۔؟
کیپٹن (ر) شفیع:
یہ ایک بڑی بدقسمتی ہے، ستر سال سے ہمیں اس کاز کے لئے قربانی کا بکرا بنایا گیا، مگر ان کا رویہ قابل تشویش ہے، گذشتہ دنوں آزاد کشمیر اسمبلی میں قراردار پیش کی گئی، جس میں کہا گیا کہ گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر جیسا سیٹ اپ دیا جائے، ہم اسے ویلکم کرتے ہیں۔ ہم ان کی وجہ سے ذلیل ہو رہے ہیں، آزاد کشمیر والوں کی سپریم کورٹ ہے، عبووری آئین ہے، اپنا جھنڈا ہے، ترانہ ہے، دوسری جانب ہمارے اوپر شیڈول فور کے پرچے ہیں، ہمیں ہمارے حقوق نہیں دیئے جا رہے۔

اسلام ٹائمز: آپ لوگوں نے اپنے حقوق کیلئے تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے، یہ تحریک کہاں تک جاسکتی ہے۔؟
کیپٹن (ر) شفیع:
ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ یہ تحریک کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، اس تحریک کا اعلان ہم نے آج سے نہیں کیا، بلکہ 2009ء میں جب یہ آرڈر آیا تھا، اس کے بعد کیا تھا، ہمیں مزید نئے آرڈر پر ٹرخایا نہیں جاسکتا، اس بات کو سمجھا جائے، ہماری آئینی حیثیت کا تعین کیا جائے، یہ کام حکومت پاکستان ایک شہری ہونے کی حیثیت سے پارلیمنٹ کے ذریعے کرے۔ ان آرڈروں کی اب کوئی وقعت نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی پریشر سے بچنے کے لیے عدالت کا کندھا استعمال کیا گیا۔ عدالت کے ذریعے ہمیں ڈرانے اور دھمکانے کی کوشش کی گئی۔ اگر ہم متنازعہ ہیں اور ہمیں حقوق نہیں دے سکتے تو پھر ٹھیک ہے، آج کے بعد ہم پانچویں صوبے کی نہیں بلکہ اپنی متنازعہ حیثیت کی بحالی کے لئے تحریک چلائیں گے۔

اسلام ٹائمز: یہ جو بلتستان میں ایک مولانا کی گرفتاری ہوئی ہے، ان پر کیا جرم لگایا گیا ہے۔؟
کیپٹن (ر) شفیع:
کوئی قصور نہیں ہے، آپ کو بتاتا چلوں کہ میرے اوپر دو سال سے انسداد دہشتگردی کا مقدمہ درج چل رہا ہے اور گلگت میں اس مقدمے کو بھگت رہا ہوں۔ اگر میں دہشتگرد ہوں تو پھر اپوزیشن لیڈر کیسے ہوں، مجھے تو جیل میں ہونا چاہیئے تھا، جو بھی حقوق کی بات کرتا ہے، اس پر پرچہ کاٹ دیا جاتا ہے، حکومت نے اپنے تمام مخالفین کو ایک ہی لائن میں رکھا ہوا ہے، شیڈول فور میں نام ڈالے جا رہے ہیں، انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ گرفتار مولانا صاحب کا بھی یہی قصور ہے کہ انہوں نے زمین زادوں کے لئے آواز بلند کی۔ ہماری تمام تر ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں اور ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 773359
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش