0
Tuesday 22 Jan 2019 03:02
میری ترجیحات میں غریب کا نہیں غربت کا خاتمہ ہوگا

پی ٹی آئی کے تمام وزراء کو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن پر توجہ دینی چاہیئے، غلام مصطفیٰ کھر

آج اُن لوگوں نے بھی پارلیمنٹ میں بیانات دیئے ہیں جنہیں عدالتیں قاتل قرار دے چکی ہیں
پی ٹی آئی کے تمام وزراء کو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن پر توجہ دینی چاہیئے، غلام مصطفیٰ کھر
غلام مصطفیٰ کھر 2 اگست 1937ء کو ضلع مظفرگڑھ کے گائوں سنانواں کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم لاہور کے پرائیویٹ سکول میں جبکہ اعلیٰ تعلیم ایچی سن کالج سے حاصل کی، زمیندار گھرانے سے تعلق ہونے کیوجہ سے بہت جلد سیاست میں قدم رکھا، صرف 24 سال کی عمر میں 1962ء میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، اُنہوں نے بطور وفاقی وزیر پانی و بجلی، وزیراعلیٰ پنجاب اور گورنر پنجاب کی حیثیت سے کام کیا، 1967ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تو غلام مصطفیٰ کھر نے بانی رکن کی حیثیت سے پارٹی میں شمولیت اختیار کی، ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دو مرتبہ 1971ء اور 1973ء میں گورنر پنجاب رہے، جبکہ 1973ء، 1974ء میں وزیراعلیٰ پنجاب رہے، بعدازاں اُنہوں نے پاکستان مسلم لیگ (فنگشنل) میں شمولیت اختیار کی اور 2017ء میں عام الیکشن سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوگئے، عام الیکشن میںNA181 مظفرگڑھ سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر الیکشن لڑا، آزاد اُمیدوار محمد شبیر علی نے اُنہیں 16 ہزار ووٹوں سے شکست دی، گذشتہ روز ملتان پریس کلب کے پروگرام میٹ دی پریس میں شرکت کی، اس موقع پر ''اسلام ٹائمز''نے اُنکا انٹرویو کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کیجانب سے کاروائی اور بعدازاں مشکوک بیانات سکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر کتنے منفی اثرات مرتب ہونگے۔؟
غلام مصطفیٰ کھر:
سب سے پہلے آپ کا شکریہ، سانحہ ساہیوال کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اگر ہم اپنے ماضی کو دیکھیں تو اس طرح کے واقعات کا انبار نظر آتا ہے، لیکن کسی ایک واقعہ میں بھی انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے، سانحہ ماڈل ٹائون میں کس طرح بے رحمی اور بیدردی کے ساتھ قتل عام کیا گیا، یہ تاریخ کا حصہ ہے، نقیب اللہ قتل کیس میں کس طرح نوجوان کو قتل کیا گیا، لاہور میں مسیحی جوڑے اور سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو کس طرح قتل کیا گیا، یہ سب ہماری تاریخ کے سیاہ باب ہیں، جن کے قاتل ابھی تک کیفرکردار تک نہیں پہنچے۔ اگر ماضی میں اس طرح کے واقعات پر مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جاتی تو آج یہ واقعہ ہی رونما نہ ہوتا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی حکومت اور عمران خان اس حوالے سے کوئی ایسا اقدام اُٹھائیں گے، جو مثال بن جائے گی، رہی بات سکیورٹی اداروں کی کارکردگی تو گذشتہ تیس سالوں سے زیر بحث ہے۔

وردی تبدیل کرنے سے فطرت یا عادت تبدیل نہیں ہوتی، اس کے لئے مسلسل تربیت کی ضرورت ہے، یہ ایک واقعہ ہے جو الیکٹرانک میڈیا پر آنے کی وجہ سے زبان زدعام ہوگیا، ورنہ کتنے ایسے واقعات ہیں، جن کو عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا، میں سمجھتا ہوں کہ سیکیورٹی اداروں کے اس طرح کے واقعات سے عوام کا بھروسہ ان اداروں پر سے اُٹھ جائے گا، اور ساہیوال کے واقعہ کے بعد عوام کے اندر پولیس اور سی ٹی ڈی کے خلاف ایک عجیب قسم کی کیفیت سی پیدا ہوگئی ہے، جب تک اس واقعہ کے مجرمان کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی عوام کو اطمینان حاصل نہیں ہوگا۔ دوسری جانب ہماری بدقسمتی ہے کہ آج اُن لوگوں نے بھی پارلیمنٹ میں بیانات دیے ہیں جنہیں عدالتیں قاتل قرار دے چکی ہیں، جن کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی آچکی ہے، وہ قتل کے نامزد ملزم ہیں، جنہوں نے سانحہ ماڈل ٹائون میں قتل عام کا فرمان جاری کیا۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس واقعے میں پی ٹی آئی کی حکومت کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوگی؟ قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچائے گی، چاہے وہ حکم کہیں سے بھی ملا ہو۔؟
غلام مصطفی کھر:
جی ہاں میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان اس واقعے کے حوالے سے کافی تشویش میں ہیں اور جس طرح کے اقدامات ان دو دنوں میں نظر آئے ہیں، اس سے یہی لگتا ہے کہ اس سانحے میں ملوث اہلکار کسی صورت نہیں بچ سکیں گے، ماضی کے واقعات میں اس طرح کے واقعات کو حکومتی پشت پناہی یا دبائو کی وجہ سے دبا دیا جاتا رہا ہے، لیکن اس بار تحریک انصاف کی حکومت ہے، جس کا نعرہ انصاف فراہم کرنا ہے، آپ دیکھیں کہ واقعہ کے بعد چند گھنٹوں میں ہی اس آپریشن میں شامل اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا اور ان کو گرفتار بھی کر لیا گیا، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ خود اس سانحے کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں، کل تک اس سانحے کی جی آئی ٹی اپنی رپورٹ پیش کر دے گی، جس کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا، صوبائی وزراء کی جانب سے کی گئی پریس کانفرنس ناقص معلومات پر مشتمل تھی، سکیورٹی اداروں کی جانب سے جس طرح مسلسل غفلت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے، وہ قابل مذمت ہے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن کیجانب سے مسلسل وزیراعظم عمران خان اور انکی ہمشیرہ تنقید کا نشانہ ہیں، اپوزیشن جماعتیں حکومت پر انتقامی سیاست کا الزام لگا رہی ہیں۔؟
غلام مصطفیٰ کھر:
عمران خان ہی نئے پاکستان کی بنیاد ہیں، لیکن عمران خان کے ساتھ جو سینیئر سیاست دان ہیں، وہ اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں، جو عمران خان کی محنت پر پانی پھیر رہے ہیں، سینیئر سیاست دانوں کو اپنا تجربہ آگے کے نئے آنے والے نئے کھلاڑیوں کو ساتھ لیکر چلنا چاہیئے، اگر اب بھی پاکستان ٹھیک نہ ہوا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی، پاکستان ٹھیک ہوسکتا ہے، آپ لوگ ہمت کریں، حکومتی رٹ قائم کریں، لوگ اس وقت احساس کمتری کا شکار ہیں، آپ کے سیاسی دشمن اس وقت آپ کی ناتجربہ کاری سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں، اپوزیشن کی جانب سے اس وقت وزیراعظم عمران خان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، نیب کی کارروائیوں کو حکومت کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے، اسی طرح عدلیہ کے فیصلوں کو بھی حکومت کے سر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ایک بے بنیاد الزام لگایا جارہا ہے کہ موجودہ حکومت سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنا رہی ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان حکمرانوں کو غریبوں، کسانوں اور عوام کے ساتھ کی گئی ناانصافیوں کی سزا مل رہی ہے، عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ بی بی کے حوالے سے بھی بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، علیمہ بی بی کی جائیداد 2018ء میں نہیں بنی بلکہ وہ کئی سالوں سے موجود ہے، اگر کوئی ایسا مسئلہ تھا تو گذشتہ حکومتوں نے اس حوالے سے کوئی اقدام کیوں نہیں اُٹھایا؟، وہ کس طرح کوئی اقدام اُٹھاتیں، وہ خود چور اور کرپٹ تھے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ حکومت میں جسطرح بعض وزراء حکومت کا دفاع کرنے کیلئے مختص تھے، جس پر عمران خان نے بھی سخت تنقید کی تھی کہ انکو صرف اسی کام کیلئے رکھا گیا ہے، اب پی ٹی آئی نے بھی وہی کام شروع کر دیا ہے، چند وزراء متعین کر دیئے ہیں، جن کی ذمہ داری ہے کہ حکومت کے سیاہ و سفید کا دفاع کریں۔؟
غلام مصطفیٰ کھر:
حکومتوں میں یہ چلتا رہتا ہے، لیکن اس میں فرق ہونا چاہیئے کہ حکومت کے غلط کاموں اور پالیسیوں کا بے جا دفاع نہ کیا جائے، میں پاکستان تحریک انصاف کے وفاق اور پنجاب کے وزراء سے گزارش کرتا ہوں کہ کسی گندے شخص پر کیچڑ اچھال کر اپنی زبان خراب کرنے سے اپنے کام پر توجہ دیں، تاکہ ملک کے معاشی مسائل حل ہوں، آپ کے ذہن سے زرداری اور شریف برادران نہیں اُتر رہے، اب ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں، اب عدالت جانے اور یہ موصوف جانیں، پاکستان تحریک انصاف کے تمام وزراء کو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن پر توجہ دینی چاہیئے، میں پہلے بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان سے گزارش کرچکا ہوں کہ آپ کو کچھ اداروں کے کرپٹ سربراہان کو گھر بھیجنا ہوگا، جو سارے فساد کی جڑ ہیں اور آپ کی حکومت کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں، بعض اداروں میں بھل صفائی کا کام مکمل ہوچکا ہے اور بعض اداروں میں جاری ہے، اس وقت بعض ادارے حکومت کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں، جو حکومت کو ٹھیک طرح سے کام نہیں کرنے دے رہے، ان اداروں میں ماضی کے حکمران کے چہیتے موجود ہیں، جن کی خواہش ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ناکام ہو جائے، مگر وزیراعظم عمران خان اپنے ویژن اور پالیسی کے مطابق ملک کو ترقی کے راستے لگا چکا ہے، تبدیلی کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں رونما ہوں گی۔

اسلام ٹائمز: آپکے سیاسی مخالف جمشید احمد دستی آپ پر تھانہ کچہری کی سیاست کا الزام لگاتے ہیں اور اُنکا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی نے مظفرگڑھ میں چور بازاری کا بازار گرم رکھا ہے۔؟
غلام مصطفٰی کھر:
جہاں غلطی ہو، وہاں تسلیم کرنی چاہیئے، مظفرگڑھ سمیت جنوبی پنجاب بھر میں تھانہ کچہری میں رشوت کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے، جو لمحہ فکریہ ہے، لگتا ہے ہماری معائنہ ٹیمیں اور ٹاسک فورس وزیراعظم کو صحیح رپورٹ نہیں دے رہیں، پاکستان تحریک انصاف کے تمام لیڈران اور کارکنان سے گزارش ہے کہ ملک کے کونے کونے میں پھیل جائیں، ہر ہونے والے غلط کام پر نظر رکھیں اور غلط لوگوں کو گریبان سے پکڑ کر عمران خان کا بازو بنیں، تاکہ پاکستان صحیح معنوں میں ترقی کرے، ملک کے صحافیوں سے بجائے الجھنے کے ان سے تجاویز اور مدد لی جائے، کیونکہ پاکستان اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ لہذا پاکستان کو ناتجربہ کاری کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، جمشید دستی کا ماضی علاقے کی عوام کے سامنے ہے، دستی کی سیاست کو عوام نے یکسر مسترد کر دیا ہے، آپ مظفرگڑھ میں کسی سے جا کر پوچھ لیں، آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اس کا طریقہ واردات کیا ہے، اسی لیے عوام نے دستی کی سیاست کو ایک نہیں دو حلقوں سے مسترد کر دیا ہے، وہ سستی شہرت حاصل کرنے کے چکر میں رہتا ہے، جس نے اُسے سیاسی حوالے سے متعارف کرایا عبدالقیوم جتوئی، اس نے اُس کو بھی نہیں چھوڑا۔

اسلام ٹائمز: حکومت کیطرف سے اگر آپکو کوئی عہدہ ملے تو اُسے قبول کرینگے؟ آپکی ترجیحات کیا ہونگی۔؟
غلام مصطفیٰ کھر:
مجھے اللہ پاک نے بہت عزت دی، جب میں گورنر پنجاب بنا تو پتہ چلتا تھا کہ پنجاب میں کسی کی حکومت ہے، مجال تھی کہ چڑیا بھی پر مارتی، لیکن شومی قسمت اس دفعہ حکومت کا حصہ نہیں بن سکا، اگر حکومت کا حصہ ہوتا تو عمر کے اس حصے میں بھی پاکستان اور کوٹ ادو کی عوام کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتا تھا، 30 سال سے ضلع مظفرگڑھ کی عوام مایوسی کا شکار ہیں، ہر دفعہ عوام کسی نئے بندے کے ہاتھوں یرغمال ہو رہے ہیں، ایسے لوگ منتخب ہو جاتے ہیں، عوام کے مسائل حل کرنا جن کے بس کی بات نہیں ہے، اگر عمران خان نے بلایا تو انہیں پاکستان کے عوام کے مسائل کے حل کیلئے جامع پلان دوں گا، جس سے پاکستان دشمنوں کے منہ بند ہو جائیں گے اور عمران خان کا نیا پاکستان ان کے ویژن کے مطابق پھلے پھولے گا۔ میری ترجیحات میں غریب کا نہیں غربت کا خاتمہ ہوگا، تعلیم کا نہیں جہالت کا خاتمہ، سفارش اور کرپشن کا خاتمہ اولین ترجیحات میں شامل ہوگا، جنوبی پنجاب صوبہ میری ترجیحات کا حصہ ہوگا، اس علاقے کی عوام جس محرومی اور پسماندگی کا شکار ہے، وہ اسے حقوق دلانے کے بعد ہی مل سکتے ہیں، جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے ہماری حکومت نے عوام سے جو وعدے کئے تھے، اُنہیں پورا کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 773423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش