0
Thursday 24 Jan 2019 06:53
عمران خان نے سیاست کو کھیل سمجھ کر سارا کھیل بگاڑ دیا ہے

تبدیلی سرکار کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی کا خمیازہ پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں، طارق فضل چوہدری

تبدیلی سرکار کی مجرمانہ غفلت اور نااہلی کا خمیازہ پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں، طارق فضل چوہدری
سابق وفاقی وزیر برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری 1969ء میں پیدا ہوئے، راولپنڈی میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کیا۔ 2002ء میں اسلام آباد سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا، لیکن پہلی بار 2008ء میں اور دوسری بار 2013ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وزیراعظم نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کیساتھ وفاقی وزیر رہے، پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنماء ہیں۔ ملکی سیاست اور حکومتی امور پر اظہار نظر کرتے رہتے ہیں۔ موجودہ سایسی صورتحال اور درپیش مسائل کے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سانحہ ساہیوال کے بعد حکومت نے 72 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کر دی ہے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ انصاف کے تقاضے پورے ہو پائیں گے؟
طارق فضل چوہدری:
حکومت کا ورژن پولیس والوں کی غلط بیانیوں کا تسلسل ہے، بے حسی اور بربریت کی ساری حدیں پار ہو گئی ہیں۔ قصورواروں کو پکڑنے کی بجائے اُن کا دفاع کیا جا رہا ہے۔ سب کچھ رات کے اندھیر ے میں نہیں انسانی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ ویڈیوز بھی ہیں، چھوٹی سی کار روکی گئی، گولیاں چلیں اور پھر کار میں سے سامان نکالا گیا، تین زندہ رہ جانے والے بچوں کو ہسپتال پہنچایا گیا اور فائرنگ کرنیوالے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار غائب ہو گئے۔ لیکن واردات اور جرم چھپانے کیلئے کیا کیا کہانیاں نہیں گھڑی جا رہی ہیں اور چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے تو ایک کہانی پہ اکتفا نہیں کیا جاتا۔ کبھی ایک عُذر اورکچھ ہی وقت کے بعد مختلف کہانی، حکومتی مؤقف عوام کے سامنے مذاق بن کے رہ گیا ہے۔ پہلے نامعلوم افراد کے خلاف لواحقین کی طرف سے درج کی گئی اور دوسری ایف آئی آر سی ٹی ڈی کی طرف سے درج کروائی گئی۔ مجرمانہ طور پر معاملے کو الجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہماری لیڈرشپ نے سی ٹی ڈی بنائی، بڑے بڑے دہشت گردوں سے پاکستان کو نجات دی گئی، لیکن سب کچھ ڈسپلن میں رکھا جاتا ہے، آج پی ٹی آئی کی قیادت خود غفلت کی نیند سو رہی ہے، اسکا خمیازہ پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاون کے برعکس موجودہ حکومت نے اتنے حساس کیس پر فوری ایکشن لیا ہے، کیا واقعی کوئی دباؤ قبول نہیں کیا جائیگا؟
طارق فضل چوہدری:
سانحہ ماڈل ٹاون کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، آج بھی اسکی حمایت کوئی نہیں کریگا، ہماری حکومت نے معزز جج صاحب کی سربراہی میں تحقیقات کروائی تھیں، واقعہ کے تمام کردار سامنے لائے گئے، مقدمہ چلا، لیکن عمران خان کہتے تھے کہ انہیں فوری طور پر پھانسی پر لٹکایا جائے، لیکن خود یہ پھر بزدلی کر رہے ہیں، انہیں اپنی زبان پہ قائم رہنا چاہیے تھا، فوراً ساہیوال پہنچ کے ایسی عدالت لگاتے، آئی جی پنجاب اور متعلقہ ٹیم کے سربراہ کو حاضر کیا جاتا، فوراً برطرف کیا جاتا، فائرنگ کرنیوالے اہلکاروں کے ناموں سے ایف آئی آر درج کروائی جاتی، چالان چودہ دن میں مکمل ہوتا اور کیس کو فوجی عدالت کے سامنے بھیجا جاتا، لیکن واقعہ کو کوئی رخ دے رہے ہیں۔ اِس واقعے نے پوری تبدیلی سرکار بالخصوص وزیراعلیٰ پنجاب کی حکومت کو مکمل بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ بے ہمت اور دوٖغلے لوگ ہیں، سب کے سامنے عیاں ہو گیا ہے کہ یہ لوگ کتنے پانی میں ہیں۔ کم از کم رانا ثنا اللہ کو منصب سے ہٹایا گیا تھا، نئے پاکستان کی جے آئی ٹی صرف کور اپ کیلئے ہے، منافقوں کے چہرے بے نقاب ہو گئے ہیں، عمران خان نے کہا تھا کہ اوپر والے آدمی کی غلطی ہوتی ہے، اب کسی کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔

اسلام ٹائمز: جے آئی ی بھی بن گئی، تحقیقات بھی ہو رہی ہیں، صوبائی حکومت بھی یہ کہہ رہی ہے کہ یہ آپریشن مکمل طور پر درست معلومات کی بنیاد پر کیا گیا، سرکاری اہلکار اوپر سے آنیوالے احکامات کے مطابق عمل نہ کریں تو نظام کیسے چل سکتا ہے؟
طارق فضل چوہدری:
سوال یہ ہے کہ متعلقہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے تین بچوں کو قبضے میں لے کر بعد میں کیوں چھوڑ دیا گیا؟ اور معصوم بچوں کو کس جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا اور مقتولین کے اہل علاقہ جس طرح مرنے والوں کی بے گناہی اور کردار کی گواہی دے رہے ہیں۔ جس گاڑی میں یہ لوگ سوار تھے، اس پر سامنے کی جانب سے فائرنگ سے بھی پولیس کے موقف کے کمزور ہونے کی دلیل واضح ہوتی ہے کہ اگر یہ لوگ واقعی دہشت گرد یا دہشت گردوں کے ساتھی اور سہولت کار تھے اور بقول پولیس اہلکاروں کے وہاں رکنے کی بجائے بھاگ رہے تھے، تو اصولاً گاڑی پر پشت کی جانب سے گولیاں چلنی چاہئے تھیں۔ سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج سے بھی پولیس موقف کی تصدیق نہیں ہوتی، اس کے باوجود پولیس کے بار بار موقف میں متاثرہ افراد کو دہشت گرد یا ان کے سہولت کار ثابت کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، حالانکہ جو بچے زخمی ہیں، ان کے بیانات اس قسم کے تمام دعووں کی نفی کرتے ہیں، بلکہ کچھ اور ہی کہانی سامنے آتی ہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے پنجاب پولیس کو بھی خیبر پختونخوا پولیس کی طرز پر ڈھالنے کے وعدے کرتے رہے اور اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے سابق آئی جی خیبر پختونخوا ناصر درانی کی خدمات بھی اس مقصد کے لئے حاصل کی تھیں‘ مگر جس طرح پنجاب کے اراکین پارلیمنٹ کے ایک مخصوص طبقے نے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے اور انہیں چلنے نہیں دیاگیا‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ پنجاب پولیس اب بھی آپے سے باہر دکھائی دیتی ہے اور اس کا سابقہ کردار اسی طرح جاری و ساری ہے۔ بہر حال اصل حقائق کا پتا چلنا چاہیے، بشرطیکہ انکوائری میں مکمل غیر جانبداری سے کام لیا جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جوڈیشیل کمیشن بنایا جائے جو تحقیقات کرے۔

اسلام ٹائمز: متحدہ اپوزیشن حکومت کے ناپسندیدہ اقدامات کو روکنے کیلئے کیا کردار ادا کر رہی ہے؟
طارق فضل چوہدری:
مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں میں توسیع اور منی بجٹ سمیت تمام اہم امور پر ملکر چلنے پر اتفاق کیا ہے۔ سیاسی حکمت عملی ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال، سانحہ ساہیوال، منی بجٹ جیسے ایشوز کو سامنے رکھ بنا رہے ہیں۔  عوام کو درپیش مسائل اور مشکلات کے حوالے سے بھرپور آواز بلند کی جائے گی اور سانحہ ساہیوال کے ملزموں کو بچانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔ سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے ورثا کا بھرپور ساتھ دیا جائے گا۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ منی بجٹ کے بعد بھی عوامی مشکلات میں کمی نہیں آئے گی اور اس سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے کا خدشہ ہے۔ ہماری مشاورت جاری ہے، عوامی مسائل کے حل تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں تمام ایشو زپر مشاورت سے چلیں گے، بدقسمتی سے حکومت کے پاس کوئی سوچ، وژن یا سیاست نہیں، حکومت کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں، حکومتی اتحاد کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، نئے پاکستان کے اندر نیا پنجاب بننے والا ہے، رہی سہی کسر کمزور وزیراعلیٰ نے نکال دی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کے خیال میں پنجاب میں تبدیلی کی وجہ کیا بنے گی، حکومت کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟
طارق فضل چوہدری:
یہ ایک موقع تھا جسے عمران خان نے گنوا دیا ہے، اگر وہ جمہوری اصولوں کے مطابق اقتدار میں آتے، جو کہ نہیں آ سکتے تھے، تو انہیں کسی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا، اگر مشکلات درپیش بھی آتیں تو انکا حل موجود ہوتا، نہ وہ حکومت چلا سکتے ہیں نہ اپنے اتھادیوں کو سنبھال پا رہے ہیں، جب وزیراعلیٰ پنجاب کی کمزوری پہ سوالات اٹھائے گئے، عمران خان نے کہا میں عثمان بزدار کیساتھ ہوں، یہ وسیم اکرم ثابت ہونگے، مگر ایسا کچھ نہیں۔ عمران خان نے سیاست کو کھیل سمجھ کر سارا کھیل بگاڑ دیا ہے، ایسی ہی صورتحال وفاق مین ہے، اسد عمر کو دیکھ لیں، انہیں معلوم ہی نہیں کہ فیصلے کیسے کرنے ہوتے ہیں، آئی ایم ایف جانے کا فیصلہ اب تاخیر کا شکار ہے، جسکی وجہ سے حکومت دباؤ میں ہے، معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے، رزاق داود، جہانگیر ترین اور اسد عمر کے درمیان دراڑ موجود ہے، اسی طرح راجہ نشارت، علیم خان اور عثمان بزدار آپ میں مل کر نہیں چل سکتے، پھر عمار یاسر کے استعفے نے پنجاب میں تبدیلی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے، انکی پتنگ کٹ چکی ہے، یہ جلد لاپتہ ہو جائیں گے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت سوچ سمجھ کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرتی اور معیشت کو پہلی ترجیح بناتی تو سارے معاملات وزیر خزانہ پر نہ چھوڑے جاتے، خسرو بختیار اور شاہ محمود قریشی کو بھی اس صلاح مشورے میں شامل کیا جاتا۔

اسلام ٹائمز: حکومتی معاملات تو چل رہے ہیں؟
طارق فضل چوہدری:
وفاق اور پنجاب میں ماحول کچھ ایسا ہے کہ بیورو کریسی احتساب کے نظام سے ڈر کر قلم چھوڑ پالیسی اپنا چکی ہے، وہ کوئی پہل کرنے، حکم دینے یا آگے بڑھنے کے لئے بالکل تیار نہیں۔ یوں سارے کام ٹھپ ہیں۔ کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب پالیسی سازی ہوتی ہے اور ترقیاتی کام کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ترقیاتی بجٹ آدھے سے زیادہ کم کر دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سال کے خاتمے پر صوبے بھر کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی نظر آئیں گی اور اگر ہائوسنگ پروجیکٹ شروع نہ ہوا تو تعمیر و ترقی کا کام بالکل بیٹھ جائے گا۔ انتہائی قابل اور دانش مند ٹاپ بیورو کریٹ ڈھائی ماہ سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، ان کی وزیراعلیٰ سے الگ سے ملاقات ہی نہیں ہو پاتی، اس لئے بڑے بڑے فیصلے رکے ہوئے ہیں۔ پنجاب میں کوئی بھی خوش نظر نہیں آ رہا۔ چوہدری سرور کو اس یقین دہانی کے ساتھ عہدہ دیا گیا تھا کہ صوبے میں پانی کی فراہمی آپ کی ذمہ داری ہو گی مگر انہیں ایسا کوئی اختیار نہیں ملا، جس کے بعد سے انہوں نے سرور فائونڈیشن کے نام سے پرائیویٹ این جی او کے تحت آر او پلانٹ لگانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ اگر انہیں اختیار مل جاتا تو وہ یہی کام حکومت پنجاب کے لئے کرتے۔ چوہدری برادران اور گورنر کے درمیان اختلاف پہلے ہی سامنے آ چکا ہے۔ اقتدار فیصلے کرنے کا نام ہے، جو نہ کپتان کے بس میں ہے نہ انکی ٹیم اس پوزیشن میں ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا اور اصلی تبدیلی نہ آئی تو ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم قطر کے کامیاب دورے سے واپس لوٹے ہیں، آپ سمجھتے ہیں کہ قطر کے تعاون سے آئی ایم ایف کیساتھ معاملات طے پا جائیں گے؟
طارق فضل چوہدری:
حکومت میں آنے سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے بہت بڑے بڑے دعوے کئے، لیکن چھ ماہ ہونے کو ہیں اور حالات آپ سب کے سامنے ہیں۔ عمران خان جس ایل این جی معاہدے کو فراڈ کہتے تھے، آج اسی کیلئے قطر گئے ہیں، وزیراعظم کشکول لیکر مانگتے پھرتے ہیں، عمران خان کشکول لیکر کبھی سعودی عرب تو کبھی کسی اور ملک جارہے ہیں اور کہہ رہے ہیں ہمیں کچھ دے دو، آپ کا بھی بھلا ہمارا بھی بھلا، سیاسی کیریئر میں کبھی ایسا نہیں دیکھا، تحریک انصاف کی حکومت اس حوالے سے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ کئی دوست ممالک کے دوروں کے باوجود معیشت کا کامیابی کی طرف سفر شروع نہیں ہوا۔ سودن پورے ہونے والے روز بھی اسٹاک مارکیٹ کریش ہو گئی، بینک خالی پڑے ہیں، کاروبار تنزلی کا شکار ہے، رئیل اسٹیٹ کی قیمتیں گر رہی ہیں، ایکسپورٹ نہیں بڑھی، درآمدات کم نہیں ہو پا رہیں۔ ملک کا اصل مسئلہ معیشت ہے، جس کی سنگینی بڑھتی جا رہی ہے، حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

یہ سچ ہے کہ ملک خیرات پر نہیں معاشی اصلاحات سے چلتے ہیں، مگر موجودہ حکمران معاشی اصلاحات کے بجائے خیرات مانگنے پر لگے ہوئے ہیں۔ حکمران سعودی عرب اور امارات سے خیرات ملنے پر بڑے خوش ہیں، حکومت سال میں تیسرا بجٹ پیش کر رہی ہے، اس سے قبل ایک سال میں ایک ہی بجٹ آتا تھا، مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی، لوگ اتنا سیلاب اور زلزلے سے نہیں ڈرتے جتنا بجٹ سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ڈکٹیشن پر ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی کررہی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ کاغذ کا بے وقعت ٹکڑا بن چکا ہے، اب تو افغانستان کی افغانی اور بنگلہ دیش کا ٹکہ بھی روپے سے زیادہ قیمتی ہیں۔ حکومت کے معاشی افلاطونوں کے رنگ اڑے ہوئے اور زبانیں گنگ ہوچکی ہیں، ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ بڑے بڑے دعوؤں کو کیسے پورا کریں۔ اب تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس حکومت کو چلا کون رہاہے اور فیصلے کہاں ہوتے ہیں لگتا ہے کہ فیصلے اس وقت ہوتے ہیں جب قوم سو رہی ہوتی ہے، حکومتی وعدوں کے مطابق پانچ ماہ میں دس لاکھ نوجوانوں کو روزگار اور پانچ لاکھ بے گھر افراد کو گھر ملنے چاہئیں تھے، مگر حکومت لوگوں سے گھر اور روزگار چھین رہی ہے، حکمرانوں کے پاس کوئی وژن نہیں اور نہ ہی ان میں کوئی صلاحیت ہے۔
خبر کا کوڈ : 773878
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش