0
Friday 25 Jan 2019 23:02
نئے پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدلیں گے

فلسطین بھی کشمیر کی طرح ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو اور محور ہے، چوہدری محمد سرور

فلسطین بھی کشمیر کی طرح ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی جزو اور محور ہے، چوہدری محمد سرور
پی ٹی آئی پنجاب کے سابق صدر چوہدری محمد سرور 1952ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے تعلیم مکمل کرنیکے بعد 1976ء میں اسکاٹ لینڈ گئے، 1982ء میں بھائی کیساتھ ملکر کیش اینڈ کیری کا بزنس شروع کیا، 1987ء میں برطانیہ کی مقامی سیاست میں شریک ہوئے، 1997ء میں پہلے برطانوی رکن پارلیمنٹ کے طور پر قرآن شریف پہ حلف اٹھایا، 2010ء تک رکن برطانوی پارلیمنٹ رہے۔ 2013ء کے قومی انتخابات میں مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کیلئے فنڈ ریزنگ کی، اگست 2013ء میں پنجاب کے گورنر بنے۔ جنوری 2015ء میں انہوں نے لیگی حکومت کی خارجہ پالیسی پر اختلاف کیوجہ سے گورنرشپ چھوڑ دی اور فروری 2015ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ مارچ 2018ء میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے، ستمبر 2018ء میں گورنر پنجاب کا حلف اٹھایا۔ پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے صوبائی صدر بھی رہے۔ اب بھی پارٹی کی صوبائی حکومت اور اتحادیوں سے انکے اختلافات کی خبریں عام ہیں۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی، درپیش مسائل سمیت اہم امور سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم حکومت میں آنے سے پہلے غیر ملکی دوروں کو ایک مصیبت قرار دیتے تھے، ابھی انہیں پارلیمنٹ میں جانیکا بھی ٹائم نہیں مل رہا، کیا یہ بھی کوئی یوٹرن پالیسی کا جزو ہے۔؟
چوہدری محمد سرور:
پی ٹی آئی کی حکومت کا ویژن ہے کہ وہ ملک میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ خلوص نیت، مکمل و مربوط منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کو اقتصادی اور معاشی طور پر مستحکم اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ یہی خواب ہے نئے پاکستان کا، جسے شرمندہ تعبیر کرنا عمران خان کا کام ہے۔ پاکستانی معیشت اور اقتصادیات کو بہتر بنانے کے لئے وزیراعظم اور ان کے رفقاء لگن اور جذبے سے دن رات کام کر رہے ہیں، دورہ قطر بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بامقصد وزٹ ہے، غیر ضروری تنقید سے گریز کیا جانا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کہا تو یہ جا رہا ہے کہ وزیراعظم کشکول اٹھائے دنیا میں گھوم رہے ہیں اور قطر والوں کو تو کرپشن سے بھی جوڑا گیا تھا۔؟
چوہدری محمد سرور:
اس قسم کے اعتراضات اٹھانے والے دراصل وہی ولن ہیں، جو وزیراعظم نے ذکر کئے ہیں کہ یہ ملک کا پیسہ چوری کرکے باہر بھیجنے والے لوگ ہیں، جب سے موجودہ حکومت نے منی لانڈرنگ کرنیوالوں کیخلاف جنگ کا آغاز کیا ہے، ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ پاکستانی فکر نہ کریں، سبز پاسپورٹ کی پوری دنیا میں عزت ہوگی، ہم سیاحت سے اتنا پیسہ کمالیں گے کہ ہمیں کسی سے ڈالر مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی، ہماری حکومت کو پانچ مہینے ہوگئے، لیکن کرپشن کا ایک بھی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ سربراہ حکومت کے باہر جانے اور دوست ممالک سے تعاون لینے میں کوئی قباحت نہیں، ایک تو یہ مقصد جو وزیراعظم کے دورہ جات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔ دوسرا یہ بھی اہم چیز ہے کہ ملک کا وزیراعظم دوسرے ممالک میں موجود پاکستانی کیمونٹی سے ملے اور انہیں اپنا پروگرام شیئر کرے، تاکہ انہیں احساس ہو کہ انکا اپنا ملک اب بدل رہا ہے، ترقی کے سفر میں انکی ضرورت ہے۔ خارجہ امور کے حوالے سے یہ پاکستان کی کامیابی ہے کہ ایک طرف سعودی عرب ہمیں اربوں ڈالر دے رہا ہے، دوسری طرف اختلافات کے باوجود قطر کے امیر نے خود ہمارے وزیراعظم کو مدعو کیا ہے اور دونوں ممالک کی شخصیات پاکستان بھی آئیں گی۔

بیرون ملک پاکستانیوں سے میرا تعلق بھی بہت پرانا ہے، میں یورپ میں رہا ہوں، اوورسیز پاکستانیوں نے ہمیشہ پاکستان کیلئے دل کھول کر عطیات دیئے ہیں۔ ان سے جا کر ملنا اور بات کرنا، انہیں یقین دلانا ضروری ہے کہ پاکستان اب بدل چکا ہے، وہ ہمارا اثاثہ ہیں، انہیں بھی اب یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں، اپنے اثاثے بنائیں، جو ضائع نہیں ہونگے، ضروری اشیاء ملک میں ہی تیار ہوں، ہمارا روپیہ اس لئے گرتا ہے، کیونکہ ہمارے پاس ڈالر کم ہیں، ہمارے پاس اتنے ڈالر نہیں کہ باہر سے چیزیں منگوا سکیں۔ ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ پاکستانی دنیا میں جہاں بھی ہیں، وہ کرپشن کی فکر نہ کریں، ہمارا ملک وہ ملک بننے جا رہا ہے، جب لوگوں کو اپنے ملک سے باہر نوکریاں ڈھونڈنے نہیں جانا پڑے گا، ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، لیکن جس طرح اس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا، کوئی اور ملک ہوتا تو اس کا دیوالیہ نکل چکا ہوتا، یہ ہم سب جانتے ہیں کہ دیانتداری سے حکومت چلانے سے ملک امیر ہوتا ہے۔ خود قطر کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح دیانتداری سے انہوں نے جو پیسہ بنایا، وہ اپنے ملک کے لوگوں پر خرچ کیا، کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان پانچ دہائیاں دنیا میں آگے جا رہا تھا، لیکن آج اس لئے پیچھے رہ گیا ہے کیونکہ ایمانداری کے ساتھ معاملات نہیں چلائے گئے۔

قطر کے سرمایہ کار توانائی، پیٹرولیم، ادویہ سازی، زرعی تحقیق، فوڈ پراسیسنگ، ثقافت، سیاحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی سمیت پاکستان کی معیشت کے تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کرینگے، انکا نجی شعبہ بھی اگلے پانچ سال کے دوران 50 لاکھ سستے گھروں کی تعمیر کیلئے حکومت کی مہم میں شراکت دار بنے گا، ایک لاکھ پاکستانی وہاں جا رہے ہیں، 2022ء کے فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد کے سلسلے میں بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے منصوبوں میں پاکستان کی افرادی قوت کو زیادہ حصہ ملے گا، یہ سب پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے وزیراعظم ذمہ داری سے یہ معاہدے کروائیں، سابق ادوار میں حکمران طبقہ اپنے کاروبار اور ذاتی مفادات کیلئے سرکاری وسائل استعمال کرکے، اس حیثیت کو استعمال کرتا تھا، اب ایسا نہیں، یہ بہت بڑا فرق ہے، وزیراعظم کے کہیں جانے اور کسی دوسرے ملک میں دورہ کرنیکے حوالے سے، اس کے نتائج بھی آنا شروع ہوگئے ہیں، دنیا میں پاکستان کا اعتماد بھی بڑھ رہا ہے، ملک میں بھی اس کے مثبت اثرات ہونگے، ان دوروں سے اگر ملک ترقی کرتا ہے اور کوئی ذاتی فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا تو یہ ضروری ہیں۔

اسلام ٹائمز: خارجہ پالیسی کی ان کامیابیوں کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، یہ بھی تاثر ہے کہ عرب ممالک کی نوازشات کیساتھ اسرائیل کیساتھ تعلقات جڑے ہوئے ہیں، ایسی خبروں میں کتنی صداقت ہے۔؟
چوہدری محمد سرور:
پاکستان جس خطے میں واقع ہے، وہاں اب قطر بھی ایک اہم کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ وسیع تر میدان ہے، سفارتی محاذ پر تحریک انصاف کی حکومت مسلسل کامیاب ہو رہی ہے، جس کا کریڈٹ موجودہ حکومت اور آرمی چیف کو جاتا ہے، جو سفارتی تنہائی کو ختم کرچکے ہیں۔ امیر قطر نے وزیراعظم کو پیش کش کی ہے کہ وہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے ساتھ جاری مذاکرات میں پاکستان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے تعلقات کی تجدید ہوئی ہے۔ اربوں ڈالر پاکستان کو ملے ہیں۔ آئندہ ماہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پاکستان آرہے ہیں۔ رواں برس کے اختتام سے قبل امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ بھی متوقع ہے۔ ایران اور عراق کے ساتھ بھی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ چین نے بھی پاکستان کی نئی قیادت کے ساتھ گرم جوشی ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ موجودہ کشیدگی میں عمران خان کے دورہ سے قطر کو سفارتی سپورٹ ملی ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ فلسطین کے مسئلے پہ پاکستان کسی کے ہاتھوں مجبور ہو جائے۔ کسی دوست ملک کا دورہ کسی ذاتی مفاد کیلئے نہیں تو یہ بات بھی درست نہیں کہ پاکستان اپنی عسکری، سفارتی یا سیاسی حیثیت کے ذریعے بارگین کر رہا ہے۔

جس طرح کشمیر پہ موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اسی طرح فلسطین میں ہونیوالے مظالم جب تک جاری ہیں، اسرائیل سے تعلقات کا کوئی امکان نہیں، ان مسائل کو کیسے مس ہینڈل کیا جا سکتا ہے، یہ ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہیں، نہ ہی کسی چینل سے کوئی رابطہ ہوا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ عوامی امنگوں کو پس پشت ڈال کر کوئی قدم اٹھایا جائے۔ اس سے پہلے بھی یہ افواہیں گردش کرتی رہی ہیں، نئے پاکستان سے یہ مراد نہیں کہ ہم اصولوں کی قربانی دیکر معاشی مفادات حاصل کریں۔ وزیراعظم بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ اب کسی قیمت پہ پاکستان اپنی حیثیت اور طاقت کو دوسروں کے مفادات کیلئے استعمال نہیں کریگا۔ نہ ہم دنیا میں ہونیوالے مظالم پہ خاموش رہیں گے۔ اب تو فلسطینیوں کیلئے امریکہ اور یورپ میں بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، ظلم کو زوال ہے، چاہے کشمیر میں ہو، چاہے فلسطین میں۔ عمران خان کے خلاف بہت پروپیگنڈہ ہوا ہے، یہودی لابی کے طعنے دیئے گئے ہیں، ایجنٹ کہا گیا، اگر یہ سچ ہوتا یا ہمارے اندر کوئی کمزوری ہوتی تو کچھ نہ کچھ تو سامنے آتا، اب تو حکومت میں آچکے ہیں، تمام تر حساس ایشوز کو وزیراعظم خود ہی ایڈریس کر رہے ہیں، آئندہ بھی کرینگے، جو لوگ مذہب کی آڑ میں یہ الزامات لگا رہے ہیں، انہیں مایوسی ہوگی، عمران خان اس وقت پورے عالم اسلام میں عزت اور اعتماد حاصل کرچکے ہیں، پوری اسلامی دنیا میں انہیں ایک مقام حاصل ہے، دنیا کے کونے کونے سے مسلمان ریاستوں، حکومتوں اور اہم شخصیات نے انہیں تہنیتی پیغامات بھیجے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا اس دورے کا تعلق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونیوالے مذاکرات سے بھی ہے۔؟
چوہدری محمد سرور:
افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لئے پاکستان اور قطر ایک پیج پر ہیں، قطر واحد ملک ہے، جس نے اپنے ہاں افغان طالبان کو باضابطہ طور پر سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے، جبکہ قطر، امریکہ، پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کی میزبانی بھی کرچکا ہے۔ افغان طالبان پر قطر کا اثر و رسوخ ہے، جو مذاکرات کے لئے فائدہ مند ہوگا۔ وزیراعظم پر طالبان خان کی تہمت لگتی ہے، جبکہ قطر پر طالبان کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا گیا، لیکن وقت نے ثابت کیا کہ امریکہ سمیت تمام دنیا آج اس بات کو تسلم کر گئی ہے کہ افغانستان کا امن فوجی حل کے ذریعے نہیں، بلکہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

یہ خوش آئند ہے کہ اب قطر میں ہی امریکہ افغان طالبان کیساتھ مذاکرات کر رہا ہے، امید ہے یہ سترہ سالہ جنگ اب ختم ہو جائیگی، جو پاکستان سمیت پورے خطے کیلئے ضروری ہے۔ پہلے یہی مذاکرات خفیہ طور پر ہوئے، یا کم از کم براہ راست نہیں ہوئے، اب براہ راست مذاکرات ہو رہے ہیں، اب حل تلاش کیا جا رہا ہے، بحث ہو رہی ہے، کچھ نکات پر پیش رفت ہو رہی ہے، جنگ بندی بھی ہو جائے گی، تعطل بھی آیا ہے، لیکن پہلے کی طرح ڈیڈ لاک پیدا نہیں ہوا، تھوڑے وقفے کے بعد ہی دوبارہ مذاکرات جاری ہوگئے ہیں۔ یہ پاکستان کی کامیاب سفارت کاری کا نتیجہ ہے۔ امریکہ کو ایک چیلنج درپیش ہے کہ وہ ابھی تک افغان حکومت کو مذاکرات میں شامل نہیں کروا سکا، لیکن پاکستان کے بہترین رول کی وجہ سے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں کامیابی ہوئی ہے، جو فقط اور فقط پاکستان کے مرہون منت ہے۔

اسلام ٹائمز: آج کی دنیا میں تنہاء کوئی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، لیکن صرف دوستوں کی امداد حاصل کرکے کیسے ممکن ہے کہ تمام معاشی چینلجز پر قابو پایا جا سکتا ہے۔؟
چوہدری محمد سرور:
ہاں درست ہے، دوسرے ممالک سے ہم سیکھ تو سکتے ہیں، یا روڈ میپ بنانے کیلئے انکی مثالیں سامنے رکھیں تو منصوبہ بندی میں آسانی ہوگی، آپشنز بھی سامنے آئیں گے، ہر ملک اپنے ذرائع اور وسائل کو ہی استعمال کرکے ترقی کرسکتا ہے، خود اسلامی دنیا میں ایسی مثالیں ہیں، جنہوں نے ہم سے بعد میں یہ سفر شروع کیا اور ہم سے آگے نکل چکے ہیں، ٹورازم کو لے لیں، ملائشیا میں سیاحت صرف سمندر کے کنارے ہوتی ہے، لیکن وہاں اس سے آمدنی 20 ارب ڈالر کی ہوتی ہے، ترکی اپنی سمندری اور تاریخی ورثے کی سیاحت سے سالانہ 40 ارب ڈالر کما رہا ہے، دوسری جانب پاکستان کے پاس بہترین سمندر، تاریخی موہنجوداڑو، دنیا کا سب سے پرانا شہر پشاور اور لاہور، ملتان جیسے تاریخی شہر ہیں، پاکستان کے پاس دنیا کے سب سے بہترین پہاڑ ہیں۔

سکھوں کے متبرک مقامات بھی پاکستان میں ہیں، ہندوؤں کی پرانی عبادت گاہیں بھی پاکستان میں ہیں، ٹیکسلا اور پختونخوا بدھ مت کا مرکز ہیں، ہم صرف سیاحت سے ہی اتنا پیسہ اکٹھا کرلیں گے کہ ہمیں کبھی کسی سے ڈالر کے قرضے نہیں لینے پڑیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کا ایجنڈا صرف عوام کی خدمت ہے اور چند ماہ میں عوام کی ترقی و خوشحالی کا روڈ میپ تیار کرکے عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔ ہم نعروں پر نہیں عمل پر یقین رکھتے ہیں، اقتدار سنبھالا تو معیشت تباہ حال تھی، ادارے کنگال تھے۔ مختصر عرصے میں مختلف شعبوں میں اصلاحات کرکے نئی مثال قائم کی ہے، وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں روشن و خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ عوام کی توقعات اور امیدوں پر پورا اتر کر نئے پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدلیں گے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ ساہیوال پہ حکومتی کارکردگی کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندر بھی آواز اٹھائی گئی ہے، آپکے خیال میں پنجاب حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرچکی ہے۔؟
چوہدری محمد سرور:
لوگوں کے ذہنوں میں اس سانحہ کے حوالے سے جو سوالات گونج رہے ہیں، جے آئی ٹی نہ بنائی جاتی تو انکا کوئی جواب سامنے نہ آتا، کیس ختم ہو جاتا، ابتدائی طور پر یہ بات تو سامنے آگئی کہ یہ سوالات ابھی موجود ہیں، ظاہر ہے تحقیقات مکمل ہونے میں تو دیر لگے گی۔ فی الحال جو رپورٹ آئی ہے، اس میں ان کے جوابات موجود نہیں ہیں، لیکن اب یہ کیس دفن نہیں ہوگا۔ یہ جوابات اس سانحہ کے متاثرین کے ورثاء اور قوم کو معلوم ہونا چاہئیں۔ ورنہ دیکھیں کس طرح ہمیں یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہوا ہے، کیا ہو رہا ہے، جس طرح  پولیس اور سی ٹی ڈی کی جانب سے اس واقعہ کے بعد بار بار بیانات بدلے جا رہے تھے، پورے تصور کو بدل دیا جانا تھا تو اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اب کم از کم یہ معاملہ آگے بڑھے گا، جو لوگ ذمہ دار ہیں، انہیں قانون کے مطابق قرار واقعی سزا ملے گی، ناانصافی نہیں ہوگی۔

دیکھیں ہمارے موجودہ کلچر میں کمزوروں کو با اثر سیاسی اشرافیہ کا غلام بننے پر مجبور کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ ہی پولیس بھی طاقتور طبقات کی آلہ کار کا کردار ادا کرتی ہے، پولیس سے متعلق قوانین میں کبھی بھی اس سامراجی ورثے کو مؤثر انداز میں چیلنج کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ہمارے جیسے جاگیردارانہ معاشرے میں غیر معمولی تبدیلیوں کے بغیر ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہوگا۔ ملک کے نظام انصاف میں پولیس کی ناگزیریت کے پیش نظر ضروری ہے کہ قانون کے نفاذ کے لئے اس محکمے کو مکمل طور پر آزادی اور اختیار کے ساتھ کام کرنے کے قابل بنایا جائے۔ پولیس یا تو طاقت وروں کے سامنے کھڑے ہونے والے جرأت مند افسران کے انجام سے خوف زدہ ہے یا سیاسی بنیادوں پر ہونے والی ان گنت بھرتیوں اور تقرری و معطلی کی وجہ سے پوری طرح سیاسی عناصر کے زیر دست ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ناقص تربیت، ناکافی ہتھیار اور عادی بدعنوانوں کے بوجھ تلے دبی پولیس میں ایسے عناصر موجود ہیں، جو دیمک کی طرح اس کی بنیادیں چاٹ رہے ہیں، اصلاحات کے بغیر مکمل تبدیلی اور بہتری ممکن نہیں، ورنہ یہ اقدامات عارضی ثابت ہونگے۔
 
 اسلام ٹائمز: آپ نے ان سوالات کے جوابات آنے سے پہلے ہی ایسا اظہار نظر کیا، جس سے لواحقین کو سخت صدمہ ہوا، اسکی کیا وجہ تھی۔؟
چوہدری محمد سرور:
بہت اہم سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ سانحہ ساہیوال پر سوالات کے جواب جے آئی ٹی اور حکومت دے گی، کیونکہ اب لوگ آگاہی رکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اداروں میں جو لوگ جرم کرتے ہیں، ان کو کس طریقے سے بچایا جاتا ہے، میں اب بھی حکومت، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی طرف سے یقین دلاتا ہوں کہ حکومت مذکورہ تمام سوالات کے جواب دے گی۔ میں مقتول کے خاندان کو ملنے کے لئے گیا تھا، میری خلیل کے خاندان اور ان کے والد اور بھائیوں سے ملاقات ہوئی، ان کے بچوں سے ملاقات ہوئی، خلیل کے خاندان نے جو غم دیکھا وہ مہذب معاشرے میں برداشت کرنا ممکن نہیں، وزیراعظم نے متاثرہ خاندان کو انصاف کی یقین دہانی کرائی ہے، سانحہ ساہیوال کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ سانحہ ساہیوال سے متعلق میرا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، میں نے یہ کہا تھا کہ دنیا بھر میں ایسے واقعات ہوتے ہیں، لیکن ان میں میں ملوث افراد کو سزا ملتی ہے اور اس کے بعد آئندہ ایسا ظلم نہ ہو، اس کی سفارشات پیش کی جاتی ہیں، افسوس کی کچھ لوگوں نے میرے بیان کا غلط تاثر دینے کی کوشش کی۔ میرے خیال میں یہ ایک اہم اور حساس انسانی مسئلہ ہے، جس پر سیاست نہیں ہونی چاہیئے، ہمیں مل کر جو قانونی اور انتظامی سقم موجود ہے، اس کو ختم کرکے ایسے حادثوں کا راستہ روکنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 774171
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش