0
Sunday 27 Jan 2019 12:53
آرڈر کو بہتر بنانے کے دو راستے ہیں، ایک سپریم کورٹ اور دوسرا پارلیمنٹ

عمران خان گلگت بلتستان کو بہت کچھ دینا چاہتے ہیں، حشمت اللہ خان

کشمیری قیادت کیساتھ مل بیٹھ کر غلط فہمیوں کو دور کرنیکی ضرورت ہے
عمران خان گلگت بلتستان کو بہت کچھ دینا چاہتے ہیں، حشمت اللہ خان
حشمت اللہ خان تحریک انصاف گلگت بلتستان کے بانی رہنما ہیں، انہوں نے ہی جی بی میں پہلی مرتبہ تحریک انصاف کی داغ بیل ڈالی، جی بی کے عام انتخابات میں پارٹی کو زندہ رکھا اور بھرپور سرگرمیاں دکھائیں، پارٹی کی مرکزی قیادت نے انہیں صوبائی کنوینئر بنایا، بعد میں ہونہوالی تنظیم سازی کے نتیجے میں انکی جگہ راجہ جلال کو صوبائی صدر مقرر کیا گیا، حشمت اللہ خان سیاست میں آنے سے پہلے جی بی پولیس میں اے آئی جی ریٹائرڈ ہوئے ہیں، ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے سیاست میں قدم رکھا اور گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی داغ بیل ڈالی، اسلام ٹائمز نے حشمت اللہ خان سے خطے کی موجود صورتحال کے تناظر میں اہم گفتگو کی ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم کی تبدیلی کے نعرے کے حوالے سے گلگت بلتستان سے متعلق کس حد تک پرامید ہیں۔؟
حشمت اللہ خان:
عمران خان گلگت بلتستان کو حقوق دینے کیلئے پرعزم ہیں، میں یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خان صاحب جی بی کو بہت کچھ دینگے، وزیراعظم اس خطے کے ساتھ مخلص ہیں، وہ بہت کچھ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ ان کا گلگت بلتستان کے ساتھ تعلق بہت پرانا ہے، آپ کے علم میں ہوگا کہ خان صاحب جب آٹھویں جماعت میں تھے تو اس وقت سے گلگت بلتستان آتے رہے ہیں، انہیں تمام چیزوں کا پتہ ہے، پھر جب میں صوبائی کنوینئر تھا تو اس وقت بھی خان صاحب کو گلگت بلتستان کے حالات سے آگاہ کیا، خطے کے مسائل و مشکلات پر انہیں ہم نے تفصیلی بریف کیا ہوا ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیراعظم کو ساری چیزوں کا پتہ ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ہم ایک نکتے پر متفق ہو جائیں اور ایک مشترکہ مطالبہ پیش کریں۔ ابھی حال ہی میں وفاقی حکومت نے ایک سال کا سیاحتی اور ثقافتی پلان مرتب کر لیا ہے، اس میں گلگت بلتستان کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے، کیونکہ پاکستان میں سیاحت کا نام گلگت بلتستان ہے۔ اس کے علاوہ آپ کے علم میں ہوگا کہ تحریک انصاف کے انتخابی منشور میں دیگر تمام وفاقی پارٹیوں کی نسبت پی ٹی آئی نے جی بی کو اجاگر کیا اور خطے کے مسائل کے حل کیلئے اپنے بھرپور عزم کا اظہار کیا۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ نے عمران خان کو گلگت بلتستان کے مسائل اور مطالبات کے حوالے سے کوئی بریفنگ دی ہے۔؟
حشمت اللہ خان:
جب میں پارٹی کا صوبائی کنوینئر تھا تو اس وقت عمران خان کو خطے میں موجود پاور اور سیاحت کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی، خاص طور پر سیاحت کے حوالے سے ہم نے انہیں آگاہ کیا کہ گلگت بلتستان میں ایسی ایسی جگہیں موجود ہیں، جو سیاحوں پر سحر طاری کرسکتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے یہ جگہیں ابھی تک سیاحوں اور دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ مثال کے طور پر گلگت کے ساتھ ہی کارگاہ نالہ میں گاشو پہوٹ اور منین نامی انتہائی خوبصورت علاقے ہیں، جو ابھی تک دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں، جب یہ علاقے ملکی اور عالمی سطح پر ایکسپلور ہونگے تو سیاحتی حب بنیں گے، ایئرپورٹ کے حوالے بھی عمران خان کو بتایا تھا کہ گلگت اور سکردو ایئرپورٹ کو فعال بنا کر سیاحت کو ترقی دی جاسکتی ہے، خطے کی معیشت کو سیاحت کے ذریعے ترقی دی جاسکتی ہے۔ سیاحوں کیلئے گلگت بلتستان سفر کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔

ساتھ ہی قانونی پیچیدگیوں کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے، سیاحت جتنی ترقی کریگی، اتنا ہی ملک میں سرمایہ آئے گا، یہ اس خطے اور پاکستان کے بھی مفاد میں ہوگا۔ اسی طرح شونٹر ٹنل فوری بنانے کی ضرورت ہے، اس کیلئے آزاد کشمیر حکومت سے بھی بات کرنے کی ضرورت ہے، اگر شونٹر روڈ فوری تعمیر ہوتی ہے تو گلگت بلتستان سے اسلام آباد تک مسافت میں واضح کمی آئے گی۔ اب چونکہ وفاقی حکومت نے ایک سال کا سیاحتی اور ثقافتی پلان ترتیب دیا ہے، اس میں گلگت بلتستان کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، گلگت بلتستان فیسٹیول سیاحت کی ترقی اور میں اہم کردار ادا کرے گا، کوشش ہے کہ وزیراعظم سے پھر ملاقات ہو، خطے کے مسائل اور سیاحت کے پوٹینشل کے حوالے سے انہیں اپنی تجاویز اور مسائل سے آگاہ کرینگے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کیلئے نئی ریفارمز پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، آپ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
حشمت اللہ خان:
دیکھیں، میں سمجھتا ہوں کہ آرڈر جو بھی ہو، ہمیں ٹھنڈے دل سے دیکھنے اور پرکھنے کی ضرورت ہے، یہ حالات خراب کرنے کا وقت نہیں ہے، بلکہ آرڈر میں جو سقم موجود ہیں، انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے، نئی ریفارمز میں کچھ خامیاں بھی موجود ہوں گی، انہیں دور کرنے کا طریقہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں، وہ یہ ہے کہ پہلے ہماری تمام سیاسی لیڈرشپ مل بیٹھے، ایک بیانیے پر متفق ہو جائیں، پھر وفاق میں سیاسی قائدین سے ملیں، پھر حکومتی سطح پر بات کریں، اس طرح غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہو جائے گا اور حکومتی سطح پر بھی نتیجہ اطمینان بخش ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کشمیری قیادت بھی اہم رکاوٹ تصور کی جاتی ہے۔ یہ رکاوٹ آخر کس طرح دور ہوسکتی ہے۔؟
حشمت اللہ خان: دیکھیں پہلے دیکھنا یہ ہے کہ مسئلہ کہاں ہے اور کیوں ہے؟ آزاد کشمیر کی قیادت کے حوالے سے بھی شکایات موجود رہی ہیں کہ وہ آئینی حقوق کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ ہمیں مزید کسی شور شرابے اور الزام تراشیوں کی بجائے کشمیری قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کرنی ہوگی، ان کی سیاسی قیادت کو بلانا ہوگا اور ایک ٹیبل پر بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالنا ہوگا، جب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قیادت ایک نکتے پر متفق ہو جائے تو راستہ آسان سے آسان تر ہو جائے گا، افہام و تفہیم سے معاملہ آگے بڑھانے اور ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے، ہم اس وقت اس سٹیج پر ہیں کہ جہاں الزام تراشیوں اور شور شرابے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، مذاکرات سے ہر مسئلہ حل ہوتا ہے، کیونکہ کشمیری بھی تو ہمارے بھائی ہیں، اگر آپس میں کچھ غلط فہمیاں موجود ہیں تو انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: نئے آرڈر میں موجود خامیوں کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔؟
حشمت اللہ خان:
دو راستے ہیں، ایک یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی اپیل دائر کریں، دوسرا پارلیمنٹ کا راستہ اپنائیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم کی طرف جائیں، یہ دو راستے ہیں، جس کے ذریعے سے ہم آئینی حقوق حاصل کرسکتے ہیں، ہمیں زیادہ شور کرنے کے بجائے اپنی مشکلات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جو ابہام ہیں، انہیں دور کرکے گلگت بلتستان کی نئی نسل کو آگے بڑھنے کا راستہ دینے کی ضرورت ہے، گورننس آرڈر 2009ء سے آرڈر 2018ء بہتر تھا، لیکن اگر سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات پر عمل ہوتا تو بہت ہی بہتر ہوتا، کیونکہ اس میں عبوری صوبے کی سفارش کی گئی تھی، اب جو نیا آرڈر آیا ہے، اس میں بہت سی اچھی چیزیں موجود ہیں اور کچھ خامیاں بھی موجود ہیں، یہ خامیاں دور ہوسکتی اور خطے کو بہتر نظام مل سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 774514
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش