0
Monday 28 Jan 2019 16:32
سیرت پیغمبر رحمت (ص) میں ہی ہماری کامیابی اور فلاح موجود ہے

آج مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی جو ضرورت ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی، مولانا بدر الدین اجمل

مودی کی حکومت پورے ملک کیلئے خطرہ ہے
آج مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کی جو ضرورت ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی، مولانا بدر الدین اجمل
مولانا بدر الدین اجمل کا تعلق بھارتی ریاست آسام سے ہے۔ ممبئی میں رہائش پذیر مولانا بدر الدین اجمل ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شوریٰ کے اہم رکن ہونے کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اہم لیڈر ہیں۔ مولانا بدر الدین اجمل جمعیت علماء ہند آسام ک صدر بھی ہیں۔ آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے چیئرمین اور مرکز المعارف خیراتی ادارے کے بانی و سرپرست بھی ہیں۔ مسلمانوں کی پسماندگی کو دور کرنے اور انکے سیاسی شعور کو پروان چڑھانے کیلئے آسام میں مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سینٹر 1994ء میں قائم کیا اور آج اسکی شاخیں ملک کے کئی صوبوں میں قائم ہیں۔ مولانا بدر الدین اجمل کی خدمات کے پیش نظر انہیں ’’محسن ملت‘‘ کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارتیہ جنتا پارٹی کیجانب سے مسلمانوں کے عائلی مسائل میں مداخلت کرکے تین طلاق بل وغیرہ کو لاگو کرنیکی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا بدر الدین اجمل:
بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے پیش کیا جانے والا تین طلاق بل مسلمانوں کے کسی بھی مکتبہ فکر کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے اور یہ یقیناً مذہبی حقوق میں مداخلت کی ناپاک کوشش ہے۔ اس مسئلہ پر مسلمانوں کے تمام گروہوں نے اختلاف رائے کے باوجود جس اتحاد کا ثبوت دیا ہے، وہ بہت ہی قابل تعریف ہے اور ہمارا طریقہ یہی ہونا چاہیئے کہ ہمارے داخلی اختلافات سے شریعت کے مخالفین کو فائدہ نہ پہنچے۔ تین طلاق بل کو ایک خاص مسلک سے جوڑنا دہشتگردی اور نہایت ہی نامناسب بات ہے۔ ہمارا فریضہ یہ ہے کہ مسلمان جن نازک حالات سے گزر رہے ہیں، ان میں اپنے اتحاد کو باقی رکھیں اور مسلکی و فروعی اختلافات سے اوپر اٹھ کر قانون شریعت کا تحفظ کریں۔

اسلام ٹائمز: ایسی تشویشناک صورتحال کے پیش نظر مسلم رہنماؤں کی کیا ذمہ داری بنتی ہے۔؟
مولانا بدر الدین اجمل:
اس وقت ملک کا مسلمان انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے اور مسلمانوں کو مسلک کے نام پر تقسیم کرکے ان کی قوت کو ختم کرنے کی منصوبہ بند سازش رچائی جا رہی ہے، مسلم نوجوانوں اور علماء کو دہشتگردی کے نام پر جھوٹے کیسوں میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں ملت کے رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسلکی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر ملت کو درپیش مسائل کا متحد ہوکر حل تلاش کریں اور شریعت اسلامیہ و اسلامی تشخص پر حملہ آور ہونے والی طاقتوں کو دندانِ شکن جواب دیں۔ ہمیں تمام تر اختلافات کے باوجود محض ملت کے درد کی خاطر پیغام اتحاد و محبت کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: بھاجپا کیجانب سے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ آسام کے مسلمانوں کو  بنگلہ دیش جلاء وطن کیا جائے اور وہاں سے ہندوؤں کو لاکر یہاں بسایا جائے، اس پر سپریم کوٹ آف انڈیا میں بھی ایک کیس دائر کیا گیا ہے، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا بدر الدین اجمل:
دیکھیئے اللہ سے یہ امید رکھنی چاہیئے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ مگر لگتا ہے کہ ایک کافی بڑی تعداد میں بنگلہ دیش سے یہ ہندوؤں کو لاکر یہاں بسانا چاہتے ہیں، اسی لئے اتنے مسلمانوں کو آسام سے نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ دراصل ہندوؤں کو یہاں لاکر اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو یہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس کی لڑائی ہم لڑ رہے ہیں اور خیر کی امید صرف سپریم کورٹ سے ہے۔ ہم نے سپریم کورٹ کو میمورنڈم پیش کیا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے تین بار ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں کا ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آسام میں مسلمانوں کی جو بیجا گرفتاریاں ہو رہی تھیں، وہ بند ہوئی ہیں۔ اب ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلہ کا منتظر رہنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کانگریس کہہ رہی ہے کہ ہمیں اقتدار پر لاؤ تو ہم سارے مسائل حل کرینگے، اس پر آپکی رائے جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا بدر الدین اجمل:
اس مسئلہ کی سب سے بڑی ذمہ دار کانگریس کی حکومت ہی ہے۔ آسام میں کانگریس کی حکومت پچپن سال رہی۔ کانگریس چاہتی تو اس مسئلے کو لمحے بھر میں حل کرسکتی تھی۔ آج آسام کے مسلمانوں کو سپریم کورٹ سے قدرے راحت ملی، لیکن کانگریس نے کچھ نہیں کیا۔ اب یہ کہنا کہ ہمیں اقتدار میں لاؤ تو ہم سارے مسائل حل کریں گے، یہ ووٹ بنک کی سیاست ہے اور بس۔

اسلام ٹائمز: کیا آسام کے مسلمانوں کو نریندر مودی سے کوئی توقع و امید ہے۔؟
مولانا بدر الدین اجمل:
مودی اور بھاجپا حکومت پورے ملک کے لئے خطرناک ہے۔ مودی کی حکومت تمام سیکولر افراد کے لئے خطرناک ہے اور مسلمانوں کے لئے بھی۔ بھاجپا حکومت جس طرح سے ملک میں تعصب کا زہر گھول رہی ہے، گنگا جمنی تہذیب کو تباہ و برباد کر رہی ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔ بھارت کے 80 فیصد لوگ گنگا جمنی تہذیب کے حامی ہیں، اس لئے مودی کا اور ان کے ساتھیوں کا اقتدار سے بے دخل ہونا ملک کی سالمیت اور وحدت کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے مودی حکومت کو جانا چاہیئے، اسی میں ملک کی خیر ہے۔ اب حکومت کس کی آئے، تو اس سوال کا جواب پانے کے لئے تمام سیکولر جماعتوں کو چاہیئے کہ وہ متحد ہوں۔ تمام سیکولر پارٹیوں کو متحد ہونے کے بعد طے کرنا ہوگا کہ بھارت کا نیا وزیراعظم کسے بننا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے فرمایا کہ یہ نریندر مودی کی حکومت ہمارے لئے اور ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ ہے، اس کی وضاحت چاہیں گے۔؟
مولانا بدر الدین اجمل:
دیکھیئے یہ لوگ جس طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ یہ لوگ زبان، ذات پات، علاقائیت اور مذہب کے نام پر جس طرح سے پورے ملک کو تقسیم کر رہے ہیں۔ ملک کی سالمیت اس کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ یہ ملک کو بہت پیچھے لے جا رہے ہیں۔ مسلمان یہاں ترقی، تعلیم اور امن و امان چاہتا ہے۔ تعلیم پر یہ قدغن لگا رہے ہیں اور جو تعلیم یافتہ بچے ہیں، انہیں چن چن کر جیلوں میں ڈال رہے ہیں۔ جب مودی حکومت آئی تھی تو یہ دعوٰی تھا کہ مسلمان بچوں کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ ہوگا اور کہاں آج کے دن کہ مسلمانوں کی عزت و آبرو تک محفوظ نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں میں مایوسی اور خوف و ہراس پھیلانے کی ایک منظم سازش ہے۔ اسی لئے مودی کی حکومت پورے ملک کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے بھی خطرہ ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارتی مسلمان بھارتیہ جنتا پارٹی کی کارروائیوں پر کوئی ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں۔؟
مولانا بدر الدین اجمل:
دیکھیئے یہ مسلمانوں کے لئے کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کو گھبرانے اور ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں مسلمان اپنی طرف سے کوئی ایسا کام نہ کریں کہ اسلام کا نام بدنام ہو۔ مودی حکومت کے آنے کے بعد جگہ جگہ فسادات کرانے کی کوششیں کی گئیں، مگر میں مسلمانوں کی دوراندیشی اور ہمت کی داد دینا چاہتا ہوں کہ انہوں نے صبر سے کام لے کر سازشیں ناکام کیں، ورنہ ملک کا نہ جانے کیا حال ہو جاتا۔ یہ مسئلے مسلمانوں کو اکسانے کے لئے اٹھاتے ہیں، مگر مسلمان صبر کا دامن ہاتھ سے بالکل نہ چھوڑیں۔

اسلام ٹائمز: تشویشناک صورتحال کے پیش نظر بھارتی مسلمانوں کو باہمی اتحاد کی کتنی ضرورت ہے۔؟
مولانا بدر الدین اجمل:
مسلمانوں میں آج اتحاد و اتفاق کی جو ضرورت ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ آج ضرورت ہے کہ ہم مسلمان دیندار بنیں، بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں۔ یہ بات یقینی ہے کہ بھارتی مسلمان موجودہ حکومت کے ساتھ نہیں ہیں اور کوئی بھی مسلمان بھاجپا حکومت کی شریعت میں مداخلت کی تائید نہیں کرسکتا ہے، لیکن ہمیں متحد ہوکر قرآن اور سنت کو مضبوطی سے تھامنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ پیغمبر رحمت حضرت محمد مصطفٰی (ص) کے اخلاقِ حسنہ کو اپنائیں، اسی میں ہماری کامیابی اور فلاح ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ ہمارے اعمال کی وجہ سے ہم سے ناراض ہے۔ میری یہی درخواست ہے کہ مسلکوں کا جھگڑا مسلمان اپنے گھروں اور مسجدوں تک رکھیں، مگر ملکی سطح پر ان میں اجتماعیت ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج الحمداللہ مسلمان متحد ہو رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 774590
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش