1
Monday 28 Jan 2019 19:14

بالش خیل اراضی تنازعے کا واحد حل ریونیو ریکارڈ ہے، اس حوالے سے کوئی جرگہ قبول نہیں، مولانا یوسف جعفری

بالش خیل اراضی تنازعے کا واحد حل ریونیو ریکارڈ ہے، اس حوالے سے کوئی جرگہ قبول نہیں، مولانا یوسف جعفری
مولانا یوسف حسین جعفری کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے نستی کوٹ سے ہے۔ دینی مدرسہ میں پڑھنے کے علاوہ ایم اے اسلامیات ہولڈر ہیں۔ محکمہ تعلیم میں جب تھیالوجی ٹیچر تھے، تو اس دوران تنظیم العلماء صوبہ سرحد کے صدر رہے۔ ایک سال تک مجلس علمائے اہلبیت پاراچنار کے صدر رہے، جبکہ 11 مئی 2016ء سے تحریک حسینی کے صدر ہیں۔ اپنی اس صدرات کے ابتدائی 6 مہینے قومی حقوق کی پاداش میں جیل میں گزارے۔ مولانا صاحب نڈر اور جوشیلے مزاج کی حامل ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ کسی بھی مصلحت کے تحت اپنے جائز موقف سے پیچھے ہٹنے پر یقین نہیں رکھتے۔ تحریک حسینی کی دو سالہ صدارت نہایت احسن طریقے سے نبھانے کے بعد جون 2018ء میں دوسری مرتبہ تحریک کے صدر منتخب ہوئے۔ اسلام ٹائمز نے بالش خیل اور ابراہیم زئی کے شاملات کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا ہے۔ جسے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کرم پاراچنار کے علاقے بالش خیل کے حوالے سے آئے روز ایک ہنگامہ سننے اور دیکھنے میں آرہا ہے، اسکی حقیقت کیا ہے۔؟
مولانا یوسف جعفری:
بالش خیل لوئر کرم میں صدہ کے قریب طوری قبیلے کا علاقہ ہے۔ انکے ساتھ ہی خار کلے کے نام سے ایک اہل سنت گاؤں ہے، جس میں غربینہ قوم آباد ہے۔ مذکورہ شاملات جن کا رقبہ 9000 جریب کے لگ بھگ ہے، ان دو قوموں سے تعلق رکھتا ہے۔ تاہم اس پر 2008ء سے غیر علاقے (ایف آر) کی ایک قوم پاڑہ چمکنی نے قبضہ جما رکھا ہے اور اس سلسلے میں دونوں قوموں یعنی مدعی اور مدعا علیہان کے مابین کئی مرتبہ فساد بھی ہوا ہے، بلکہ یوں کہئے کہ آج کل کرم میں اگر کوئی فساد رونما ہوا، تو اسکا اصل سبب یہی اراضی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: اتنے وسیع علاقے پر قابض قوم نے راتوں رات قبضہ جمایا یا کسی خاص منصوبہ بندی کے تحت یہ کام اس حد تک پہنچا۔؟
مولانا یوسف جعفری:
نہیں اس پر ایک طویل مدت لگی۔ دراصل اسکی ایک طویل تاریخ ہے۔ جو کچھ اس طرح ہے کہ سن 80 کی دہائی میں افغان مہاجرین کی آمد کے دوران حکومت نے مقامی طوری بنگش قبائل سے مختلف مقامات پر مہاجر کیمپوں کے لئے زمین کی فراہمی کی خواہش ظاہر کی۔ جس پر طوری بنگش قبائل نے خڑ ڈھنڈ (شہیدانو ڈھنڈ)، ژغرو (اصغرو) کیمپ، بالش خیل (قلعہ عباسؑ) کیمپ اور کنڈے غوزگڑھی کیمپ وغیرہ کے مقام پر لاکھوں مہاجرین کو رہائش کے لئے زمین فراہم کی اور طوری بنگش قبائل نے نہایت فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انکی پوری طرح سے مہمان نوازی کی۔ تاہم 1990ء تا 2000ء مہاجرین کی رخصتی پر طوری قبائل کی طرف سے پیش کردہ اس مذکورہ زمین پر ان غیر بندوبستی قبائل نے قبضہ کر لیا۔ یوں بالش خیل اور خار کلی کی فراہم کردہ اراضی میں مہاجرین کے متروکہ کچے مکانات پر پاڑہ چمکنی اور ماسوزئی قبیلے نے ڈیرے ڈال دیئے۔ تاہم بالش خیل اور خار کلی کے احتجاج پر اس وقت کے پی اے سلیم خان صاحب اور اے پی اے بصیر خان صاحب نے ناجائز قابضین کو بیدخل کرتے ہوئے کچے کیمپ کو مسمار کر دیا۔

اسلام ٹائمز: گویا حکومت نے آپکے ساتھ تعاون کیا اور آپکی درخواست پر انہیں بیدخل کر دیا۔؟
مولانا یوسف جعفری:
وقتی طور پر تو سرکار نے تعاون کیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پورے صوبے کی طرح کرم ایجنسی میں بھی جب 2000ء کی دہائی میں طالبان نے اپنے پنجے گاڑے اور پورا خطہ دہشت گردی کے لپیٹ میں آگیا، تو اسی دوران ہمارے علاقے میں ناجائز آباد کاری پر ماسوزئی اور پاڑہ چمکنی قبائل کے مابین دوبارہ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ بالش خیل کی شکایت اور انکی لڑائی کی وجہ سے کچھ عرصہ تک آباد کاری روک دی گئی۔ تاہم کچھ عرصہ بعد طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود نے مداخلت کرکے 2005ء میں انکے مابین صلح کرائی اور بالش خیل اور خار کلی کی مشترکہ اراضی کو ناجائز طور پر چمکنی اور ماسوزئی کے مابین بانٹ دیا۔ جس پر بالش خیل اور لوئر کرم کے دیگر تمام طوری قبائل نے حکومت وقت سے احتجاج کیا، مگر حکومت وقت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اس دوران انہوں نے آباد کاری مہم شروع کر دی۔

2007ء میں کرم میں طالبان کے علاقہ گیر فسادات کے دوران انہیں مزید موقع میسر آیا، تو چمکنی قوم نے اس میں مزید تیزی لائی۔ تاہم فسادات کے کم ہونے پر بالش خیل کی التجا اور استغاثہ پر تحریک حسینی کے سربراہ علامہ عابد حسین الحسینی نے ناجائز آباد کاری کو ختم کرنے کا مطالبہ لیکر سمیر عباس کے مقام پر دھرنا دیا۔ جس پر اس وقت کے پی اے محمد بصیر خان وزیر نے بمورخہ 13 مارچ 2010ء، تمام گھروں کو مسمار کرنے کا حکمنامہ جاری کر دیا۔ تاہم دھرنا ختم ہونے پر پی اے صاحب نے اپنے ہی حکمنامے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے، اس پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا۔ اس وقت سے آج تک بالش خیل اور خار کلی کے اہلیان نے بار بار حکومت سے شکایات کیں، جنکی کاپیاں تاحال اہلیان خار کلی اور بالش خیل کے پاس موجود ہیں، مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اسلام ٹائمز: ایک ماہ قبل ابراہم زئی اور پاڑہ چمکنی کے مابین لڑائی کی اصل وجہ کیا تھی۔؟
مولانا یوسف جعفری:
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قابض فریق زیادتیوں سے رکنے کی بجائے وہ مزید تجاوز پر اتر آیا ہے۔ وہ اب بالش خیل کی اراضی پر صبر نہیں کرتے بلکہ بالش خیل کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ابراہیم زئی کی حدود میں سرگرمیاں انجام دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ آئے روز ابراہیم زئی کے جنگلات کو مختلف صورتوں میں نقصان پہنچانا، بھیڑ بکریاں چرانا، جنگل کاٹنا، یہاں تک کہ آگ لگا کر پورے جنگل کو ملیامیٹ کرنا اب ایک معمول بن چکا ہے۔ اس دوران اہلیان ابراہیم زئی نے حکومت سے کئی بار فریاد کی۔ جن کے تمام ثبوت موجود ہیں، تاہم کوئی داد رسی نہیں ہوئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 30 دسمبر 2018ء کو جب ابراہیم زئی کے نہتے جوان اپنے ہی جنگل میں کام کر رہے تھے اور جنگل کے گرد خشک گھاس کو احتیاط سے جلانے میں مصروف تھے، تاکہ مخالفین کی لگائی ہوئی آگ سے یہ جنگل متاثر نہ ہونے پائے، اس دوران چمکنی قبیلے کے پہلے سے تاک میں بیٹھے مسلح افراد نے ان پر فائرنگ شروع کی۔ جس کے نتیجے میں ابراہیم زئی کے دو افراد زخمی ہوگئے، جبکہ درجن بھر افراد گھنٹوں تک ان کے محاصرے میں رہے، جنہیں بڑی مشکل سے انکے نرغے سے نکال باہر کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: اب تو کرم میں حکومت کی اجارہ داری قائم ہے، تو کیا حکومت کے ہوتے ہوئے ایسا ممکن ہے۔؟
مولانا یوسف جعفری:
بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے ہوتے ہوئے یہ سب کچھ  ہوا اور حکومت متجاوزین کی سرکوبی کی بجائے ابراہیم زئی قبیلے سے ضمانت طلب کر رہی ہے کہ جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا، اس وقت متنازعہ خطے میں کام کرنے حتیٰ کہ وہاں آنے جانے سے بھی اجتناب کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: متنازعہ زمین سے اجتناب کرنے میں کیا قباحت ہے۔ اسی طرح تو امن برقرار رہ سکتا ہے۔؟
مولانا یوسف جعفری:
دیکھیں، یہ زمین تو کیا بالش خیل کی زمین بھی متنازعہ نہیں۔ حکومت کے پاس سارے دستاویزات اور کاغذات موجود ہیں، جبکہ بالش خیل کی تو بات ہی الگ ہے۔ اس پر کیسے بات کی جاسکتی ہے۔ اپنی ملکیتی جائیداد پر ضمانت یا جرگہ کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ یہ سراسر ظلم اور زیادتی ہے۔ مخالف فریق اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی غرض سے مزید دعوؤں پر اتر آیا ہے، جو کہ ناقابل قبول ہے۔

اسلام ٹائمز: اب، آپکا مطالبہ کیا ہے؟ جب آپ جرگہ اور ضمانت دینے پر بھی تیار نہیں۔؟
مولانا یوسف جعفری:
بات یہ ہے کہ حق و حقیقت حکومت کے کورٹ میں ہے۔ انہیں سب کچھ پتہ ہے۔ اس میں جرگے کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہم نے ڈی سی اور اے سی سے بھی یہی کہا ہے۔ چنانچہ مقامی سول اور فوجی انتظامیہ، صوبائی نیز وفاقی حکومت سے ہمارا پرزور مطالبہ ہے کہ وہ ریونیو ریکارڈ اور کاغذات مال کی روشنی میں ظالم اور مظلوم کا تعین کرتے ہوئے حق پر مبنی فیصلہ صادر کرے اور حق کو فوری طور پر اپنے حقدار تک پہنچانے کا بندوبست بھی کرے۔ تاکہ آئندہ جنگ و جدل تک نوبت نہ پہنچے اور عوام امن و سکون سے رہ سکیں۔
خبر کا کوڈ : 774692
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش