0
Thursday 31 Jan 2019 17:40
فاٹا کے لوگوں کو پہلی بار احساس ہونے لگا ہے کہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں

ہم کسی قسم کے تصادم کے حق میں نہیں صرف اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں، مشتاق غنی

اپوزیشن جماعتیں انتخابی ناکامیوں کے بعد سے مختلف پروپیگنڈوں میں مصروف عمل ہیں
ہم کسی قسم کے تصادم کے حق میں نہیں صرف اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں، مشتاق غنی
مشتاق احمد غنی مجنھے ہوئے سیاستدان ہونے کیساتھ ساتھ ممتاز ماہر تعلیم بھی ہیں۔ وہ ہزارہ ڈویژن کے ضلع ایبٹ آباد کے رہائشی ہیں جبکہ کئی عشروں سے تعلیمی انسٹیٹیوٹ چلا رہے ہیں۔ مشتاق احمد غنی 1997ء میں پاکستان تحریک انصاف کا حصہ بنے، یوں ہزارہ ڈویژن سے تحریک انصاف میں شامل ہونیوالی پہلی اہم شخصیت کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ اسی سال پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ مشتاق غنی 2001ء کے بلدیاتی الیکشن میں اپنی یونین کونسل کے ناظم منتخب ہوئے۔ اس دوران پاکستان تحریک انصاف سے بعض اصولی اور نظریاتی اختلاف کے باعث کچھ عرصہ تک پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کئے رہے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں قسمت آزمائی کی اور صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ 2008ء کے الیکشن میں کامیاب نہ ہوسکے، تاہم انکی زوجہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئیں۔ 2013ء کے عام انتخاب میں آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی، جسکے بعد انہوں نے پاکستان تحریک انصاف میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔ ابتداء میں انہیں وزیراعلٰی کا مشیر برائے اعلٰی تعلیم مقرر کیا گیا، تاہم صوبائی حکومت نے چند ماہ بعد ہی بہترین کارکردگی، محکمے میں اصلاحات اور انتظامی امور کو دیکھتے ہوئے انہیں صوبائی وزیر کے عہدے پر ترقی دیدی، جسکے ساتھ محکمہ اطلاعات کی ذمہ داریاں بھی انکے حوالے کی گئیں۔ یہی وجہ تھی کہ ایک بار پھر انہوں نے 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی، پارٹی قیادت نے انکی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسپیکر صوبائی اسمبلی کیلئے نامزد کیا۔ اسوقت صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: فاٹا کا صوبے میں انضمام ہوچکا ہے، اب تعمیر و ترقی کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں آپ حکومت کے کردار سے کتنے مطمئن ہیں۔؟
مشتاق غنی:
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ فاٹا کا انضمام انتہائی خوش آئند امر ہے، مگر حقیقت ہے کہ اس مرحلے تک پہنچنے کیلئے سب سے زیاد قربانیاں قبائلی عوام نے ہی دی ہیں۔ فاٹا میں بدامنی اور شورش کا سلسلہ اچانک ہی شروع نہیں ہوا، یہ لوگ مسلسل محرومیوں کا شکار چلے آرہے تھے۔ وہاں کوئی منصفانہ سسٹم ہی نہیں تھا کہ ہر قسم کی شہری سہولیات سے قبائلی عوام محروم چلے آرہے تھے، وہ اس ملک کے برابر کے شہری ہی نہیں تھے۔ پھر جب دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی تو یہاں کے لوگوں کی بدنصیبی کا ایک اور دور شروع ہوگیا، لاکھوں کی تعداد میں قبائلی باشندے آئی ڈی پیز بنے پر مجبور ہوئے، جس سے ان کے معاشی اور نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوا، ان میں مایوسی بڑھنے لگی، ان سب کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہاں کا سسٹم ناکام تھا، یہ لوگ اس سے مطمئن نہیں تھے۔ اسی لئے وہ آئین کے تحت شہری حقوق مانگتے تھے، ان کو روزگار اور معاشی ترقی کے مواقع کی ضرورت تھی۔ وہ لوگ وار اکانومی سے ریگولر اکانومی کی طرف آنا چاہتے تھے۔ اسی مقصد کیلئے اب اصلاحات لائی گئیں اور ان علاقوں کو صوبے میں ضم کر دیا گیا۔ اب جامع ترقیاتی منصوبوں کیلئے مرکزی و صوبائی حکومتیں پوری طرح سے سرگرم ہیں اور اس معاملے میں کوئی تاخیر برداشت نہیں جائے گی۔

خیبر پختونخوا کے بعد مرکز اور پنجاب بھی قبائلی اضلاع کیلئے اضافی 3 فیصد فنڈز فراہم کرنے پر رضامند ہوچکے ہیں، جبکہ بلوچستان اور سندھ کو بھی جلد راضی کرلیا جائے گا۔ جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو وزیراعلٰی کے ساتھ ساتھ صوبائی وزراء بھی قبائلی اضلاع کے دوروں کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں، جس سے ان علاقوں کے لوگوں کو پہلی بار احساس ہونے لگا ہے کہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کو یہ احساس دلایا جانا بہت ضروری ہے، کیونکہ سابقہ نظام کی وجہ سے یہ لوگ پہلے ہی عشروں سے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم چلے آرہے تھے۔ اگر پی ٹی آئی کی بات کی جائے تو اس نے فاٹا انضمام کے معاملے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور میں آج دعوے سے یہ کہتا ہوں کہ پی ٹی آئی آج قبائلی اضلاع کی سب سے موثر منظم اور مقبول سیاسی جماعت ہے کہ 2013ء کے عام انتخابات میں فاٹا میں سب سے زیادہ ووٹ اسی نے حاصل کئے جبکہ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی نے یہاں شاندار کامیابی حاصل کرکے نیا ریکارڈ بھی قائم کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن کیطرف سے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ وفاقی حکومت اٹھارہویں ترمیم کو رول بیک کر رہی ہے، کیا اس سے چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی نہیں بڑھے گا۔؟
مشتاق غنی:
پہلی بات تو یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے خلاف کچھ بھی نہیں کیا جا رہا۔ یہ ترمیم برقرار رہے گی کیونکہ اسی کی وجہ سے صوبوں کو حقوق ملے ہیں اور صوبائی خود مختاری ممکن ہوسکی ہے۔ حکومت اس ترمیم کو ختم کرنے کا کوئی بھی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس حوالے سے مخالفین کا پروپیگنڈہ بالکل من گھڑت اور بے بنیاد ہے۔ ملک میں کوئی صدارتی نظام بھی نہیں لایا جا رہا، اپوزیشن جماعتیں انتخابی ناکامیوں کے بعد سے مختلف پروپیگنڈوں میں مصروف عمل ہیں، مگر عوام اصل حقائق سے باخبر ہیں، اسی لئے وہ اب اپوزیشن کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتے۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں صوبائی بیوروکریسی بھی رکاوٹ بنتی رہی ہے، اس بار کیا صورتحال نظر آرہی ہے۔؟
مشتاق غنی:
جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ماضی میں چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہی ہیں، مگر اس بار ہمارے صوبے کو وفاق میں ریکارڈ نمائندگی ملی ہوئی ہے، تھوڑے بہت ایشوز ہیں، مگر وہ بھی ایسے نہیں کہ حل نہ ہوسکیں۔ ہم نے اس بار تمام معاملات پر سنجیدہ توجہ مرکوز کی ہوئی ہے اور فی الوقت ہماری راہ میں کوئی مشکل نہیں، نہ ہی ہم کسی کو مشکلات پیدا کرنے دیں گے۔ ہم نہ تو کسی کی حق تلفی کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنی حق تلفی ہونے دیں گے۔ حالات اب مثبت طرف تیزی سے گامزن ہوچکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فاٹا میں بلدیاتی الیکشن پہلے ہونگے یا صوبائی اسمبلی کیلئے پہلے چناؤ کیا جائیگا۔؟
مشتاق غنی:
یہ کام تو الیکشن کمیشن کا ہے کہ وہ پہلے کون سا مرحلہ طے کرتا ہے۔ جہاں تک صوبائی حکومت کا تعلق ہے تو ہماری خواہش ہے کہ قبائلی اضلاع میں پہلے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں اور اس کے بعد صوبائی اسمبلی کیلئے انتخابات ہوں، کیونکہ آئین کے تحت اس علاقوں میں 25 جولائی سے قبل صوبائی انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔ اس کیلئے حلقہ بندیاں بھی ہوچکی ہیں، جن پر اعتراضات کا مرحلہ جاری ہے۔ ہم قبائلی علاقوں میں بلدیاتی الیکشن کیلئے پوری طرح سے تیار ہیں، الیکشن کمیشن جب بھی اعلان کرے، ہم الیکشن کروا دیں گے۔

اسلام ٹائمز: ان دنوں اپوزیشن کی تعداد صوبائی اسمبلی میں کافی کم ہے تو کیا اب بھی انکے ساتھ مشاورت کا عمل جاری رہیگا۔؟
مشتاق غنی:
یہ حقیقت ہے کہ پورے ملک میں صرف ہمارے صوبے نے کسی سیاسی جماعت کو دو تہائی کی اکثریت دے کر اتحادیوں کی بلیک میلنگ اور اپوزیشن کے تنگ کرنے کے حربوں سے نجات دی ہوئی ہے، تاہم ہمارے صوبے کی اپنی شاندار پارلیمانی روایات رہی ہیں، جہاں ایوان کو ہمیشہ منتخب جرگہ کی حیثیت دی گئی، ہم بھی یہ روایات ہر صورت برقرار رکھیں گے۔ ہم اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، گذشتہ دور حکومت میں بھی اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے تھے۔ اسوقت اگرچہ دوتہائی اکثریت ہمیں حاصل ہے، مگر اس کے باوجود اپوزیشن کو نظرانداز نہیں کیا جائے گا، وہ بھی عوامی مینڈیٹ لے کر آئے ہیں اور ان کا بھی حق بنتا ہے، اس لئے ہم کسی کی حق تلفی نہیں چاہتے۔

اسلام ٹائمز: پن بجلی رائلٹی، سی پیک میں جائز حصہ اور قبائلی اضلاع کیلئے 3 فیصد اضافی فنڈز آج صوبے کیلئے سب سے اہم امور بن کر سامنے آئے ہیں، اس حوالے سے کب تک خوشخبریاں ملنے کا امکان ہے۔؟
مشتاق غنی:
میں اس فورم کے ذریعے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ موجودہ حکومت کے دور میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دی جائے گی، ماضی میں حکومتوں نے جس طریقے سے چھوٹے صوبوں کو مسلسل نظر انداز کئے رکھا، اس سے صوبوں کے احساس محرومی میں اضافہ ہوا اور اسی لئے ان جماعتوں کو قصہ پارینہ بنا دیا گیا۔ موجودہ حکومت کسی بھی صورت ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائے گی۔ اس بار این ایف سی کے تحت تمام صوبوں کو ان کا جائز قانونی حصہ ملے گا، کسی کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح پن بجلی رائلٹی کیلئے بھی کام جاری ہے، جس کیلئے کمیٹی بنی ہوئی ہے اور تیز رفتاری سے اپنا کام کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ بھی اس سلسلے میں متعدد مواقع پر بات ہوچکی ہے اور ان کی طرف سے بھی تعاون کی یقین دہانیاں کرائی جاچکی ہیں۔ اے جی این قاضی فارمولہ پہلی بار نافذ اعمل ہونے جا رہا ہے، جس سے ہمارے صوبے کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو جائے گا۔ اس فارمولے کے نفاذ کے ساتھ ہی صوبے کی آمدن میں ریکارڈ اضافہ ہونے سے صوبائی حکومت کو ترقیاتی ایجنڈا پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ عمران خان صوبے کو مایوس نہیں کریں گے۔ رائلٹی سے بڑھ کر صوبے کو حصہ دیا جائے گا، جس سے محرومیوں کا خاتمہ ہوسکے گا۔

اب اگر سی پیک کی بات کی جائے تو سابق دور میں چھوٹے صوبوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئی تھیں، حتٰی کہ چین کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت خیبر پختونخوا کو اعتماد میں لینے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی گئی۔ کئی سال بعد کہیں 2015ء میں ہمیں اس معاہدے کا علم ہوا، اُس وقت کے صوبائی اسمبلی کے اسپیکر نے اس حوالے سے عدالتی جنگ کامیابی کے ساتھ لڑی اور اب میرے اسپیکر بننے کے بعد سے اس حوالے سے اب تک تین اہم اجلاس بلا چکا ہوں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی کامیابی یہ ملی ہے کہ چشمہ رائٹ بینک لفٹ کینال کو اب سی پیک کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ سابق دور میں اس کی تعمیر کیلئے بار بار کے اعلانات کے باوجود فنڈز جاری نہیں کئے گئے، یہ منصوبہ جنوبی اضلاع کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ڈیرہ اساعیل خان ٹو پشاور روڈ کی تعمیر کیلئے بھی فنڈز جاری کر دیئے گئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ رشکئی اکنامک زون پر اگلے ماہ تک کام شروع ہو جائے گا۔ اس کیلئے پاکستانی اور چینی دونوں حکومتیں پیکج دیں گی۔ ان شاء اللہ اس کا افتتاح 28 فروری کو ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: سی پیک میں صوبے کے حصہ کیلئے مزید کیا کیا جا رہا ہے۔؟
مشتاق غنی:
 سی پیک درحقیقت تقدیر بدلنے والا منصوبہ ہے۔ یہ ہماری معیشت کیلئے ناگزیر اہمیت کا حامل ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں چینی سفیر سے متعدد ملاقاتیں کی ہیں اور ان پر واضح کیا ہے کہ ہم اس منصوبے کے خلاف ہرگز نہیں بلکہ اس کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں، ہم کسی قسم کے تصادم کے حق میں بھی نہیں، بس صرف اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں اور اسی کیلئے عدالت گئے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ مغربی روٹ کو سی پیک کا حصہ بنا کر پہلے مکمل کیا جائے اور اس پر تمام 8 مطلوبہ لوازمات کا اہتمام بھی کیا جائے، کیونکہ اس کے بغیر اس سڑک کا کوئی فائدہ نہیں، نہ ہی کوئی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرسکے گا۔ ویسے بھی جنگ زدہ صوبے کو نظرانداز کرنا کسی بھی طور قرین انصاف نہیں۔ بدترین حالات کی وجہ سے اس صوبے کے لاکھوں لوگ بے گھر اور در بدر ہوئے۔ حالات کی ستم ظریفی کا شکار یہ علاقہ ہمیشہ پسمانده رہا۔ اگر چین اپنے پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کیلئے سی پیک جیسا عظیم منصوبہ شروع کر رہا ہے تو پھر ہمیں بھی اپنے پسماندہ علاقوں کو ہی ترجیح دینی چاہیئے تھی، مگر یہاں اس کے برعکس عمل ہوتا رہا، مگر اب ایسا نہیں ہوگا۔

جیسا کہ میں نے بتایا کہ اس معاملے میں تین اجلاس بلا چکے ہیں، جبکہ چینی سفیر سے بھی دو ملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ چینی کمپنیوں کو بلایا ہے، میں اسوقت اپنے کردار سے بڑھ کر کام کر رہا ہوں۔ رشکئی اکنامک زون کا افتتاح ہونے سے صوبے میں انڈسٹری چلے گی، جس سے روزگار کے بیشمار مواقع ہاتھ آسکیں گے۔ اسی طرح ہمارے ہاں 700 میگا واٹ پن بجلی کے منصوبے بھی سی پیک کا حصہ بنائے جا رہے ہیں۔ اس پر ماضی میں اعتراضات سامنے آئے تھے، تاہم اب جے سی سی (Joint Coordination Committee) نے ان کی منظوری دیدی ہے، ڈیڑھ ارب ڈالر کے منصوبے ہیں، ان سے بھی صوبے میں تعمیر و ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوگا، سی پیک سٹی پر کام ہوگا۔ اس سلسلے میں مقامی آبادی کے تحفظات دور کئے جا رہے ہیں، ساتھ ہی اس بار تمام وفاقی اداروں میں صوبہ کی جائز نمائندگی ممکن کر دکھائیں گے۔ اس معاملے میں سرکاری اہلکاروں کو بھی اب اپنا کردار ادا کرتے ہوئے معاملات کی نشاندہی کرنی چاہیئے، تاکہ اصلاح احوال کیلئے مناسب اور بروقت اقدامات کئے جاسکیں۔
خبر کا کوڈ : 775269
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش