0
Thursday 31 Jan 2019 23:03

محمد بن سلمان جیسے متنازعہ شخص کا دورہ پاکستانی عوام میں بے چینی پیدا کرسکتا ہے، علامہ سید عبدالحسین

محمد بن سلمان جیسے متنازعہ شخص کا دورہ پاکستانی عوام میں بے چینی پیدا کرسکتا ہے، علامہ سید عبدالحسین
علامہ سید عبدالحسین الحسینی کا بنیادی تعلق ضلع ہنگو کے علاقہ ابراہیم زئی سے ہے، انہوں نے ابتدائی تعلیم کوہاٹ سکول نمبر ایک سے حاصل کی۔ جس کے بعد جامعۃ المنتظر لاہور سے مذہبی تعلیم حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال تک جامع مسجد محمد علی سوسائٹی کراچی میں خطیب کی حیثیت سے ذمہ داریاں بھی ادا کیں۔ اس کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے اور وہاں سپریم کورٹ کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ پاکستان واپسی پر وحدت کونسل ہنگو کے سینیئر نائب صدر کے طور پر عہدہ سنبھالا اور پھر مجلس وحدت مسلمین خیبر پختونخوا کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں، اسکے بعد دوبارہ ایم ڈبلیو ایم کے صوبائی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے علامہ سید عبدالحسین الحسینی کیساتھ سعودی ولی عہد کے متوقع دورہ پاکستان کے حوالے سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: سعودی ولی عہد پاکستان کے دورہ پر آرہے ہیں، اس دورہ کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عبدالحسین: غیر ملکی سربراہان مملکت اور اہم سرکاری شخصیات کے دورہ جات ہوتے رہتے ہیں، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہ شخص عالمی سطح پر متنازعہ حیثیت رکھتا ہے، یہ شخص تو براہ راست ہزاروں لوگوں کے قتل میں ملوث ہے۔ آپ صحافی جمال خاشقجی کا قتل دیکھ لیں، آپ یمن میں قتل عام دیکھ لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس متنازعہ شخص کا پاکستان آنا مناسب نہیں۔ اس سے یہاں کے عوام میں بے چینی پیدا ہوسکتی ہے۔
 
اسلام ٹائمز: اس دورہ سے پاکستان کو کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں اور سعودی عرب کیا حاصل کر پائیگا۔؟
علامہ سید عبدالحسین: دیکھیں، سعودی عرب کا اب تک اسلامی ممالک کیساتھ تعلقات کا جو سلسلہ ہے، وہ بہت پیچیدہ رہا ہے، دو ممالک کے مابین تجارت ہونا، ایک دوسرے کے ملک کے عوام کو فائدہ پہنچنا، اقتصادی ترقی کرنا، یہ سب باتیں تو اچھی ہیں، مگر سعودی عرب دوسرے ممالک میں تعلقات کی آڑ میں مداخلت کرتا ہے، اپنا نظریہ تھوپنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ چیز خطرناک اور ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔
 
اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ محمد بن سلمان کی آمد پر احتجاج بھی ہوسکتا ہے۔؟
علامہ سید عبدالحسین: باہر سے آنے والا ہمارا مہمان ہوتا ہے، لیکن اگر محمد بن سلمان جیسا بندہ آئے تو بعض اوقات مہمان نوازی پیچھے رہ جاتی ہے۔ ان کی آمد پر وہ طبقات جو سعودی پالیسیوں سے اختلاف رکھتے ہیں، وہ سڑکوں پر آسکتے ہیں، اگر سعودی حکومت اس بارے میں نہیں سوچتی تو حکومت پاکستان کو سوچنا چاہیئے۔
 
اسلام ٹائمز: پاکستان تو کسی نہ کسی طرح سعودی عرب کا اتحادی ہے، راحیل شریف کا معاملہ ہو یا سعودی امداد۔ پھر محمد بن سلمان کے دورہ پر کوئی یوٹرن کیسے لیا جاسکتا ہے۔؟
علامہ سید عبدالحسین: ان کے دورہ کے موخر یا نہ ہونے کے امکانات تو بہت کم ہیں، تاہم پھر بھی حکومت پاکستان کو جائزہ لینا چاہیئے۔ کوئی اور سعودی شخصیت آتی تو شائد کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ محمد بن سلمان کی عزت افزائی تو آپ نے اس وقت بھی دیکھی ہوگی کہ جب کئی سربراہان مملکت نے ایک اہم اجلاس میں ان سے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہ کیا۔
 
اسلام ٹائمز: کیا سعودی عرب کی پاکستان میں کی جانیوالی متوقع سرمایہ کاری پاکستان کے اندرونی حالات پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔؟
علامہ سید عبدالحسین: یہ تو ہماری حکومت پر منحصر ہے، سرمایہ کاری اور تجارت ضرور ہو، لیکن مداخلت اور لابنگ نہیں ہونی چاہیئے۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان کے ہر ملک کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں، تاہم یہ تعلقات برابری اور ملکی مفادات کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔
 
اسلام ٹائمز: سعودی عرب اور ایران امت مسلمہ میں دو اہم ممالک ہیں، پاکستان کی سعودی عرب کیساتھ قربتوں سے ایران ناراض تو نہیں ہوسکتا۔؟
علامہ سید عبدالحسین: حکومت پاکستان کو پاکستانی عوام کے مزاج کو دیکھتے ہوئے محتاط انداز میں چلنا چاہیئے۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت امت مسلمہ میں سعودی عرب سے زیادہ ایران کے کردار کو مثبت انداز میں دیکھتی ہے۔ ایران کی امت مسلمہ کے مفادات میں دوٹوک موقف، امریکہ اور اسرائیل کے سامنے نہ جھکنا، بے داغ قیادت اور دیگر چیزیں ایسی ہیں، جو سعودی عرب میں نہیں۔ یہاں شیعہ، سنی کی تفریق کے بغیر اس حقیقت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: اگر محمد بن سلمان 16 فروری کو پاکستان آتے ہیں تو حکومت پاکستان کی کیا پالیسی ہونی چاہیئے۔؟
علامہ سید عبدالحسین: اگر ایسا ممکن ہوتا ہے تو ہماری حکومت کو انتہائی سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، کوئی ایسی ڈیل نہیں ہونی چاہیئے، جو ملکی حالات اور سیاسی صورتحال پر اثرانداز ہو۔ صرف اور صرف پاکستان کے مفاد کی بات ہونی چاہیئے۔ پاکستان پر کسی ملک کی گرفت اور مداخلت نہیں ہونی چاہیئے، پاکستان کو چاہیئے کہ وہ سعودی قیادت سے دہشتگردی، فرقہ پرستی جیسے معاملات پر بھی کھل کر بات کرے۔
خبر کا کوڈ : 775524
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش