QR CodeQR Code

حج جیسے مقدس فریضے کیلئے حکومت سے سبسڈی لینا کسی بھی صورت جائز نہیں

سانحہ ساہیوال کے مقتولین نہتے تھے، گاڑی میں کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں تھا، مفتی عبدالقوی

مجھے خداوند متعال کی خوبصورت مخلوق سے پیار ہے اور میں انکی قدردانی کرتا رہونگا

4 Feb 2019 14:00

پی ٹی آئی علماء ونگ کے مرکزی رہنما کا ''اسلام ٹائمز'' کو دیئے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ میرے سامنے دو مردہ خواتین کو گھسیٹا گیا، سی ٹی ڈی اہلکاروں نے گنیں تان رکھی تھیں، ایسا لگا جیسے میں مقبوضہ کشمیر میں آگیا ہوں، پہلے مقتولین کو اغواء کار بتایا گیا، پھر کار کے اندر سے فائرنگ کا جھوٹ بولا گیا، درندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔


مولانا مفتی عبدالقوی کا تعلق ملتان کے مذہبی، روحانی اور صاحب فتویٰ خاندان سے ہے، انکے خاندان کا تعارف مفتی ملتان کے نام سے ہوتا ہے، انکے والد اور دادا دونوں مفتی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے، وہ 26 جولائی 1957ء کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ملتان، فیصل آباد اور ایم فل کی ڈگری جامشورو یونیورسٹی سے حاصل کی، جبکہ وفاق المدارس بنگلہ دیش نے انکو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ وہ آج کل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء، مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ حکومت پاکستان کے ممبر ہیں، متحدہ شریعت کونسل پاکستان کے چیئرمین ہیں، مفتی عبدالقوی کو میڈیا میں شہرت اُسوقت ملی جب انکی قندیل بلوچ کیساتھ ویڈیو منظرعام پر آئی، قندیل بلوچ کے بعد اور بھی کئی ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں، جن پر عوام نے شدید اعتراض بھی کیا ہے، اسلام ٹائمز نے ان سے موجودہ ملکی صورتحال کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سانحہ ساہیوال کے حوالے سے آپ نے کیا دیکھا، سُننے میں آیا ہے کہ آپ جائے حادثہ کے قریب تھے۔؟
مفتی عبدالقوی:
بہت شکریہ آپ کا اور آپ کے ادارے کا، میں نے دیکھا کہ ساہیوال لاہور روڈ پر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اپنی گنوں کو اس طرح تان رکھا تھا کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ میں پاکستان میں نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوگیا ہوں اور سی ٹی ڈی کے اہلکار کسی کو بھی جائے وقوعہ پر رُکنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن میں نے دیکھا کہ سوزوکی (آلٹو) گاڑی کے اردگرد مسلح افراد کھڑے تھے اور گاڑی میں سوار تمام مقتولین کا خون بہہ رہا تھا، سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے مجھے بھی جانے کو کہا، لیکن میں جائے حادثہ پر رُک گیا، کیونکہ سی ٹی ڈی کے تمام اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے، مگر گاڑیاں پولیس کی تھیں اور جائے حادثہ پر ماحول سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے بھیانک بنا رکھا تھا، میں نے دیکھا کہ میرے سامنے تمام مردہ خواتین کو گھسیٹا جا رہا تھا، میں سمجھا کہ شاید کوئی ٹریفک حادثہ ہوا ہے اور ٹریفک کا انتظام بھی سی ٹی ڈی کے اہکاروں نے سنبھالا ہوا تھا۔

میرے پوچھنے پر سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے مجھے بتایا کہ مقتولین اغواء کار تھے اور ہم نے دفاع میں جوابی فائرنگ کی، لیکن میں نے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو کہا کہ آپ نے تین بچوں کو بچاتے ہوئے چار افراد کو قتل کر دیا، جائے حادثہ پر موجود دیگر ساتھیوں نے مقتولین کی لاشوں کو اُٹھانے میں مدد کی، لیکن سی ٹی ڈی کے درندوں نے پہلا جھوٹ بولا کہ مقتولین اغواء کار تھے، دوسرا جھوٹ یہ بولا گیا کہ فائرنگ کار کے اندر سے ہوئی تھی، حالانکہ مقتولین کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا کہ جہاں گولیاں پیوست نہ ہوئی ہوں، میرے ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ گاڑی میں کسی قسم کا کوئی اسلحہ نہیں تھا اور مارے جانے والے تمام افراد نہتے تھے، میں نے روتے ہوئے سی ٹی ڈی کے درندوں کو کہا کہ تم نے اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے، میں تمام صورتحال دیکھ کر رونے لگا، لیکن اگر ہم نے مظلوموں کا ساتھ نہ دیا تو اللہ کی پکڑ میں آجائیں گے، میں ہر فورم پر گواہی دینے کے لیے تیار ہوں، سانحہ ساہیول کے مرتکب سی ٹی ڈی کے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

اسلام ٹائمز: سانحہ ساہیوال کے ذمہ داران کا تعین تاحال نہیں کیا جا سکا، شروع میں جے آئی ٹی بنائی گئی 72 گھنٹوں میں رپورٹ پیش کرنیکے احکامات بھی جاری کئے گئے، لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ معاملہ سرد مہری کا شکار ہوچکا ہے۔؟
مفتی عبدالقوی:
میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں، لیکن اگر آپ ماضی میں دیکھیں تو کسی بھی سانحے پر اتنا زیادہ کوئیک رسپانس ہمیں نظر نہیں آتا، سانحہ ماڈل ٹائون ہو یا نقیب اللہ محسود قتل کیس ہو، کیا کسی مجرم کو سزا ہوئی، کیا کسی کے خلاف مقدمہ درج ہوا، کیا کسی کے خلاف اتنا جلد فیصلہ سامنے آیا، تاہم میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، آپ نے دیکھا کہ اس واقعہ کے بعد جہاں عوام میں غم و غصہ تھا، وہیں حکومت میں بھی شدید اضطراب کی کیفیت تھی، وزیراعظم عمران خان سے لے کر وزیراعلیٰ عثمان بزدار تک سب ایک پیج پر تھے، ذمہ داروں کا تعین کیا گیا، پانچ بڑے افسران کو معطل کیا گیا اور اُن کے خلاف دہشتگردی کی عدالت میں مقدمہ درج کیا گیا، تاہم اس حوالے سے ابھی بھی جے آئی ٹی اپنا کام کر رہی ہے، گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جا رہے ہیں، میں اُمید کرتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اس کیس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے گی، قاتلوں کو عبرتناک سزا ملے گی، ہمیں پنجاب پولیس جس حالت میں ملی ہے، وہ کسی سے چھپی ہوئی بات نہیں، ماضی میں کس طرح پنجاب پولیس کو استعمال کیا گیا، میڈیا اس چیز کا گواہ ہے، ہمیں پولیس کے نظام میں بہتری کی اشد ضرورت ہے، ان شاء اللہ پی ٹی آئی کی حکومت خیبر پختونخوا کی طرح پنجاب میں بھی پولیس کا نظام بہتر بنائے گی۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی حکومت کیجانب سے حج کے اخراجات میں اضافہ، عوام کی رائے اس سے مختلف ہے، کیا حکومت کرتار پور صاحب کوریڈور کی طرح اس پر کوئی سبسڈی نہیں دے سکتی تھی۔؟
مفتی عبدالقوی:
حج جیسے مقدس فریضے کے لیے حکومت سے سبسڈی لینا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، یہ ایک واجب عمل اُس وقت ہے، جب آپ صاحب استطاعت ہو جائیں، وگرنہ آپ پر حج واجب نہیں ہے اور یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ حکومت حج کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے کوئی سبسڈی کا اعلان کرے اور نہ ہی ماضی میں ایسی کوئی مثال موجود ہے، جو لوگ حکومت کے اس فیصلے پر اختلاف کر رہے ہیں، اُن کا اپنا نقطہ نظر ہے، آپ کے علم میں ہوگا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس حوالے سے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، اس وقت وہ لوگ شور مچا رہے ہیں، جنہوں نے حج کرنا ہے نہیں، لیکن اُنہیں حکومت کے خلاف بات کرنے کی عادت ہے، ماضی میں حج کے نام پر عوام کے پیسہ کو چاہے وہ بیت المال کی شکل میں ہو یا ٹیکسز کی شکل میں ہو، اُس کا غلط استعمال کیا گیا، وزیراعظم عمران خان کا ویژن کلیئر ہے، نہ کھائیں گے اور نہ ہی کسی کو قوم کا پیسہ کھانے دیں گے، ماضی میں سرکاری کوٹے کے نام پر سینکڑوں افراد کو حج پر بھیجا جاتا رہا ہے، جن کا سارا بوجھ غریب عوام اُٹھاتی رہی ہے، جو افراد اتنی استطاعت رکھتے ہیں، وہ حج کریں اور جن پر ابھی واجب ہی نہیں ہے، وہ نہ کریں، حکومت سے سبسڈی کا مطالبہ کرنا جائز نہیں بلکہ اس حج میں بھی اشکال ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان کیجانب سے مختلف اسلامی ممالک کے دورہ جات کئے گئے، اسکے ہمارے ملک پر کیا ثرات مرتب ہونگے۔؟
مفتی عبدالقوی:
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے بعد مختلف ممالک کا دورہ خوش آئند ہے، اُنہوں نے ایسے وقت میں اسلامی ممالک کے دورے کئے ہیں، جب پاکستان کا تشخص دنیا میں ایک کرپٹ ملک کے طور پر ہوچکا تھا، ماضی کے حکمرانوں نے اپنی پالیسیوں اور ملک دشمن عناصر کے ایماء پر ملک کو اغیار کی جھولی میں ڈال دیا تھا، عمران خان نے ایسے وقت میں دورے کرکے پاکستان کے ویژن کو متعارف کرایا، ان دوروں سے جہاں پاکستان کا تشخص اجاگر ہوا، وہیں اسلامی ممالک نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا، ان دوروں میں بہت سے معاشی اور اقتصادی معاہدے بھی طے پائے، مختلف ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے وعدے کئے، اپنے ممالک میں نوکریاں دینے کا اعلان کیا۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی بجائے قرضہ دیا۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ماضی کے حکمران ملک دشمن پالیسیوں کی بجائے اس کی طاقت کو سمجھتے اور عالم اسلام کی بہتری کے لیے استعمال کرتے تو آج ہمارا وقار مزید بلند ہوتا، میں سمجھتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان اور اُن کی پوری ٹیم اپنی مخلصانہ کوششوں کے ذریعے اس ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے لیے کوشاں ہیں، اس مہینے میں سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، سعودی ولی عہد دورہ پاکستان کے موقع پر بہت سے معاشی و اقتصادی اعلانات کریں گے، ماضی کے مقابلے میں موجودہ حکومت اپنے ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: آخر کیا وجہ ہے کہ آپ مسلسل میڈیا کی زینت بنے رہتے ہیں، پہلے قندیل بلوچ پھر خواجہ سراء اور پھر ملتان میں منعقدہ مہندی کی محفل میں آپکی موجودگی، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مفتی عبدالقوی:
(کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن کجھ سانوں مرنڑ دا شوک وی سی) سارا میڈیا ایک جیسا نہیں ہوتا، بات کچھ ہوتی ہے، لیکن میڈیا اُسے توڑ مروڑ کر کچھ بنا دیتا ہے، میں خدا کی مخلوق سے پیار ضرور کرتا ہوں، لیکن میرے خلاف پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے، مرحومہ قندیل بلوچ صاحبہ نے خود میرے ساتھ تصاویر بنوائیں، سیلفی بنائیں، میری جناح کیپ پہنی، لیکن میڈیا نے مجھے کوسا، میرے پرستار ملک بھر میں موجود ہیں، گذشتہ دنوں میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں شادی کے لئے گیا ہوا تھا، وہاں ایک خواجہ سراء جو کہ ایک انسان ہے، اُس نے میرے ساتھ تصویر بنانے کی خواہش ظاہر کی، جس پر میں نے اُس کا دل رکھنے کے لیے ہاں کر دی، آخر وہ بھی انسان ہی ہے، جس کے بعد اُس تصویر اور ویڈیو کو بھی غلط رنگ دیدیا گیا، اسی طرح ہمارے ملتان کے دوست چوہدری خالد جاوید وڑائچ کے بیٹے کی مہندی کی رسم میں بننے والی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جس میں میرے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے، لیکن مجھے خاص طور پر نشانہ بنایا گیا، میں سمجھتا ہوں کہ میرے خلاف مسلسل سازشیں جاری ہیں، لیکن میں ان سازشوں سے گھبرانے والا نہیں ہوں، مجھے خداوند متعال کی خوبصورت مخلوق سے پیار ہے اور میں ان کی قدردانی کرتا رہوں گا، میں کسی کا دل نہیں دکھاتا۔


خبر کا کوڈ: 776051

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/776051/سانحہ-ساہیوال-کے-مقتولین-نہتے-تھے-گاڑی-میں-کسی-قسم-کا-کوئی-اسلحہ-نہیں-تھا-مفتی-عبدالقوی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org