0
Thursday 7 Feb 2019 20:13

دین اسلام کا تصور اتحاد، وحدت و باہمی تعلقات کے بغیر ناممکن ہے، مولانا عبدالمجید فلاحی

دین اسلام کا تصور اتحاد، وحدت و باہمی تعلقات کے بغیر ناممکن ہے، مولانا عبدالمجید فلاحی
مولانا عبدالمجید فلاحی مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے جماعت اسلامی کی سب سے بڑی درسگاہ ’’جامعۃ الفلاح‘‘ اترپردیش (بھارت) جو ایشیاء کی سب سے بڑی دینی درسگاہ تسلیم کی جاتی ہے، سے مولانا فاضل کی سند حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی لٹریچر میں ایم اے کیا۔ وہ دو سال تک اسلامی جمیعت طلباء کشمیر کے ناظم اعلٰی بھی رہے ہیں، کشمیر میں خاص طور پر ضلع بڈگام میں اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کا کام وہ پچھلے کئی سالوں سے نبھا رہے ہیں، وہ اتحاد بین المسلمین اور اتحاد بین مسالک کے حامی ہیں اور اسلام کی حالت گذشتہ بحال ہونے کے متمنی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے مولانا عبدالمجید فلاحی سے وحدت اسلامی کی اہمیت و افادیت پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: عالم اسلام میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی کی ضرور و اہمیت جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا عبدالمجید فلاحی:
دین اسلام کا تصور اتحاد، وحدت و باہمی تعلقات کے بغیر ناممکن ہے۔ ہم دین ناب محمدی (ص) کا تصور وحدت و اخوت کے بغیر نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات و عبادات کا مرکز و بنیاد ہی اتحاد پر ہے۔ تمام اسلامی عبادات ہمیں اتحاد و اتفاق کی ہی تعلیم دیتی ہیں۔ ہم نماز پڑھتے ہیں تو ایک ہی امام کے پیچھے اور تمام مسلمان ایک ہی قبلہ کی طرح رخ کرتے ہیں۔ حج ادا کرتے ہیں تو ایک ساتھ اور ایک ہی مہینے میں ادا کرتے ہیں۔ روزہ بھی ایک ساتھ اور ایک ہی مہینے میں ادا کرتے ہیں۔ یعنی ہماری تمام تر عبادات کی راہ و روش ایک ہی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیمات اور رسول اکرم (ص) کے ارشادات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو اتفاق و وحدت کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ جب مسلمان وحدت اسلامی کا مظاہرہ کریں گے تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں حراساں نہیں کرسکتی ہے۔ کوئی طاقت مسلمانوں کو کمزور نہیں کرسکتی ہے۔
 
اسلام ٹائمز: وحدت اسلامی کی اس قدر ضرورت و اہمیت ہے پھر کیوں مسلمان تضاد و منافرت کے شکار ہیں۔؟
مولانا عبدالمجید فلاحی:
مسلمانوں کے درمیان انتشار و تضاد اور خلفشاری کی بہت ساری وجوہات ہیں، اہم ترین وجہ مسلمانوں کے درمیان نااتفاقی ہے یعنی مسلمان ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آج مسلمان خود ہی مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کے گھر جلانے میں مصروف ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے دشمنوں کو بھی ہمارے خلاف میدان میں آنے کا موقع فراہم ہوا ہے۔ دشمن اسی لئے ہمارے سرزمینوں میں داخل ہوچکا ہے کہ جب وہ جانتا ہے کہ مسلمانوں کا شیرزاہ بکھر چکا ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ مسلمانوں کی تمام قوت شخص پرستی اور تنظیم پرستی میں ضائع ہوچکی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہی بعض خود غرض عناصر مسلمانوں میں داخل ہوئے اور اپنی نفسی خواہشات کے لئے انہوں نے مسلمانوں میں انتشار و منافرت پھیلانے کی دن رات کوششیں کیں۔ غرض یہ کہ مسلمانوں میں تضاد کی وجہ ہمارے ہی صفوں میں موجود خود غرض عناصر ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے درمیان موجود تفرقہ کے لئے دشمن کا کیا رول رہا ہے۔؟
مولانا عبدالمجید فلاحی:
دیکھیئے دشمن نے مسلمانوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔ دشمن نے دیکھا کہ مسلمانوں کی کمزوری انکی شخصیت، انکی پارٹی، انکے ذاتی مفادات اور اقتدار ہوسکتا ہے تو انہوں نے مسلمانوں کو انہی چیزوں کی لالچ دے کر انہیں مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے پر معمور کردیا۔ دشمن اسی طریقے سے مسلمانوں میں تقسیم در تقسیم کے قائل ہیں اور اس میں دشمن کافی حد تک کامیاب بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ عالمی سطح پر ایک تنظیم داعش نام کی وجود میں لائی گئی، جس میں عام نوجوان بظاہر اسلام کے نام پر داخل ہوئے تھے، لیکن وہ مسلمانوں کے اقدار کی پامالی کی ایک گہری سازش تھی۔ دشمن نے داعش میں شامل نوجوانوں کو ایک غلط سمت دے کر انہیں اسلام ناب کے خلاف میدان میں اتارا تھا۔ باطل نے داعش کو وجود میں لاکر ملت میں تفرقہ ایجاد کرنے کی گہری سازش رچائی تھی۔ داعش کی خونین کارروائیوں سے وہ بروقت بے نقاب ہوگئے ورنہ اسلام کسی کو زندہ جلانے، بے گناہوں کی قتل و غارتگری اور مساجد کو بموں سے اڑانے کی کہاں اجازت دیتا ہے۔ دین اسلام تو دیگر مذاہب کے عبادت خانوں کا تحفظ بھی فراہم کرتا ہے اور انکے جان و مال کا محافظ ہے۔ غرض ایسے عناصر کو میدان میں اتار کر اصل مقصد اسلام کی شبیہ بگاڑنا ہوتا ہے اور دنیا کو اسلام سے دور کرنا ہوتا ہے۔ داعش جیسے عناصر اس صورت میں کامیاب ہوجاتے ہیں جب مسلمانوں کے درمیان نااتفاقی موجود ہو۔ مسلمان اگر اسلام کی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا رہیں گے تو دشمن کی ہر سازش کو بخوبی مقابلہ کرپائیں گے۔ مسلمان جتنا دین ناب محمدی (ص) سے دور ہوتے گئے باطل افکار ان پر حاوی ہوتے گئے اور ان میں انتشار و تفرقہ بڑھتا گیا ورنہ اسلام میں باہمی تضاد کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔
 
اسلام ٹائمز: مساجد کی بات آئی تو یہاں جاننا چاہیں گے کہ ہماری مساجد کو کیسا ہونا چاہیئے۔؟
مولانا عبدالمجید فلاحی:
دیکھیئے ہمارے مساجد سے وحدت و اخوت کا پیغام عام ہونا چاہیئے۔ درس و تدریس کا کام عام ہونا چاہیئے۔ اگر ہماری مساجد سے علم ملنے لگا تو ہماری بہت ساری مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔ سب سے پہلی وحی میں بھی علم کو ہی موضوع بحث بنایا گیا۔ رسول اکرم (ص) نے اپنی تبلیغات میں بھی علم کو ہی مقدم رکھا۔ مسلمانوں کے درمیان جو اختلافی مسائل ہیں انہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، پھر کیوں مسلمان مسلمان کے خون کا پیاسا بن بیٹھا ہے یہ علم و فہم کی کمی کی وجہ سے ہے۔ اس کم علمی کی وجہ سے ہماری مساجد بھی الگ الگ ہوگئی ہیں۔ ہمارے خطیبوں اور مولویوں نے اپنی نفسی خواہشات کے لئے اور اپنے ذاتی اغراض کے لئے مساجد کو بھی فتنے کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ ہماری مساجد کا تقسیم ہونا ایک بڑا المیہ ہے اور اس کی اسلام ناب ہرگز اجازت نہیں دیتا ہے۔ رسول اکرم (ص) کی ذات پاک اس حوالے سے اور ہر لحاظ سے ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارتی حکومتوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ کشمیری عوام کو تقسیم کیا جائے، بھاجپا حکومت بھی اس منصوبے کی تکمیل میں سرگرم ہے، اس حوالے سے آپکی تشویش جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا عبد المجید فلاحی:
 دیکھیئے باطل کا ہمیشہ سے ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کا اصول رہا ہے۔ کشمیر میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حکومت ہو، چاہے وہ کانگریس ہو، پی ڈی پی ہو، بھاجپا ہو یا این سی، انہوں نے سرکاری سطح پر لوگوں کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، جن کی تکمیل کے لئے وہ لوگوں کو آپس میں لڑواتے ہیں اور ایک نفرت کا ماحول پیدا کرتے ہیں، یہ اپنی کرسی، اپنے اقتدار کی ہوس اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کمزور طبقے کے مسلمانوں کو بہلا پھسلا کر اور لالچ دے کر اپنے جھانسے میں لے آتے ہیں اور اپنا مطیع اور فرمان بردار بنا لیتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر ایک مقدس سرزمین ہے افسوس یہ ہے کہ یہاں بھی مقدس لناس اوڑھے ہوئے کچھ شرپسند عناصر تفرقہ و انتشار ایجاد کئے ہوئے ہیں، اس پر آپ کی تشویش جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا عبدالمجید فلاحی:
جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ ایسے عناصر کا کام ہی انتشار برپا کرنا ہے یعنی یہ عناصر اس کام پر معمور کئے گئے ہیں۔ اب اس دور میں ہمارے لئے کیا ذمہ داریاں ہیں، ہمیں سمجھنا ہوگا۔ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم ایک ایسا مشترک پلیٹ فارم تشکیل دیں جہاں ایسے عناصر کو ہم جوابدہ بنا سکیں۔ اس پلیٹ فارم سے ہم ایسے عناصر کی سرگرمیوں کو محدود کرسکتے ہیں۔ وحدت امت کے اس پلیٹ فارم کے ذریعہ سے ہم شرپسند عناصر کا جینا حرام کرسکتے ہیں۔ افسوس تو اسی چیز کا ہے کہ ہمارے درمیان کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود نہیں ہے جہاں پر ہم اپنے مشترکات پر مل بیٹھ سکیں اور تبادلہ خیال کرسکیں۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعہ سے ہی ہم شرپسند عناصر پر قدغن لگا سکتے ہیں یا انہیں بے نقاب کرسکتے ہیں۔ یعنی اگر باآسانی ایسے عناصر کو ہم قابو کرسکتے ہیں تو ٹھیک اگر نہیں تو ملت کے افراد ان عناصر کا سوشل بائیکاٹ کرسکتے ہیں۔ وحدت امت کے اس مشترکہ پلیٹ فارم کی کوشش جماعت اسلامی کشمیر نے کی تھی، جس میں بہت سارے مسالک کے افراد وابستہ تھے اور ایسے مسائل پر بات چیت ہوتی تھی، وہ پلیٹ فارم چند سال سرگرم رہا اور پھر وہ کام ماند پڑگیا۔ اب اگر اس طریقے سے کوئی اور ادارہ اٹھے اور وحدت امت کے لئے کام کرے تو تمام مسالک کے افراد کو اس میں تعاون کے لئے دعوت دی جاسکتی ہے، تمام تنظیموں کو ذمہ داروں اور ائمہ جمعہ حضرات کو اس بات کا مکلف بنایا جاسکتا ہے کہ جو تعلیمات اللہ کی کتاب ہمیں دیتی ہے اور جو سیرت النبی (ص) ہمیں معراج کی بندیوں تک پہونچا سکتی ہے اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ وحدت امت کا اسلامی تصور ایسے ہی شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 776539
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش