0
Sunday 10 Feb 2019 23:31
خود شیعوں کے درمیان شیعہ کا تعارف کرانا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے

پاکستانی تشیع کو مضبوط بنانا دراصل انقلاب اسلامی کو مضبوط بنانا ہے، مولانا شیخ حسن صلاح الدین

پاکستانی تشیع کو مضبوط بنانا دراصل انقلاب اسلامی کو مضبوط بنانا ہے، مولانا شیخ حسن صلاح الدین
حجة الاسلام و المسلمین مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین کا شمار پاکستان کے جید اور بزرگ علمائے کرام میں ہوتا ہے, علماء کے حلقے میں آپ کی شخصیت کو منفرد مقام حاصل ہے۔ آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔ آپ شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینیؒ کے ہم جماعت بھی رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی شوریٰ عالی کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین ہئیت آئمہ مساجد و علمائے امامیہ پاکستان کے صدر بھی ہیں۔ کراچی کے علاقے جعفر طیار میں آپ کی زیر نگرانی ایک مدرسہ بنام مدرسئہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی چل رہا ہے۔ کسی بھی اہم قومی و ملی فیصلے کیلئے آپ کی رائے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین کے ساتھ انکی رہائش گاہ پر ملی تنظیموں، ان کے کردار، پاکستانی تشیع سمیت دیگر موضوعات کے حوالے سے مختصر نشست کی، اس حوالے سے آپ سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان میں شیعہ تنظیموں کی فعالیت و کارکردگی کے حوالے سے مختصراً کیا کہیں گے۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔
پاکستان کے کونے کونے میں شیعہ ہیں، ملت تشیع کی آبادی کے لحاظ سے شیعہ تنظیموں کی مجموعی فعالیت کم ہے، کیونکہ جتنی زیادہ آبادی ہے، اتنی ہی زیادہ فعالیت بھی ہونی چاہیئے، شیعہ تنظیموں کو چاہیئے کہ اپنی ذمہ داری کا مزید احساس کریں، موجودہ کاموں پر اکتفا نہ کریں، اس سے بہتر اور مؤثر انداز میں آگے بڑھنا چاہیئے، میں شیعہ تنظیموں کی مجموعی فعالیت سے مایوس نہیں ہوں، الحمداللہ ہماری کچھ تنظیمیں کام کر رہی ہیں، کچھ لوگ کام کر رہے ہیں، یہ کام بھی ایک نعمت ہے، البتہ اکتفا کرنے کے بجائے فعالیت میں مزید تیزی آنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ تنظیموں کی فعالیت کے حوالے سے ترجیح کیا ہونی چاہیئے۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
اس حوالے سے موضوعات بہت ہیں، لیکن سب سے پہلا موضوع خود شیعہ شناسی ہے۔ آیا ہر فرد آگاہ ہے کہ شیعہ کیا ہے، شیعہ کے عقائد کیا ہیں، فقہ کیا ہے، شیعہ کی ذمہ داری کیا ہے، کم از کم ان تین چیزوں سے ہر ہر شیعہ فرد کو آشنا کرانا، آگاہ کرانا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے، یہ دو تین افراد کا کام نہیں، بلکہ یہ ایک اجتماعی کام ہے، اسے ملک گیر سطح پر انجام دیا جانا چاہیئے، اس کیلئے تنظیم ضروری ہے، اس لحاظ سے ہم تنظیم کی تائید کرتے ہیں، کیونکہ وہ اجتماعی طور پر کام کر رہی ہیں۔ سب سے پہلے تنظیموں کو چاہیئے کہ کچھ جرأت کا اظہار کرتے ہوئے خود شیعوں کے درمیان شیعہ کا تعارف کروائیں کہ شیعہ کیا ہے، شیعوں کے عقائد کیا ہیں، اس وقت شیعوں کے درمیان غلط عقائد پھیلانے، ایک الگ فرقہ بنانے کی سازش ہو رہی ہے، یہ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ ہم عقائد سے دور ہیں، بنیادی عقائد سے واقف ہی نہیں ہیں، توحید، نبوت، ولایت، ولایت کے نائبین کے بارے میں واقف ہی نہیں ہیں، صرف مولا علیؑ کا نام لیتے ہیں، ولایت کا نام لیتے ہیں، لیکن ولایت کے جو تقاضے ہیں، اسے ہم چھوڑ دیتے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ شیعہ کی موجودہ نسل، آئندہ آنے والی نسلوں کو شیعیت اور اسکے نظریات و عقائد کا تعارف کرایا جائے۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے کیا صرف تنظیموں کو ہی کردار ادا کرنیکی ضرورت ہے۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
صرف تنظیموں پر ہی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی، مگر کلیدی کردار تنظیموں کو ہی ادا کرنا ہوگا، کیونکہ تنظیموں کا دائرہ کار ملکی سطح پر پھیلا ہوا ہے، یہ کسی ایک جگہ یا شہر تک ہی محدود نہیں ہیں، لہٰذا تنظیمیں منصوبہ سازی کریں، حکمت عملی ترتیب دیں، دروس، لیکچرز، سیمینار، اجتماعات، مجالس و دیگر حوالوں سے پروگرامات ترتیب دیں، اس حوالے سے علماء کرام کے ساتھ ساتھ شیعہ نظریات سے آگاہ، شیعیت کی حقیقت سے آشنا شیعیت کا دفاع کرنے والے مذہبی اسکالرز اور دانشور حضرات سے مربوط ہو کر ان کی خدمات لی جائیں، بہرحال یہ سب سے اہم اور بنیادی کام ہے، جب ہماری بنیاد مضبوط نہیں ہوگی تو اس پر جو بھی عمارت تعمیر کی جائے گی، وہ گر جائے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ ملی تنظیمیں باہمی اختلافات کی شکار نظر آتی ہیں۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
شیعہ تنظیموں کے درمیان اتحاد کی بہت کوششیں کی گئی ہیں، جو کارگر ثابت نہیں ہوئیں، کوئی تیار ہے تو کوئی تیار نہیں، شیعہ تنظیموں کے درمیان اتحاد و وحدت ہونی چاہیئے، ہم سب کو اتحاد کا داعی بننا چاہیئے، لیکن یہ عملی میدان میں ہوتا نہیں، اب اگر اتحاد نہیں ہوتا تو پھر سب مذہبی و سیاسی مشترکات میں جمع ہو جائیں، یہ تو ہوسکتا ہے نا، اور اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر ہر ایک اپنا اپنا کام تو کرے، اپنی الٰہی ذمہ داری تو نبھائے، تشیع کا دفاع و سربلندی کسی ایک تنظیم کی ذمہ داری نہیں، یہ سب کی ذمہ داری ہے، تنظیموں، خواص امت، علماء کرام کی بطور خاص انکی ذمہ داری دوسروں سے زیادہ ہے، مثلاً ہم نے تشیع شناسی کی بات کی، بالفرض اگر سب ملکر یہ کام نہ کریں، تو الگ الگ تو کام کریں، اس میں کیا حرج ہے، ہر تنظیم اپنے طور پر منصوبہ بندی کرے، حکمت عملی ترتیب دے کر کام کرے، یہ کسی دوسرے کیلئے کسی بھی قسم کے نقصان کا باعث نہیں ہے، مشترکہ طور پر نہ سہی تو سب الگ الگ اپنے طور پر یہ کام انجام تو دیں، لہٰذا اگر سب متحد نہ ہو پائیں تو انفرادی طور پر ہر تنظیم یہ کام کرے۔

اسلام ٹائمز: ملی تنظیموں کے متحد ہونیکے حوالے سے کیا حل ہے۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
یہ بات ہمارے ذہن میں ہونی چاہیئے کہ ہر جگہ ایسا نہیں ہے، چاہے شیعہ ہو یا سنی یا دیگر مذاہب یا کسی بھی ملک میں سب متحد نہیں ہیں، تنظیمیں الگ ہیں، قیادت الگ ہے، لیکن مجموعی طور پر کام کرتے ہیں، ہم بھی ایسا کریں، ضروری نہیں کہ پہلے سب کو متحد کریں اور پھر فعالیت انجام دیں، لبنان میں تو اختلافات کے باعث دو شیعہ گروہوں میں جنگ ہوئی، جتنے بھی ہتھیار اور طاقت تھی، سب ایکدوسرے کے خلاف استعمال کئے، پاکستان میں تو ایسی صورتحال درپیش نہیں ہے، کیا یہاں کسی نے ایکدوسرے کے خلاف ٹینک چلائے ہیں، کیا توپ و بندوق چلائی ہیں، نہیں، ایسا نہیں ہے، یہاں تو آپس میں دست و گریباں بھی نہیں ہیں، فقط زبانی کلامی حد تک ہی ہے، فقط ایک دوسرے کی قیادت کو قبول نہ کرنے تک محدود ہیں، فقط سیاسی حوالے سے ایک جگہ جمع نہیں ہوتے، اگر جمع نہیں ہوتے تو نہ ہونے دیں، مگر سب اپنی اپنی الٰہی فعالیت جاری رکھیں۔

اگر ہم متحد نہیں ہیں، ایک قیادت نہیں ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم فعالیت بھی نہ کریں۔ لہٰذا قیادت ایک ہو یا متعدد، سب اپنی اپنی الٰہی ذمہ داریاں انجام دیں۔ ایک دوسرے کو برا بھلا نہ کہیں، ایکدوسرے کے خلاف محاذ آرائی نہ کریں، الزام تراشی نہ کریں، فقط اپنا اپنا کام کریں۔ ممکن ہے کہ کسی دن ایکدوسرے کے ساتھ سب متفق ہو جائیں، جمع ہونے کا امکان موجود ہے۔ بعض دوسرے ممالک سے یہاں صورتحال بہت بہتر ہے۔ ہر تنظیم کے قائدین اور کارکنان کو یہ احساس کرنا چاہیئے کہ یہ تنظیم ہماری ملکیت نہیں ہے، نہ ہماری جائیداد ہے، نہ کسی فرد سے وابستہ ہے، یہ ملت کی امانت ہے، ملت تنظیموں کو اپنی نمائندہ سمجھ کر ہی سپورٹ کرتی ہے، لہٰذا تنظیمیں قائدین و کارکنان کے پاس ملت کی امانت ہیں، لہٰذا کسی بھی تنظیم کا مؤقف ملت کے مفادات کے خلاف نہیں ہونا چاہیئے۔

تنظیموں کو احساس کرنا چاہیئے کہ آیا ملت کا مفاد اتحاد میں ہے یا پھر الگ الگ رہنے میں۔ تنظیموں کو احساس کرنا چاہیئے کہ ان کا جو مؤقف ہے، اس سے خدا اور آئمہ طاہرین راضی ہیں یا نہیں۔ آیا مشترکات میں تنظیموں کا مل کر کام کرنا بہتر ہے یا الگ الگ کام کرنا۔ آیا آپس میں اتحاد کرنا بہتر ہے یا دوسروں سے اتحاد کرنا بہتر ہے، ان سب حوالوں سے جائزہ لیکر اپنے اپنے مؤقف پر نظرثانی کرنا چاہیئے۔ میں سمجھا ہوں کہ اگر تنظیمیں احساس ذمہ داری کریں تو ملت کی موجودہ حالت میں کافی بہتری آئے گی۔ ہم تو تنظیموں کے اتحاد کی بات کرتے ہیں، نہ یہ کہ تنظیمیں ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں، تنظیمیں الگ الگ ہوں تو مسئلہ نہیں، لیکن مشترکات پر ملکر کام نہ کرنا مسئلہ ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی تشیع کے تناظر میں پاکستانی تشیع کو کہاں دیکھتے ہیں۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
اگر ہم پاکستانی تشیع کا عالمی تشیع سے موازنہ کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ سب کی سمت ایک طرف ہے، البتہ کچھ ممالک اس سمت میں ہم سے آگے بڑھے ہیں، ایران اور لبنان تو آگے ہی ہیں، بحرین جیسے جمود کے شکار معاشرے میں تشیع تیزی سے آگے بڑھی ہے، بحرین میں قیادت علماء کے ہاتھ میں ہے، جوان سب ان کے ساتھ ہیں، پاکستان میں تشیع کی سمت وہی ہے، لیکن ہم تیزی کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکے، صرف نعرے بازی کرنا، ریلیاں نکالا پیشرفت نہیں ہے، بنیادی پیشرفت ہونی چاہیئے، بنیادی کام ہونے چاہیئے، جس سے تشیع مضبوط ہو، تنظیمیں مضبوط ہوں، ہم عالمی تشیع کے ہم قدم ہوسکیں، البتہ پاکستانی تشیع کی جو صورتحال ہے، یہ بھی غنیمت ہے۔

اسلام ٹائمز: تاثر عام ہے کہ ہمسایہ اسلامی ملک ایران میں رونما ہونیوالے انقلاب اسلامی کے پاکستان پر وہ مثبت اثرات مرتب نہیں ہوسکے، جو پڑنے چاہیئے تھے، اس حوالے سے کہنا چاہیں گے۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
ایران میں آنے والے انقلاب اسلامی کے بعد پاکستان میں اس کی حمایت کرنے والے علماء کرام و دانشور حضرات کی تعداد انتہائی کم تھی، بعض کے تو ذہن میں یہ تھا ہی نہیں کہ یہ اسلامی انقلاب ہے، اس کی حمایت کرنی چاہیئے، دو تین تنظیمیں تھیں، جو انقلاب اسلامی سے وابستہ تھیں، قیادت کا فقدان تھا، چاہے علماء کی صف میں یا غیر علماء کی صف میں یا تنظیموں کے حوالے سے، یہی وجہ ہے کہ انقلاب اسلامی کا پیغام گھر گھر نہیں پہنچ سکا، شہید عارف حسینیؒ سے پہلے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے دور میں کارکنان کی اکثریت کا انقلاب اسلامی سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔

شہید عارف حسین الحسینیؒ کا اپنے دور قیادت میں اکثر وقت یہ ثابت کرنے میں گزر گیا کہ وہ بھی شیعہ ہیں، یاعلیؑ مدد کے قائل ہیں، شہید عارفؒ کے خلاف انتہائی زیادہ پروپیگنڈا کیا گیا، شہید عارف کے دور میں فعال علماء و غیر علماء کی تعداد بہت کم تھی، چند افراد اتنے بڑے ملک میں انقلاب اسلامی کا پیغام پہنچانے کیلئے ناکافی تھے، فعال افراد کے نہ ہونے یا کم ہونے کی وجہ سے انقلاب اسلامی یا تعارف ان معنوں میں نہیں ہوسکا، جیسا ہونا چاہیئے تھا۔ پھر امریکا سمیت طاغوتی و استعماری طاقتوں نے بھی بھرپور سازشیں کہ کسی بھی طرح انقلاب اسلامی کے اثرات پاکستانی عوام پر مرتب نہ ہوسکیں، یہ سلسلہ رکا نہیں، بلکہ آج بھی استعماری سازشوں کا سلسلہ جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: انقلاب اسلامی کو پاکستانی تشیع سے کیا امیدیں ہیں۔؟
مولانا شیخ محمد حسن صلاح الدین:
انقلاب اسلامی کے سرکردہ افراد پاکستانی تشیع سے پُرامید ہیں، پاکستان میں ان شاء اللہ کام ہو جائے گا، البتہ ابھی تو وہ خود بھی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اور پاکستان میں بھی تشیع مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ اگر ہم ان مسائل کا مقابلہ کریں، انقلاب اسلامی کا صحیح تعارف کرائیں، تو پاکستان کی زمین بھی بہت زرخیز ہے، انقلاب اسلامی کے سرکردہ افراد کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان کے شیعہ ایران کیلئے کام کریں، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی شیعہ اپنے لئے کام کریں، اپنے آپ کو مضبوط بنانے کیلئے کام کریں۔

انقلاب اسلامی تشیع سے الگ نہیں ہے، انقلاب اسلامی تشیع کا ہی چہرہ ہے، لہٰذا تشیع کیلئے کام کرنا، اپنے مسائل کو حل کرنا، اپنی خامیوں کو دور کرنا، باہمی اختلافات کو ختم کرنا، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا، ایک مضبوط ملت کے طور پر سامنے آنا، یہ انقلاب اسلامی کی پاکستانی تشیع سے توقعات ہیں۔ تنظیموں و خواص کو چاہیئے کہ ملت تشیع کو مضبوط کریں، کیونکہ ملت تشیع کو مضبوط کرنا دراصل انقلاب اسلامی کو مضبوط بنانا ہے، ملت تشیع کو مضبوط بنانا ہی انقلاب اسلامی کی خدمت کرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 777252
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش