0
Thursday 21 Feb 2019 10:32
نیب کو پورے ملک میں کارروائی کا اختیار ہے

سعودی عرب کی طرح بھارت بھی سی پیک کا حصہ بننے پر مجبور ہوجائیگا، جویریہ ظفر آہیر

سعودی عرب کی طرح بھارت بھی سی پیک کا حصہ بننے پر مجبور ہوجائیگا، جویریہ ظفر آہیر
ممبر قومی اسمبلی، پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی رہنماء، جویریہ ظفر آہیر خوشاب کے معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ گرین پاکستان انیشیٹو ادارے کی بانی چیئرمین ہیں۔ نئے پاکستان میں پارٹی قیادت کیساتھ سرگرم اور فعال ہیں۔ نیب کی تازہ ترین کارروائیاں، سعودی ولی عہد کے دورہ پاک و ہند اور پلوامہ حملے کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سندھ اسمبلی اسپیکر کو اسلام آباد پہنچنے پر کیوں گرفتار کیا گیا، جبکہ گرفتار کرنیوالی ٹیم بھی کراچی سے آئی تھی، اس میں کوئی خاص پیغام ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
نیب پورے پاکستان میں جہاں چاہے کارروائی کرسکتا ہے، کراچی، سکھر، حیدرآباد میں ساری جائیدادیں ایک ہی گھر کے افراد کی ہیں، یہ بھی ہمارے وزراء کی طرح استعفیٰ دیں۔ اسپیکر کی حیثیت سے بھی انہوں نے غیر قانونی کام کیے ہیں، میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں کی ہیں، 3 ارب کی بلڈنگ 11 ارب تک پہنچ گئی ہے، اسمبلی کی عمارت اور ایم پی اے ہوسٹل کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ان کے من پسند ہیں۔ بنیادی الزام آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے، اڑھائی سال سے پیش نہیں ہو رہے تھے۔ وہ تفتیش میں تعاون نہیں کر رہے تھے، چیئرمین نیب نے وارنٹ جاری کیا، پانچ بار بار انہیں نوٹس جاری کیے گئے۔

کسی صوبے یا مخصوص علاقے کو کسی لسانی بنیاد پہ نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے۔ یہی عرفان منگی ہی پہلے نواز شریف کیخلاف بھی تحقیقات میں رہے ہیں، کوئی تعصب نہیں ہے، یہی باتیں نواز شریف نے بھی کی تھیں، ہر سیاستدان جب کرپشن میں پکڑا جائے گا تو کیس کو شواہد کی بجائے سیاسی نعروں سے دبانے کی کوشش کریگا، پوائنٹ اسکورنگ کی بات کریگا، انتقام کی بات کریگا، ایسا کچھ نہیں ہے، نیب درست کارروائیاں کر رہا ہے، ابھی تو اور گرفتاریاں ہونا ہیں، بہت سارے کیسز جاری ہیں۔ صوبوں میں احتساب کے ادارے ہیں، جو فیل ہوچکے ہیں۔ ورنہ وفاقی اداروں کی جانب سے کارروائیاں کرنیکی نوبت ہی نہ آتی۔ اس کے لیے بھی پی پی پی اور نون لیگ نے کوئی قانون سازی نہیں کی، نہ پہلے سے موجود قوانین میں ترمیم کی۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم کیجانب سے بھارت کے جنگی جنون کے جواب میں طاقت کے استعمال کی بات خطے کی صورتحال کو مزید عدم استحکام کا شکار نہیں کرسکتی۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
بھارت نے پاکستان پر حملے کی بات کی ہے، یہ ہماری جان اور سالمیت کو خطرے کا معاملہ ہے، اس لیے دوٹوک انداز میں ردعمل دیا ہے، ہماری طاقت کو نہ آزمایا جائے۔ پاکستان میں سیاسی، معاشی اور دفاعی طاقت کے طور پر دنیا میں ابھر رہا ہے۔ اب انڈیا کو ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ اسوقت جو شخص پاکستان کا حکمران ہے، اس کی ملیں بھارت میں نہیں ہیں، نہ ہی شوگر کا کاروبار ہے، اب نیا پاکستان ہے، اب اگر انڈیا غلطی کریگا تو انہیں غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑیگا۔ اڑی کیمپ، پٹھانکوٹ، پارلیمنٹ پر حملہ اور اب پلوامہ میں دھماکہ، سب کا تعلق پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ یہ آر ایس ایس اور بی جے پی کرواتی ہے، سابق بھارتی فوجی سول افسر اور سیاستدان یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کام بھارتی ایجنسیاں خود کرواتی ہیں۔ پی کے سنگھ خود کہہ چکا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کیلئے ٹیکٹیکل ونگ انہوں نے بنوایا تھا، بھارت جیش محمد، جماعۃ الدعوہ کا نام لیکر آئی ایس آئی پر دہشت گردی کا الزام لگانا چھوڑ دے۔ اگلے الیکشن میں بی جے پی کو واضح شکست نظر آرہی ہے، یہ اس سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اگر یہ ملک کو خطرے والی صورتحال ہے تو وزیراعظم نے تاخیر سے ردعمل کیوں دیا۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
مقبوضہ کشمیر میں انڈین آرمی پر حملے کے بعد سے بھارت کی جانب سے جس طرح پاکستان پر الزام پر الزام دھرے گئے، اس کا جواب دینا انتہائی ضروری تھا۔ اس  طرزِ عمل سے واضح تھا کہ الزامات بے بنیاد اور مضحکہ خیز ہیں، لیکن ثبوت کے طور پر بھارت کچھ بھی پیش نہیں کرسکا۔ خود بھارتی ماہرین بھی دبے الفاظ میں ان حالات کو بھی مانتے ہیں، جو انتقامی کارروائیوں کا جواز بنتے ہیں۔ وزیراعظم نے جواب دینے میں جو تؤقف کیا، وہ درست تھا، کیونکہ بے بنیاد الزامات پر دفاع میں جلدی دکھانے کی بجائے بہتان طرازی کی گرد بیٹھنے کا انتظار ضروری تھا، تاکہ سچ اور جھوٹ ظاہر ہو جائے۔ پاکستان کی پوزیشن اس سے بہتر ہوئی کہ بھارتی افتراء پردازی کو کہیں سے بھی توثیق حاصل نہیں ہوسکی۔ پھر انہوں نے اوقات سے بڑھ کر پاکستان کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی ہے، اس کا جواب اسی شدت سے ضروری ہے، تاکہ دشمن پاکستان کو کمزور تصور نہ کرے۔

سوچنے والی بات ہے کہ پاکستان بھارت میں آپریشنل مداخلت کیوں چاہے گا اور وہ بھی عین اس موقع پر جب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہمارے ملک کے اہم دورے پر آرہے تھے۔ یہ احمقانہ الزام ہے، کیا پاکستان چاہے گا کہ اس موقع پر جبکہ برادر ملک کے ساتھ ہم اربوں ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کرنے جا رہے تھے، کشمیر کی سلگتی ہوئی وادی میں ایک چنگاری کا اضافہ کرکے پوری دنیا کو اپنی جانب انگلیاں اٹھانے پر آمادہ کریں اور اس طرح وہ اربوں ڈالر کے سودے جو ہماری اقتصادی تقدیر بدلنے کے مترادف ہیں، انہیں مشکوک بنا دیں، بلکہ شواہد اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ سازش فی الواقع پاکستان کے خلاف تھی، بدلتے ہوئے اور اقتصادی و تجارتی افق پر ابھرتے ہوئے پاکستان کے خلاف، جس کے بداندیش ہمسائے کو اس کی ترقی کا امکان ہضم نہیں ہو رہا۔ اسی طرح وزیراعظم کا کہنا درست تھا کہ جس طرح افغانستان میں فوج کشی سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا، اسی طرح کشمیر میں بھی انڈیا کیسے کامیاب نہیں ہوسکتا۔

اسلام ٹائمز: سی پیک کے بعد سعودی سرمایہ کاری بھی زور و شور سے زیر بحث ہے، کیا امید کی جاسکتی ہے کہ معیشت کا بحران ختم ہوجائیگا۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
پندرہ سال بعد پاکستان نے بڑی سعودی شخصیت کی میزبانی کی، خصوصی استقبال اور الوداع کیا گیا، انتظامات فول پروف کیے گئے، اختتام پر اب کوئی سکیورٹی کا مسئلہ پیش نہیں آیا، ولی عہد کو پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز سے نوازا گیا، معاہدے ہوئے ہیں، ایک سپریم کوارڈینیشن کونسل بنائی گئی ہے، جس کی ہر سال میٹنگ ہوگی، 2017 پاکستانیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ اس دورے کے کئی امتیازات ہیں۔ نیو جنریشن کنٹکٹ بہتر ہوا ہے، پہلے ہمارا سعودیہ کی گذشتہ نسلوں سے تعلق رہا ہے، نئی نسلوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے گا، پاکستان کے ذریعے چین کو سعودی عرب تک رسائی ملے گی، پاکستان کی پہنچ بھی افریقہ تک ہو جائے گی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے رشتوں میں نئے زاویے پیدا ہوئے ہیں، پہلی مرتبہ ہمارے تعلقات تمام شعبوں کا احاطہ کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: معاہدے تو ہونگے کبھی بعد میں، مفاہمتی یاداشتیں تو ہر غیر ملکی وفد کی آمد پہ تیار ہونا روایت ہے، کیا پی ٹی آئی اپنے دورہ حکومت میں معاہدے اور ان پر عملدرآمد کروا پائیگی۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
یہ دورہ معاشی طور پر پاکستانی معیشت کیلئے ایک بریک تھرو ہے، معاشی طور پر جو گھٹن تھی، سفارتکاری سے اس میں کمی آئی ہے، ماحول کھل گیا ہے، عملی اقدامات کا آغاز ہوچکا ہے، چیمبر آف کامرس کی میٹنگز ہوئی ہیں، ہلال فوڈ کی سپلائی کی بات ہوئی ہے، کسانوں کیلئے بات ہوئی ہے۔ ایگریکلچر اور فارمنگ کی بات ہوئی ہے، وہ یہاں اجناس اگانا چاہتے ہیں، جنہیں ہم ایکسپورٹ کریں گے، تمام شعبوں کے وفود نے کہا ہے کہ کام کرنا ہے، پاک سعودیہ جائنٹ بزنس کونسل بنائی گئی ہے، دس دس ممبر ہیں، اسلامک چیمبر آف کامرس کی میٹنگ میں دوبارہ اجلاس ہوگا، معاہدوں پر عملدرآمد کروائیں گے، سعودی عرب کیلئے برآمدات کو بڑھائیں گے۔ تسبیحیں بھی پاکستان بنائے گا، سیاحت کیلئے فور اور فائیو سٹار ہوٹلز کی بات ہوئی ہے، لوگ حج اور عمرے کیلئے جاتے ہیں، انکے منسٹر اور ڈپٹی منسٹر فارن ٹریڈ نے ان تمام باتوں سے اتفاق کیا ہے۔

 ڈیمز اور توانائی پر بات ہو رہی ہے۔ اسی طرح خلیجی ممالک میں بھی تجارت کو بڑھا رہے ہیں۔ وہاں نئے شہر بن رہے ہیں، وہاں لیبر اور پروفیشنلز بھی پاکستانی جائیں گے، لیبر کو مزید باہنر بنانا پڑیگا، اس سے مزدوروں کی تنخواہیں بڑھ جائیں گئیں۔ ولی عہد سعودی عرب کو مسلم امہ اور عرب دنیا کا دل اور مرکز بنانا چاہتے ہیں، اس لیے وہ تعلقات کو پھیلانا اور بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ سعودی شراکت سے سی پیک کو نقصان نہیں ہوگا، سی پیک کی پوزیشن بہتر ہو جائیگی، لیکن پاکستان پھر بھی اپنے مفاد کو پسِ پشت نہیں ڈالے گا۔ سعودی عرب نے اپنی ریسرچ کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی عرب نے ایم اویوز ہونے سے پہلے ٹیم بھیجی تھی، سعودی ٹیم نے دیکھا کہ سرمایہ کاری کریں گے تو منافع کس طرح ہوگا، سعودی عرب نے اپنی ریسرچ کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا. یعنی مکمل اطمینان کیساتھ طے ہونیوالی چیزیں ہیں، جو مضبوط تعلقات اور ترقی کی پائیدار راہوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔

یہ طویل المدت ہے، دو چار سال میں خاص حالات نہیں بدلیں گے۔ لیکن سعودی پاکستان کو آگے بڑھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، وہ پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہتے ہیں، پاکستان آئندہ برسوں میں بڑی معاشی حیثیت اختیار کرنے والا ہے، پاکستان سعودی عرب میں جو بھی معاہدے ہوئے، یہ شروعات ہے، پاکستان جیواسٹریٹیجک لحاظ سے اہم ملک ہے، انہوں نے اپنے آپ کو پاکستان کا سفیر کہا، فضاء بہتر ہو رہی ہے۔ یہ درست نہیں کہ صرف حکومت کا رول ہوتا ہے، ہمیں اپنی پیداوار کو بہتر بنانا ہوگا، پرائیویٹ امپورٹ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، پوری گلف کونسل کا ایک ماڈل ہے، وہ سب سے اچھی لیبر لیتے ہیں، مذہب اور علاقے کی تفریق کے بغیر، اس میں وہ اپنا معیار سامنے رکھیں گے، صرف یہ کافی نہیں کہ عمران خان نے کہہ دیا ہے تو اب وہ ساری افرادی قوت پاکستان سے لیں گے۔ پچھلے ساٹھ سال سے جو اتار چڑھاؤ آیا ہے، لیکن ہماری ترجیحات درست نہیں رہتی ہیں۔ اس میں یہ ہے کہ ہمارا اندرونی خسارہ اگر بہتر نہیں ہوتا تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے لیے کچھ نہیں کرسکتی۔ اتنا ضرور ہے کہ ماحول اچھا ہوا ہے۔ اس کا کریڈت عمران خان اور فوجی قیادت کو جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں آنیوالی سرمایہ کاری اور دوستوں کا تعاون تو جنرل باجوہ کی سفارتکاری کا مرہون منت ہے، کیا حکومت کی کارکردگی نعروں اور آنے جانے تک محدود ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
اگر آپ آرمی کو اون کرینگے تو وہ آپ کیساتھ ٹیم ممبر کے طور پر کام کرینگے، یہ تو نون لیگ کے دور میں چوہدری نثار نے بھی کیا تھا، تبھی کراچی آپریشن کامیاب ہوا۔ عمران خان فوج کو ساتھ لیکر چل رہے ہیں، جس وجہ سے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں، فوج اور حکومت مل کر چل رہے ہیں، لیکن وزارت خارجہ بھی بہت فعال ہے، اب یو این او میں تو فوج نہیں جا سکتی، دوست ممالک کا اعتماد بھی اس لیے بڑھا ہے کہ انہیں پاکستان کے ادارے اور حکومت ایک پیج پر نظر آتے ہیں، اس سے پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی ہے، جس وجہ سے سرمایہ کاری آرہی ہے، صرف چین اور عرب ممالک ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے ملک بھی اس میں شامل ہونگے۔

ابھی جو صورتحال ہے، پاکستان کو دہشت گردی سے درپیش خطرے کی طرح، سعودیہ کیلئے بھی سکیورٹی ایک حقیقی کنسرن ہے، سعودیہ کا اپنا انحصار جو پہلے امریکہ پہ تھا، اسے کم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ افغانستان سے جانا چاہ رہا ہے، اس سے خلاء پیدا ہوگا، اس کے نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔ تین دن پہلے پلوامہ حملہ ہوا ہے، ایرانی گارڈز پر حملہ ہوا ہے، یہ ویسے نہیں ہوا، اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی پلان ہے۔ سعودیوں کیلئے سکیورٹی کے شعبے میں پاکستان انکی ضرورت ہے۔ راحیل شریف کا سعودی عرب میں موجود ہونا بھی اسوقت اپنے اثرات دکھا رہا ہے، موجودہ آرمی چیف کا رول بھی بڑا اہم ہے۔ سکیورٹی پیراڈائم بدل رہی ہے، جہاں پاکستان واقع ہے، ان حالات میں ہم سعودی عرب کو چھوڑ نہیں سکتے، لیکن چیلنجز برقرار ہیں، پاکستان ایک تنی ہوئی رسی پہ چل رہا ہے، لیکن مشکلات جلدی جلدی حل ہو رہی ہیں، مستقبل روشن ہے، اس کا فائدہ سارے خطے کو ہوگا۔

اسلام ٹائمز: سعودی ولی عہد سے اپوزیشن رہنماؤں کو کیوں نہیں ملوایا گیا، اس میں کیا حرج تھا، کیا انہیں تاثر دینا تھا کہ سعودیہ کیطرح یہاں بھی جمہوریت کو کم رنگ کیا جا رہا ہے۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
 مشاہد اللہ خان ملے ہیں، انہوں نے مہمانوں سے گفتگو بھی کی ہے، نواز شریف سے متعلق بھی بات ہوئی ہے، لیکن جو اعتراض کیا جا رہا ہے، یہ ان کے محسوسات ہیں، جو پہلے اقتدار کے مزے لیتے رہے ہیں، اب ایسا نہیں ہے، انکا طرز عمل بھارت جیسا ہے، انہیں یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑیگا، سعودی ولی عہد کے دورے کے متعلق اپوزیشن اور بھارت کے منفی موقف میں بہت مماثلت ہے۔ ساری ساری کی اپوزیشن قیادت تو کرپشن کے کیس بھگت رہی ہے، جو لوگ پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹکہ ہیں، انہیں کسی بھی مہمان سے ملوانا اور تعارف کروانا ممکن نہیں تھا۔

جو کرپشن میں مطلوب ہیں، انہیں مہمانوں کیساتھ نہیں بٹھایا گیا، جو کسی حد تک بہتر ہیں، انہیں ملوا دیا ہے، ان کرپٹ رہنماؤں کو نہ ملوانے کی پالیسی بالکل درست تھی۔ مہمان بھی وہ تھا، جس نے پہلی دفعہ سعودی عرب میں شہزادوں اور حکومتی سطح پہ کرپشن کیخلاف کارروائی کی ہے، بہتر یہی تھا کہ دوست ملک کے سامنے پاکستان کا امیج خراب نہ کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمارے مہمان یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھی کرپشن کیخلاف آپریشن جاری ہے، قانون کے مطابق کارروائی ہو رہی ہے اور گذشتہ حکمران اب بدعنوانیوں کی سزا بھگت رہے ہیں، پاکستانی عوام بھی اس بات کو جانتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سعودی ولی عہد کے دورہ بھارت، تجارتی معاہدوں اور سرمایہ کاری سے بھارت کو پاکستان کیخلاف شہہ نہیں ملے گی، کیا یہ دشمن کے ہاتھ مضبوط بنانے والی بات نہیں۔؟
جویریہ ظفر آہیر:
دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے، لیکن بھارتی الزام سے پاکستان پر کوئی حرف نہیں آیا، سعودیہ اور بھارت کے پہلے سے تعلقات ہیں، اسی لیے انڈیا نے کہا ہے کہ سعودیہ میں چھپنے والے افراد کو واپس انڈیا کے حوالے کریگا، سعودیہ تنازعہ کو حل کرنے میں کوشش کریگا، ولی عہد نے یہ بھی کہا ہے کہ مودی نے 2014ء سے ذاتی طور پر پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ انکا پاکستان کیساتھ مذاکرات کی طرف اشارہ تھا، مودی نے تو ڈائریکٹ کہا اور دہشت گردی کی بات کی ہے، لیکن ولی عہد نے دہشت گردی کے حوالے سے اپنے موقف کو دہرایا، صرف بھارتی وزارت داخلہ نے پاکستان کا نام لیا، لیکن بھارت سعودی حمایت لینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ سعودی وزیر خارجہ نے صاف انکار کیا پاکستان کا نام لینے سے، پاکستان کی طرح ہوبہو کہا کہ آپ کے پاس پاکستان کیخلاف کوئی ثبوت ہے، تو مجھے دیں، بغیر ثبوت کے پاکستان کا نام کیسے لیا جا سکتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ سعودی ولی عہد کے دورہ بھارت کے دوران ان دو ممالک کے درمیان کئی معاہدے ہوئے ہیں، ہمیں اس پر اعتراض نہیں، بھارت کے معاشی تعلقات ایران سے بھی ہیں، لیکن اب انہوں نے سعودی عرب کو بھی اسٹریٹیجک پارٹنر قرار دیا ہے، انکے درمیان دفاعی تعاون پر بات بھی ہوئی ہے۔ یہ دیکھنے کے باوجود کہ شہزادہ پاکستان سے ہو کر گیا ہے، پاکستان کے حوالے سے بھارت کی بوکھلاہٹ میں کمی نہیں آئی، اس کے باوجود ہمارے لیے کوئی پریشانی نہیں، سعودیہ سی پیک کا حصہ بننے جا رہا ہے، اس سے ایشیاء سے افریقہ تک ریجنل رابطوں کا سلسلہ جڑے گا، جو چین کی بھی ضرورت ہے اور سعودی عرب کی بھی، اگر انڈیا سعودی عرب سے تیل خریدے گا تو تجارت بھی کریگا، جس کے لیے بھارت کو بھی اس روٹ کا حصہ بننا پڑے گا، سعودیہ کی وجہ سے بھارت مجبور ہو جائیگا کہ سی پیک میں شامل ہو۔

بھارت میں الیکشن ہیں، اس کے بعد یہ گرد بیٹھ جائیگی، جس طرح کچھ عرصہ پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سعودیہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کریگا اور سی پیک کا حصہ بنے گا، گذشتہ حکومتوں نے بھی کوشش کی ہے، لیکن جب پاکستان میں قیادت تبدیل ہوگئی تو دنیا کے اعتماد میں اضافہ ہوا، اب تواتر کیساتھ عرب دنیا سے سرمایہ کاری آرہی ہے، ایران کو بھی اس حوالے سے تحفظات نہیں ہونگے، پاکستان سمیت کسی ملک کی طرف سے کاروبار بڑھانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ کسی دوسرے ملک کو نقصان پہنچے، اس میں سب کا فائدہ ہے، تجارت ہوگی تو خوشحالی اور ترقی ہوگی، بھارت سمیت پورا خطہ غربت کا شکار ہے، اس سے نکلنا ہوگا، پلوامہ واقعہ کے بعد بھارت میں جو شور شرابہ اور ہیجان ہے، یہ دھواں دھار سلوگن صرف بھارتی الیکشن تک ہی ہیں، پاکستان کی پوزیشن مزید بہتر ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 779114
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش