0
Friday 22 Feb 2019 01:34
جنوبی پنجاب کیلئے پبلک سروس کمیشن کا ادارہ الگ قائم کر رہے ہیں

عمران خان کی قیادت پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اِن سے کوئی کام لینا ہے، محمد ندیم قریشی

30 جون سے پہلے جنوبی پنجاب کیلئے سول سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں آجائیگا
عمران خان کی قیادت پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اِن سے کوئی کام لینا ہے، محمد ندیم قریشی
محمد ندیم قریشی یکم اکتوبر 1971ء کو اندرون شہر ملتان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول پاک گیٹ سے حاصل کی، بہائوالدین زکریا یونیورسٹی سے بی ایس سی (آنرز) کی ڈگری حاصل کی، 1998ء میں بطور کونسلر میونسپل کارپوریشن سیاست کا آغاز کیا، بعدازاں اپنے خاندانی بزنس میں مصروف ہوگئے، موجودہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کے قریبی سمجھے جانے والے محمد ندیم قریشی نے پی ٹی آئی میں 2018ء کے الیکشن سے قبل شمولیت اختیار کی، ملتان کے شہری حلقے پی پی 216 سے اپنے کیریئر کا پہلا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا، جماعت کے ضلعی صدر کی جانب سے مخالفت کے باوجود سابق صوبائی وزیر اوقاف و مذہبی اُمور اور تین مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن بننے والے والے حاجی احسان الدین قریشی کو بھاری اکثریت سے شکست دی، بعدازاں اُنہیں صوبائی پارلیمانی سیکرٹری (داخلہ) نامزد کیا گیا، گذشتہ روز ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اُنکا انٹرویو کیا، جو حاضر خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: ایک پاکستانی شہری ہونیکے ناطے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جو وعدے اس حکومت نے عوام سے کئے تھے، وہ پورے ہوئے یا اُنہیں پورا کرنے کے حوالے سے یہ حکومت سنجیدہ ہے۔؟
محمد ندیم قریشی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم، سب سے پہلے میں آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے موقع دیا، جب حکومتیں بنتی ہیں تو اُنہیں بہت سارا ٹائم لگتا ہے معاملات سنبھالنے میں، گذشتہ چالیس سالوں میں دو جماعتیں باری باری اقتدار میں رہیں، اس بار پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی غیر روایتی جماعت تھی، جس کی لیڈر شپ کا تعلق کسی سیاسی گھرانے سے نہیں ہے، ماضی میں بدقسمتی کے ساتھ پارٹیوں کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح چلایا جاتا رہا ہے، جبکہ پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی جماعت ہے، جسے عمران خان کے ویژن اور اس نعرے نے کہ ہم نے پاکستان سے کرپشن کے نظام کا خاتمہ کرنا، اس ملک میں ایسا قانون بنانا ہے، جو اشرافیہ کے لیے بھی ہو اور ایک عام آدمی کے لیے بھی، ایسا نہ ہو کہ جیسے پہلے ماضی میں ہوتا تھا کہ طاقتور کے لیے قانون اور ہوتا تھا اور کمزور کے لیے قانون اور ہوتا تھا۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے چھ ماہ میں سب سے پہلے تو یہ حاصل کیا کہ لوگوں کو احساس دلایا کہ واقعی کرپشن کسی بھی ملک کو آگے نہیں بڑھنے دے سکتی، اس وقت پنجاب اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، ہم نے ہیلتھ، ایجوکیشن، لاء اینڈ آرڈر اور دنیا کی نگاہوں میں پاکستان کے معیار کو بلند کرنے پر خصوصی توجہ دی ہے، ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے رویئے سے عام آدمی کو یہ باور کرائیں کہ ہم تبدیلی ہیں، اس وقت میڈیا پاکستان تحریک انصاف پر تنقید کر رہا ہے، میں میڈیا کے دوستوں سے سوال کرتا ہوں کہ ہم سے پہلے جو لوگ حکومت میں موجود تھے، وہ مجھے کوئی ایک ادارہ ایسا بتا دیں کہ جو بطور ادارہ کام کر رہا ہو، جتنا مسائل کا انبار ہمارے لیے چھوڑا گیا ہے، اسے راتوں رات ختم نہیں کیا جاسکتا، ہم کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے امیر اور غریب کیلئے ایک قانون کی بات کی ہے، اسوقت آپ سانحہ ساہیوال کی تحقیقات سے کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
محمد ندیم قریشی:
سانحہ ساہیوال ایک ایسا المناک حادثہ ہے، جس کی تکلیف لفظوں سے کسی بھی صورت دور نہیں کی جاسکتی، لیکن پاکستان گذشتہ پندرہ سے بیس سال جس عالمی دہشتگردی کا شکار رہا ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، ہر ذی شعور انسان جانتا ہے کہ پاکستان کا دشمن کون ہے؟ کون پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے، ہم نے اس ملک میں بہت خوفناک اور تکلیف دہ وقت دیکھا ہے، ہمارے سکیورٹی اداروں، پاک فوج، پولیس اور عوام نے پناہ حادثے دیکھے ہیں، سکولوں سے لے کر ہسپتالوں تک دردناک مناظر دیکھے ہیں، سانحہ ساہیوال بھی اُسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف نے بطور حکومت نہ صرف اسے اُٹھایا بلکہ مکمل سنجیدگی کا اظہار کیا۔

اس سانحے پر ہمیں اپنی جماعت کے اندر سے بھی پریشر تھا اور عوام کی جانب سے بھی شدید پریشر تھا، 72 گھنٹوں میں جے آئی ٹی بنی اور اُس نے اپنی رپورٹ پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے ناحق بے گناہ افراد کو قتل کیا گیا، جے آئی ٹی کی رپورٹ کی سفارش پر پانچ لوگوں کے خلاف دہشتگردی کی دفعات شامل کرکے مقدمہ درج کیا گیا، ایک شخص کے حوالے سے تحفظات تھے، لیکن آہستہ آہستہ اُس کی تحقیقات بھی اختتامی مراحل میں ہیں، پنجاب اسمبلی کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ اراکین اسمبلی کو سانحہ ساہیوال پر ان کیمرہ بریفنگ دی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم نے پاکستان کو آگے لے کر بڑھنا ہے تو پھر پاکستان کے ہر ادارے کو اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: حکومت میں موجود بعض افراد کا یہ الزام ہے کہ بیوروکریسی اُنکے کام میں رُکاوٹ ہے، آپ اس سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں۔؟
محمد ندیم قریشی:
بیوروکریسی بھی اسی سسٹم کا حصہ ہے، یہ میں اپنی ذاتی حیثیت میں بیان دے رہا ہوں، میں نہیں کہتا کہ بیوروکریسی بالکل ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہی، بیوروکریسی ہمارے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق تعاون کر رہی ہے، پاکستان کا سب سے بڑا جو مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے ادارے کمزور ہیں، وہ ہے ایڈہاک ازم، ہم نے کبھی بھی ملک میں مستقل بنیادوں پر ادارے نہیں بنائے، جب تک ہم اس ملک میں ادارے مضبوط نہیں کریں گے، ہم بطور قوم آگے نہیں بڑھ سکیں گے، مہذب اقوام نے جب بھی ترقی کی ہے تو اُنہوں نے اپنے اداروں کو مضبوط کیا ہے، اُنہوں نے مستقبل کو دیکھتے ہوئے پالیسیاں بنائی ہیں اور اُن پالیسیوں کو ملک میں لاگو بھی کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشہ دو حکومتوں نے جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے وعدے کئے لیکن وفا نہ کرسکے، آپکی حکومت نے بھی اسی نعرے کی بنیاد پر الیکشن لڑا، کیا آپ اس خطے کو نیا صوبہ دینگے؟ جبکہ مسلم لیگ (ن) کیجانب سے بہاولپور صوبے کے حوالے سے بھی قرارداد جمع کرائی ہے، جسکے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس عمل کو منافقت قرار دیا ہے۔؟
محمد ندیم قریشی:
میں سمجھتا ہوں کہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے ٹھیک کہا ہے، اب حقائق پر پردہ ڈالنا آسان نہیں ہے، آج میڈیا بہت تیز ہوچکا ہے، ہمارا ایک ایک بیان محفوظ ہو رہا ہے، 2008ء میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں مشترکہ حکومت تھی، مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، اگر یہ دونوں جماعتیں مخلص ہوتیں تو یہ وقت اس کام کے لیے آئیڈیل تھا، چاہتے تو یہ صوبہ بنا دیتے، 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی پنجاب اور مرکز میں حکومت تھی، اُس وقت بھی اُنہیں یاد نہیں آیا، اب پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی جماعت ہے، جو پہلی بار حکومت میں آئی ہے اور اس نے اپنے منشور میں جنوبی پنجاب صوبے کے حوالے سے اپنا واضح موقف دیا ہے کہ سائوتھ پنجاب کے لوگوں کو انتظامی بنیادوں پر الگ صوبہ ملنا چاہیئے، ساڑھے بارہ کروڑ نفوس پر مشتمل صوبہ سنبھالنا ایک انسان کے بس کی بات نہیں، یہاں کے لوگ بڑے مسائل کا شکار ہیں۔

اگر انتظامی بنیادوں پر یہ الگ صوبہ بن جائے گا تو لوگوں کے مسائل اُن کے گھر میں ہی حل ہو جائیں گے، ہم نے الگ صوبے کے نام پر الیکشن لڑا، الیکشن میں ہمیں جنوبی پنجاب سے بے حد پذیرائی ملی، آج جب ہماری پنجاب میں حکومت ہے تو اس میں بڑا ہاتھ جنوبی پنجاب کا ہے، لیکن ہماری بدنصیبی ہے کہ نہ پنجاب میں ہماری دوتہائی اکثریت اور نہ ہی مرکز میں دوتہائی اکثریت ہے، نہ ہی سینیٹ میں ہماری اکثریت ہے، لیکن پھر بھی ہم نے اس کے لیے انٹرا پارٹی کمیٹی تشکیل دی، ہم نے ہوم ورک شروع کیا، کیونکہ گذشتہ ستر سالوں میں اس ملک میں کوئی نیا صوبہ نہیں بنا، اگر ہم نیا صوبہ بناتے ہیں تو ہمیں اس کے مسائل کو بھی سمجھنا ہوگا، یہ کوئی چھوٹا ایشو نہیں ہے، مالی مشکلات سے لے کر انتظامی مسائل تک منتقل کرنا آسان نہیں ہے۔ ہم جنوبی پنجاب کے لیے پبلک سروس کمیشن کا ادارہ الگ قائم کر رہے ہیں، 30 جون سے پہلے سول سیکرٹریٹ کا قیام عمل میں آجائے گا، ہم اسے کسی بھی صورت میں سیاسی نعرے کے طور پر استعمال نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ حکومتوں کی نسبت اس حکومت سے کس حد تک مطمئن ہیں۔؟
محمد ندیم قریشی:
مجھے یہ ملک اپنی ماں کی طرح عزیز ہے، مجھے اپنی ماں جتنا عشق اس ملک سے ہے، ہماری تکلیف اور درد اس ملک کی تکلیف اور درد کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، اگر یہ ملک خوشحال ہے تو ہم خوشحال ہیں، آئیڈیل حالات اس وقت بھی نہیں ہیں، بہت کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے، لیکن پاکستان تحریک انصاف کی قیادت پر کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہوسکتا، وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے اُن سے کوئی کام لینا ہے، یہ جو حق و باطل کی جنگ تھی، جو کربلا میں لڑی گئی، اُس میں جو حسینی قافلے کے شہید تھے، وہ قیامت تک لیے ابد ہوگئے اور یہ جو علم پر ہاتھ ہے، یہ یزید کے خلاف بغاوت، اُس کی اطاعت نہ کرنے کی نشانی اور عظیم کامیابی کی علامت ہے، آپ یقین جانیں کہ حسینی قافلے کے لوگ کبھی شکست نہیں کھاتے، وقتی طور پر مسائل اور مشکلات آڑے آتی ہیں، لیکن جبر کے خلاف لڑتے رہنا، اپنے آپ کو اپنے خاندان کو نیزوں پر چڑھوا دینا حسینیت کی پہچان ہے، اگر حسین علیہ السلام باقی ہیں تو رہتی دنیا تک حسینی بھی باقی رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں ممبران صوبائی اسمبلی کو اپنے وزیراعلیٰ سے ملنے کیلئے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی تھی، کیا اب بھی ویسا ہی ہے یا اب ایم پی اے اپنے وزیراعلیٰ کے قریب ہیں۔؟
محمد ندیم قریشی:
ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی بھی اسمبلی کا وزیراعلیٰ اتنا آسانی سے نہ صرف ممبران اسمبلی بلکہ عوام کو دستیاب ہو، کوئی بھی شخص جب بھی چاہے، اپنے وزیراعلیٰ سے ٹائم لے کر ملاقات کرسکتا ہے، عام آدمی کا کسی بھی بڑے مقام پر پہنچنا اس بات کی کڑی ہوتی ہے اور اُسے اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ عام آدمی کے کیا مسائل ہیں، جب ہم اشرافیہ میں سے حکمران دیتے ہیں تو نہ وہ اس ایجوکیشن سسٹم پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ اُن کی اولادیں باہر تعلیم حاصل کرتی ہیں، نہ وہ اس ملک کی صحت پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ اُن کا علاج بھی باہر ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اس ملک کی معیشت پر انحصار کرتے ہیں، کیونکہ اُن کی دولت باہر ہوتی ہے، نچلے طبقے سے چیف ایگزیکٹو کی سیٹ پر آنا اس بات کی غمازی ہے کہ کوئی چیزوں کو ٹھیک کرنا چاہتا ہے، سردار عثمان بُزدار مڈل کلاس کے پڑھے لکھے اور دھیمے مزاج کے آدمی ہیں، وہ شخص بڑی ذمہ داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ایک آدمی کی اس وقت کیا مشکلات ہیں۔

ہم نے پاکستان کو ایڈہاک ازم سے نکال کر مستقل بنیادوں پر آگے بڑھانا ہے۔ اس وقت ممبران صوبائی اسمبلی کی وزیراعلیٰ تک پہنچ بہت آسان ہے، اس سے پہلے ہم سنتے تھے کہ ممبران صوبائی اسمبلی ایک ایک سال تک اپنے وزیراعلیٰ سے ملنے کے لیے ترستے تھے، ماضی میں ممبران صوبائی اسمبلی کو فیصلے کی کاپی ملتی تھی کہ اس پر عملدرآمد کرنا ہے، لیکن آج ایک چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر مکمل بحث ہوتی ہے اور اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو اُسے مثبت لیا جاتا ہے، میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود اہل وطن کو خوشی کی نوید سناتا ہوں کہ بہت جلد اس ملک کی تقدیر بدلنے والی ہے، آپ نے مایوس نہیں ہونا، آہستہ آہستہ ملک میں مثبت تبدیلی آرہی ہے۔

اسلام ٹائمز: آصف علی زرداری اور میاں برادران کیجانب سے اس حکومت کو گرانے کی باتیں کی جا رہی ہیں، آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
محمد ندیم قریشی:
آصف علی زرداری اور شریف برادران یا یہ دونوں خاندان، ان کی ترجیح پاکستان نہیں ہے، میں کسی کو غداری کا سرٹیفیکیٹ بھی نہیں دیتا، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ یہ لوگ پاکستان کے دشمن ہوں گے، لیکن یہ بات سچ ہے کہ ان کی ترجیح پاکستان نہیں ہے، ان کی پہلی ترجیح ہے اپنی ذات، دوسری ترجیح ہے ذاتی نمود و نمائش، بینک بیلنس ہے، ماضی میں ان لوگوں نے سیاسی ہمدردیاں حاصل کیں، لیکن اب قوم باشعور ہے، پاکستانی عوام نے پی ٹی آئی کو چوروں اور کرپٹ افراد کے خلاف احتساب کا مینڈیٹ دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 779328
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش