0
Friday 22 Feb 2019 12:22

عالم اسلام کی صورتحال مخدوش اور انتہائی تشویشناک ہے، الحاج نثار حسین راتھر

عالم اسلام کی صورتحال مخدوش اور انتہائی تشویشناک ہے، الحاج نثار حسین راتھر
جموں و کشمیر بھارت کی آزادی اور حق خودارادیت کی غرض سے 25 سال قبل شیعیان مقبوضہ کشمیر کی عسکری تنظیم وجود میں آئی، جس کا نام حزب المومنین رکھا گیا، شیعیان کشمیر کو 13 سال قبل اس تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی تحریک کی بھی ضرورت محسوس ہوئی، جس کے نتیجہ میں تحریک وحدت اسلامی وجود میں آئی، یہ تنظیم اپنے کل وجود کے ساتھ بھارت کے کشمیر پر غاصبانہ و جابرانہ قبضہ کے خلاف جہد پیہم میں مصروف ہے۔ اس آزادی پسند شیعہ تنظیم کے چیئرمین کے فرائض الحاج نثار حسین راتھر انجام دے رہے ہیں۔ نثار حسین راتھر کو تحریک آزادی کشمیر کی خاطر بےشمار مصائب کا شکار ہونا پڑا، بھارتی حکمران آپ کو اکثر و بیشتر قید خانوں کی زینت بناتے آئے ہیں۔ حالیہ دنوں آپ چھ ماہ جموں کے کوٹ بلوال جیل میں قید رہے۔ نثار حسین راتھر کو آزادی کشمیر کے عظیم مشن کی خاطر ایک پیر سے محروم بھی ہونا پڑا، اسلام ٹائمز نے ایک خصوصی نشست کے دوران نثار حسین راتھر کیساتھ خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: اس وقت اُمت مسلمہ میں آپسی رسہ کشی عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ اس بڑے چیلنج سے مقابلہ کرنے کے لئے کیا کیا جانا چاہیئے۔؟
نثار حسین راتھر:
آپ جانتے ہونگے کہ ہماری تنظیم ابتداء سے ہی اتحاد اُمت کی داعی رہی ہے۔ اس سلسلے میں زبانی جمع خرچ ہی نہیں ہوا، بلکہ تحریک وحدت اسلامی نے ہمیشہ عملی اقدامات بھی کئے ہیں۔ اتحاد امت کے حوالے سے ہم نے بارہا سیمینارز اور کانفرنسز کا اہتمام کیا۔ جہاں کہیں بھی وحدت امت کی بات آتی ہے ہم پیش پیش ہوتے ہیں۔ ہم انشاءاللہ آئندہ بھی مقتدر علمائے کرام اور دینی اداروں اور برادر دینی تنظیموں کے ذمہ داروں کے ساتھ ساتھ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام سے ملاقات کرکے رابطہ استوار کریں گے۔ اس طرح دینی حلقوں میں باہمی روابط مضبوط ہو جائیں گے اور ملت کی صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم رہے گا۔ ہم اتحاد اُمت کی ہر کوشش میں تعاون فراہم کرنے کے لئے ہمیشہ تیار ہیں۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر اُمت مسلمہ کی حالت تشویشناک ہے، کیا آپ ان حالات میں مسلمانوں کے لئے کوئی اُمید کی کرن محسوس کرتے ہیں۔؟
نثار حسین راتھر:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عالم اسلام کی صورتحال مخدوش اور انتہائی تشویشناک ہے۔ مغرب عالم اسلام کے خلاف جنگ چھیڑ چکا ہے، کہیں بالواسطہ تو کہیں بلاواسطہ۔ مسلمانوں کے قدرتی وسائل لوٹنے کے ساتھ ساتھ اُن کے انسانی وسائل کو بھی تباہ و برباد کیا جارہا ہے۔ بزور قوت مسلم ممالک پر مغربی تہذیب و تمدن کو مسلط کیا جارہا ہے۔ اس صورتحال میں اسلامی تحریکیں ہی اُمید کی کرن ہیں۔ مسائل و مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود یہ تحریکیں ابھرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور ان میں تاب مقاومت بھی ہے۔ یہ تحریکیں پھر سے اُمت مسلمہ کی رہبری و رہنمائی کرکے اُنہیں اپنی اصلیت کی جانب واپس لانے کا ہنر بھی جانتی ہیں۔ مغرب کی ہزارہا ریشہ دوانیوں کے باوجود اسلام پسند لوگ اور اسلامی تحریکیں اُمت مسلمہ کی صحیح رہنمائی پر گامزن ہیں اور انشاءاللہ اس گھپ اندھیرے سے اُمت مسلمہ باہر نکل آئے گی۔

اسلام ٹائمز: آپ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
نثار حسین راتھر:
مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے ہمارا دیرینہ موقف نہایت واضح اور سب پر عیاں ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک دیرینہ حل طلب مسئلہ ہے جس کے حل کے لئے اقوام متحدہ میں پاس شدہ قراردادیں موجود ہیں۔ ہمارا اس سلسلے میں واضح اور دو ٹوک موقف ہے کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے اور اگر کسی وجہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ممکن نہ ہو تو پھر سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلہ کا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو کشمیری عوام کی خواہشات کے عین مطابق ہو۔ تحریک وحدت بھی اس مسئلے کو مذاکرات اور پرامن طریقہ سے حل کرنے کی خواہشمند ہے۔

اسلام ٹائمز: پلوامہ حملے کے بعد بھارت و پاکستان کے تعلقات پھر سے کشیدہ ہوئے، اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
نثار حسین راتھر:
دیکھیئے مسئلہ کشمیر کی وجہ سے برصغیر کے کروڑوں عوام پر ہمیشہ جنگ کے مہیب سائے منڈلاتے رہتے ہیں، بھارت و پاکستان کے وسائل عوامی تعمیر و ترقی اور غربت کے خاتمے کی بجائے جنگی ساز و سامان میں صرف ہورہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان جنگ و جدل میں اپنے وسائل تباہ نہ کریں بلکہ وہ مذاکرات اور پرامن طریقے سے مسائل کا حل ڈھونڈ نکالیں۔ مذاکرات سے فرار اختیار کرنا کسی بھی ذی حس انسان بالخصوص حالات کے ستائے ہوئے کشمیری عوام کے لئے اچھی خبر نہیں ہے۔ ہم بھارت کے دانشوروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، سماجی شخصیات اور غیر متعصب صحافیوں اور قلمکاروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سامنے آکر انسانی بنیادوں پر اپنا کردار ادا کریں، تاکہ کشمیر میں جاری خون خرابے کو روکا جاسکے اور انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ہم اس بات کے کبھی قائل نہیں رہے ہیں کہ دونوں ہمسایہ ممالک اپنی قوت جنگ میں برباد کریں۔ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو مہذب اقوام میں شمار کرتے ہیں وہ کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کوئی قابل قدر اور ٹھوس اقدام نہیں کرتے ہیں، جس کے باعث ہی کشمیر میں قتل و غارتگری کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے۔ آج دنیا کا یہ چھوٹا سا خوبصورت خطہ سب سے بڑا فوجی جماؤ والا خطہ بن کر بارود کا ڈھیر بن چکا ہے۔
 
اسلام ٹائمز: دفعہ 35 A کی منسوخی کے حوالے سے کشمیر کی وحدت اور ڈیموگرافی پر مسلسل تلوار لٹکی ہوئی ہے، آپ اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں۔؟
نثار حسین راتھر:
دفعہ 35 A  اور دفعہ 370 مسئلہ کشمیر کے مستقل حل تک ریاست جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی کے لئے ایک دفاعی لائن ہے۔ ان دفعات پر جان بوجھ کر حملہ کیا جارہا ہے تاکہ آبادی کے تناسب کو بدل کر یہاں کے مسلم اکثریتی کردار کو تبدیل کیا جائے اور کشمیر کی ڈیموگرافی کو زک پہنچایا جائے۔ یہ ایک سازش ہے جو عرصہ دراز سے جاری ہے۔ دفعہ 35 A کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کسی بھی صورت میں کشمیری برداشت نہیں کریں گے۔ ہم ان دفعات کے دفاع کے لئے ہر عوامی تحریک کی بھرپور حمایت کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: اب بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ کشمیر کو حاصل اس خصوصی درجے ’’دفعہ 35 A‘‘ کے خاتمے پر تلی ہوئی ہے، اس دفعہ کے خاتمے سے کشمیر کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔؟
نثار حسین راتھر: ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر دفعہ 35 A کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو کشمیر کشمیریوں کا نہیں رہے گا بلکہ بھارتی باشندے یہاں آکر اپنا غلبہ قائم کریں گے۔ ہم سب کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ اگر دفعہ 35 A کو منسوخ کیا جاتا ہے تو اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی منظور کردہ رائے شماری کا باب بھی بند ہوجائے گا۔ دفعہ 35 A کے دفاع کے لئے تمام کشمیریوں کو متحد ہونا چاہیئے۔ اگر اس دفعہ کو ہٹا دیا جاتا ہے تو کشمیر کا بھارتی یونین کے ساتھ جو الحاق ہے، اُس پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگا۔ اس دفعہ کے خاتمے کا راست نتیجہ یہ نکلے گا کہ 1954ء سے لے کر آج تک مختلف صدارتی فرمانوں کے ذریعے 370 کے تحت جو بھارتی قوانین کشمیر پر لاگو کئے گئے ہیں، وہ سب غیر قانونی اور غیر آئینی ثابت ہونگے۔ اگر اب 35 A کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو نہ صرف الحاق کا رشتہ شدید طور متاثر ہوگا بلکہ معاملہ 28 اکتوبر 1947ء کی پوزیشن پر آئے گا۔ اس کے علاوہ کشمیر میں اس وقت جو سیاسی بے چینی، غیر یقینی صورتحال اور بدامنی کا ماحول ہے، وہ مزید پیچیدہ ہوگا۔ ساتھ ہی دفعہ 35 A کی غیر موجودگی میں دفعہ 370 ایک لاش بن کر رہے گا اور اس کی کوئی افادیت نہیں رہے گی۔
خبر کا کوڈ : 779338
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش