0
Thursday 28 Feb 2019 13:29
مودی کا جنگی جنون خاک میں مل چکا ہے

عمران خان ہی ان حالات میں ملک کو بچا اور اس دلدل سے نکال سکتے ہیں، اکبر ایوب

اسرائیل کو تسلیم کرنیکی بات ذاتی بناء پر کی گئی، اس سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے
عمران خان ہی ان حالات میں ملک کو بچا اور اس دلدل سے نکال سکتے ہیں، اکبر ایوب
صوبائی وزیر برائے سی اینڈ ڈبلیو اکبر ایوب خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور کے ممتاز سیاسی گھرانے سے ہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے پوتے اور اختر ایوب خان کے فرزند ہیں۔ انکے بڑے بھائی یوسف ایوب ہزارہ اور صوبے کی سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ 1988ء میں یوسف ایوب پہلی بار رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر صوبے کی تاریخ کے کم عمر ترین صوبائی وزیر بنے۔ انہوں نے اپنی فتوحات کا سلسلہ مسلسل برقرار رکھا۔ یوسف ایوب 2013ء کے انتخاب میں بھی رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور سی اینڈ ڈبلیو کے صوبائی وزیر بنائے گئے، تاہم عدالتی فیصلے کے بعد ان کو اپنی نشست چھوڑنی پڑی تو اکبر ایوب خان کو میدان میں اترنا پڑا جو اس سے پہلے اپنے بھائیوں کی انتخابی مہم چلایا کرتے تھے، عملی سیاست سے انہوں نے خود کو دور رکھا ہوا تھا۔ 1971ء میں پیدا ہونے والے اکبر ایوب خان نے اپنی تعلیم برن ہال سے حاصل کی اور پھر نوجوانی میں ہی کاروبار کی بھاری ذمہ داریاں سمبھال لیں۔ اس دوران بھائیوں کی سیاست میں ان کا ہاتھ بٹاتے رہے تاہم ان کی زندگی میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ان کو انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں 2014ء میں اپنی زندگی کا پہلا الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی جس کے بعد ان کو سی اینڈ ڈبلیو جیسے انتہائی اہم اور بھاری بھرکم محکمے کی ذمہ داریاں تقویض کی گئیں جو انہوں نے احس طریقے سے انجام دینی شروع کیں۔ 2018ء کے انتخابات میں ایک بار پھر میدان میں اترے اور اس بار ریکارڈ تعداد میں 67 ہزار ووٹ کے کر کامیابی حاصل کی۔ وہ صوبہ بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے رکن صوبائی اسمبلی ہیں۔ دوسرے نمبر پر ان کے بھائی ارشد ایوب ہیں جنہوں نے 57 ہزار ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ حکومت سازی کے مرحلے پر اکبر ایوب خان کی پچھلی کارکردگی دیکھتے ہوئے ہی ان کو ایک بار پھر سی اینڈ ڈبلیو جیسا اہم محکمہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے مشیر کی بجائے صوبائی وزیر بنایا گیا۔ اسوقت کابینہ کے فعال اراکین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ دفتر سے غیر ضروری طور پر غیر حاضری کے قائل نہیں، ساتھ میں حلقہ کے لوگوں کے ساتھ بھی قریبی رابطے میں رہتے ہیں۔ ہر کسی کے ساتھ خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا ان کا شیوہ ہے۔ پی ٹی آئی کے منشور پر پوری طرح سے عمل پیرا ہیں اور صوبے میں تعمیراتی کام کے معیار پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی جس کی تفصیل پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاک بھارت بڑھتا ہوا تنازعہ کس طرف جاتا دیکھ رہے ہیں اور اس کشیدگی کے پیچھے کون سے عوامل ہوسکتے ہیں؟
اکبر ایوب خان:
دیکھیں سب سے پہلی بات میں یہ واضح کردوں کہ انڈیا پاکستان سے جنگ کرنے کی غلطی کبھی نہیں کرے گا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ پاکستانی فورسز اور پاکستانی عوام شہادت سے گھبرانے والی نہیں ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور جہاد ہمارا فرض رکن ہے، ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ بدقسمتی سے انڈیا کی سیاست چلتی ہی پاکستان دشمنی پر ہے، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کو الجھائے رکھا جائے اور اپنی عوام کی نظر میں بھگوان بنا جائے۔ یہ صرف مودی سرکار ہی نہیں انڈیا کی تقریباََ حکومتیں اسی بنا پر اپنی سیاست کرتی آئی ہیں۔ مودی جو کہ چائے بیچنے والا بندا ہے اس سے عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے، انڈیا میں بھوک، غربت، بے روزگاری اور جرائم کی شرح پہلے سے بڑھ کر ہے، اس صورت میں وہ عوام سے آئندہ الیکشن میں کس طرح ووٹ حاصل کرسکتا ہے؟

لہٰذا انہوں نے ہمیشہ کی طرح یہی فارمولہ نکالا کہ پاکستان کو سبق سکھانا ہے۔ انہوں نے سرحد پر کشیدگی پیدا کی اور سرحد کی خلاف ورزی کی جس پر فورسز نے ریکٹ کیا تو بھاگ کھڑے ہوئے اور اپنی ناکامی کو چھپانے کی خاطر جھوٹ بولا کہ ہم نے سرجیکل اسٹرائیک کئے ہیں۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ دوسرے ہی دن ان کے سرجیکل اسٹرائیک کا بھانڈا پھوٹ گیا اور ہمارے فورسز نے دن کے اجالے میں منہ توڑ جواب دیا جس سے ان کی عقل ٹھکانے آئی۔ پاکستان ایئر فورس کے اس اقدام کو عالمی سطح پر بہت سراہا جا رہا ہے اور مودی کا جنگی جنون خاک میں مل چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ سیاستدان اسلام دشمن ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کررہے ہیں، آپکی نظر میں یہ مطالبہ کیسا ہے؟
اکبر ایوب خان:
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے۔ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کررہے ہیں وہ یہ جان لیں پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کریگا۔ پاکستان کی عوام غیور عوام ہے ان کے دل میں اہل اسلام کیلئے محبت اور دشمنان اسلام کیلئے نفرت پائی جاتی ہے۔ اگر کسی نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کی ہے تو اس نے ذاتی بناء پر کی ہے اس سے پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کس صفت کا مالک ہے اور فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کوئی بیوقوف ہی ہوگا جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرے۔

اسلام ٹائمز: آپکے محکمے سے ماضی میں کافی شکایات رہی ہیں، 100 روزہ پلان کے تحت ان کو دور کرنے کیلئے کیا میکنزم اختیار کیا جارہا ہے؟
اکبر ایوب خان:
آپ نے بالکل بجا فرمایا، ماضی میں سی اینڈ ڈبلیو کے حوالے سے حالات کچھ اور تھے اور اسی طرح شکایات بھی بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ گویا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ ہم نے آتے ہی کوالٹی اور شفافیت پر مکمل توجہ مرکوز کی، ہماری کوشش رہی کہ ٹینڈرنگ سے لیکر تعمیر تک ہر مرحلے پر شفافیت یقینی بنائی جائے، اس کیلئے ہم نے ٹینڈرنگ کے عمل کو ہدف بنایا۔ ہم نے اس مرحلے پر ہونیوالی کرپشن اور پسند و ناپسند کے سلسلے کو بند کرانے کیلئے ای ٹینڈرنگ متعارف کرائی۔ مزید بہتری کیلئے ای بڈنگ بھی لارہے ہیں جس کے ساتھ ہی افسران کی من مانی بہت حدتک ختم ہوگئی ہے۔ ساتھ مل ملاپ کے رنگ کلچر کو بھی ختم کردیا ہے، اگر قانونی تقاضے پورے کئے بغیر ٹینڈر ہوتا ہے تو ہم اُسی وقت اسے منسوخ کر دیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ 80 فیصد تک کرپشن اسی مرحلے پر ہوا کرتی تھی جس کا راستہ ہم نے روک دیا ہے۔ اس کیساتھ کام کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے ہم نے کنسلٹنٹ کو اختیار دیا، اب ڈیزائنگ سے لیکر کام کی نگرانی تک کنسلٹنٹ ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں اس طریقے سے ہم نے اپنے افسران پر کام کا بوجھ کافی حد تک کم کر دیا ہے کیونکہ کہ منصوبے کا پراجیکٹ منیجر کنسلٹنٹ کا آدمی ہوتا ہے، سارے بل وہی کلیئر کرتا ہے، اس کے بعد ہی ایکسیئن اس پر دستخط کرتا ہے۔ گویا ہم نے کافی حد تک سسٹم کو شفاف بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی ای بلنگ کا سسٹم بھی متعارف کرا دیا جائے گا، جتنے منصوبے ای بڈنگ کے ذریعے ہوئے ہیں ان کیلئے ادائیگی اب ای بلنگ کے ذریعے ہی ہوگی۔ صوبہ کی 25 ہزار کلومیٹر سڑکیں ہمارے پاس ہیں جن کی دیکھ بھال پر بھی کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ اسی طرح 100 روزہ پلان کے تحت جیسا کہ میں نے پہلے بتایا اب تھرڈ پارٹی ویلیڈیشن کا سسٹم بھی لائے ہیں، کرپشن کے خاتمے کیلئے مقدار اور معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ 100 روزہ پلان کا بنیادی مقصد شفافیت کو یقینی بنانا ہے۔

اسلام ٹائمز: کرپشن ختم کرنے کیلئے عملی اقدامات بھی کئے جارہے ہیں؟
اکبر ایوب خان:
جی بالکل اس معاملے میں میرا موقف بہت واضح ہے، زیرو ٹالرنس کے تحت اقدامات کئے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے مردان کے حوالے سے بہت سی شکایات موصول ہوئیں جس پر ایکشن لیتے ہوئے میں نے ایک دن میں ضلع مردان کے پورے عملے کو ٹرانسفر کروا دیا، ایک ہی پوسٹ اور ایک ہی شہر میں سالہا سال سے کام کرنے کی قباحتوں کے تناظر میں اب ٹینیور بیسڈ پالیسی لائی گئی ہے جس کے تحت ہم نے 10، 10 سال سے ایک ہی جگہ کام کرنے والے تمام سب انجینئرز کے تبادلے کر دیئے ہیں۔ اس میں ہم نے سوات جیسے ضلع کو بھی نہیں چھوڑا جس سے وزیراعلٰی کا تعلق ہے۔ ہم نے ٹھیکیداروں اور افسران کی ملی بھگت ختم کردی ہے۔ خیبر پختونخوا ہائی وے اتھارٹی کے تحت کُل 2500 کلومیٹر کی سڑکیں آتی ہیں، جن میں سے 350 کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔

اب ہم نے ان کی بحالی کا منصوبہ شروع کیا ہے 300 کلومیٹر ہائی ویز کی بہتری پر کام جاری ہے۔ ان کے فیز ٹو میں مردان صوابی روڈ کو دو رویہ کیا جارہا ہے جس پر 8 ارب کا تخمینہ ہے، جبکہ کُل منصوبے پر 25 ارب روپے لاگت کا اندازہ ہے۔ صوبہ بھر میں 600 کلومیٹر سڑکیں اور 30 پل بنائے جائیں گے، ان منصوبوں پر اگست تک کام شروع ہوجائے گا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے بھی 700 کلومیٹر سڑکیں بنائی جائیں گی جبکہ باقی ماندہ کیلئے اپنے وسائل سے فنڈز کا بندوبست کریں گے۔ ہمارا ارادہ ہے کہ 5 سال میں صوبے میں شاہراہوں کی تعمیر پر 100 ارب روپے خرچ کئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: کیا قبائلی اضلاع بھی 100 پلان میں شامل کئے گئے ہیں؟
اکبر ایوب خان:
جی ہاں ہم اپنے قبائلی اضلاع کو کسی صورت نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ان کی بہتری ہمارے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہمارے قبائلی بھائی بہت ہی مشکل حالات سے گزرے ہیں، ہمارے لئے ان علاقوں کی بحالی اور ان کو دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے مساوی لانا اہم ترین ہدف ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ان علاقوں میں تمیر و ترقی کا سلسلہ تیز کیا جائے تاکہ ان کو انضمام کے حقیقی ثمرات سے مستفید کرایا جاسکے۔ اس سلسلے مے میں بذات خود اب تک چار قبائلی اضلاع کا دورہ کرچکا ہوں، خود وزیراعظم عمران خان اس معاملے میں خصوسی دپی لے رہے ہیں۔ ان کی طرف سے بار بار ہمیں تاکید کی جاتی ہے کہ قبائلی علاقوں کی تعمیر و ترقی کے ون پوائنٹ ایجنڈے کے تحت اقدامات تیز تر کئے جائیں۔ جہاں تک سی اینڈ ڈبلیو کا تعلق ہے تو دیگر کاموں کی نسبت قبائلی اضلاع میں یہ پہلے سے کافی فعال انداز میں موجود تھا، اس کے سٹاف نے حالت جنگ میں بھی کام کیا، بعض اوقات تو بھیس بدل کر بھی کام کرنا پڑا۔ اب ہم ان کے کام کو اگلے مرحلہ میں لے جارہے ہیں۔

قبائلی اضلاع کیلئے جو 10 سالہ پیکج دیا جانے والا ہے اس کے تحت سب سے اہم منصوبہ ٹرانس فاٹا ایکسپریس وے ہے۔ منصوبہ وزیراعلٰی کا خواب اور عمران خان کا وژن ہے، ان کی سپورٹ سے اس عظیم منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر دکھائیں گے۔ اس کی لمبائی 800 کلومیٹر ہوگی جبکہ اس پر 80 ارب روپے سے زائد لاگت کا اندازاہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس کو ایکسپریس وے کی صورت میں مکمل کیا جائے، اس کو ہمیں سی پیک کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کرسکیں گے۔ یہ قبائی اضلاع میں واقع 7 سرحدی راہداریوں کے بھی انتہائی قریب سے گزرتی ہے۔ اگلے 5 سال میں قبائلی اضلاع میں رابطہ سڑکوں کی تعمیر، بحالی و مرمت پر 50 ارب خرچ کئے جائیں گے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں صوبہ بھر میں نافذ نظام کو ان علاقوں تک توسیع دینے کے تناظر میں اگلے ہفتے سے ای بڈنگ کا آغاز کیا جارہا ہے۔ 2002ء سے قبل تک تو ان میں ٹینڈر کی زحمت بھی گوار نہیں کی جاتی تھی، منصوبوں کی بندر بانٹ ہوا کرتی تھی۔ اب ہم ای بڈنگ لے جارہے ہیں تو جو حقیقی کنٹریکٹرز ہیں وہ مطمئن ہیں اور ہمیں سپورٹ کررہے ہیں۔ اس ای بڈنگ کی وجہ سے ملی بھگت کا سلسل ختم ہو جائے گا جس سے کام کا معیار بہتر ہوسکے گا۔ اس کے بعد ای بلنگ بھی متعارف کرائیں گے، 5 سے 6 ماہ میں قبائلی اضلاع کا سارا نظام تبدیل کرکے رکھ دینگے۔

اسلام ٹائمز: ان دنوں شمالی علاقوں میں کافی برف باری ہوئی، سڑکیں کھولنے کے معاملے میں سی اینڈ ڈبیو کی کارکردگی پر بہت زیادہ اعتراضات سامنے آرہے ہیں، اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
اکبر ایوب خان:
موجودہ صورتحال کے تناظر میں میرے خیال میں آپ نے بہت اچھا اور برمحل سوال کیا، پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بار برف باری نے پچھلے 35 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ اس کیلئے ہم کسی بھی طور تیار نہیں تھے۔ چنانچہ موجودہ حالات مے میں نے فوری طور پر ہنگامی اجلاس طلب کئے بلکہ خود نتھیا گلی جا کر معائنہ بھی کیا۔ ہماری اولین تر جیحات میں وہ علاقے شامل تھے جو سیاحت کا مرکز ہیں۔ اسی سلسلے میں خود وزیراعلٰی محمود خان نے بھی سخت ہدایات جاری کر رکھی ہیں۔ ان حالات میں حقیقت تو یہ ہے کہ سی اینڈ ڈبلیو کے ذمہ داران اور اہلکاروں نے ہزارہ سے لے چترال تک بھر پور کام کیا۔ ان کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی۔ دو دو راتیں جاگ کر بھی سڑکیں کھلوانے کا عمل جاری رکھا۔

نتھیاگلی باڑیاں روڈ اور مالم جبہ روڈ پر ان دنوں زیادہ رش ہوتا ہے۔ اس لئے اس بار ہم تین سنو بلورز خرید رہے ہیں جن میں سے دو تو نتھیا گلی باڑیاں روڈ جبکہ ایک مالم جبہ روڈ پر برف ہٹانے کا کام انجام دیتا رہے گا، جبکہ مزید تین سے چار تک سنو بلورز خریدے جائیں گے۔ رواں سال برفباری کے ساتھ لینڈ سلائیڈنگ نے بھی مشکلات بڑھائیں، اگر چہ بہت سی سڑکیں سی این ڈبلیو کے پاس نہیں مگر میری ہدایات تھیں کہ کہیں بھی سڑک بند ہو محکمہ فوری کارروائی کرے۔ ان کی کارکردگی اتنی اچھی رہی ہے کہ موسم بہتر ہونے پر حوصلہ افزائی کیلئے انعامات دیئے جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: مرکز میں پہلی بار صوبے کو تاریخی نمائندگی حاصل ہے اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے صوبائی حکومت نے کوئی حکمت عملی وضع کی ہوئی ہے؟
اکبر ایوب خان:
آپ کی بات بالکل درست ہے اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا تو عشروں کی محرومیوں ازالہ ہوسکے گا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ صوبے کیلئے اے جی این قاضی فارمولہ انتہائی اہمیت کا حامل بن چکا ہے، اب جبکہ پن بجلی کے بقایا جات ختم ہونے والے ہیں تو بجٹ توازن برقرار رکھنے کیلئے میں اس فارمولے کے تحت منافع کے حصول کی انتہائی ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ جب ابتدائی طور پر سالانہ 125 ارب روپے ملنے کی راہ ہموار ہوگئی تو بہت سی مشکلات خود بخود حل ہو جائیں گی۔ جہاں تک مرکزی حکومت کا تعلق ہے تو وہاں اس صوبے کا سب سے بڑا نمائندہ کوئی اور نہیں بلکہ وزیراعظم عمران خان خود ہیں، وہ بھی اس صوبے کو نظرانداز نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: کہا جارہا ہے کہ حکومت کی صفوں میں اختلافات شدت اختیار کرتے جارہے ہیں، کیا اس سے مشکلات نہیں بڑھیں گی؟
اکبر ایوب خان:
میں اس سے بالکل اتفاق نہیں کرتا کیونکہ صوبائی حکومت کے معاملات درست انداز میں کامیابی کیساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، حکومتی صفوں میں کوئی اختلاف نہیں، ہر وزیر اپنے معاملات میں آزاد و خود مختار ہے اور خوب محنت کر رہا ہے۔ ہم سب کو اہداف ملے ہوئے جن کا حصول ہی ہمارا اصل مقصد ہے۔ اس لئے اختلافات میں وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ محمود خان کی صورت میں ہمیں ایک ایسا کپتان ملا ہے جس نے اپنے تمام کھلاڑیوں کو مکمل آزادی کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ میں یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ وقت ثابت کر دکھائے گا کہ محمود خان اس صوبے کے کامیاب ترین وزیراعلٰی ہیں۔ انہوں نے پہلے روز سے ہی واضح کیا ہوا ہے کہ پورے صوبے کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہوگا، جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے تو ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان کو ساتھ لے کر چلیں گے اور ان کو پورا حصہ ملے گا، ہم امتیازی سلوک پر یقین نہیں رکھتے۔

اسلام ٹائمز: خان پور ڈیم کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل تنازعہ پیدا ہوا تھا کہ ہری پور کے کچھ علاقے اسلام آباد میں شامل کئے جارہے ہیں، اسوقت کیا صورتحال ہے؟
اکبر ایوب خان:
میں پہلے تو یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہری پوری کی کوئی بھی یونین کونسل اسلام آباد میں شامل کی جارہی ہے نہ ہی کی جائیگی، اب جہاں تک خان پور ڈیم کا تعلق ہے تو اسلام آباد کی تعمیر کے وقت یہ ڈیم اسلام آباد کے پینے کے پانی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہی بنایا گیا تھا۔ ہم اسلام آباد کے سیکٹر ڈی 12 سے ٹنل یا پھر سڑک کے ذریعے حطار تک با آسانی آمدورفت کی سہولت مہیا کرنے کیلئے کوشاں ہیں جس سے اسلام آباد تک سفر بہت مختصر اور آسان ہو جائے گا جس سے ہری پور میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔

اسلام ٹائمز: ہری پور اور اپنے حلقے کے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے بتائیں، صوبائی حکومت کیا کر رہی ہے اور مستقبل میں کیا ارادے ہیں؟
اکبر ایوب خان:
سب سے پہلے تو ہم نے حطار انڈسٹریل اسٹیٹ میں فیز سیون شروع کیا جس میں ایک ایک ایکڑ کے 300 پلاٹ تھے جو ہاتھوں ہاتھ لے لئے گئے۔ اسی طرح پھر ہم نے 10 ہزار کنال زمین مزید لے لی اور اب ہم نے مزید اتنی ہی زمین لینے کیلئے منتخب کرلی ہے۔ ان اقدامات سے اگلے 5 سے 10 سال کے دوران ہری پور اس ملک کا صنعتی مرکز بن جائے گا اور روزگار کے ہزاروں مواقع میسر آسکیں گے۔ جہاں تک میرے حلقے کا تعلق ہے تو اس عرصے کے دوران ریکارڈ ترقیاتی کام کئے ہیں، ہم نے ہری پور میں ایک سٹیٹ آف دی آرٹ، انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اینڈ اپلائیڈ سائنسز کے قیام کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں اور اس کیلئے میرٹ پر ہری پور انتخاب کیا گیا ہے۔ اس کے قیام سے کروڑوں روپے خرچ کرکے حاصل ہونے والی ڈگری مفت مل سکے گی۔

اس کیلئے ہم 25 پی ایچ ڈیز کو آسٹریا بھجوا رہے ہیں جن پر 27 کروڑ اخراجات متوقع ہیں۔ اس ادارے کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے 9 لاکھ مربع فٹ زمین پر اس کی عمارت محیط ہوگی، جبکہ کل 1400 کنال زمین لی جائے گی جس میں سے ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ سے 600 کنال لے لی گئی اور اب 800 کنال مزید حاصل کررہے ہیں۔ اس منصوبے پر 9 ارب روپے لاگت آئے گی کیوں ہم نے ہری پور کو تیزی سے تمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ہے۔ ہری پور کی توسیع کی غرض سے رنگ روڈ مکمل ہوچکا ہے جس کو اب 30 جون کو کھولا جارہا ہے اس سے ایک نیا شہر آباد ہوگا، یہ پانچ ارب روپے کا منصوبہ تھا۔ بہت سے لوگ ہری پور میں فنڈز لگانے پر بے بنیاد اعتراضات کرتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ہری پور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا علاقہ ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ بلدیاتی نظام بھی پی ٹی آئی نے ہی دیا تھا مگر اب پانچ سال بعد اس میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں کیا موجودہ نظام میں کوئی کمی تھی؟
اکبر ایوب خان:
نہیں ایسی کوئی بات نہیں موجودہ بلدیاتی نظام ہی کامیاب تھا تاہم اس میں ڈوپلیکیشن کا تاثر نمایاں تھا۔ ضلع و تحصیل ایک ہی طرح کے کام انجام دے رہی تھی، اگر چہ نیبر ہُڈ اور یونین کونسلیں اچھا جارہی تھیں تاہم وہاں بھی ممبران کی تعداد زیادہ ہونے سے فنڈز کے ضیاع کا خدشہ لگا رہتا تھا۔ اس لئے اب نہ صرف وہاں کونسلرز کی تعداد کم کی جارہی ہے بلکہ ضلع کونسل کو بھی ختم کیا جارہا ہے۔ جہاں تک تعلیمی شرط کا تعلق ہے تو ایسی کوئی شق شامل نہیں کی جارہی کیونکہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، جب ایم این اے اور ایم پی اے بننے کیلئے ایسی کوئی شرط نہیں تو پھر کونسلر بننے کیلئے اس قسم کی شرط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اسلام ٹائمز: آپ پچھلے دور میں بھی صوبائی کابینہ کا حصہ رہے ہیں، آپ کے خیال میں حالیہ انتخابی کامیابی میں اس حکومت کی کارکردگی کا کتنا کردار تھا؟
اکبر ایوب خان:
اگر میں اپنے دل کی بات کروں تو یہ حقیقت ہے ہمارا پچھلا دور بہت دلچسپ گزرا ہے، کیونکہ ہم نے ایک ایسے مرحلے پر حکومت سنبھالی تھی کہ جب اداروں کی تطہیر کا پورا مرحلہ باقی تھا۔ ہمارے لئے حکومت کے سامنے کئی مشکلات تھیں کیونکہ ہم دیگر جماعتوں کی طرح روایتی طریقے سے حکومت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس موقع پر پرویز خٹک کی قیادت اور عمران خان کے وژن نے رہنمائی کی اور اداروں میں اصلاحاتی عمل شروع کرکے کامیابی کیساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ ہماری اور سابق حکومتوں کی کارکردگی میں زمین آسمان کا فرق تھا ہم نے ہر ادارے میں اصلاحات کیں جس کا مقصد صرف غریب عوام کو ریلیف دینا تھا۔ اس سے سرکاری اداروں کی کارکردگی میں کافی بہتری آئی، ہم نے سسٹم بنانے کی کوشش کی، تمام غیر ضروری استحقاق ختم کئے گئے، ہم نے رقعہ کلچر کو ختم کردیا، اسکولوں اور ہسپتالوں کی حالت کافی حد تک بہتر بنائی۔

سرکاری سکولوں کی حالت کی بہتری کا اندازہ آپ اس امر لگا سکتے ہیں کہ اب بہت سے والدین نے اپنے بچوں کو نجی سکولوں سے اٹھا کر سرکاری سکولوں میں داخل کرایا۔ پھر پولیس کو دیکھ لیں، ہم نے اس کو ہر قسم کی سیاسی مداخلت سے پاک کردیا جس کے بعد اس کی کارکردگی بہتر ہوئی اور پولیس کے متعلق شکایات کافی کم ہوئیں۔ پی ٹی آئی واحد جماعت تھی جس نے برسراقتدار آنے کے بعد اپنے منشور کے 80 فیصد سے زائد نکات پر عمل کرکے دکھایا جس کے بعد الیکشن کے نتائج ہماری بہتر کارکردگی کا ٹھوس ثبوت بن کر سامنے آئے۔ یہ ہماری کارکردگی ہی تھی کہ پہلے میں 26 ہزار ووٹ لے کر 3 ہزار کی لیڈ سے کامیاب ہوا تھا، اس بار 67 ہزار ووٹ لے کر 21 ہزار کے بڑے فرق سے مخالف کو شکست دی۔ میرے بھائی ارشد ایوب 57 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہوئے اور صوبہ بھر میں دوسرے نمبر پر رہے، یہ سب ہماری عوام دوست پالیسیوں کی بدولت ہی ممکن ہوسکا۔

اسلام ٹائمز: مگر اپوزیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن کی رات بعض قوتوں نے پی ٹی آئی کے بکس بھرے؟
اکبر ایوب خان:
یہ ہمارے ہاں ہوتا آرہا ہے کہ ہارنے والے فریق کو ہمیشہ کسی نہ کسی کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے، ان کو اپنی خرابی کہیں نظر نہیں آتی۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ پہلا الیکشن تھا جو انتہائی پُرامن ماحول میں منعقد ہوا اور تو اور پولنگ کے دن مثالی انتظامات دیکھنے میں آئے اور بتانے سے قبل تک اگر آپ میڈیا کا ریکارڈ دیکھیں تو اپوزیشن کے تمام رہنماؤں نے انتظامات پر انتہائی اطمینان کا اظہار کیا تھا ویسے بھی جہاں تک ہمارے صوبے کا تعلق ہے تو یہاں انتخابی دھاندلی کی روایت موجود ہی نہیں رہی، اس لئے ہمارے صوبے کی حدتک تو اس حوالے سے سوچنا بھی درست نہیں۔ ہمیں عوام نے ووٹ دیئے، صرف اس لئے کہ ان کو یقین تھا کہ عمران خان ہی ان حالات میں ملک کو بچا اور اس دلدل سے نکال سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 780179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش