0
Monday 11 Mar 2019 18:46
پیپلزپارٹی کی قیادت مودی کے بیانیے کی تائید کر رہی ہے

کالعدم تنظیموں کو غیر موثر کرنے کیلئے اعلان جنگ کی بجائے قانونی طریقہ کار درست ہے، علی نواز اعوان

کالعدم تنظیموں کو غیر موثر کرنے کیلئے اعلان جنگ کی بجائے قانونی طریقہ کار درست ہے، علی نواز اعوان
وزیراعظم پاکستان کے مشیر علی نواز اعوان وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ موجودہ سیاسی حالات اور خطے میں جاری کشیدگی کے متعلق اسلام ٹائمز کا پاکستان تحریک انصاف کے اہم رہنماء کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا پنجاب حکومت کے ترجمان کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی نواز شریف سے ملاقات کی اجازت انہیں علاج پر آمادہ کرنیکی کوششوں میں سے ایک کوشش ہے۔؟
علی نواز اعوان:
سب سے پہلے تو ہماری دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں صاحب کو صحت دے، بیماری تو کسی کو بھی لاحق ہوسکتی ہے، اپنے علاج کا فیصلہ تو میاں صاحب نے خود کرنا ہے، حکومت کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں بلکہ ڈاکٹر باہر سے بھی منگوانا چاہیں تو منگوا سکتے ہیں، لیکن وہ خود بضد ہیں، انکے خاندان اور ذاتی معالج نے بھی انہیں تجویز کیا ہے کہ وہ اپنا علاج کروائیں۔ جہاں تک بلاول زرداری صاحب کا تعلق ہے، وہ بھی چاہتے ہیں کہ میاں صاحب اپنا علاج کروائیں، لیکن نواز شریف تو کتنے عرصے سے بیمار ہیں اور قید میں بھی ہیں، اس سے پہلے وہ انکی تیمارداری اور ملاقات کیلئے نہیں آئے، عیادت اچھی بات ہے لیکن اس کو سیاست کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے، زرداری صاحب جب سے نیب کے ریڈار پہ آئے ہیں اور جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ دی ہے، وہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالیہ ملاقات بھی اسی کا تسلسل ہے۔

زرداری صاحب نے بلاول سمیت پوری پارٹی قیادت کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ لیکن میاں صاحب کی بیماری کے متعلق ایک بات ضرور کہوں گا کہ ان کی اولاد یعنی حسن نواز اور حسین نواز کو کوئی خیال نہیں، بیٹے آخر جس مشکل میں ہوں، انہیں اپنے والد کی عیادت اور مزاج پرسی کیلئے آنا چاہیئے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نواز شریف صاحب کا یہ اصرار یا امید کہ انہیں عدالت بیماری کیوجہ سے باہر جانے کی اجازت دیگی، اس بات کی علامت بھی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کے پاس لندن جانا چاہتے ہیں، تاکہ انہیں پاکستان آکر عدالتوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بلاول پہلے ہی اپنے باپ کی وجہ سے پھنس چکے ہیں، وہ حسن اور حسین نواز کی جگہ تو نہیں لے سکتے، اس کا مطلب یہی ہوا کہ یہ ملاقات ایک تیمارداری نہیں بلکہ سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے، البتہ یہ قوتیں اب کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں، پاکستانی عوام نے بھی دیکھ لیا اور دنیا بھی عمران خان کی قیادت کو تسلیم کرچکی ہے۔ جن لوگوں نے کرپشن کی ہے، انہیں اسکا حساب تو دینا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف کی علالت کو سامنے رکھتے ہوئے بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے، جس پر پیپلزپارٹی کا موقف ہے کہ اگر میاں صاحب کو کچھ ہوا تو یہ قتل شمار ہوگا اور اسکی ذمہ دار حکومت ہوگی۔؟
علی نواز اعوان:
بیماری سے کس کو انکار ہے، وہ بیمار ہیں تو انکی صحت یابی کی دعا کر رہے ہیں، اللہ انہیں زندگی دے، تاکہ وہ کیسز کا سامنا بھی کریں اور زرداری صاحب کا انجام بھی دیکھیں، پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہی انجام نظر آرہا ہے، جس سے بچنے کیلئے وہ بھاگ دوڑ کر رہے ہیں، ان کی یہ کوشش ہے کہ نواز شریف کی بیماری کا بہانہ بنا کر وہ بھی ریلیف حاصل کریں، حکومت کوئی زیادتی نہیں کر رہی، جو بھی معاملہ ہے، وہ عدالت کے پاس ہے، میاں صاحب جو جیل میں ہیں، جو بیمار ہیں، وہ بھی عدالت کے ذریعے ہی اپنا کیس چلا رہے ہیں۔ جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے، لوگوں کو یاد ہے کہ یہی بلاول زرداری پورا کشمیر کا الیکشن نواز شریف کے مودی کے یار ہونے پر لڑے ہیں، وہ اب ان کے کیسے خیر خواہ ہوسکتے ہیں۔

یہ سب حقائق لوگوں کے سامنے ہیں، انکو جھٹلایا نہیں جا سکتا، قانون کی روشنی میں معاملات چلنے چاہیئں، تاکہ کسی کو یہ شکوہ اور شکایت نہ رہے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ بات صاف ہے کہ میاں صاحب صرف اس وجہ سے علاج نہیں کروا رہے کہ عدالت میں ان کا کیس کمزور ہونیکا خدشہ ہے، اس کے بعد ان کے پاس کوئی جواز نہیں رہیگا کہ انہیں باہر بھیجا جائے، یا جانے دیا جائے۔ خصوصی طور پر نواز شریف کی تیمارداری کے لیے جانے والے بلاول بھٹو زرداری ایک سزا یافتہ مجرم کو منتخب وزیراعظم کی طرح علاج نہ ملنے کا بہانہ بنا کر حکومت پر دباؤ ڈالنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو کا موقف یہ ہے کہ نیب کو صرف مخالفین کیخلاف کاروائی کیلئے ہی استعمال کیا جا رہا ہے؟
علی نواز اعوان:
یہ ایک لحاظ سے درست ہے، لیکن موجودہ اپوزیشن اگر یہ کہے تو قابل قبول نہیں ہے۔ نیب اگر مشرف نے بنایا تو قومی احتساب کیلئے نون لیگ نے بھی اسی طرح کا ادارہ قائم کیا تھا۔ نواز حکومت نے سیاسی مخالفت کی بنیاد پہ پی پی پی کی قیادت کیخلاف کیسز بنوائے تھے، یہ تو درست ہے۔ پھر پی پی پی کی حکومت رہی، انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی ان قوانین میں۔ نہ اداروں میں اصلاحات کی ہیں، پھر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اب ان سے انتقام لیا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کیخلاف تو انہیں کسی قسم کی جانبدارانہ کارروائی کا موقع ہی نہیں ملا تو عمران خان نے ان سے انتقام کیا لینا ہے، یہ صرف اپنے کرپشن کے کارناموں سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپنے اپنے ادوار میں اگر انہوں ترامیم کرنیکی کوشش بھی کی تو ایک دوسرے کیلئے رکاوٹیں بھی یہ خود رہے ہیں۔ انکے درمیان کبھی اتفاق رائے کبھی نہیں رہا۔

اب آپ آجائیں ان الزامات کی طرف جو انکے خلاف ہیں، وہ بالکل درست ہیں، آج بھی سندھ میں چلے جائیں، آپ کا کوئی کام کرپشن کے بغیر نہیں ہوسکتا، اس کو روکنے کی انہوں نے آج بھی کوئی کوشش نہیں کی، یا جو صوبائی محکمے ہیں، شفافیت کو قائم رکھنے کیلئے ان کی حالت دیکھ لیں، وہ خود کرپشن کا شکار نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دہائیوں تک حکومت میں رہنے والے دونوں خاندانوں نے نہ صرف خود کرپشن کی ہے بلکہ ان کی دسترس میں رہنے والے تمام اداروں اور محکموں کو بھی بدترین طریقے سے کرپٹ بنا دیا ہے۔ یہ مان بھی لیا جائے کہ جنرل مشرف نے نیب کو سیاسی جوڑ توڑ کیلئے استعمال کیا تو اب یہ بات تسلیم نہیں جا سکتی، اب تو انہیں حساب دینا پڑیگا، جس مشرف نے انکے خلاف سیاسی مقاصد کیلئے کیسز بنوائے، ان دونوں پارٹیوں نے اسی مشرف کیساتھ ایک این آر او بھی کیا۔

اب انہیں تکلیف اس چیز کی ہے کہ موجودہ حکومت انکے ساتھ این آر او کرنے کو تیار نہیں، نہ ہمارے لیے آپشن موجود ہے۔ اس لیے سیاسی انتقام کا نعرہ اب پرانا ہو چکا، یہ اب کسی کام نہیں آئیگا۔ اگر پہلے نیب جیسے اداروں استعمال کیا بھی گیا، لیکن اب عدالتوں کو ثبوت فراہم نہ کرنیکی شکایت ہے کہ صوبائی محکمے مطلوبہ ریکارڈ فراہم نہیں کر رہے۔ انصاف میں رکاوٹ بننے والے الٹا الزام لگا رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ یہ پارٹیاں اگر اب بھی چاہتی ہیں تو پارلیمنٹ میں بات کریں، نیب سمیت تمام اداروں میں جہاں اصلاحات کی ضرورت ہے، اس کے لیے قوانین لانے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن رہنماء نے کالعدم تنظیموں کیخلاف سخت ایکشن کے مطالبے کو دہرایا ہے، کیا اسکے بعد وزیراعظم کو اتنا سخت موقف دینا چاہیے تھا۔؟
علی نواز اعوان:
کالعدم تنظیموں کو ہر صورت میں ختم ہونا چاہیئے، اس کی پاکستان میں اب کوئی گنجائش نہیں، لیکن پارلیمنٹ میں جس موقف کو اپوزیشن نے دہرایا ہے، وہ کسی کو سنانے کیلئے تھا، جو پاکستان کیلئے ان کالعدم تنظیموں کے وجود سے زیادہ خطرناک ہے۔ اس وقت قومی بیانیہ بنانے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، جب پوری قوم، فوج اور عوام ایک پیج پر ہیں تو ادھر ادھر کی باتیں کرکے دنیا کے سامنے نمبر بنانے کا یہ موقع نہیں ہے، یہ مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی ہے، پاکستان حساس ترین دور سے گذر رہا ہے، احتیاط نہیں کی جائیگی تو دشمن ان باتوں کو بہانہ بنا کر ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کو دیکھیں، انکے آپس میں اختلافات ہیں، تنقید بھی کر رہے ہیں، لیکن پاکستان کیخلاف ان کا بیانیہ ایک ہی ہے، لیکن عین اسوقت جب ہمیں جنگ کی صورتحال درپیش ہے۔ ہماری فوج قربانیاں دے رہی ہے، فنانشل ٹاسک فورس ملک کیخلاف پابندیوں کے بہانے تلاش کر رہی ہے، سفارتی، عسکری اور ہر محاذ پہ ملک کو حساس صورتحال کا سامنا ہے، اپوزیشن کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیئے۔

داخلی اختلافات کو ہوا دینے سے دشمن کا بیانیہ مضبوط بنایا جا رہا ہے۔ مستقبل میں کالعدم تنظیموں کا راستہ روکنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان میں تجویز کردہ لائحہ عمل پہ قائم ہیں اور اسی کو مکمل کر رہے ہیں، یہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں کو اتفاق رائے سے روکا جا سکتا ہے، ان کے خلاف اعلان جنگ کیا جائے۔ اس کے لیے قانونی طریقہ کار ہی درست ہے۔ قومی بیانیے کو توڑ کر کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کی بات کرنیوالے کس منہ سے شدت پسندی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جس انداز میں بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ میں بات کی، یہ دراصل ان الزامات کی تائید کی کوشش ہے، جو بھارت اور امریکہ پاکستان کیخلاف لگاتے رہے ہیں۔ صرف سراج درانی جیسے لوگوں کے مقدمات ختم کروانے کی کوشش میں پیپلزپارٹی قیادت مودی کے بیانیے کی تائید کر رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حالات میں پاک بھارت کشیدگی نے پوری دنیا کو لرزا دیا ہے کہ یہ صورتحال پورے خطے کو آگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے، حالات کو نارمل کرنے کیلئے حکومت کی پالیسی کیا ہے۔؟
علی نواز اعوان:
یہ حالات ہندوستان کے پیدا کردہ ہیں، موجودہ حالات پاکستان کیلئے بھی سنگین ہیں، فوجیں ہائی الرٹ ہیں، کشمیر میں جاری ظلم و تشدد اگر بند نہیں ہوتا تو پاکستان کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے گا، خطے کیلئے اور دنیا کے امن کیلئے بہتر یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہو۔ ورنہ جب تک بھارت کا ناجائز قبضہ برقرار رہیگا، پلوامہ جیسے واقعات سے بچنے کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا۔ اسوقت انڈیا کے پاس کشمیریوں کی آواز سننے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں، مودی کا جنگی جنون اور غرور پاک فضائیہ نے مٹی میں ملا دیا ہے، انسانیت، امن اور غربت کے خاتمے کیلئے بھارت کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ طاقت کے زور پر ناجائز قبضہ مزید تباہی لائے گا۔ کشمیر یا تو دونوں ملکوں میں امن قائم کرسکتا ہے، یا خدانخواستہ یہ بڑی سنگینی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کر رہا ہے، امن کی پوری خواہش ثابت کرچکے ہیں، امریکہ سمیت یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ حل کرنے کیلئے بھارت کیخلاف دباؤ ڈالیں۔
خبر کا کوڈ : 782674
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش