0
Wednesday 13 Mar 2019 00:24
اقتصادی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے غیر ریاستی عناصر کیخلاف کارروائی ضروری ہے

کوئی بھی محب وطن قوت نون لیگ اور پیپلزپارٹی پر اعتماد نہیں کرسکتی، عندلیب عباس

کوئی بھی محب وطن قوت نون لیگ اور پیپلزپارٹی پر اعتماد نہیں کرسکتی، عندلیب عباس
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی جدوجہد سے متاثر ہوکر عندلیب عباس نے 2007ء میں پی ٹی آئی کا حصہ بنیں، وہ اسوقت تحریک انصاف کی کور کمیٹی کی ممبر ہیں، اسکے علاوہ تحریک انصاف کی اسٹریٹجی کمیٹی اور تحریک انصاف کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کی رکن بھی ہیں، جو بڑے متحرک انداز میں ٹی وی ٹاک شوز میں تحریک انصاف کا نظریہ پیش کرتی ہیں، عندلیب عباس انتہائی منطقی انداز میں دلیل کیساتھ بات کرتی ہیں اور سیاسی مخالفین کو بھرپور جواب دیتی ہیں۔ 2018ء میں خواتین کی مخصوص نشست پہ رکن قومی اسمبلی بنیں، انہیں پارلیمانی کمیٹی برائے امور خارجہ کا رکن بھی بنایا گیا، موجودہ سیاسی صورتحال، کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی اور اپوزیشن کی ممکنہ حکومت مخالف تحریک سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جیل میں ہونیوالی نواز زرداری ملاقات کے بعد وزراء پریشان کیوں ہیں۔؟
محترمہ عندلیب عباس:
یہ ایک سیاست ہے، جو اپنے طور پر اچھی سیاست کی جا رہی ہے، بلاول نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کیلئے دوبارہ جگہ بنانے کیلئے نون لیگ کی طاقت سے استفادہ کرنیکی کوشش کی ہے، کیونکہ پنجاب میں پی پی پی کا کوئی نام لینے والا نہیں بچا، سیاسی لحاظ سے یہ ایک اچھی موو ہے، البتہ وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ بھی ملاقات ہوئی ہے، بلاول نے عیادت بھی کی ہے، لیکن زیادہ مناسب یہ ہے کہ کہا جائے کہ یہ نیب زدہ لوگوں کی ملاقات تھی، یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جوں جوں احتساب کا سلسلہ جاری رہیگا تو یہ ملاقاتیں بڑھتی رہیں گی۔ جو حکومت یا وفاقی کابینہ کی پریشانی کی بات ہے، یہ صرف ایک سیاسی بیان بازی ہے، نہ وزیراعظم گھبرانے والے ہیں، نہ ہی ان تلوں میں تیل ہے، یہ دونوں پارٹیاں مل نہیں سکتیں، مل بھی جائیں تو حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، انکا کام اپنے لیے کہیں نہ کہیں سے راستہ پیدا کرنا ہے، کیونکہ انہیں اس وقت بقاء کا مسئلہ درپیش ہے، جس طرح نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے، اسی طرح زرداری خاندان کو بھی سیاسی ناؤ ڈوبٹی نظر آرہی ہے۔ بلاول جو چاہیں کر لیں، وہ اپنے والد کی کرپشن اور نیب زدہ سیاست کو اب نہیں بچا سکتے، نواز شریف بھی اب اس قابل نہیں ہیں کہ وہ انہیں کوئی سہارا دے سکیں۔

اسلام ٹائمز: پنجاب میں فارورڈ بلاک کی خبروں کے دوران چوہدری برادران کی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد بزدار حکومت کے خاتمے کی باتوں پر کیا تبصرہ کرینگی۔؟
محترمہ عندلیب عباس:
یہ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ کوئی حکومتی اتحاد سے الگ ہو کر فارورڈ بلاک کا اعلان کرے، لیکن اس کے کوئی آثار نہیں، وزیراعظم کی قیادت میں سب متحد ہیں، نہ ہی کسی اتحادی کے ساتھ زیادتی ہوئی، سب کو عزت ملی ہے، گورنر اور وزیراعلیٰ سب ایک ہی لیڈر کی پالیسی کو فالو کرتے ہیں، اگر کوئی اختلاف ہوتا بھی ہے تو ایک جگہ ہے، جہاں وہ حل ہو جاتا ہے، نون لیگ نے مسائل ہی اتنے چھوڑے ہیں کہ پنجاب کے عوام کو ان سے نجات دلانے میں وقت لگے گا۔ چوہدری برادران کی وزیراعظم سے حالیہ ملاقات معمول کی بات ہے، جب آپ ایک حکومت کا حصہ ہیں، اس صورت میں ہم آہنگی برقرار رکھنے اور اعتماد میں اضافہ کرنے کیلئے روابط ضروری ہین، یہ چوہدری برادران یا پی ٹی آئی کی مجبوری نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت ہے، وہ کوئی ایکدوسرے کو بلیک میل نہیں کر رہے، البتہ اپوزیشن پارٹیز جو پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے، وہ دوست نہیں بن سکتے، حکومت کیخلاف بھی اکٹھے نہین ہوسکتے، لیکن ایکدوسرے کو بلیک میل ضرور کرسکتے ہیں۔ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان ہوتا تو نون لیگ ایک پل بھی انتظار نہ کرتی، یہ ان کے بس میں نہین، ورنہ وہ یہ کام کر گزرتے، انکی اپنی کمزوریاں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ کسی ایسے اقدام کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

اسلام ٹائمز: میثاق جمہوریت میں دوسری جماعتوں کیساتھ پی ٹی آئی شامل ہوگی۔؟
محترمہ عندلیب عباس:
یہ میثاق صرف اپوزیشن ہی میں زندہ ہوتا ہے۔ یہ تب شروع ہوتی ہے، جب احتساب کا شکنجہ سخت ہوتا محسوس ہوتا ہے، ان باتوں کی وجہ سے انکی ساکھ کمزور ہوچکی ہے، یہ اپنے آپ کو بچا لیتے ہیں اور سہارا جمہوریت کا لیتے ہیں، یہ کمزور لیڈر شپ ہے، اگر ورکرز جوش میں آنا بھی چاہیں تو قیادت کمزور ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف ایک سیاسی پارٹی ہے، جو کرپشن کو چھپانے والے کسی میثاق کا حصہ نہیں بن سکتی، ہم نے تو میثاق معیشت کی بات لیکن اپوزیشن نے کوئی رسپانس نہیں دیا۔ اب بات دہرانے والی بات ہو جائیگی کہ جب بھی باریاں لینے والی پارٹیاں پھنس جاتی ہیں تو یہ جمہوریت کے بچاؤ، سول بالادستی، اٹھارہویں ترمیم اور آئین کی بات کرکے ایک جگہ اکٹھا ہونے کی کوشش کرتے ہیں، جب کسی ایک کو راستہ ملنا شروع ہوتا ہے تو وہ خود بخود اپنے اتحادی سے راستے جدا کرکے انہیں کا مخالف ہو جاتا ہے۔

اس سے پہلے مشرف سے جان بچانے کیلئے ان دونوں پارٹیوں نے جمہوریت کے نام پر میثاق بنایا اور مشرف نے انہیں رعایت دیکر خود صدارتی الیکشن لڑا، بعد میں زرداری صاحب نے کہا کہ سیاست میں سیاسی معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، یہ کوئی قرآن اور حدیث نہین ہوتے۔ اب کچھ دن انتطار کریں، یہ لوگ آپس میں جھگڑیں گے، ایک دوسرے کیخلاف ہو جائیں گے، کیونکہ انکے اکٹھے ہونے سے ان کی جان تو بچنے والی نہیں، آپس میں الزام تراشی کرینگے، شکایت کرینگے۔ یہی بلاول زرادری جو کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اب نظریاتی ہوگئے ہیں، انہیں سینیٹ کے الیکشن مین کیا ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی اندر سے نون لیگ کی طرح تضادات اور اختلافات کا شکار ہوچکی ہے، آصف زرادری اب تنہا ہو رہے ہیں۔ نواز شریف پہلے ہی تنہا ہوچکے ہیں۔ یہ تو کسی صورت ممکن نہیں کہ یہ ایک دوسرے کے مفادات کو ترجیح دیں، جس کو بھی اپنی بقاء نظر آئیگی، وہ دوسرے کو پوچھے گا بھی نہیں، اسی نون لیگ بطور پارٹی اب پیپلزپارٹی بالخصوص زرادری صاحب سے محتاط ہے۔

اسلام ٹائمز: دگرگوں معیشت، سکیورٹی کی صورتحال اور جنگ کے منڈلاتے سائے تقاضا نہیں کرتے حکومت اپوزیشن کو ایک بیج پہ رکھے۔؟
محترمہ عندلیب عباس:
ہم نے تو میثاق معیشت کی بات کی تھی، لیکن اپوزیشن کی نیک نیتی سامنے آگئی، وہ کوئی ایسا کام کرنے یا اسکا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں کہ جس سے لوگوں کا یا ملک فائدہ ہو، انکی ساری سیاست اور کوشش ذاتی مفادات اور اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے ہے، صرف یہی ایک ایسا ایشو ہے، جس پہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ہو جاتے ہیں۔ ایک جنگ ایسی ہے، جو بھارت کی طرف سے مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کیخلاف اگر اپوزیشن حکومت کا ساتھ نہ دے تو خود پاکستانی عوام میں مقبولیت کھو بیٹھیں گے، بلکہ انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑیگا، اس لیے یہ جس یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ انکی مجبوری ہے۔

اگر یہ ملک سے مخلص ہوتے تو ان کے ادوار حکومت میں بھی عسکری اداروں سمیت سب کے ساتھ ایک پیج پر رہتے، اینٹ سے اینٹ بجانے اور سینے میں دبے رازوں سے پردہ اٹھانے کی باتیں نہ کرتے۔ کوئی بھی محب وطن قوت نون لیگ اور پیپلزپارٹی پر اعتماد نہیں کرسکتی، اگر ایسا کیا جائیگا تو دھوکہ کھائین گے۔ بالخصوص عمران خان کیلئے ممکن ہی نہیں کہ جن لوگوں کی کرپشن سے ملک کو صاف کرنیکا نعرہ لگا کر وہ حکومت میں آئے ہیں تو وہ کیسے ان لوگوں کیساتھ کسی میثاق یا معاہدے کا حصہ بن سکتے ہیں۔ جہاں تک بیرونی طور پر درپیش خطرات کی بات ہے، وہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں، جیسے جب اپوزیشن میں تھے اور سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد جو لائحہ عمل بنایا گیا، عمران خان نے اسکی حمایت کی، ہماری طرف سے کبھی ملکی مفاد کو زک پہنچانے والی کسی کوشش کو پنپنے نہیں دیا گیا۔

اسلام ٹائمز: کیا نیشنل ایکشن پلان کے تسلسل کے طور پر کالعدم تنظیموں کیخلاف ادھوری کارروائی اس بار مکمل کر لی جائیگی۔؟
محترمہ عندلیب عباس:
جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں تو ایک لحاظ سے ہماری کمزوری ظاہر ہوتی ہے، اقتصادی، سیاسی اور مذہبی لحاظ سے ان عناصر کیخلاف کارروائی ضروری ہے۔ ہمارے علماء بھی فتویٰ دے چکے ہیں، ایسے گروہوں کی ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن یہ ایک صبر آزما کارروائی ہے، جس کی طاقت ریاست کے پاس ہے، ان کے خلاف پہلے بھی کارروائی ہوئی ہے، انہوں نے ری ایکشن بھی دکھایا ہے، اسکا ہم نے مقابلہ بھی کیا ہے، جہاں تک عالمی سطح سے آنے والے دباؤ کی بات ہے تو اس میں ایک حقیقت اپنے طور پر موجود ہے کہ پاکستان کیخلاف اٖفغانستان اور بھارت کی طرف سے غیر ریاستی عناصر کے استعمال کو بھی روکا جاتا ہے یا نہیں۔

یہ بات اتنی سادہ نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ افغانستان اور بھارت کے حالات اور پالیسی کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں، پاکستان کو کوئی یکطرفہ طور پر مجبور کریگا تو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ اس سلسلے میں چین نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے کہ جن لوگوں اور گروہوں کا نام لیکر بھارت دہشت گردی کا الزام لگاتا ہے، ان کے خلاف ثبوت ہے تو وہ بھی دیا جائے۔ لیکن ہمیں اپنے ملک کو مضبوط بنانے اور ترقی دینے کیلئے کارروائی کرنی ہے اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ چین جیسے دوستوں کو اب عالمی فورمز پہ مزید امتحان میں ڈالیں، جرمنی، فرانس اور دوسرے ممالک کا موقف بھی اب اسی طرح سامنے آرہا ہے۔ پاکستان کیلئے اور عالمی سیناریو میں بھی ضروری ہے کہ ان گروپوں کیخلاف موثر کارروائی جاری رکھی جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان کے تعاون سے ہونیوالے امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات نیجہ خیز ثابت ہوچکے ہیں۔؟
محترمہ عندلیب عباس:
پاکستان ہمیشہ سے امن کا خواہاں رہا ہے، بدامنی کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کی مخدوش صورتحال ہے، ایک طریقہ اس مذاکراتی عمل کو دیکھنے کا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں کس قدر امن قائم ہو رہا ہے، دہشت گردی ختم ہو رہی ہے، دنیا کس حد تک پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرتے ہوئے ہمارے اوپر اعتماد کر رہی ہے، سب سے زیادہ امریکہ کو اعتراض تھا کہ پاکستان جو رول ادا کرسکتا ہے، وہ نہیں کر رہا، اب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان کی بات اگر پہلے ہی سمجھ لی جاتی تو یہ امن عمل جلدی کامیاب ہو جاتا ہے، دونوں طرف سے امریکہ بھی اور طالبان بھی دہشت گردی کے خاتمے اور غیر ملکی فوجوں کے انخلاء پر راضی ہوگئے ہیں، اگر یہ سارا پراسس مکمل ہو جاتا ہے تو نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کیلئے خوش آئند ہے۔ دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہوا ہے، ہم نے حالیہ کشیدگی کے دوران ایک ذمہ دار ریاست کا کردار ادا کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 782942
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش