0
Thursday 14 Mar 2019 00:17
قومی مفاد اسی میں ہے کہ ریاستی ادارے حدود میں رہیں

ہم اسٹیبلشمنٹ کے پروں تلے پلنے والے مسلح گروہوں کے شروع سے مخالف تھے، سینیٹر عبدالغفور حیدری

ہم اسٹیبلشمنٹ کے پروں تلے پلنے والے مسلح گروہوں کے شروع سے مخالف تھے، سینیٹر عبدالغفور حیدری
مولانا عبدالغفور حیدری جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں۔ 1957ء میں پیدا ہوئے، مولانا عبداللہ درخواستی کے مدرسہ جامعہ مخزن العلوم میں تعلیم حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی سے جمعیت طلباء اسلام کیساتھ وابستہ ہوئے، بلوچستان کے صدر اور مرکزی نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ 1981ء میں انہوں نے جمعیت علمائے اسلام میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ 1983ء میں کوئٹہ کا جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء میں کچھ عرصہ جیل میں رہے۔ رہائی کے بعد جمعیت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے سیاسی سرگرمیوں میں شامل ہوئے۔ 1990ء میں بلوچستان اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، بلوچستان کی وزارت اعلٰی کی دوڑ میں ذوالفقار مگسی کے مقابلے میں دو ووٹ سے ہار گئے۔ 1993ء، 2002ء میں ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد سینیٹ کے انتخابات میں ممبر منتخب ہوئے اور قائد حزب اختلاف نامزد کئے گئے، مارچ 2015ء کے سینیٹ انتخابات میں وہ ایک بار پھر ممبر منتخب ہوئے اور اسکے بعد سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین کے لئے منتخب کئے گئے۔ جے یو آئی کے مرکزی رہنماء کیساتھ موجودہ سیاسی صورتحال، متوقع لانگ مارچ، کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جے یو آئی کیجانب سے تحفظ ختم نبوت کے عنوان سے اجتماعات کا کیا جواز ہے، جبکہ کوئی ایسا ایشو بھی سامنے نہیں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری:
یہ اجتماعات دراصل تاریخی نوعیت کے ہیں، شاید ہی اتنے بڑے جلسے منعقد ہوئے ہوں، ہمارا موقف تو واضح ہے، ختم نبوت کا تحفظ ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ یہ حکومت تو گذشتہ حکومتوں اور حکمرانوں سے دو قدم آگے ہے، انہیں کسی دینی اصول اور اقدار کی پرواہ نہین۔ موجودہ حکومت تو کسی قسم کی تنقید برداشت کرنیکے لیے تیار نہیں، خود انکا کام ہی صرف یہی ہے، الٹا ہمارے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، باتیں انکی سنیں تو انسانی حقوق، اظہار رائے کی آزادی اور ریاست مدینہ کی کرتے ہیں، بیانات انکے نفرت انگیز اور دل آزار ہیں، دعوے انکے بڑے بڑے ہیں، کام کوئی نہیں ہے، مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے، لوگ غربت کی وجہ سے تنگ ہیں، لیکن انکی آہ و بکا سننے والا کوئی نہیں ہے، حکمران صرف جوڑ توڑ میں مصروف ہیں، حکومت انکی کمزور ہے، سہاروں پہ انحصار ہے، سہاروں پر اعتماد بھی نہیں، اتحادی بھی حکومت سے ناخوش ہیں، آئے روز نئی سے نئی دراڑ پڑتی ہے، کوئی نہ کوئی نیا شگاف سامنے آتا ہے، یہ اتحادیوں کو راضی کریں یا حکومت چلائیں، بس وقت گذر رہا ہے اور ملک پیچھے جا رہا ہے۔ اس حکومت کی روش ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔

اسلام ٹائمز: اس کے باوجود یہ تاثر کیوں ہے کہ آپکی جماعت ریاستی اداروں کیساتھ نہیں کھڑی، بلکہ مخالفت کر رہی ہے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری:
جہاں تک ریاستی اداروں کا تعلق ہے، وہ ملک کی خدمت کیلئے ہیں، انہیں اپنی حدود میں ہی رہنا چاہیئے، پاک فوج نے ملک کا دفاع کیا ہے، ہم انکے ساتھ کھڑے ہیں، جے یو آئی نے ملک کے ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں فوج کے حق میں مظاہرے کیے ہیں۔ لیکن اگر وہ سیاست کرتے ہیں، ایسی حکومت کو تقویت دیتے ہیں، جو مادر پدر آزاد معاشرے کا تصور متعارف کرواتی ہے، فحاشی انکی شناخت ہے، اس طرح تو معاملات کو نہیں چلنے دینگے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ریاستی ادارے خود کو متنازع بنائیں۔

اسلام ٹائمز: میاں نواز شریف سے چیئرمین بلاول نے ملاقات کی ہے، کیا یہ نئے اتحاد کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری:
دنیا کو معلوم ہے کہ میاں صاحب دل کے مریض ہیں، انکا علاج ہونا چاہیئے، جیسے وہ کہتے ہیں وہی سہولت ملنی چاہیئے، کم از کم اسوقت حکومت کو سیاست نہیں کرنی چاہیئے، انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا ہونا چاہیئے، حکومت کو غلط اقدامات سے روکنے کیلئے یہ ضروری ہے، ہماری تو پہلے سے ہی یہ کوشش ہے، دیکھیں حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ یہ جو نام نہاد احتساب کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس کے غیر منصفانہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں، لیکن اس حد تک گراوٹ نہیں ہونی چاہیئے کہ سیاسی مخالفین سے علاج کا حق چھین لیا جائے۔

اسلام ٹائمز: ملک اندرونی اور بیرونی طور پر دباؤ اور مشکلات کا شکار ہے، ایسے میں قوم احتجاجی تحریک کی متحمل ہوسکتی ہے، دنیا پہلے ہی ہمیں غیر ذمہ دار ہونیکے طعنے دے رہی ہے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری:
ہم نے بڑے بڑے مارچ اور احتجاج کیے ہیں، لیکن عام آدمی کی زندگی پہ کبھی کوئی منفی اثر نہین ہوتا، اس سلسلے میں فکرمندی کی کوئی بات نہیں، ہم ہر طرح کے تشدد کے خلاف ہیں، لیکن پاکستان چونکہ بنا ہی اسلام کے نام پہ ہے، اس لیے اسلامی اصولوں پہ کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتے۔ پاکستانی عوام مسلمان ہیں، آپ دیکھیں یحیٰی خان نے ملک تقسیم کیا لیکن اتنا بڑا احتجاج اسکے خلاف نہیں ہوا، جتنا ان حکمرانوں کیخلاف ہوا، جنہوں نے اسلامی اصولوں اور ختم نبوت پہ کمزوری دکھائی۔ ہم جمہوری انداز میں عوامی رائے کو ذمہ دار لوگوں تک پہنچانے کیلئے لانگ مارچ کر رہے ہیں، ہمارا احتجاج یا تحریک انہی مقاصد کیلئے ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں، نہ وہ ریاست کے خلاف ہے، نہ لوگوں کو بھڑکانے کیلئے ہے، نہ ہمارا کوئی دوسرا مقصد ہے۔ ہمارا مقصد اضطراب پیدا کرکے نقصان پہنچانا نہیں ہے۔ نہ ہمارے احتجاج سے ملک و قوم کا امیج خراب ہوتا ہے، یہ سب حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے ہوتا ہے، ہماری وجہ سے نہیں۔

ہم آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت ایسے اقدامات سے گریز کرے، جن کی وجہ سے حالات خراب ہوتے ہیں۔ یہ حکمرانوں کی پالیسیاں ہیں، جن کی وجہ سے اسلامی اصولوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے، دختران قوم کو سربازار لایا جاتا ہے، عریانیت پھیلائی جاتی ہے، فحاشی کو فورغ دیا جاتا ہے۔ حیا اور غیرت کا احساس رکھنے والے کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ مردہ اور جامد معاشرہ نہیں ہے، حکومت ان چیزوں سے اجتناب کرے۔ یہ ہمارا آئینی حق ہے، کسی قسم کا تجاوز نہیں۔ دین کا تحفظ، ختم نبوت کا تحفظ اور ہماری تہذیب کا تحفظ یہ آئین نے حق دیا ہے۔ قرآن و سنت کی بات کرنا نہ صرف حق ہے بلکہ یہ ہمارے آئین کا تقاضا ہے۔ تجاوز کرنیوالے سیکولر عناصر ہیں، جو آئین کی نفی اور مخالفت کر رہے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم جو آئین کی پاسداری اور وفاداری کی بات کر رہے ہیں، ہمیں غدار سمجھا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پلوامہ حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد اور کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائیوں پر کیا تبصرہ کرینگے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری:
بھارت نے جارحیت کی، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ہم حالت جنگ میں تو پہلے سے ہی ہیں، لیکن موجودہ بحران کو دینی قوتوں کیخلاف ایک موقع کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر جو عمل ہونا تھا، وہ تو مکمل ہوچکا ہے، مدارس کو نشانہ بنایا گیا، لیکن کسی مدرسے کا تعلق ثابت نہیں ہوا کہ کسی دہشت گردی میں ملوث ہو، مشرف دور کے اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان صرف ایک بہانہ ہے، دوسرا بہانہ انڈیا نے فراہم کر دیا ہے، جن تنظیموں کیخلاف دنیا میں پابندیاں لگائی گئی ہیں، وہ بھارتی لابی کی شہہ پہ ایسا کیا گیا ہے، اسوقت دینی قوتوں کیخلاف جو اقدامات ہو رہے ہیں، یہ بھارت اور امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے، جب ہم بھارت کو کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی پاکستانی کیخلاف کوئی ثبوت ہے تو وہ فراہم کریں، پھر بغیر ثبوت کے اپنے لوگوں کے خلاف کارروائی کا کیا جواز ہے، یہ عالمی آقاؤں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم خود مختار ریاست ہیں تو ہمیں دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیئے، یہ گرے اور بلیک لسٹیں صرف دباؤ ڈالنے کیلئے ہوتی ہیں، ہمیں یہی بات سمجھنی چاہیئے۔

جن تنظیموں کو کالعدم کیا جا رہا ہے، ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ کالعدم کیا گیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ ہم بھارت اور امریکی الزامات کو قبول کر رہے ہیں، پاکستان کو اپنا مفاد اس میں نہیں، دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیئے، اپنے عوام کی خیر خواہی اور خوشحالی سے جس طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک روکتے ہیں اور اپنی پالیسیاں مسلط کرتے ہیں، یہ دباؤ بھی اس کی ایک دوسری شکل ہے۔ دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان پر لگی ہوئی ہیں، حالانکہ ہماری ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ دنیا کی توجہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کی طرف دلائیں۔ یہ کیسا مذاق ہے کہ بھارت پاکستان میں مداخلت کرتا ہے، لیکن ہم یہ الزام اپنے سر لے رہے ہیں کہ نہیں ہمارے ملک میں ایسے عناسر موجود ہیں، جو دوسرے ملکوں میں جا کر دہشت گردی کرتے ہیں، یہ کیسا بیانیہ ہے، یہ بیانیہ قومی مفاد کے خلاف ہے، ان اقدامات سے پاکستان کو فائدہ نہیں ہوگا، نقصان ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کالعدم تنظیموں کے حامی ہیں، غیر ریاستی عناصر کے ذریعے خارجہ پالیسی کے مقاصد کا حصول ایک درست پالیسی ہے۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری:
نہیں ہم اس کے حامی نہیں ہیں، شروع سے ہمارا موقف یہ ہے کہ فوج کے علاوہ کسی گروہ کو مسلح نہیں ہونا چاہیئے، فرقہ پرست گروہ ہوں یا مسلح تنظیمیں اور انکے مراکز جو اسٹیبلشمنٹ کے پروں کے نیجے پلتے رہے ہیں، ہم نے اسکی شروع سے مخالفت کی ہے، ہماری باتوں کو دشمن کا موقف قرار دیکر نہیں سنا گیا، آج پھر یہی کہا جا رہا ہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ مدارس اور دینی قوتوں کو استعمال کیا گیا، لیکن یہ ملک کے خیر خواہ ہیں، پہلے آپ نے ایک غلطی کی اب دوبارہ یہ غلطی نہ کریں، اس وقت جب مسلح جھتے تیار کیے گئے، وہ بھی عالمی آقاؤں کو خوش کرنیکے لیے تھے، آج جو غیر منطقی طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے، یہ بھی ملکی مفاد میں نہیں ہے، یہ کریک ڈاون اگر ابھی دہشت گردی یا مسلح کارروائیوں میں ملوث تنظیموں تک محدود ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن اگر رخ کیا جا رہا ہے مدارس کی طرف، مدارس میں پڑھنے والے لوگوں کی طرف تو ہم حق بجانب ہیں، یہ طرز عمل ایک نئی تحریک کا سبب بنے گا اور بے چینی پیدا ہوگی۔

اسلام ٹائمز: پوری دنیا کی توجہ پاک بھارت کشیدگی کیطرف ہے، مسئلہ کشمیر کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں۔؟
سینیٹر عبدالغفور حیدری:
کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، بھارت نے آئین میں ترمیم کی ہے، جس کی کوئی حیثیت نہیں، یہ قبضہ غیر قانونی اور زبردستی کیا گیا ہے، اب وقت ہے کہ کشمیر آزاد ہو، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق یہ مسئلہ اب حل ہوگا، انسانی حقوق کے دعویدار اور او آئی سی کو موثر کردار ادا کرنا چاہیئے، یہ جو یو این او کی آنکھوں پہ پٹی بندھی ہوئی ہے، اس اتارا جائے، ستر سال ہوگئے، یہ مسئلہ حل نہیں ہو رہا، او آئی سی ہو یا عالمی ادارے اپنی مرضی کے مطابق آواز بھی اٹھاتے ہیں، طاقت بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن کشمیر کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے، جس کی اب گنجائش نہیں ہے، یہ خطہ اب کشمیر ہی وجہ سے جنگ کی لپیٹ میں ہے، یہ جنگ پھیل بھی سکتی ہے۔ دنیا جانبدار ہے، امریکہ افغانستان کی جان نہیں چھوڑ رہا، فلسطین میں مظالم جاری ہیں، مسلمانوں کو فیصلہ کن لائحہ عمل بنانا ہوگا، مسلمان حکمرانوں کو اپنی ذمہ داری نبھانا ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 783104
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش