0
Sunday 12 Jun 2011 14:12

ہمارے اصلی دشمن امریکہ،اسرائیل اور ان کی حواری طاقتیں ہیں، جو پاکستان میں مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں کرنا چاہتی ہیں، اسداللہ بھٹو

ہمارے اصلی دشمن امریکہ،اسرائیل اور ان کی حواری طاقتیں ہیں، جو پاکستان میں مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں کرنا چاہتی ہیں، اسداللہ بھٹو
محترم جناب اسداللہ بھٹو جماعت اسلامی پاکستان صوبہ سندھ کے امیر ہیں، پیشے کے اعتبار سے آپ وکیل ہیں، آپ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک ہیں، آپ کا شمار سرزمین پاکستان کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو بلا کسی خوف و خطر اپنا مؤقف پیش کرنے سے نہیں کتراتے، آپ 2002کے عام انتخابات میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، آپ کی بے لاگ گفتگو سامعین و قارئین کے لئے انتہائی کارآمد ہوتی ہے، اسلام ٹائمز نے موجودہ ملکی اور عالمی صورتحال پر آپ سے ایک انٹرویو کیا جو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔ 
  

اسلام ٹائمز:ملک کے موجودہ حالات انتہائی گھمبیر ہیں اور ہمارا ملک انتہائی پیچیدہ مسائل میں گھرا ہوا ہے، جن میں ڈرون حملے، خودکش دھماکے، مہنگائی، وغیرہ شامل ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عوام کو ریلیف نہ دینے، ڈرون حملوں پر واضح مؤقف اختیار نہ کرنے، غرض اس طرح کے تمام معاملات کو حل نہ کرنے میں ہماری حکومت کی جانب سے کوئی واضح اقدامات نہ کرنا، آخر اس کی کیا وجہ ہے ۔؟
اسداللہ بھٹو: اصل میں پاکستان میں قیادت کا فقدان ہے، بد قسمتی سے جو سابقہ فوجی آمر کا دور تھا، جس کو ہم سب پرویز مشرف کے نام سے جانتے ہیں، اس میں پرویز مشرف کی ہمدردیاں امریکہ کے ساتھ تھیں اور وہ امریکہ کی ہی ہدایات پر کام کرتا رہا، اس کے بعد ملک میں عام انتخابات ہوئے اور ملک میں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا، اور ملک میں چند سیاسی پارٹیوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی، یہ امید کی جا رہی تھی کہ سیاسی پارٹیوں کے برسر اقتدار آنے سے ملک کی پالیسیوں میں تبدیلی آئے گی، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک ملک کی پالیسیوں میں کوئی بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ یہ سارے معاملات پرویز مشرف کے دور سے خراب ہونا شروع ہوئے، ڈرون حملوں سمیت ملک کے دیگر معاملات میں امریکہ کو مداخلت کا موقع پرویز مشرف نے فراہم کیا تھا، اس نے کئی خفیہ معاہدے کئے ہوئے تھے، اس لئے ڈرون حملے ہوں یا خودکش دھماکے یہ سب ہمارے لئے پرویز مشرف کا تحفہ ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جمہوریت کی دعویدار پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حکومت پچھلے تین سالوں میں عوام کو ریلیف پہنچانے، ڈرون حملوں کے خلاف واضح مؤقف اختیار کرنے اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کرنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ یوں کہنا بجا ہو گا کہ اس حکومت نے امریکہ کو مزید مواقع فراہم کئے ہیں، لہٰذا ڈرون حملوں میں پچھلے تین سالوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں بے گناہ لوگ مر رہے ہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے حکمران امریکہ کی کاسہ لیسی میں گم ہیں، ہر طرف مہنگائی ہے، غریب مزید غریب اور امیر لوگ امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں، غرض اس ملک کا ہر شہری ملکی حالات پر پریشان ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حکمران ان معاملات پر واضح مؤقف اختیار کریں اور اپنی عیاشیوں کو ترک کر کے عوامی ریلیف کے پروگرامات پر توجہ دیں۔
اسلام ٹائمز:آپ نے ذکر کیا کہ پرویز مشرف ہی نے پاکستان کو امریکی غلامی کے دلدل میں جھونکا، لیکن اگر ہم پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں افغان جنگ کے موقع پر جنرل ضیاء کا امریکی کاسہ لیسی کا کردار بھی نظر آتا ہے، پھر ہم جنرل ضیاء کو کیوں ان معاملات سے بری الذمہ قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ بات صاف واضح ہے کہ افغان جنگ کے تمام معاملات میں امریکہ پاکستان کے ذریعے شامل تھا۔؟
اسداللہ بھٹو: میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو سب سے پہلے ایوب خان نے امریکہ کو سرزمین پاکستان میں اڈے فراہم کئے اور امریکہ کو پاکستان میں فوجی مداخلت کا موقع فراہم کیا اور اس نے بھی ایک امریکی ایجنٹ کا کردار ادا کیا، سرزمین پاکستان سے ہی امریکی ہوائی جہاز روس کی جاسوسی کرتے تھے، بالآخر روس نے امریکہ کا جہاز مار گرایا تھا اور یہ بات عیاں ہوئی کہ وہ جہاز پاکستان کی سرزمین سے اڑا تھا، لہٰذا پاکستان میں فوجی آمروں کے دور میں ہی فوجی اڈے دینے کی روایت شروع ہوئی، جہاں آپ نے بات کی افغان جہاد کی تو میں سمجھتا ہوں کہ افغان جہاد نہ امریکہ کے کہنے پر شروع ہوا تھا اور نہ ہی امریکہ اس وقت یہاں دور دور تک موجود تھا، یہ جہاد اس وقت شروع ہوا تھا جب سوویت یونین نے افغانستان میں اپنی مداخلت میں اضافہ کیا اور اپنے عزائم کا اظہار کیا کہ وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے افغانستان کا راستہ اختیار کرے گا، اسی لئے انہوں افغانستان میں اپنی کمیونسٹ پارٹیوں کو فعال کیا اور انہوں نے کابل یونیورسٹی سے نعوذبااللہ خدا کا جنازہ نکالا، اس پر افغان نوجوانوں میں ردِ عمل پیدا ہوا اور وہ نوجوان پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملے، ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی حمایت کا اعلان کیا، ٹھیک اس ہی زمانے میں افغانستان کے شاہ کا تختہ الٹا گیا اور شاہ داؤد کی حکومت قائم ہوئی، شاہ داؤد نے اقتدار سنبھالتے ہی ڈیورنڈ لائن جو پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحدی حدود کا معاہدہ ہے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ وہ واضح اشارہ تھا کہ روس پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ یہ جہاد امریکہ کے کہنے پر شروع نہیں کیا گیا تھا، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس جہاد میں مسلمانوں نے اس لئے جدوجہد کی تھی کہ روس نے اللہ اور اس کے رسول ص کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا، اور وہ گرم پانیوں تک پہنچنے کے لئے کوشش کر رہا تھا، لہٰذا پاکستان نے اپنی سرزمین اس لئے فراہم کی تھی کہ ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا، لہٰذا ساری امت نے مل کر روس سے جنگ کی اور پاکستان کا دفاع کیا۔
اسلام ٹائمز:لیکن امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے جو بیان افغان جہاد سے متعلق امریکی کانگریس میں دیا، جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ افغان جہاد میں امریکہ نے طالبان کو مالی اور اسلحہ کی کمک فراہم کی، تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ اس جنگ میں امریکہ کا کوئی تعلق نہیں تھا۔؟
اسداللہ بھٹو:دیکھیں بات یہ ہے کہ اگر کہیں جنگ چل رہی ہے اب اس میں کہیں سے بھی امداد ملے، تو عقلی اعتبار سے ہمیں اس امداد کو قبول کرنا چاہیئے، میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ افغان جہاد امریکہ کے لئے نہیں تھا، امریکہ نے اس میں ہمارا ساتھ دیا۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ امریکہ نے اس وقت جو کچھ بھی دیا اپنے مفاد میں دیا، دشمن کا دشمن ہمارا دوست والی بات تھی۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ ہم نے امریکہ سے ہاتھ ملایا، بلکہ ہم کل بھی امریکی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج تھے اور آج بھی ہیں، کیونکہ ہم آج بھی امریکہ کو دین اسلام کا دشمن تصور کرتے ہیں، کیونکہ یہی وہ امریکہ ہے کہ جو فلسطین میں اسرائیل کے ناجائز کے قیام اور اس کی ہر قسم کی دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔
اسلام ٹائمز:آپ نے کہا امریکہ اسلام کا دشمن ہے لیکن وہ طالبان جو امریکی امداد پر افغان جہاد کے لئے تیار کئے گئے تھے، آج پاکستان کے گلی کوچوں میں خودکش دھماکے، پاکستان میں جی ایچ کیو، پی این ایس مہران جیسے حساس ترین مقامات پر حملے کر رہے ہیں، جب امریکہ ہمارا دشمن ہے تو پھر یہ ہمارے دوست کیسے ہو سکتے ہیں۔؟
اسداللہ بھٹو:مجھے افسوس ہے کہ آپ وہ بات کر رہے ہیں جو امریکہ کا مؤقف ہے، صورتحال اس طرح سے نہیں ہے، معاملہ یہ ہے کہ افغانستان میں جو طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی، دنیا کی سب سے پرامن حکومت تھی، یہ کہنا کہ طالبان دہشت گرد ہیں، میں نہیں مانتا، رہی بات وزیرستان کے طالبان کی تو یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پاکستان کی حمایت کی تھی، کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں نے بم بلاسٹ کیا ہو، کسی کا قتل کیا ہو یا پاکستان سمیت کسی بھی ملک میں دہشت گردی کی ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دہشت گرد قوم نہیں ہے، 2003ء میں ڈرون حملوں کی ابتداء ہوتی ہے، مدرسوں کے چھوٹے چھوٹے بچوں پر میزائل گرائے جانے لگتے ہیں، گھروں کو نشانہ بنایا جانے لگتا ہے، شادی کی تقریبات نشانہ بننے لگتی ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو آدمی اپنی ماں، بہن، بھائی یا کسی عزیز کے لاشوں کی اس طرح پامالی دیکھے گا تو وہ امریکہ کے خلاف ردعمل نہیں کرے گا تو پھر کیا کرے گا۔
دوسری بات یہ کہ یہ دہشت گردی وہ کرتے ہی نہیں ہیں، وہ جو ردعمل کرتے ہیں وہ افغانستان میں امریکہ کے خلاف کرتے ہیں، میں صرف یہ عرض کروں گا کہ پاکستان میں جتنے بھی دھماکے ہوئے ہیں یہ سب پہلے سے طے شدہ ہیں، یہ سب سی آئی اے، را اور موساد مل کے کر رہے ہیں، میں مثال بھی پیش کرتا ہوں، عاشور کے موقع پر کراچی میں بم دھماکہ ہوا، انتظامیہ نے امریکی اشارے پر میڈیا میں بیان دیا کہ یہ خودکش حملہ تھا اور مبینہ حملہ آور کا سر بھی دکھایا گیا، لیکن فوراً ہی ملت جعفریہ کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی کہ جس شخص کو خودکش حملہ آور ثابت کیا جا رہا ہے وہ تو دراصل جلوس میں شریک ایک عزادار اسکاؤٹ تھا، اس کے نتیجے میں انتظامیہ کو دوبارہ بیان جاری کرنا پڑا کہ یہ سائیکل بم تھا، میں سلام پیش کرتا ہوں ملت جعفریہ کے رہنماؤں کو کہ جنہوں نے سازش کو پہچانا، اگر انہوں نے اس وقت ہمت نہ دکھائی ہوتی اور سخت مؤقف اختیار نہ کیا ہوتا تو کراچی سمیت پاکستان بھر میں شیعہ سنی فسادات کا اندیشہ تھا، تحقیقاتی اداروں نے عاشور دھماکہ کی رپورٹ وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کی تھی اور وزیراعلیٰ کا میڈیا پر بیان موجود ہے کہ مجھے رپورٹ مل گئی ہے ہم دو سے تین دن میں اس کو جاری کریں گے، لیکن فوراً ہی امریکی سفیر کراچی آتی ہیں اور اس رپورٹ کا کیا ہوتا ہے یہ خود ایک سوال ہے، لہٰذا دھماکے کرانے والے واضح ہیں اور یہ صرف اس لئے کرائے جا رہے ہیں کہ یہاں شیعہ سنی فسادات ہوں، پھر اسی طرح سے یہاں بریلوی دیوبندی جھگڑا کرانے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی کو شہید کیا گیا، داتا دربار پر دھماکہ ہوا، میں صرف کراچی کی مثال عرض کروں گا، عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر دھماکہ ہوا اور انتظامیہ نے پھر امریکی غلامی کا ثبوت دیتے ہوئے اعلامیہ جاری کیا کہ یہ خودکش دھماکہ ہے، پھر خبر ملی کہ مبینہ حملہ آور کے باپ کو گرفتا ر کر لیا گیا ہے، کچھ روز بعد میڈیا کے ذریعے انکشاف ہوا کہ جس شخص کو مبینہ حملہ آور قرار دیا جا رہا ہے وہ تو زندہ ہے اور پنجاب میں رہتا ہے، تو میں یہاں سوال یہ کرتا ہوں کہ یہ سب جھوٹ کیوں بولے جا رہے ہیں، پیسوں کے لئے کوئی بھی آدمی جان نہیں دیتا ہے، یہ کسی فرقہ میں جائز نہیں ہے، لہٰذا پھر کہوں گا کہ یہ طالبان کی کاروائی نہیں بلکہ یہ سب سی آئی اے، را اور موساد مل کر کر رہے ہیں، تاکہ یہاں فرقہ واریت پھیلے اور پاکستان کو کمزور کیا جا سکے۔
اسلام ٹائمز:ایبٹ آباد کا آپریشن ہو یا مہران بیس کی کاروائی، آپ کیا سمجھتے ہیں ان واقعات کے بعد ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں پر جو اعتراضات کیے جا رہے ہیں، اس میں کس حد تک صداقت ہے کہ ہمارے ہی اداروں کے لوگ ان واقعات میں ملوث ہیں۔؟
اسداللہ بھٹو:دیکھیں حقیقت تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی منظر عام پر آئے گی، اس وقت تو اس پر بہت بڑے پردے پڑے ہوئے ہیں، جسے عام آدمی یا میڈیا کے لئے اٹھانا شاید تھوڑا مشکل کام ہے، جہاں تک بات ایبٹ آپریشن کی تو یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ امریکہ اب تک تو ڈرون حملوں میں سینکڑوں اہم طالبان کمانڈروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کر چکا ہے لیکن اسامہ کے معاملے میں اس کی انٹیلی جنس کہاں چلی گئی تھی کہ ایک شخص جس کو دنیا کا بچہ بچہ جانتا ہے، اس کو نہیں ڈھونڈ پائے، ایبٹ آپریشن کو جو لوگ پاکستان کی انٹیلی جنس کی ناکامی کہتے ہیں تو وہ یہ بات جان لیں کہ اس میں امریکی انٹیلی جنس کی بھی ناکامی ہے، بحث یہ نہیں ہے کہ اسامہ کو پاکستان نے پناہ دی تھی یا امریکی اسے ایبٹ آباد اپنے ساتھ لائے تھے، تاکہ آپریشن کر کے پاکستان کو بدنام کیا جاسکے، بات صرف یہ ہے کہ امریکہ کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ پاکستان کی بین الاقوامی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک نام نہاد آپریشن کر کے ہمارے اداروں کو بدنام کرے، اگر اس میں ہمارے اداروں کے لوگ بھی ملوث ہیں تو ان پر بغاوت کے فوجداری مقدمات قائم ہونے چاہئیں، رہی بات مہران بیس پر حملے کی تو صرف اتنا کہوں گا کہ اس وقت پاکستان میں ہماری فوجی تنصیبات پر حملے بھی امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی مشترکہ کاروائیاں ہیں، کیونکہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی ریاست ہے اسی لئے عالمی استعمار ہماری ایٹمی قوت تو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے، لیکن پاکستان کا بچہ بچہ پاکستان کے دفاع کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔
اسلام ٹائمز:آج سے کچھ عرصہ پہلے دو پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کا کیس ہر شخص کی زبان زد عام تھا، تمام جماعتیں اس معاملہ میں پیش پیش تھیں کہ یہ مسئلہ پاکستان کی عزت و ناموس کا مسئلہ ہے، رہنماؤں کے بیانات آتے تھے کہ اگر اس شخص کو چھوڑا گیا تو ہم نہ جانے کیا کیا کر دیں گے، غرض پاکستانی رہنماؤں نے امریکہ کو واضح جواب دے دیا تھا، لیکن پھر اچانک سعودی عرب اس معاملے میں داخل ہوا اور ایک ہی گھنٹے میں اس کی رہائی کا عمل مکمل ہوا اور وہ رہا ہو کر یہاں سے فرار ہو گیا، لیکن کسی بھی جماعت نے اپنے دئیے گئے بیانات پر عمل نہیں کیا، تو کیا یہ عمل پاکستانی قوم سے دھوکہ نہیں تھا۔؟
اسداللہ بھٹو:دیکھیں اس میں دیت کا مسئلہ پیش آیا تھا جو کہ اسلامی طریقہ تھا اور اس میں جو کچھ بھی ہوا وہ عدالت کے ذریعے ہوا، اگر کسی قاتل کو مقتول کے ورثاء معاف کر دیں، تو اسلامی نقطہ نظر سے کوئی دوسرا اس کا قصاص طلب نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس پر احتجاج کر سکتا ہے، لیکن جہاں تک امریکی دہشت گردی کا تعلق ہے تو آج بھی پاکستان کے عوام امریکہ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی و مذہبی جماعتیں اس لئے بے بس تھیں کہ مقتولین کے ورثاء نے معاف کر دیا تھا، اس میں قوم کو دھوکہ دینے والی کوئی بات نہیں ہے۔
اسلام ٹائمز: لیکن ریمنڈ ڈیوس کا اصل معاملہ تو دیت کا معاملہ تھا ہی نہیں، یہ تو ریاست کا معاملہ تھا، کیونکہ ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں فوج کے حساس ترین مقامات کی جاسوسی میں ملوث تھا، دہشت گرد گروپس کو مالی وسائل فراہم کر رہا تھا، اگر یہ فردی مسئلہ تھا تو دیت کا معاملہ سمجھ میں آتا ہے، لیکن ریاست کے معاملے میں دیت کا تو کوئی عمل دخل نہیں ہے۔؟
اسداللہ بھٹو: اس پر میں کچھ نہیں کہوں گا سوائے اس کے کہ معاملہ جو کچھ بھی ہو اب بھی ہم اس واقعہ کی مذمت کرتے ہیں، ایک مسئلہ جب عدالت کے ذریعے حل ہوا ہے تو اس میں ذمہ داری بھی عدالت عظمیٰ کی تھی کہ اس معاملے پر تحقیقات کرتی، رہی بات امریکہ یا ریمنڈ ڈیوس کی دہشت گردی کی تو ہم آج بھی ان مظالم کو یاد کر کے ان کی مذمت کرتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ میں اسلامی بیداری کی تحریکیں چل رہی ہیں، مصر سے حسنی مبارک فرار کر گیا ہے، تیونس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے جبکہ بحرین، یمن اور لیبیا کی تحریکیں فی الحال ابھی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچیں ہیں، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان تحریکوں کا اصل نتیجہ کیا ہو گا، کیا اسلامی مشرق وسطیٰ کا قیام عمل میں آ رہا ہے۔؟
اسداللہ بھٹو: بات یہ ہے کہ پورے مشرق وسطیٰ میں کسی نہ کسی شکل میں آمریت مسلط ہے، تمام عرب ممالک اس وقت ایک آمرانہ نظام میں گھرے ہوئے ہیں، لوگوں نے اس حصار کو توڑنے کے لئے ایک کوشش کی ہے، جو قابل قدر ہے، جس کو ہم تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور پوری امت مسلمہ ان کی حمایت کرتی ہے، امام خمینی نے کہا تھا اور بالکل صحیح کہا کہ مستقبل میں اسلامی مشرق وسطیٰ ابھرے گا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ ابھر رہا ہے، لیکن اس میں جو افسوسناک پہلو ہے وہ یہ ہے امریکہ نے اس ساری صورتحال سے فائدہ اٹھا کے اپنے مفادات کے حصول کے لئے مداخلت شروع  کر دی ہے، مثلاً مصر میں اسلامی حکومت کے قیام میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے، تاکہ اسرائیل کی سلامتی کو کوئی آنچ نہ آئے، اسی طرح بحرین، یمن اور دیگر علاقوں میں اپنے اڈوں کے تحفظ کی کوششیں کر رہا ہے، لیکن اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ جس طرح سے اس نے براہ راست لیبیا میں بمباری کی ہے، یہ ایک عالمی جرم ہے، لیبیا پر بمباری کا مقصد وہاں موجود تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے، یہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے ایک خودمختار ملک کے اندرونی معاملات میں امریکہ مداخلت کر رہا ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکہ لیبیا میں اپنی مداخلت ختم کرے۔
اسلام ٹائمز:لیبیا میں امریکی مداخلت کی آپ نے مذمت کی ،لیکن ایک عوامی اور اسلامی تحریک کو کچلنے کے لئے جو مداخلت بحرین میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کر رہے ہیں، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
اسداللہ بھٹو: ہم کسی بھی ملک کے معاملات میں بیرونی مداخلت کو اچھا نہیں سمجھتے، خواہ بحرین میں سعودی مداخلت ہو یا لیبیا میں امریکی مداخلت، یہ دونوں قابل مذمت ہیں، لیکن بحرین کے معاملے میں بعض لوگ سعودی عرب کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، اس میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اس سے فرقہ واریت پھیل رہی ہے، جبکہ بحرین کی تحریک فرقہ وارانہ نہیں ایک اسلامی تحریک ہے، امام خمینی نے وحدت امت کی بات کی ہے، میں سمجھتا ہوں بحرین میں اگر کسی بھی سطح کا کوئی معاملہ ہوا بھی ہے تو اس کو امریکہ کی طرح نہیں دیکھنا چاہئے، میں بحرین میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی مداخلت کی حمایت تو نہیں کرتا لیکن اس بات پر ضرور پریشان ہوں کہ اس سے ملت اسلامیہ کی وحدت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
اسلام ٹائمز:مشرق وسطیٰ کی تحریکوں میں اگر شام کی تحریک پر نظر ڈالیں تو شامی حکومت امریکہ و اسرائیل مخالف بلاک کا حصہ ہے، یہ وہ حکومت ہے جو حماس، حزب اللہ اور فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی طرفدار حکومت ہے، ایسی حکومت کے خلاف مظاہرے آپ کی نظر میں کیا حیثیت رکھتے ہیں۔؟
اسداللہ بھٹو: شام میں دونوں طرح کی تحریکیں وجود رکھتی ہیں، امریکہ و اسرائیل کی حمایتی تحریک بھی ہے اور ان کی مخالفت میں ایک تحریک وجود رکھتی ہے، جو شام کی حکومت کی حامی تحریک ہے، شام میں جو پارٹیاں یا جو رہنما اسرائیل سے تعلقات کی بات کر رہے ہیں وہ در حقیقت نہ صرف شام اور اسلام کے دشمن ہیں بلکہ القدس کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، ہم ان کی مذمت کرتے ہیں، لیکن اس میں شامی صدربشار الاسد کو بھی سوچنا چاہیئے کہ چاہے معاملہ کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو عوام کے اس طرح قتل عام کی حمایت کوئی ذی شعور انسان نہیں کرے گا، میں سمجھتا ہوں کہ شامی حکومت کے اگر کچھ اقدام اچھے ہیں تو بہت سے اقدام برے بھی ہیں، لہٰذا ہمیں سوچنا ہو گا کہ کون دین سے مخلص ہے اور کون دین کو نقصان پہنچا رہا ہے، بشارالاسد کے اسلامی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ تعاون کو ہم اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن پھر بھی امید کرتے ہیں کہ شام میں آمرانہ نظام کے بجائے جمہوری نظام قائم ہو، تاکہ عوام کو اپنی رائے سے حکومت قائم کرنے کا موقع فراہم ہو سکے۔
اسلام ٹائمز:عالمی صورتحال ہم سب کے سامنے ہے، عالمی استعمار ملت اسلامیہ کو مزید نفاق کی طرف دھکیل رہا ہے، آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے کہ پاکستان میں رہتے ہوئے ہم کس طرح ان تمام سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے وحدت قائم رکھ سکتے ہیں۔؟
اسداللہ بھٹو: ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنے اصل دشمن کو پہچانیں، اور ہمارا دشمن امریکہ، اسرائیل اور ان کی حواری طاقتیں ہیں، جو پاکستان میں مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں کرنا چاہتی ہیں، حکمرانوں کی غلط پالیسیاں اپنی جگہ لیکن امت ایک سوچ رکھتی ہے، جو اتحاد اور وحدت کی سوچ ہے، اسلام کے فروغ کی سوچ ہے، دنیا میں اسلامی نظام کے نفاذ کی سوچ ہے، القدس کی آزادی کی سوچ ہے، ظالموں سے نجات کی سوچ ہے، استعمار کی تباہی کی سوچ ہے، اس سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دنیا بھر کی اسلامی قوتوں کو آپس میں مربوط ہو کر مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی، یہی امام خمینی کا پیغام ہے، یہی سید مودودی کا پیغام ہے، یہی امام حسن البناء کا پیغام ہے اور یہی عصر حاضر کی اسلامی انقلابی تحریکوں کا پیغام ہے، انشاء اللہ اس دنیا پر قائم ظلمتوں کی زنجیریں ٹوٹیں گی اور بہت جلد اس دنیا پر پرچم اسلام سربلند ہو گا۔ انشاءاللہ 
خبر کا کوڈ : 78340
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش