0
Friday 15 Mar 2019 19:56
اگر ہم اب بھی متحد نہیں ہوتے تو ہمارا وجود خطرے میں ہے

کشمیر پر بھارت کے جبری قبضہ سے لوگ مختلف ذہنی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں، مفتی نذیر احمد

مسلمانوں کو چاہیئے کہ ایک دوسرے سے آگاہ رہیں
کشمیر پر بھارت کے جبری قبضہ سے لوگ مختلف ذہنی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں، مفتی نذیر احمد
مولانا نذیر احمد صوفی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شمالی ضلع بارہمولہ سے ہے، وہ اپنے والد مرحوم غلام محمد صوفی کے زیر سایہ پروان چڑھے، جو عرفان کی بلند منزلوں پر فائز تھے، مولانا نذیر احمد صوفی پچھلے 28 سال سے مقبوضہ کشمیر کے اطراف و اکناف میں اپنی دینی و تبلیغی ذمہ داریاں جاری رکھے ہوئے ہیں، وہ کشمیر یونیورسٹی سے "بی ایس سی"، "بی ایڈ" کے علاوہ "مولوی فاضل" سے فارغ التحصیل ہیں، اہم سرگرمیوں کے باوجود وہ کسی تنطیم یا جماعت سے وابستہ نہ رہے اور نہ خود کوئی پارٹی وجود میں لائے، کیونکہ انکا خیال ہے کہ ہم مسلمان پیغمبر اسلام (ص) کے امتی ہیں اور قرآن ہمارا دستور و آئین ہے، یہی ہماری جماعت ہے اور مسلمانوں کے قائد و رہبر پیغمبر اسلام (ص) ہیں، ہمیں کسی خود ساختہ جماعت کی ضرورت کیا، فعلاً مولانا نذیر احمد صوفی سوپور کی حنفیہ جامع مسجد میں امام جمعہ کے فرائض انجام دے رہے ہیں، انکی سرپرستی میں 18 سال سے مقامی گاؤں میں دارالعلوم رحمۃ للعالمین اور مدرسہ غوثیہ فعال ہے، مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں جن میں سرینگر، بڈگام، ماگام، مکہامہ، چاڑورہ، کانیہامہ، حیدربیگ، ہمہامہ اور گاندربل قابل ذکر ہیں، میں انہوں نے تبلیغی ذمہ داریاں اور امام جمعہ کے فرائض انجام دیئے، اسلام ٹائمز نے مولانا نذیر احمد صوفی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: دور حاضر میں کشمیری مسلمانوں کو کن مسائل کا سامنا ہے۔؟
مفتی نذیر احمد صوفی:
جہاں تک کشمیر کے مسلمانوں کا تعلق ہے تو یہاں کے مسلمان متعدد مسائل سے دوچار ہیں، معاشی لحاظ سے یہاں کے لوگ آسودہ حال نہیں ہیں، معاشیات صحیح نہیں ہے، دوسرے ہماری نوجوان نسل فحاشی اور بے راہ روی کی جانب بڑھ رہی ہے، اگر مذہبی معاملات کی بات کریں تو لوگ آہستہ آہستہ مذہب سے دوری اختیار کر رہے ہیں، لوگ اپنے بچوں کو ماڈرن تعلیم دے رہے اور دینی تعلیم سے دوری اختیار کر رہے ہیں، لوگ جتنی توجہ ماڈرن تعلیم پر دے رہے ہیں اور جتنا سرمایہ اس پر خرچ کر رہے ہیں، اگر اس کا چھوٹا سا حصہ بھی دینی و اخلاقی تعلیم پر صرف کرتے تو شاید آج ہمارے معاشرے کی یہ حالت نہیں ہوتی، بھارت کا جبری قبضہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے، جس سے لوگ مختلف ذہنی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں۔ اب اگر سماجی و مذہبی مسائل کے حل کی بات کریں تو اس میں تبلیغ سے بات بن سکتی ہے، لیکن تبلیغ ویسی ہونی چاہیئے جیسے حضور اکرم (ص) نے مکی دور میں کی تھی، کیونکہ آج کا جو دور ہے، وہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا مکی دور تھا۔

اسلام ٹائمز: بھارت و پاکستان کے درمیان مذاکرات کی بات تو کی جاتی ہے، لیکن مذاکرات میں کشمیریوں کی شمولیت کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
مفتی نذیر احمد صوفی:
 امت اسلامی کشمیر کا ہمیشہ یہ ماننا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت اور پاکستان کا آپسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک سہ فریقی مسئلہ ہے، یعنی بھارت پاکستان اور کشمیر، جب بھی اس مسئلہ کا کوئی حل نکالا جاتا ہے تو اس میں کشمیریوں کی شمولیت لازمی ہے، کیونکہ کشمیریوں کی شمولیت کے بغیر کوئی بھی حل پائیدار اور دیرپا ثابت نہیں ہوگا، ہم کشمیر کی مکمل آزادی اور ایک الگ پہچان کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر میں آر ایس ایس و بھاجپا نے یہاں کی عوام کیخلاف محاذ کھول رکھا ہے، اس پر آپ کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
مفتی نذیر احمد صوفی:
 جہاں تک آر ایس ایس کی بات ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آر ایس ایس نے پورے بھارت میں ایک خوف کا ماحول بنا رکھا ہے، جس سے مسلمان خوف زدہ ہوگئے ہیں، کشمیر سے زیادہ یہ صورتحال بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے لئے تشویشناک ہے، بھارت کے مسلمانوں کو سوچنا ہوگا کہ اگر انہوں نے آپسی اتحاد سے کام نہ لیا تو اور بی جے پی و آر ایس ایس کی پالیسیوں کا توڑ نہ کیا تو گجرات جیسے واقعات مزید دہرائے جاسکتے ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم متحد اور باطل کے خلاف صف آراء ہو جائیں اور ان کا مقابلہ کریں۔

اسلام ٹائمز: پہلے جاننا چاہیں گے کہ کشمیر میں اتحاد اسلامی کے حوالے سے کیا صورتحال ہے۔؟
مفتی نذیر احمد صوفی:
 کشمیر کی سرزمین مقدس سرزمین ہے، یہ اولیاء خدا اور صوفیاء کرام کی سرزمین ہے، یہاں اتحاد اسلامی کے مواقع بہت زیادہ ہیں۔ میر سید علی شاہ ہمدانی (رہ) اپنے ساتھیوں سمیت، یعنی 750 سادات کے ہمراہ کشمیر وارد ہوئے تھے، یہاں اسلام کی کرن نہیں پہنچی تھی، آپ اور آپ کے ساتھوں کی مسلسل زحمتوں اور تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں اسلام پھیلا اور یہاں تمام مسلمان ہوگئے، میر سید علی شاہ ہمدانی (رہ) نے یہاں تین دورے کئے اور کشمیر کو اتحاد اسلامی کا مرکز و محور بنایا۔ انہوں نے ہر حال میں مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کا لحاظ رکھا اور مسلمانان کشمیر کی سربلندی اور ترقی و کامرانی کے لئے اقدام کئے، غرض یہ کہ کشمیر کے مسلمانوں کی بنیاد ہی وحدت اور اتحاد پر ہے، کشمیر اتحاد اسلامی کا گہوارہ رہا ہے، یہاں اب بھی اتحاد اسلامی کے لئے زمین ہموار ہے۔ انتشار یہاں کی سرزمین سے کوسوں دور ہے، اب افسوس ہے کہ نام نہاد و آلہ کار مولویوں اور مفتیوں نے عوام کے دلوں میں اولیاء کرام اور صوفیاء کرام کی نفرت پیدا کی ہے، جن کے بدولت ہم کلمہ گو ہوئے ہیں۔ یہ نام نہاد مفتیان ہی شیعہ و سنی تفریق کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ شیعہ سنی تفریق جسکا آپ نے ذکر کیا، ہر جگہ عالم اسلام میں سر چڑھ کر بولنے لگی ہے، اس پر آپکا تجزیہ جاننا چاہیں گے۔؟
مفتی نذیر احمد صوفی:
 یہ شیعہ، سنی، حنفی، شافعی فرقے ہماری ایجاد ہیں، یہ ہمارے مفادات کی دین ہیں، ان فرقوں کے ساتھ ہمارے ذاتی مقاصد وابستہ ہیں، اپنی ایک الگ پہچان قائم کرنے کے لئے یہ فرقے ہم نے جنم دیئے ہیں، مسلمانوں کے بڑے دشمن یہود و نصارٰی ہیں اور وہ ہمیں تقسیم در تقسیم کرنا چاہتے ہیں، وہ ہر آئے دن ایک نیا فرقہ مسلمانوں کے درمیان ایجاد کرنا چاہتے ہیں، وہ ہمیں ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ہماری پہچان، ہماری منزلت کا خاتمہ چاہتے ہیں، آیت اللہ خمینی مسلمانوں کے پہلے رہنما تھے، جنہوں نے مسلمانوں کو یکجا اور متحد ہونے پر اتنا زور دیا، آیت اللہ خمینی ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن انکے افکار سے ہماری تقدیر سنور سکتی ہے، ہمیں آیت اللہ خمینی (رہ) کے افکار کو تمام مسلمانوں تک پہنچانے چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: اگر مسلمان وحدت و باہمی ہم آہنگی  کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں تو کیا حالات ہوسکتے ہیں۔؟
مفتی نذیر احمد صوفی:
 دنیا کے حالات کو دیکھ کر کہنا چاہوں گا کہ یہ آخری موقع ہے کہ اگر ہم اب بھی متحد نہیں ہوتے ہیں تو ہمارا وجود خطرے میں ہے، ہمیں بڑی تباہی سے پھر کوئی نہیں بچا سکتا۔ تفرقہ ہی سبب ہوگا کہ مسلمانوں کا دنیا سے خاتمہ ہوگا، میں تمام علماء کرام سے اپیل کرنا چاہوں گا کہ وہ اپنے اجتماعات میں پیغام رسول اللہ (ص) کو لوگوں تک پہنچائیں اور پیغام رسول نازنین (ص) یہی ہے کہ مسلمان چاہے دنیا کے کسی بھی کونے سے تعلق رکھتے ہوں، ایک دوسرے سے آگاہ رہیں، ایک دوسرے کے حالات سے باخبر رہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک رہیں، غفلت ہرگز نہ برتیں، اتحاد اسلامی کے پیغام کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، اپنے ذاتی فرقوں کے تحفظ کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ کے حوالے سے آگے آنا ہوگا۔ کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے پرچم کی سربلندی کے لئے سب مسلمانوں کو متحد ہونا ہوگا۔ تاریخ نازک ترین موڑ سے گذر رہی ہے، ہمیں آگاہ اور متحد رہنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 783480
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش