0
Saturday 16 Mar 2019 15:40
موجودہ حکومت کے اختتام کا آغاز ہوچکا ہے

کالعدم تنظیموں کی سیاسی سرگرمیاں بھارت کیخلاف ہمارے بیانیے کو کمزور بناتی ہیں، سردار ایاز صادق

کالعدم تنظیموں کی سیاسی سرگرمیاں بھارت کیخلاف ہمارے بیانیے کو کمزور بناتی ہیں، سردار ایاز صادق
سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق 1954ء میں پیدا ہوئے، ایچی سن کالج اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی، 1990ء میں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے، 1998ء میں عمران خان سے دیرینہ دوستی اور انکی جماعت کو خیرآباد کہا اور 2001ء پاکستان مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی۔ 2002ء میں عمران خان کو شکست دیکر لاہور سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، 2008ء، 2013ء اور 2018ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنماء کیساتھ موجودہ سیاسی صورتحال، حکومتی ایوانوں میں آنیوالے اتار چڑھاؤ اور پارٹی لیڈرشپ کی اسیری کے دوران جماعت کے لائحہ عمل سے متعلق اسلام ٹائمز کا انکے ساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم ہر صورت میں پنجاب کے کپتان کی پشت پہ کھڑے ہیں، اتحادیوں کی ناراضگی کے باوجود صوبائی حکومت میں کوئی دراڑ نہیں پڑی، کیا کہیں گے۔؟
سردار ایاز صادق:
اگر حکومت کی اتحادی جماعتیں تحفظات نہیں رکھتیں تو ان سے وزیراعظم بار بار مل کیوں رہے ہیں، پنجاب حکومت کی اصل پوزیشن تو اب زیادہ کھل کر سامنے آگئی ہے، عمران خان نے جن پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا، وہ تو نہیں مل سکے، لیکن کپتان کے وسیم اکرم کو گھر نصیب ہوگیا ہے، اب اس پہ بھی یوٹرن لیے جا رہے ہیں۔ حکومت مکمل طور پر شکست و ریخت کا شکار ہوچکی ہے، پنجاب حکومت کا چلنا بہت مشکل ہے، بہت جلد سڑکوں پہ آئیں گے۔ وفاقی وزیر یہ کہہ رہے کہ ابھی تو لوگ مہنگائی کی وجہ سے چیخیں گے، انہیں استغفار کرنا چاہیئے، اگر لوگوں کو ریلیف نہیں دے سکتے تو کم از کم انہیں خوفزدہ تو نہ کریں، ان کی پالیسیوں کی وجہ سے قحط اور جنگ کی صورتحال سے بھی زیادہ حالات خراب ہوسکتے ہیں۔

لوگ معاشی بدحالی اور مہنگائی کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور وزیراعظم کا خاص وزیراعلیٰ اپنا گھر ڈھونڈ رہا ہے، اب اگر عمران خان یہ کہیں کہ انہیں تو عثمان بزدار کے اقدامات کا پتہ ہی نہیں تو اس سے بڑی نااہلی کیا ہوسکتی ہے کہ انکا سب سے بڑا کھلاڑی صوبے میں ایسے اقدامات کر رہا ہے، انہیں معلوم ہی نہیں۔ اسکا جواب عمران خان کو دینا چاہیئے کہ جو کچھ وہ کہتے رہے کہ فلاں فلاں ملک کے وزراء اور حکمران موٹر سائیکل پہ جاتے ہیں، چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں، لیکن انکا وزیراعلیٰ تاحیات گھر مانگ رہا ہے، ویسے بھی موجودہ حکومت اور وزراء کا جو انداز ہے، اس میں احساس سے زیادہ رعونت اور تکبر جھلک رہا ہے، نااہلی تو ہے ہی، انہیں نہ صرف ٹریننگ کی ضرورت ہے، بلکہ ان کی نیتیں بھی کھل کر سامنے آرہی ہیں۔

ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، الیکشن مہم کے دوران ناصر درانی کا نام لیا گیا، وہ چھوڑ کر چلے گئے، پنجاب اور وفاق میں کوئی عوامی اسکیم شروع نہیں ہوئی، معیشت کمزور ہوئی ہے، ہر ماہ وزیراعظم کو پنجاب کی کابینہ کا اجلاس چلانا پڑتا ہے، لوکل باڈیز ایکٹ ابھی تک نہیں آیا، لاہور میں 46 فیصد جرائم میں اضافہ ہوا ہے، روز فارورڈ بلاک کی خبریں آرہی ہیں۔ پنجاب میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں، گورنر الگ، وزیراعلیٰ الگ، صوبائی اسمبلی اسپیکر الگ الگ دکان چلا رہے ہیں، اسے کیسے حکمرانی اور گورننس کیسے کہہ سکتے ہیں۔ حکومت کی خاتمے کی ابتداء انہی چیزوں سے ہوتی ہے، جو ہوچکی ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کیخلاف احتجاجی تحریک میں صرف نواز شریف کی اجازت ہی رکاوٹ کیوں۔؟
سردار ایاز صادق:
نواز زرداری ملاقات کے بعد حکومتی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے اور وزراء پریشانی کا شکار ہیں۔ نون لیگ کو بوسٹ ملا ہے، کارکن سرگرم ہو رہے ہیں، 23 مارچ کیلئے جو مہم چلائی گئی ہے، اسکا بہترین رسپانس ہے، جب کال دی جائیگی تو سب کو دکھائی دیگا کہ لیگی کارکن کس طرح اپنی قیادت کی کال پر میدان میں آتے ہیں۔ کسی کو کوئی بھول ہے تو وہ دور ہو جائیگی۔

اسلام ٹائمز: حکومت کیخلاف پیپلز پارٹی کی اپوزیشن فرنٹ فٹ پر اور نون لیگ بیک فٹ پر کیوں ہے۔؟
سردار ایاز صادق:
ایک حقیقت تو سب کے سامنے ہے کہ لیگی کارکن اور ووٹرز یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ نون لیگ کو نواز شریف کے نام پر ووٹ ملا، لیکن اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاستدان انکی بیماری پر وہ آواز نہیں اٹھا رہے، جو کارکنوں کے دلوں کی صدا ثابت ہو۔ نواز شریف جیل میں ہیں، وہ پارٹی کے قائد بھی ہیں، فیصلہ ممکن ہے وہ کرچکے ہوں لیکن عملی طور پر احتجاج جس طرح سے منظم ہوتے ہیں، انہیں لیڈ کرنیوالوں کی کمی ہے، لیکن پنجاب میں اتنی افرادی قوت موجود ہے نون لیگ کے پاس کہ اگر کال دی جائے تو حکومت کو ہلا کر رکھ دینگے۔

اسلام ٹائمز: بلاول بھٹو زرادری نے موجودہ حکومت پر کالعدم تنظیموں کی سپورٹ کا الزام لگایا ہے، اپوزیشن انکی تائید کر رہی ہے، کیا اسکا کوئی ثبوت ہے، حالانکہ الیکشن میں مدد تو ہر سیاسی جماعت نے حاصل کی تھی۔؟
سردار ایاز صادق:
بلاول بھٹو زرادری نے بہت ساری باتیں کی ہیں، جو قابل تعریف ہیں، صرف کالعدم تنظیموں کے متعلق بات نہیں کی، انہوں بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہوئے آزادی اظہار پہ لگائے قدغن جیسے مسائل بھی اٹھائے ہیں، سیاسی انتقام کا جو دور چل رہا ہے، اس سے بھی پردہ اٹھایا ہے، جس طرح سیاسی قیادت کو کارنر کیا جا رہا ہے، اسے بھی واضح کیا ہے، بے بنیاد الزامات لگا کر جو ناانصافی کی جا رہی ہے، اس کا پول بھی کھولا ہے، انہوں سوالات نہیں اٹھائے، حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ وہ حق بجانب ہیں، حکومت خود بتا دے کہ نیشنل ایکشن پلان کے سترہ نکات میں سے انہوں نے کن نکات پر عملی اقدامات کیے ہیں۔ جب ان کی حکومت صرف کے پی کے میں تھی، جب بھی انہوں نے سیاسی مفادات کیلئے ایسے مدارس کو کروڑوں روپے دیا۔

جن کے متعلق یہ تحفظات تھے کہ وہاں شدت پسندوں کے تعلقات ہیں، خان صاحب تو ٹی ٹی پی کو پاکستان میں دفاتر کی اجازت دینے کی بات کرتے رہے، وہ انکی ہمنوا جماعتوں کیخلاف ایکشن کیسے لے سکتے ہیں۔ جو باتیں انہوں نے کی ہیں، اگر موجودہ حالات کو سامنے رکھیں تو بہت ساری باتوں میں حقیقت ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، یہ بات میاں نواز شریف بھی کرچکے ہیں، یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں کہ کسی سیاستدان نے آواز اٹھائی ہو، جب وقت آئیگا تو حقائق اور بھی سامنے آئیں گے، ثبوت تو ان چیزوں کے پاکستان کی گلی گلی میں مل جاتے ہیں، کالعدم تنظیموں اور شدت پسند عناصر کو سیاستدانوں کیخلاف استعمال کیا جاتا ہے، نہ کہ سیاستدانوں نے ان سے مدد حاصل کی ہے، جن عناصر کا ان پر کنٹرول ہے، وہ سیاستدانوں کو کمزور کرنے کیلئے انہیں آگے لاتے ہیں، یہی کچھ عمران خان کو اقتدار میں لانے کیلئے کیا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: سیاستدان ہمیشہ اسوقت کیوں ان تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، جب انکی حکومت کو خطرہ ہو، یا وہ مقدمات کا سامنا کر رہے ہوں، کیا یہ دباؤ ڈالنے کیلئے نہیں ہے۔؟
سردار ایاز صادق:
یہ چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ فقط سیاسی بارگیننگ کیلئے ان ایشوز کو اٹھایا جاتا ہے، سوائے موجودہ حکمرانوں کے باقی تمام لیڈروں کے بیانات موجود ہیں کہ انہون نے ہمیشہ شدت پسند تنظیموں کے متعلق اپنی ایسی ہی رائے کا اظہار کیا ہے، بے نظیر بھٹو شہید ہوں یا میاں نواز شریف، سب نے اپنے دور اقتدار میں بھی اور اگر اپوزیشن میں بھی رہے ہیں تو کالعدم تنظیموں کی حمایت کبھی نہیں کی، بلکہ خارجہ پالیسی کے امور میں بھی انہیں مشکلات کا سامنا رہا ہے، لیگی دور حکومت میں سب سے زیادہ آپریشنز کیے گئے ہیں، قتل و غارت کو روکا گیا ہے۔ اسکا ایک پہلو یہ ہے کہ صرف سیاستدانوں نے ہی عوام اور میڈیا کے سامنے بات کرنا ہوتی ہے، باقی کسی ادارے کو تو اس طرح سوالوں کا سامنا کرنا نہیں ہوتا۔ جس وجہ سے محسوس یہ کیا جاتا ہے کہ سیاسی سطح پہ کوئی کمزوری پائی جاتی ہے، باقی معاملات کو انتظامی قرار دیکر ان سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔

آج سے کوئی بیس اکیس سال پہلے جب نون لیگ کی حکومت تھی، مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنیکی کوشش کی گئی، کارگل وار ہوگئی، اسی طرح گذشتہ دور میں جب ان شدت پسند تنظیموں کے متعلق سخت فیصلوں کی بات کی گئی تو ڈان لیکس آگئے، اسوقت تو ہم کسی سے کوئی بارگینگ نہیں کر رہے تھے، مسئلہ کشمیر پہ بھارتی مظالم کو بتانے کیلئے دنیا میں وفود بھیج رہے تھے، وہ پارلیمانی وفود جو فیڈ بیک لا رہے تھے، اس کے مطابق پالیسیوں میں تبدیلی کی مخلصانہ کوشش کر رہے تھے اور پانامہ لیکس کو بنیاد بنا کر منتخب وزیراعظم کو اقامہ کا بہانہ بنا کر نااہل کر دیا گیا۔ کالعدم تنظیمیں نہ صرف اندرونی طور پر تنگ نظری کے فروغ کا موجب ہیں بلکہ عالمی طور پر پاکستان کی رسوائی کا سبب بھی ہیں اور اب تو ان کی وجہ سے خطہ جنگ کے دہانے پر ہے۔

اسلام ٹائمز: ان حالات میں جب عالمی دباؤ کیوجہ سے کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانیکی پالیسی کا اعلان ہوا ہے، اپوزیشن کو بھارتی بیانیے کی ہمنوائی کی بجائے، ان اقدامات کی تائید نہیں کرنی چاہیئے۔؟
سردار ایاز صادق:
اس پہ بہت دلائل ہیں کہ کالعدم تںظیموں کی موجودگی ہی دراصل ہمارے بیانیے کو کمزور بناتی ہے، بھارت کے بیانیے کو تقویت تب ملتی ہے، جب دنیا یہ محسوس کرتی ہے کہ ہمارے اقدامات دکھاوے کے ہیں، وہ نام بدل کر کام کر رہے ہیں، الیکشن لڑ رہے ہیں، لوگوں کو بھرتی کر رہے ہیں، دنیا کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو بھیج رہے ہیں، دہشت گردوں کو پناہیں دے رہے ہیں، سوشل میڈیا پہ جہادی نعرے چلا رہے ہیں، دہشت گردی کی کارروائیوں کو own کر رہے ہیں، جلسے کر رہے ہوں، ان کے اخبارات نکل رہے ہوں، جو سیاستدان، سیاسی ورکر یا صحافی ان سرگرمیوں کو خلاف مصلحت کہہ رہا ہو، اسے ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہو۔ یہ بتائیں جب قومی انتخابات میں ملی مسلم لیگ بنائی گئی، کس کو پتہ نہیں تھا کہ یہ لوگ کون ہیں، وہ تو براہ راست قومی سیاسی جماعتوں کیخلاف ایجنڈے کا حصہ تھا، اس میں تو بھارتی یا ملک دشمن ایجنڈے کا عمل دخل نہیں تھا۔

بھارتی بیانیہ تب مضبوط ہوتا ہے، جب موجودہ وزیر خارجہ جیش محمد کے سربراہ کے متعلق معنی خیز انداز میں کہہ رہے کہ وہ تو بیمار ہیں، اپنے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے، یہ تضادات دنیا کو موقع دیتے ہیں اور ہمارا بیانیہ کمزور ہوتا ہے۔ ہمیں جہادی ترانے اپنی فوج کیلئے چلانا ہونگے، ہمارے معاشرے میں بھی اسکی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ادھر آپ کالعدم تنظیموں کیخلاف اقدامات کا اعلان کر رہے ہیں، دوسری طرف وفاقی وزراء اعتراضات کے جواب میں جہادی مدارس کو اثاثہ قرار دے رہے ہیں۔ اگر ہم نیوزی لینڈ جیسے واقعات کی مذمت کر رہے ہیں تو شیخ رشید جیسے لوگوں سے بعید نہیں کہ ان واقعات کی تائید کر دیں۔ یہ وہی لاگ ہیں، جو کالعدم تنظیموں کے جلسوں جلوسوں میں جاتے ہیں، کالعدم تنظیمیں جب الیکشن مہم چلاتی ہیں تو پاکستان کا بیانیہ کمزور ہوتا ہے، اسے قومی دھارے میں شامل کرنا یا ان عناصر کو مزید مضبوط کرنا اور انکا دفاع کرنا۔        
خبر کا کوڈ : 783637
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش