0
Sunday 17 Mar 2019 00:25
عوام کیساتھ کئے گئے وعدے ان شاء اللہ پورے کئے جائینگے

بھارتی لابی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے، فرخ حبیب

ڈان لیکس کے ذریعے دنیا کو جو پیغام دیا گیا، اسے دہرانا درست نہیں
بھارتی لابی نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے، فرخ حبیب
وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے ریلوے اور مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل فرخ حبیب 1987ء میں پیدا ہوئے۔ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پہ 2018ء میں فیصل آباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مختلف ایشوز پہ پارٹی موقف مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے متعلق قومی دھارے میں لانیکی حکومتی پالیسی کے اعلان، اپوزیشن کی تنقید، وفاقی وزراء کے باہمی اختلافات سمیت اہم ایشوز پر پاکستان تحریک انصاف کے جواں سال رہنماء کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: جمہوریت کی بقاء اور استحکام کیلئے ایک نئے میثاق پہ بڑی سیاسی جماعتوں کیساتھ پی ٹی آئی کو قدم آگے بڑھانا چاہیئے، ایسی کسی مفاہمت میں کیا حرج ہے۔؟
فرخ حبیب:
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں بلکہ یہ ہمارا یقین ہے کہ پاکستان میں جمہوریت نے پھلنا پھولنا ہے اور ملک کو آگے لیکر بڑھنا ہے، باقی رہی یہ بات کہ اس میثاق جمہوریت کی جو سزا یافتہ اور مقدمات سے بچنے کیلئے نام نہاد سیاسی رہنماؤں کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے، ہمارا ماننا یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے یہ نعرے لگاتے ہیں، چاہیے میثاق جمہوریت کی بات ہو یا این آر او کی۔ مفاہمت اور جمہوریت کے استحکام کا یہ مطلب نہیں کہ کچھ سیاست میں آئیں اور جرم سے ااستشنیٰ حاصل کر لیں، کوئی انہیں گرفت میں نہ لے، وہ جیسے چاہیں قانون توڑیں، قانون شکنی کریں، لیکن وہ جمہوریت کا راگ الاپتے رہیں، لوگ سنتے رہیں، اب یہ لوری نہیں چلنے والی۔ پہلے جو چارٹر ہوا، وہ بھی کوئی پوری قوم کیلئے نہیں تھا، دو جماعتوں کے درمیان ہوا تھا، اسی میثاق کے تحت انہوں نے اور بھی کام کرنے تھے، نیب کے جن قوانین کو یہ کالے قوانین کہہ رہے ہیں، ان میں اصلاحات لانی تھیں، لیکن انہوں نے ایسا کوئی بھی بنیادی کام نہیں کیا، صرف اپنے مقدمات سے جان چھڑا لی۔

اس سے کیا ثابت ہوتا ہے، یہ اب ہمیں بھی اس کا حصہ بنانا چاہتے ہیں، ہمارا ویژن اور مشن ہی انکے اس اتحاد کو توڑنا ہے، جو انہوں نے پاکستانی عوام کو دھوکہ دینے کیلئے بنایا ہوا ہے، اب لوگ بھی یہ باتیں سمجھ چکے ہین، اسی لیے تو مجھے کیوں نکالا سے لیکر اٹھارویں ترمیم کے خاتمے کے نعروں تک کسی نے کان نہیں دھرے، اب یہ ان نعروں سے نہ لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں، نہ حکومت کو بلیک میل کرسکتے ہیں۔ پہلے بھی انہوں نے چونکہ نظریات کی بجائے مفادات کی بنیاد پہ معاہدہ کیا تھا، اس لیے بعد میں ایک دوسرے کو لتاڑتے رہے، کسی نے لاہور کی سڑکوں پہ گھسیٹنے کی بات کی اور کسی نے کہا معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے، میرے خیال میں انہوں نے ایکدوسرے کو بھی زبردست دھوکے دیئے ہیں، اعتزاز احسن بھی اسکا اقرار کرچکے ہیں، وہ کم از کم بات تو کر رہے ہیں۔ سمجھنے والوں کیلئے اس میں بڑا پیغام ہے۔ اگر ان کے ذہن میں یہ ہے کہ لوگ یہ سب باتیں بھول گئے ہیں تو خود انکے رہنماء ہی یاد دلا رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کی صحت خطرناک حد تک بگڑ چکی ہے، انکا موقف ہے کہ اگر انہیں ضمانت پر رہا کر دیا جائے تو یہ سارا معاملہ ہی ختم ہو جائے، حکومت جان بوجھ کر معاملہ لٹکا رہی ہے۔؟
فرخ حبیب:
یہ حکومت کی دسترس میں نہیں، عدالت نے انہیں سزا دی ہے، وہ جوڈیشیل کسٹڈی میں ہیں، وہ انہیں رہا کرسکتے ہیں، ہماری ذمہ داری انہیں علاج کی سہولت فراہم کرنا ہے، جسکی ہم پیشکش کر رہے ہیں، کسی کو بھی سزا ہوتی ہے تو انہوں نے اس کیس میں عدالت سے ہی رجوع کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا بھی ہے، جہاں سے میڈیکل بنیادوں پہ انکی ضمانت کی استدعا مسترد ہوئی ہے۔ اس میں باقاعدہ طور پر یہ لکھا بھی گیا کہ میاں صاحب کو جو بیماری لاحق ہے، اسکا علاج یہاں موجود ہے، اب وہ سپریم کورٹ میں گئے ہیں۔ حکومت نے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی، یہ انکا قانونی حق ہے، وہ استعمال کر رہے ہیں، ہماری حکومت نے پہلے بھی انکے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنایا، یہ مقدمات بھی پہلے کے بنے ہوئے ہیں، پہلے وہ اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے تھے، جب سے ہماری حکومت آئی ہے۔

اب وہ حکومت کیخلاف یہی لزامات دہرا رہے ہیں، یہیں سے ان الزامات کی صداقت کا اندازہ ہو جاتا ہے، یہ خود صحت اور سیاست کو ملا رہے ہیں، اپنی صحت پہ سیاست کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو رہے، پھر بھی ہمارے خلاف الزام تراشی پہ لگے ہوئے ہیں۔ دوسرا یہ ہے کہ حکومت پے رول پہ رہا کرے، تو قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں میاں صاحب کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسکا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، اسکی ذمہ داری حکومت پر ڈالنا غلط ہے۔ حکومت جوڈیشیل کسٹڈی میں جو کرسکتی ہے، وہ صدق دل سے کر رہی ہے، جیل کے حکام کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ میاں صاحب کو کسی بھی ہسپتال میں بھجوا سکتے ہیں، حکومت نے انہیں کبھی نہیں روکا، پنجاب کے محکمہ داخلہ نے بھی انہیں بار بار خط لکھیں اور میاں صاحب کو تمام سہولتیں فراہم کرنے کی بات کی ہے۔ پے رول کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انکی کوشش ہے کہ لوگوں کو ایسا لگے کہ انکی صحت کا خیال نہیں رکھا جا رہا۔

اسلام ٹائمز: شدت پسندی کے وبال نے پوری دنیا کو گھیر رکھا ہے، کالعدم تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑنے کی بجائے، قومی دھارے میں شامل کرنیکی پالیسی سے کیا مراد ہے۔؟
فرخ حبیب:
کالعدم تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے سے مراد انہیں معمول کی زندگی میں ایڈجسٹ کرنا ہے، یہ پالیسی صرف ان تنظیموں کیلئے ہے، جو کسی دوسرے ملک کی پیداوار نہیں ہیں، اداروں کی طرف مکمل نگرانی کی جائیگی، مکمل طور پر غیر مسلح کیا جائیگا، جو لوگ ان میں شامل ہیں، وہ کوئی کاروبار یا ہنر اختیار کرینگے، کسی قسم کی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں ہونگے، یہ صرف ہم نے شروع نہیں کرنا ہے، اس سلسلے میں کام پہلے ہوچکا ہے، ہم نے اس تسلسل کو برقرار رکھنا۔ کچھ عالمی برادری کے تقاضے بھی ہیں، جنہیں پورا کرنیکے لیے دنیا کو باور کروانا ضروری ہے کہ پاکستان پرانی پالیسی کو پیچھے چھوڑ کر نئے حالات کے مطابق نئی شروعات کرچکا ہے۔ جو لوگ آج نینشل ایکشن پلان کا بہانہ بنا کر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، جیسے بلاول بار بار اس پہ تقریریں اور پریس کانفرنسز کی ہیں، یہ خود اسوقت لیگی حکومت پر بھی تنقید کرتے رہے ہیں کہ یہ پلان نون لیگ کا ہے، اسکا نیشن سے کوئی تعلق نہیں۔

کیونکہ اس وقت کراچی کی جو صورتحال تھی، اس کو بہتر بنانے کیلئے ریاستی اداروں نے جو اقدامات کیے، وہ ان کے لیے قابل برداشت نہیں تھے، آج پھر وہی راگ ہے، یہ قومی یکجہتی کی فضاء کو بگاڑ رہے ہیں۔ اب بھی ادھر آرمی چیف اور وزیراعظم کی ملاقات ہوتی ہے، باہمی ہم آہنگی سے فیصلے ہوتے ہیں، انہوں بھارتی بولی بولنا شروع کر دی ہے۔ ان کے بیانات کو اعتراضات کے طور پر مان بھی لیا جائے تو سوال ان کی طرف پلٹتا ہے، انکی حکومتیں رہی ہیں، انہوں نے ان تنظیموں اور گروہوں کو ختم کیوں نہیں کیا، یہ ساری قوم جانتی ہے کہ ایکشن پلان کو دہشت گردوں کی کمر توڑنے اور پاک سرزمین کو شدت پسندی سے پاک کرنیکے لیے لانچ کیا گیا، دہشت گردی کیخلاف ایک بیانیہ ترتیب دینا اور مختلف جواز بنا کر میڈیا میں دہشت گردی کے واقعات کے لیے جو جواز پیش کیے جاتے تھے، انکا توڑ نکالنا تھا، جو دہشت گرد گرفتار تھے، انہیں انجام تک پہنچانا تھا، سہولت کاروں کو پکڑنا، نیٹ ورکس کو تباہ کرنا، کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا ناکارہ بنانا، غیر ملکی تعلقات منقطع کرنا، انکی تربیت گاہوں کا صفایا کرنا۔

اسی طرح پاکستان کے کریمینل سسٹم میں اصلاحات کرکے اسے موثر بنانا تھا، مدارس کو اصلاحات کے دائرے میں لانا، یہ سارے کام تھے، جن پہ ماضی کی حکومتوں نے کوئی کام نہیں کیا، نیشنل سکیورٹی کیلئے جو بھی گروہ رسک قرار دیئے گئے ہیں، انہیں ختم کیا جا رہا ہے۔ ہم نے پاکستان کا اسٹیٹس گرے سے بلیک نہیں ہونے دینا، یہ اقدامات اس لیے ضروری ہیں، تاکہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پہ جو رکاوٹیں درپیش ہیں وہ ختم ہو جائیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جو کچھ ہم نے کرنا ہے، دنیا کو بھی وہی دکھانا ہے، ورنہ ہم پھنس سکتے ہیں۔ بھارتی لابی کی یہی کوشش ہم نے ناکام بنانی ہے، اس کیلئے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا تھا، مزید اس پہ کام جاری ہے۔ ریاستی ادارے، حکومت اور عوام ایک پیج پر ہیں، اپوزیشن کو بھی اسکا خیال رکھنا چاہیئے۔ کرپشن کے مقدمات کا قانونی طور پر مقابلہ کریں، قومی مفاد کو ذاتی بچاؤ کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔

اسلام ٹائمز: پیپلزپارٹی تو اسوقت بھی کالعدم تنظیموں کی مخالفت کر رہی تھی، جب انکے خلاف یہ مقدمات نہیں تھے، انکا تو یہ دیرینہ موقف ہے، کیا اسے جواز بنا کر قومی موقف میں تقسیم کا الزام لگایا جانا درست ہے۔؟
فرخ حبیب:
یہ کوئی ایسی بات نہیں، ڈان لیکس کا معاملہ اس طرح کا نہیں تھا کہ نون لیگ کی حکومت پورے عزم کیساتھ کالعدم گروہوں کیخلاف تھی، بلکہ وہ عسکری اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہے تھے، ان حالات میں جب آئی ایس پی آر نے اپنا ٹوئٹ بھی واپس لیا، پھر بھی پرویز رشید اینڈ کمپنی نے سرل المیڈا کے ذریعے معاملہ اچھالا، بعد میں ملتان میں جو نواز شریف نے انٹرویو دیا، اس میں کون سا خیر کا پہلو تھا۔ یہ اقدامات تو لمبی مدت میں مکمل ہوں گے، لیکن بات کرتے ہوئے تو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے۔ اب وہی کام بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب نواز شریف کی زبان خاموش ہے اور وہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔

پوری قوم اور فوج قربانیاں دے رہی ہے اور یہ باتیں بنا رہے ہیں کہ دیکھ لو بھئی دنیا والو، یہ کچھ نہیں کر رہے، ہم کہہ بھی رہے ہیں اور پاکستان کچھ نہیں کر رہا۔ اسی طرح ڈان لیکس کے ذریعے دنیا کو جو پیغام دیا گیا، اسے دہرانا بھی درست نہیں۔ ضروری ہے کہ قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے جو فضاء بنی ہوئی ہے، وہ برقرار رہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ایک دفعہ پھر نیشنل ایکشن پلان سیاسی کشمکش کا شکار نہ ہو جائے۔ کم از کم جہاں ملکی دفاع کی بات آئے، وہاں تو آپس کے اختلافات کو پیچھے رکھ دینا چاہیئے، اس کا مظاہرہ ہمیں بھی کرنا چاہیئے اور اپوزیشن کو بھی۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں، پاکستان میں رہ کر سیاست کرنی ہے، ورنہ سب کا نقصان ہے۔

اسلام ٹائمز: کالعدم تنظیموں پر پابندی کا اعلان بھی ہوگیا اور مدارس کو سرکاری تحویل میں بھی لے لیا گیا، لیکن حافظ سعید ہوں یا مسعود اظہر، یعنی ان گروہوں کی قیادت کا مستقبل کیا ہے، اس پر کچھ بھی نہیں کہا گیا، اسکی کیا وجہ ہے۔؟
فرخ حبیب:
ہاں یہ جو بھی کارروائی ہو رہی ہے، یہ قوانین کے مطابق ہو رہی ہے، یہ جو کچھ بھی ہوگا، 44 سے زائد لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے، یہ اقدامات بتدریج ہونگے، جو مشکلات پہلے تھیں، وہ اب نہیں ہیں، یہ خوش آئند ہے کہ میڈیا میں سے یا عوامی سطح پر ان گروپوں کی حمایت اب باقی نہیں رہی، ہمیں بھی اچھے انداز میں الجھی ہوئی صورتحال کو اختتام تک پہنچانا ہے، آن کی آن میں یہ سلسلہ ختم نہیں ہونیوالا تھا، مرحلہ وار جس طرح باقی کام مکمل ہوئے ہیں، یہ بھی پورا ہو جائیگا، اس کو اس طرح بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جب ان گروہوں کے مراکز، مدارس اور کارکن اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں تو جو لوگ بچ جائیں گے، وہ بھی غیر موثر ہو جائیں گے اور انکی طاقت کمزور ہوتے ہوتے ختم ہو جائیگی۔

ساتھ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ بھارتی لابی یہ تاثر نہ لے کہ پاکستان اسوقت پریشر میں ہے، اگر غیر محسوس طریقے سے ہم اپنا کام مکمل کرسکتے ہیں تو اپوزیشن کو غیر ضروری طور پر شور مچانے اور ماحول بگاڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ محکمہ داخلہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق عمل کر رہا ہے، جن شخصیات کا ذکر ہو رہا ہے، انکے خلاف بھی جو ثبوت ہونگے، اس کے مطابق کارروائی ہوگی، ضرور ہوگی، کیون نہیں ہوگی۔ جو شواہد آئیں گے، قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔ سکروٹنی بھی جاری ہے، جو ملوث نہیں ہیں، جو لوگ راہ راست پہ آسکتے ہیں، انہیں لے آئیں گے، اس حکمت عملی کے کئی پہلو ہیں، جنہیں مدنظر رکھا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت اتحادیوں کو جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت جیسے وفاقی وزراء کے درمیان اختلافات بڑھ رہے ہیں، وزارتوں سے دستبرداری کی خبریں بھی آرہی ہیں، ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟
فرخ حبیب:
یہ ایشوز چلتے رہتے ہیں، ان کا براہ راست عوام پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا، اختلاف رائے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، نہ اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ آخری فیصلہ پارٹی لیڈر کا ہوتا ہے، فیاض چوہان کو جب کہا گیا انہوں نے وزارت چھوڑ دی، لیکن وفاداری نہیں بدلی، اسی طرح باقی سارے پارٹی کے اندرونی معاملات ہیں، جو کنٹرول میں ہیں، حکومت، وزراء اور پارٹی ایشوز پر عمران خان صاحب کی پوری گرفت ہے، لیڈرشپ مشاورت بھی کرتی ہے، فیصلے بھی ہوتے ہیں، حالات قابو میں رہتے ہیں، پاکستان تحریک انصاف ایک جمہوری پارٹی ہے، یہ اختلافات اور تنقید اسکا حسن ہے۔ قاف لیگ ہماری اتحادی ہے، لیڈرشپ کی ملاقاتیں بھی رہتی ہیں، انکو اپنا حصہ ملا ہے، قومی امور پر بھی مشاورت ہوتی رہتی ہے، اسکے پیچھے کوئی سازش تلاش کرنا درست نہین، حکومت مستحکم ہے، اپنا وقت پورا کریگی، عوام کیساتھ جو وعدے کیے گئے ہیں وہ ان شاء اللہ پورے کیے جائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 783694
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش