0
Tuesday 19 Mar 2019 16:27
ملک میں فوج کے سواء کوئی مسلح قوت نہیں ہونی چاہیئے

تمام مسلح، فرقہ پرست لوگ اور تنظیمیں اسٹیبلشمنٹ کے پروں تلے پلے ہیں، مولانا فضل الرحمن

جو آئین و قانون سے وفاداری اور بالادستی کی بات کرے اسے غدار قرار دیا جاتا ہے
تمام مسلح، فرقہ پرست لوگ اور تنظیمیں اسٹیبلشمنٹ کے پروں تلے پلے ہیں، مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ 1953ء میں پیدا ہوئے، 1980ء میں جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل بنے، 1988ء میں پہلی مرتبہ رکن قومی اسمبلی بنے، 2018ء تک رکن قومی اسمبلی رہے۔ 2018ء کے قومی انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست سے کامیاب نہیں ہوسکے، 2018ء ہی میں مسلم لیگ نون سمیت اپوزیشن کیطرف سے صدارتی امیدوار بنے۔ 2018ء ہی میں ایم ایم اے کے سربراہ بنے۔ انہوں نے سیاسی کیئریر میں مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا، احتجاجی لانگ مارچ اور مظاہروں کی قیادت کی۔ تمام حکومتوں کیساتھ مفاہمانہ تعلق رکھا۔ 2018ء میں پی ٹی آئی کی حکومت کی تشکیل کے پہلے دن سے ہی سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور حکومت کیخلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اسلام ٹائمز نے موجودہ ملکی و سیاسی صورتحال پہ انکے ساتھ جو گفتگو کی ہے، انٹرویو کیصورت قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے احتجاجی مارچ کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، ماضی میں آپ اسی طرح کے احتجاجی مارچ و دھرنوں کو ریاست کیخلاف قرار دیتے تھے۔؟
مولانا فضل الرحمن:
ہم پورے ملک میں بڑے بڑے مارچ کر رہے ہیں، جلسے کر رہے ہیں، مگر اس سے کسی ایک عام آدمی کی بھی زندگی متاثر نہیں ہوتی۔ پورے دنیا کے سامنے پورے ملک سے عام افراد کی رائے آرہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے احتجاج، تحریکیں اپنے خاص مقاصد کی حد تک ہیں۔ وہ نہ ریاست کے خلاف ہوتی ہیں، نہ ریاست کے نقصان کا باعث ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ عوام، ملک، قوم کے خلاف ہوتے ہیں۔ ہماری تحریکوں، جلسوں، مارچ سے کبھی عوام کو کوئی پریشانی یا نقصان کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ جب بھی عوام کا سکون خراب ہوا، جب بھی ملک کو نقصان ہوا تو وہ حکومتی ہتھکنڈوں کے باعث ہوا ہے۔ حکومت جب اس قسم کے اقدامات کرتے ہیں تو اس سے حالات خراب ہوتے ہیں، ہمارے طرز عمل سے کچھ بھی نہیں ہو رہا۔

مگر جب ہم ایسے پاکستان کو دیکھیں گے کہ جس میں عریانی ہوگی، سر بازار دختران قوم کو لایا جائے گا۔ ان کی عزت و ناموس اور چادروں کو نوچا جائے گا تو اس کا ردعمل تو آئے گا۔ آخر اس ملک میں حیا دار لوگ بھی ہیں، وہ غیرت رکھتے ہیں، احساس رکھتے ہیں۔ ہم اس قدر بھی مردہ معاشرہ نہیں ہیں کہ اس کا ردعمل نہ دیں۔ ہم حکومت کو متنبہ کرتے ہیں کہ ایسی چیزوں کی روک تھام کی جائے، ورنہ اس کا ردعمل آئے گا اور وہ اچھا نہیں ہوگا۔ وہ ہمارا حق ہوگا اور آئین کے مطابق ہوگا۔ تہذیب کا تحفظ ،ختم نبوت کا تحفظ، ناموس رسالت کا تحفظ اور قرآن و سنت کی بات کرنا آئین کا تقاضہ ہے۔ ہمارے ملک میں ایک عجیب معاملہ یہ بھی ہے کہ ایک ایسا ملک ہے، جس کا اپنا آئین ہے اور جو لوگ اس آئین کی نفی کرتے ہیں، وہ ملک کے وفادار اور جو لوگ آئین کی بات کرتے ہیں، اس کی بالادستی اور اس سے وفاداری کی بات کرتے ہیں تو ان کو غدار کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ روش ہمیں کسی طور قابل قبول نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگرد جماعتوں نے بدامنی کا بازار گرم کیا ہوا ہے، اسکا سدباب کیونکر ممکن ہے۔؟
مولانا فضل الرحمن:
ہمارے ملک میں جو بھی حکمران آتا ہے، کہتا ہے کہ اس نے نوے فیصد دہشتگردی ختم کر دی ہے۔ اس کے بعد پھر جو آتا ہے، وہ بھی یہی کہتا ہے کہ ہم نے نوے فیصد دہشتگردی ختم کر دی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں دیکھ لیں، آئے روز ٹارگٹ کلنگ میں لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ اگر ہر حکمران نوے فیصد دہشتگردی ختم کر دیتا ہے تو پھر امن کیوں بحال نہیں ہوتا۔؟ پارلیمنٹ نے جو نیشنل ایکشن پلان منظور کیا، آج ہندوستان کے دباؤ پہ اس نیشنل ایکشن پلان کو از سرنو متحرک کیا جا رہا ہے۔ ہم تو پہلے دن سے کہہ رہے ہیں کہ فوج کے علاوہ کوئی بھی مسلح قوت نہیں ہونی چاہیئے۔ جو غیر ریاستی مسلح اور فرقہ پرست تنظیمیں موجود ہیں۔ ہم اس وقت بھی کہتے رہے کہ تمام مسلح اور فرقہ پرست لوگ، تنظیمیں اور مراکز اسٹیبلشمنٹ کے پروں کے نیچے پل رہے ہیں۔ اس وقت ہماری بات کو ملک دشمنی کہا جا رہا تھا اور آج پھر ان تیار کردہ تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ ہمیں ان کے خلاف کریک ڈاؤن پہ کوئی اعتراض نہیں ہے، مگر اس کا رخ اگر تمام مدارس اور ان مدارس میں پڑھنے والے تمام لوگوں کی طرف کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ یہ پھر ملک کے اندر ایک مزاحمتی تحریک اور عدم استحکام کا باعث بنے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ فوج کیخلاف ہیں، نہیں تو ہر معاملے میں تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمن:
بات یہ ہے کہ ریاستی ادارے اپنی حد میں رہیں تو ٹھیک ہے، مگر جب وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں تو پھر ایسی صورت میں کیا کیا جائے۔؟ اس وقت جو حکومت برسر اقتدار ہے، اس کا کلچر، اس کی روش آپ کو بھی اچھی طرح معلوم ہے اور ہمیں بھی معلوم ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ اس حکومت کے قیام سے لیکر تاحال ہماری اسٹیبلشمنٹ سامنے آرہی ہے۔ اب ایسی صورت میں جب ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ پہ سوال ہوتا ہے تو پھر یہ ہوتا ہے کہ آپ ریاست کے خلاف بات کر رہے ہیں، ریاستی ادارے کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ اب اگر ریاستی ادارے اپنی حدود میں نہیں رہتے تو پھر کیا کیا جائے۔؟

گذشتہ دنوں جب انہی اداروں نے ملک کا دفاع کیا، دشمن کے طیارے گرائے تو جمعیت علماء اسلام پاکستان کی وہ واحد جماعت ہے کہ جس نے اپنے ہر ضلعی ہیڈکوارٹر میں اس کے حق میں مظاہرہ کیا ہے اور اظہار یکجہتی کیا ہے۔ ان کی دفاعی صلاحیت اور ان صلاحیتوں کے اظہار پہ انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے، مگر یہ ادارے جب اپنی حدود سے باہر نکل کر سیاسی مداخلت کرتے ہیں۔ ایسی حکومت کو فروغ دیتے اور طاقت دیتے ہیں کہ جس کے مادر پدر آزاد معاشرے کا ایک تصور ہے۔ بے حیائی اور فحاشی ان کی شناخت ہے تو پھر اس طریقے سے تو معاملات نہیں چلیں گے نا۔ ہمارا ایک جمہوری حق ہے۔ اسے ہم استعمال میں لائیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ریاستی اداروں اور ان کے کردار پہ کوئی سوال اٹھائے۔

اسلام ٹائمز: بھارتی جارحیت پہ حکومت نے جو اصولی اور دلیرانہ موقف اختیار کیا ہے، اس پہ موجودہ حکومت کی تائید کرتے ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمن:
پہلے تو میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پارلیمنٹ نے جو موقف اختیار کیا ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ ہم نے بہادری دکھائی ہے، اس میں یوں مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم ایسی پسپائی اختیار کر لیں کہ جس میں ہماری تھوڑی سی عزت رہ جائے۔ جو چیزیں اس وقت ہمیں بیک فٹ پہ لے جا رہی ہیں۔ پاک بھارت حالیہ معاملات پہ پوری دنیا میں پاکستان اپنے کسی ایک دوست ملک کی بھی حمایت حاصل نہیں کرسکا ہے۔ صرف ترکی نے وزیر خارجہ کی سطح پہ ہمارے حق میں مثبت ردعمل دیا ہے۔ اس کے علاوہ کسی ایک ملک نے بھی ہمارے حق میں کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔ جس طریقے سے ہم نے فوجی یا پائلٹ کو واپس کیا ہے، وہ بذات خود ایک ذہنی شکست خوردگی کی علامت ہے۔ پائلٹ کی واپسی ہرگز اس بات کی عکاس نہیں کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔

یقیناً ہم جنگ نہیں چاہتے، مگر جب انہوں نے حملہ کیا اور ہم نے جہاز بھی گرا دیا اور اس کا پائلٹ بھی ہم نے پکڑ لیا تو اس کو کس ضابطے یا قانون کے تحت واپس کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ جنیوا کنونشن کے تحت ہم نے واپس کیا۔ جنیوا کنونشن کے ذریعے پہلے یہ تو واضح کرو کہ واقعی جنگ مسلط ہوئی ہے یا نہیں ہوئی ہے۔ اگر جنگ ڈکلیئر نہیں ہوئی تو پھر یہ پائلٹ جنگی قیدی کیسے بنا۔؟ کس بنیاد پہ آپ نے واپس کیا۔ ہندوستان سے کیا ضمانت لی گئی۔؟ بھارت میں تو الٹا جشن منائے گئے ہیں۔ وہ اس کے بعد بھی دندنا رہے ہیں، دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ ساری صورتحال ہمیں بالکل الٹی بناکر پیش کی جا رہی ہے۔ فتح کو شکست میں تبدیل کرکے پوری قوم کے سر جو کہ جوانوں نے بلند کئے تھے، انہیں سرنگوں کرنے میں تو حکومت نے کردار ادا کیا ہے، چنانچہ اسے کسی بہادری، حکمت اور عقل سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ حکومت مادر پدر آزاد معاشرے کا تصور دے رہی ہے۔؟
مولانا فضل الرحمن:
بالکل، اس سے پہلے بھی عورتوں کے دن آئے ہیں اور منائے گئے ہیں، کیا ان میں یہ طریقہ کار تھا۔ موجودہ دور حکومت میں عورتوں کا جو دن منایا گیا ہے اور جس طریقے سے انہوں نے ہمارے ملک کی تہذیب و تمدن کو پامال کیا ہے اور جس طرح انہوں نے اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے اور بے حیائی اور فحاشی کا پرچار کیا ہے۔ وہ قطعاً قابل قبول نہیں ہے۔ مادر پدر آزاد معاشرے کی تشکیل کا جھنڈا اٹھایا ہے۔ اس سے پوری قوم شدید تشویش کا شکار ہے کہ ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں دھنس رہے ہیں۔ حکومت کو اپنے اوپر تنقید برداشت نہیں، یہاں تک کہ حکومت کے خلاف سوشل میڈیا پہ تنقید کرنے پہ بھی کارکنوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے سی پیک منصوبہ متاثر ہوگا۔؟
مولانا فضل الرحمن:
سی پیک کے متاثر ہونے کا اندازہ یہیں سے کر لیں کہ انہوں نے ایک سال کیلئے تمام سی پیک منصوبوں کو موخر کیا ہے۔ 24 ارب روپیہ انہوں نے باقاعدہ طور پر سی پیک سے اٹھا کر ترقیاتی سکیموں میں ڈال دیا ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ممبران کو فنڈ کے طور پر مہیا کرنا یہ تو دن دیہاڑے ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ سب کے سامنے پاکستان کے سرمایہ کو ہڑپ کیا گیا ہے۔ یہ تو بہت بڑا ڈاکہ ہے کہ سی پیک کے منصوبے سے فنڈ اٹھا کر ترقیاتی منصوبوں میں ڈال دیں۔ روزانہ کی بنیاد پہ اربوں روپے کے قرضے لیے گئے ہیں۔ ملک قرضوں میں مزید ڈوب گیا ہے۔ آئندہ کتنی نسلیں ہوں گی کہ جو ان قرضوں کو اتارتی رہیں گی۔ جو قرضوں سے نجات کی باتیں کرتے تھے، سب سے زیادہ قرضے وہی لے رہے ہیں۔ آج ٹیکس کوئی نہیں دے رہا۔ چھ مہینے ہوگئے ہیں، آج دینے والے بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ نواز شریف کے زمانے میں جو پیسہ ملک میں واپس آنے لگا تھا۔ ہمارا کاروباری طبقہ سمجھ رہا تھا کہ پیسہ واپس آرہا ہے۔ آج وہ پیسہ بھی ملک سے واپس چلا گیا ہے۔ کوئی کاروبار کرنے کو تیار نہیں۔ مرغی کی طرح گندگی میں چونچ بھی مارتے ہیں اور چونچ اونچی بھی رکھتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: میاں نواز شریف کی حکومت پہ کرپشن کے بدترین الزامات ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمن:
کرپشن اور ملک لوٹنے کی باتیں ہتھیار اور کھلونا ہیں، جو صرف سیاستدانوں پہ استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ہر دور حکومت میں اسی کو استعمال کیا گیا ہے۔ کوئی نیب ہمارے نزدیک احتساب کا ادارہ نہیں ہے۔ کوئی مالیاتی کیس ہمارے نزدیک حقیقی نہیں ہے۔ ادارے بھی سیاسی بنیادوں پہ کام کر رہے ہیں، کیس بھی سیاسی ہیں۔ قیدی بھی سیاسی ہیں اور سیاست کے حوالے سے ان کا کردار بھی سامنے ہے۔ ایوب خان کے دور میں بھی ایک قانون بنا تھا، دفاع پاکستان کے نام پہ اس وقت لوگوں کو گرفتار کیا جاتا تھا کہ یہ دہشتگرد ہیں۔ وہ سیاسی قیدی ہوتے تھے۔ بھٹو صاحب کے دور میں بھی لوگ گرفتار ہوتے تھے۔

ضیاء الحق کے دور میں بھی گرفتاریاں ہوتی تھیں۔ ضیاء دور میں تو اسمبلی توڑی گئی تھی کہ یہ سارے کرپٹ ہیں۔ تو یہ سارے حربے مختلف موقعوں پہ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ آج بھی ہو رہے ہیں۔ یہ سیاسی ہتھکنڈے ہیں، جو حکمران اور ریاستی ادارے استعمال کر رہے ہیں۔ سیاستدانوں کو ٹارگٹ کرکے میڈیا کے ذریعے ایک فضا بنائی جائے، لوگ کنفیوز ہو جائیں، ایسا ماحول خراب ہو جائے کہ لوگ سیاسی رہنماں کے پیچھے تالیاں بجانا شروع ہو جائیں، اس سے کہاں شفافیت آسکتی ہے۔ یہ ساری مہم ایک غلط مقصد کیلئے چلائی گئی ہے، جو ملک کیلئے مہلک ثابت ہوگی، ہم پہلے کئی تجربات کر چکے ہیں، اب پاکستان مزید ایسی آزمائشوں کا متحمل نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کیخلاف بھی کیس ہیں۔؟ آپکو گرفتار کرنیکی خبریں آرہی تھیں۔؟
مولانافضل الرحمن:
میرے خلاف کوئی کیسز ہوتے تو میڈیا میں چرچا ہوتا۔ اللہ کے فضل سے ہم ان چیزوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان میں میاں نواز شریف کے معیار کا کوئی ہسپتال نہیں ہے، جو وہ علاج کیلئے باہر جانا چاہتے ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمن:
میاں نواز شریف صاحب بیمار ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ وہ دل کے مریض ہیں۔ میڈیکل بورڈز کہتے ہیں کہ انہیں دل کا مسئلہ ہے، یہاں انہیں کسی ایسے انسٹی ٹیوٹ میں نہیں لے جایا جا رہا کہ جہاں ان کے دل کا علاج ہوسکتا ہو اور انہیں بیرون ملک بھی نہیں جانے دیا جا رہا ہے۔ ہم ان کے علاج کی بات کرتے ہیں۔ ہم اس کو بھی ریاستی جبر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ کوئی انصاف کا تقاضا نہیں ہے۔ ایک ایسا ادارہ کہ جس کو تشکیل ہی اسی لیے دیا گیا ہے کہ وہ سیاسی انتقام لے لوگوں سے، احتساب کے نام پہ انتقام لینا، عدل کے نام پہ جبر کرنا، یہ چیزیں بند ہونی چاہیئے۔ انسانی حقوق ملک کے عام آدمی کے بھی ہیں۔ ملک کے وزیراعظم کے بھی ہیں، اسی طرح میاں نواز شریف کے بھی ہیں۔ ان کو ان کا حق دیا جائے۔ پاکستان جیسے ملک کیلئے یہ کوئی نیک شگون نہیں، یہ کوئی حسن پیدا نہیں کر رہا بلکہ ایک سوالیہ نشان پیدا کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے نزدیک اس طرح کے مسائل کا حل کیا ہے۔؟
مولانا فضل الرحمن:
تمام تر مسائل کی جڑ عوام کی رائے کو پسِ پشت ڈال کر ڈمی حکومتوں کا قیام ہے۔ کیا اس کے اثرات نہیں ہونگے کہ عدالت میں کیس گیا، میاں نواز شریف کیخلاف پانامہ کی بنیاد پر اور فیصلہ آیا عرب امارات میں اقامہ کی بنیاد پر، کیا عدالت کے ایسے فیصلوں کے متعلق لوگ منفی طور پر نہیں سوچیں گے۔ ضرور ان کے غلط اثرات مرتب ہونگے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ ان کیسز کے پیچھے بدنیتی ہے، کسی ایک کے خلاف نہیں ہزاروں لوگوں کیخلاف کیس ہیں، لیکن نشانہ صرف دو پارٹیوں کے قائدین کو بنایا جا رہا ہے۔ اس سیاسی کھیل کو عدالتوں اور نیب جیسے اداروں کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے۔ پرویز خٹک اور بابر اعوان کے کیس کسی خاص وقت میں پی ٹی آئی کیخلاف استعمال کرنے کیلئے ریزرو رکھے ہوئے ہیں، ان پر اس حکومت کے دوران عملدرآمد نہیں ہوگا، میں کیسز کے حوالے سے اس حکومت کی بات نہیں کر رہا، انکی بات کر رہا ہوں، جو اس حکومت کو جعلی طریقے سے لیکر آئے ہیں۔ انکی کمزوریاں بھی انہوں نے سنھبال کر رکھی ہوئی ہیں، وہ انہیں چھوڑیں گے نہیں، یہ بات عوام کو سمجھانے اور سیاستدانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت کیخلاف تحریک کیلے پی پی پی نے کس حد تک تعاون کی یقین دہانی کرائی، کیا حکومت گرانے میں پی پی پی آپکا ساتھ دیگی۔؟
مولانا فضل الرحمن:
فی الحال زبانی بیانات کی حد تک تو سب نے حامی بھری ہے۔ پارلیمنٹ میں بھی ہمارا جو احتجاج جاری ہے، اس میں بھی وہ ہماری حمایت کر رہے ہیں، پیپلز پارٹی اور نواز لیگ دونوں بڑی پارٹیاں ہیں۔ جس طرح ان دونوں بڑی پارٹیوں کو میدان میں اترنا چاہیئے تھا تو اس حوالے سے قوم کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کا وہ کردار سامنے نہیں آرہا کہ جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ جمیعت علماء اسلام اس وقت میدان میں تنہا موجود ہے۔ تنہا ہونے کے باوجود عوام کا اس کی طرف رجوع زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ انہی دو بڑی پارٹیوں کے ورکر اب جے یو آئی کی جانب آرہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ یہ جماعت اب ہماری ترجمانی کر رہی ہے۔ جہاں جہاں ہم نے مارچ کئے ہیں، وہاں وہاں عوام نے حد سے بڑھ کر اپنا رسپانس دیا ہے۔ اس میں نہ جذباتیت ہے، اس میں نہ شدت ہے، نہ لوگوں کو پریشانی ہوئی ہے۔ ساری قوم کو پرامن انداز کے ساتھ لانا اور ان کی رائے کو دنیا پہ ظاہر کرنے کا کار خیر انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے اتنے بڑے اجتماعات کا بلیک آوٹ کیا جا رہا ہے۔ فقط اس لیے کہ پاکستان کی جو نظریاتی شناخت کی بات کرتے ہیں، وہ سامنے نہ آسکیں۔ اگر بے حیائی اور فحاشی کی بات ہو تو گذشتہ دنوں پورا میڈیا اسی سے بھرا ہوا تھا۔

اسلام ٹائمز: کیا حکومت پانچ سال پورے کریگی۔؟
مولانا فضل الرحمن:
موجودہ حکومت کا دورانیہ مہینوں میں تو ہوسکتا ہے، سالوں میں ہرگز نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ حکومت کیخلاف احتجاجی مارچ سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمن:
اس الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں پارلیمان سے باہر رکھ کر اور ایک مقبول مذہبی جماعت کی سیٹیں محدود کرکے دنیا کو ایک میسج دیا ہے کہ پاکستان میں مذہب، مذہبی قوتوں کا کردار ختم ہوگیا ہے۔ ہم نے ملین مارچ کے ذریعے سے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان میں آج بھی سب سے بڑی عوامی قوت ہم ہیں اور ریاستی وسائل کو بروئے کار لاکر ہمارے حجم کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ پیغام دونوں طرف سے بھیجے جا رہے ہیں۔ وہ ریاستی طاقت کا استعمال کر رہے ہیں اور ہم عوامی قوت کا اظہار کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کالعدم جماعتوں کیخلاف کریک ڈاؤن کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں۔؟
مولانا فضل الرحمن:
ہم نیشنل ایکشن پلان کے حامی ہیں۔ امن و امان کیلئے کوششیں ہونی چاہیئں، مگر اس کی آڑ میں غیر ضروری اور مخصوص کارروائیوں کی ہم نے پہلے بھی مخالفت کی تھی اور آج بھی مخالفت کرتے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان اگر اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو ہم مزاحمت کریں گے۔ مدارس کے خلاف کریک ڈاؤن پہلے بھی ناکام ہوا ہے اور اب بھی ناکام ہوگا۔ ہم نے پہلے بھی مزاحمت کی، اب بھی کریں گے۔

اسلام ٹائمز: فیصل واوڈا کے کلمات پہ جو ردعمل آنا چاہیئے تھا، وہ آپکی جماعت کیجانب سے بھی نہیں آیا۔؟
مولانا فضل الرحمن:
اپوزیشن تو ایک ہے۔ اس پہ مشترکہ ردعمل پارلیمان میں آیا۔ ہم نے جو قرارداد تیار کی، وہ ابھی تک ہمیں پارلیمان میں پیش نہیں کرنے دی جا رہی۔ یہی تو مسئلہ ہے۔ اگر ایک ہندو کے خلاف بات کی جائے تو اس پہ ایکشن لیا جاتا ہے۔ گرچہ ہم بھی اس بات کے خلاف ہیں کہ کوئی ہندو کے خلاف بھی بات کرے۔ ہم بھارت کے خلاف ہیں، ہندو کے خلاف نہیں ہیں۔ ہندو، سکھ ہمارے ملک کے شہری ہیں، ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ عیسائی مسیحی ہمارے معاشرہ کا حصہ ہیں۔ ہماری پارٹی کے اراکین ہیں۔ ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں، اسمبلی میں ہمارے ساتھ بیٹھتے ہیں۔ اس قسم کی چیزوں کی ہم حوصلہ افزائی نہیں کر رہے ہیں۔ مگر جب ملک میں اللہ کے خلاف بات ہوتی ہے، پیغمبروں کے، رسول خدا، پیغمبر اکرم کے مقام میں کمی کرنے والے کو تحفظ دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پھر کہتے ہیں جی مذہبی ایشو ہے، بھڑک اٹھے گا۔ مذہبی ایشوز جو حقیقتاً ایشوز ہیں، وہ تو ہم نے اٹھائے ہیں۔ ناموس رسالت (ص) پہ ہمارے ملین مارچ ہو رہے ہیں۔ ختم نبوت (ص) پہ ملین مارچ ہمارے ہو رہے ہیں۔ جو تحریک ہمارے سیاسی لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اس میں کسی کا نقصان نہیں ہوتا۔ یہ کوئی خادم رضوی کے ہاتھ میں آئی ہوئی تحریک نہیں ہے۔ یہ بڑے منجھے ہوئے سیاسی افراد کی تحریک ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کس طرح لوگوں کو حق کی بات پہ اکٹھا کرنا ہے، ملک کے نظریئے پہ اکٹھا کرنا ہے، ناموس رسالت (ص) پہ اکٹھا کرنا ہے، ختم نبوت کیلئے اکٹھا کرنا ہے، ورنہ توڑ پھوڑ کرنا کوئی حل نہیں۔
خبر کا کوڈ : 784150
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش