0
Wednesday 20 Mar 2019 11:39
اسلاموفوبیا کو ہوا دینے والے نہ صرف مسلمانوں بلکہ وہ تمام انسانوں کے دشمن ہیں

کالعدم تنظیموں کی حمایت میں اعلان جہاد کرنیوالے وزراء ملکی سلامتی کیلئے زہر قاتل ہیں، نیئر حسین بخاری

مغرب میں پنپنے والی سفید فام نسل پرستی کی موجودہ متشددانہ شکل القاعدہ اور داعش کا تسلسل ہے
کالعدم تنظیموں کی حمایت میں اعلان جہاد کرنیوالے وزراء ملکی سلامتی کیلئے زہر قاتل ہیں، نیئر حسین بخاری
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید نیئر حسین بخاری اسلام آباد کے علاقہ مل پور میں 1953ء پیدا ہوئے، راولپنڈی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، 1968ء میں کالج میں طالب علمی کے زمانے سے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شامل ہوئے، 1976ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا، 1982ء میں پاکستان بار کونسل کے جنرل سیکرٹری بنے، اسی دوران پاکستان پیپلز پارٹی اسلام کے جنرل سیکرٹری بنے۔ 1988ء، 1990ء، 1993ء، 1997ء، 2002ء اور 2008ء میں اسلام آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2009ء میں سینیٹ آف پاکستان کے ممبر اور 2012ء میں بلا مقابلہ چیئرمین سینیٹ بنے۔ موجودہ حکومتی پالیسیوں میں تضادات، کالعدم تنظیموں کے متعلق پارٹی کے دیرینہ موقف، چیئرمین بلاول کے بیانات اور وزراء کے ردعمل سمیت اہم ایشوز پر انکا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: تنخواہوں میں اضافے پر پنجاب اسمبلی کے حکومتی اور اپوزیشن اراکین ایک ہوگئے، پاکستان عوام کو یہ خبر سننے کو کب ملے گی کہ انکی بہتری کیلئے اسمبلیوں میں بات ہوئی ہے اور اپوزیشن نے حکومت کی تائید کی ہے۔؟
نیئر حسین بخاری:
ہم نے کبھی اس طرح ووٹ نہیں کیا ہے، ہمیشہ عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کیلئے بات کی ہے اسمبلی میں، حکومت کو توجہ دلائی جاتی ہے، ورنہ اس طرح کی یہ مراعات ایک معمول بن جاتا ہے۔ اسی طرح پارلیمان کے باہر بھی اس کا احساس میڈیا کے ذریعے بھی دلایا جاتا ہے، لیکن قانون سازی کے دوران جب اس طرح کی خبر آئے تو اس میں اچھوتا پن اس لیے زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ لوگ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اراکین اسمبلی کی تنخواہیں بہت زیادہ ہیں، یہ سارے لوگ بہت امیر ہوتے ہیں، حد سے زیادہ مراعات لیتے ہیں، لیکن مکمل طور پر ایسا نہیں ہے، ایک تعداد ایسی ہے اراکین اسمبلی کی، جنہیں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، ہم مکمل طور پر اس کے مخالف نہیں ہیں، اکثر اراکین اسمبلی پارلیمانی امور کی وجہ سے کوئی اور کام نہیں کر پاتے، دوسرے ترقی پذیر ممالک میں بھی ایسا نہیں ہے، وہاں آفس اسٹاف، ٹرانسپورٹ اور بہت ساری مراعات کا خیال رکھا گیا ہے۔

یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ دس ہزار جو ہاوس رینٹ کے طور پر رکھے گئے تھے، وہ آج کل کے دور میں کہاں پورے ہوتے ہیں، جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اراکین کیلئے پارلیمانی اور سرکاری کاموں میں دلچسپی برقرار رکھنا ہی مشکل ہو جاتا ہے۔ حیرت ہے کہ عمران خان صاحب نے بھی بغیر سوچے اتنی سخت ٹوئٹ کر دی اور معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا، میرے خیال میں انہوں نے حکومت یا اسمبلی سے کسی قسم کی معلومات لینا بھی گوارا نہیں کیا، اس سے انکا لیڈر بننے کا شوق بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ چھٹ منگنی اور پٹ بیاہ والی بات نہیں تھی، ایسی کوئی جلدی نہیں برتی گئی، اس بل میں 21 روز کا وقت لگا ہے، ادھر پیش ہوا، پھر پاس ہوگیا والی بات نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات پر دیکھا گیا، موازنہ بھی کیا گیا، ہمیں کافی حد تک اس بات کا اندازہ تھا کہ میڈیا اس بل کو کس طرح اٹھائے گا۔ اس بل کے دو حصے تھے، ایک ایگزیکٹوز کیلئے تھا، ایک ممبران کیلئے۔ حکومتی پارٹی نے اس میں ترمیم بھی کر لی ہے، اپنی لیڈرشپ کی خواہش کے مطابق، بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جہاں حکومت اور اپوزیشن ایک ہی پیج پر ہوتے ہیں، اس میں کوئی اختلافی پہلو نہیں ہوتا یا بحث کے ذریعے اسے حل کر لیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے اسکا بڑا سخت نوٹس لیا ہے اور وزیراعلیٰ کو دی گئی مراعات سے صوبائی حکومت دستبردار بھی ہوگئی ہے، پھر اپوزیشن اسے یوٹرن سے کیوں تعبیر کر رہی ہے۔؟
نیئر حسین بخاری:
یہ ایک الگ معاملہ ہے، وزیراعظم تو کہتے ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلا، ایک تو کپتان کے وسیم اکرم کی کارکردگی اور ٹیم ورک کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے، وزیراعظم کو ڈالر کی قیمت بڑھنے کا پتہ نہیں چلا تھا، انہیں تو سارے مسائل کا علم تب ہوتا ہے، جب انکی بیگم انہیں کہتی ہیں کہ آپ وزیراعظم ہیں، وزیراعلیٰ نے بھی فوری طور پر جیسے وزیراعظم کی ٹوئٹ دیکھی ویسے ہی موڈ بدل لیا، انکی مثال تو بس ایسے ہی ہے، جیسے انہیں صرف نوکری سے غرض ہے، انکی اپنی کوئی رائے نہیں، بل تو بیس دن تک اسمبلی میں زیربحث رہا، پھر پہلے کابینہ کے پاس جاتا ہے، کابینہ بل پاس کرتی ہے، پھر کمیٹی کے پاس جاتا ہے، اس کے بعد ہاوس میں آتا ہے، وزیراعظم صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں نہیں پتہ چلا۔

اسلام ٹائمز: پیپلزپارٹی نے اس بل کی حمایت نہیں کی، کیا آپکی پارٹی کو ممبران اسمبلی کی ضروریات کا پاس نہیں، چونکہ ایک موقف یہ بھی ہے کہ اس اضافے سے کرپشن سے بچا جا سکتا ہے۔؟
نیئر حسین بخاری:
ساتھ یہ بھی ہونا چاہیئے کہ اسمبلی ممبران کی تنخواہوں کیساتھ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جانا چاہیئے، پچھلے پانچ سالوں میں بھی کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، اس پر ہم نے بات بھی کی ہے، اعتراض بھی کیا ہے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ سب چیزوں کو ریشلانائز کیا جانا چاہیئے، اگر اراکین اسمبلی کی ضروریات کو مہنگائی اور افراط زر کو سامنے رکھتے ہوئے اضافہ کیا جانا چاہیئے تو یہ بھی ضروری ہے کہ ملازمت پیشہ لوگوں کی آمدنی میں اضافے پہ کوئی بات ہی نہیں کر رہا، یہ درست نہیں ہے۔ حکومت کی توجہ اس طرف دلانا بہت ضروری ہے کہ جب الیکشن جیت کر اسمبلی میں آنے والوں کا گذارا نہیں ہو رہا تو ایک غریب آدمی کا کیسے زندگی بسر کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا چیئرمین بلاول جعلی اکاونٹس اور منی لانڈرنگ کیسز سے توجہ ہٹانے کیلئے کالعدم تنظیموں کا ایشو اٹھا رہے ہیں۔؟
نیئر حسین بخاری:
یہ دونوں الگ ایشوز ہیں، حکومتی وزراء کے کالعدم تنظیموں کیساتھ تعلقات اور ہمدردیوں کی موجودگی میں نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکتا، نہ ہی ہم عالمی اداروں کی شرائط پوری کرسکتے ہیں، اس پر ہم نے پہلے بھی ہمیشہ اپنا موقف قوم کے سامنے رکھا ہے، الیکشن میں ہماری مہم بھی متاثر ہوئی ہے، ان تنظیموں کی وجہ سے پاکستان کا بہت نقصان ہوا ہے۔ دوسرا کیسز کے متعلق خود سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یہ کہہ چکے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کا کوئی تعلق نہیں ان چیزوں کیساتھ، پھر انہیں کیوں ملوث کیا گیا ہے، یہ وہی پالیسی ہے، جیسے الیکشن میں کالعدم تنظیموں کی حمایت سے پیپلزپارٹی کیخلاف عمران خان کو آگے لایا گیا۔ ان کالعدم تنظیموں کیساتھ مل کر پی ٹی آئی نے الیکشن لڑا ہے، وہ ان کے اتحادی ہیں، نیت میں شک نہ کرنیکی کوئی وجہ باقی نہیں ہے۔

دنیا جانتی ہے جو وفاقی وزیر جہاد کا نعرہ لگا رہے ہیں، انکی دین اور مذہب سے کتنی وابستگی ہے، کسی کی ذاتی زندگی پر بحث نہیں کرنی چاہیئے، لیکن جو شخص بلاول بھٹو زرداری کو موت کی دھمکی دے رہا ہے، وہ کس کیخلاف جہاد کرنا چاہتا ہے، اسکا کیا مطلب ہے، انہوں نے یہ زبان الیکشن میں اور الیکشن سے پہلے بھی استعمال کی، جس کا مقصد صرف مذہبی جنونی طبقے کے اذہان کو مین اسٹریم پارٹیوں کیخلاف مزید زہرآلود کرکے نفرت کی سیاست کو فروغ دینا تھا، وہ اب یہی کر رہے ہیں، ایک طرف حکومت پاکستان کا امیج بہتر بنا کر پیش کرنیکی باتیں کر رہی ہے، دوسرے وفاقی وزراء میڈیا کے سامنے کالعدم تنظیموں کے حق میں اعلان جہاد کر رہے ہیں، یہ پاکستان کے مفاد کیخلاف ہے، شدت پسندی کو فروغ دینے والے حکومتی عمائدین، دہشت گردوں کیطرح ملکی سلامتی کیلئے زہر قاتل ہیں، یہی بات بلاول بھٹو کر رہے ہیں۔ ہمارا تو صرف یہ موقف ہے کہ اس ذہنیت کے لوگوں کو نئے پاکستان کی کابینہ میں نہیں ہونا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پیپلزپارٹی تو مفاہمت کی نقیب ہے، پھر شدت پسند گروہوں کو قومی دھارے میں لا کر انکی منفی سرگرمیاں ختم کروانے کی مخالف کیوں ہے۔؟
نیئر حسین بخاری:
ہمارا موقف بہت واضح ہے کہ حکومتی پالیسی میں تضاد یہ ہے کہ آپ ایک طرف ایسے گروہوں کی مین اسٹریمنگ کی تو بات کر رہے ہیں، جن پر ملکی قوانین کے مطابق پابندیاں لگائی گئی ہیں اور جو مین اسٹریم پارٹیاں ہیں، انکی آوٹ اسٹریمنگ کر رہے ہیں۔ جن لوگ کو یہ لانا چاہتے ہیں، ان کے ذریعے سیاسی ماحول کو بگاڑیں گے اور سیاست میں نفرت کو ہوا دینگے، تشدد کا عنصر ابھرے گا، یہ اس خاص ڈیزائن کے تحت یہ سارا کچھ کر رہے ہیں، یہ حقیقت بھی سب جانتے ہیں کہ جن شخصیات اور اداروں نے یہ شدت پسند گروہ پروان چڑھائے، انہوں نے ہی پی ٹی آئی کو کھڑا کیا ہے، اپنی تاریخ، اورجن، آئیڈیالوجی اور نظریاتی طور پر کالعدم تنظیموں اور تحریک انصاف کی جڑ ایک ہی ہے، منبع بھی ایک ہے، انکا پانی ایک ہی ندی میں بہتا ہے، یہ ہمیشہ کی طرح آج بھی ایک ہی پیج پہ کھڑے ہیں۔

سیاسی عمل کو مرضی کے مطابق موڑنے کیلئے ایک طرف کالعدم تنظیموں کے ذریعے مین اسٹریم جماعتوں کو الیکشن میں دباؤ میں رکھا جاتا ہے، دوسری جانب احتساب کے نام پہ ان کے ارکان کو توڑ لیا جاتا ہے، سیاسی جماعتوں کے جوڑ توڑ کرنیوالی قوتیں غیر سیاسی اور سیاست سے باہر کے عناصر ہیں، پی ٹی آئی انکی چھتری تلے کام کر رہی ہے۔ یہ ان کی خوش فہمی ہے کہ یہ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں، خوشی کی شادیانے نہ بجائیں، دنیا جو کچھ کہہ رہی ہے، اس سے آنکھیں نہ چرائیں۔ سکیورٹی کونسل اور ایف اے ٹی ایف دونوں جگہوں پہ تلوار لٹک رہی ہے ہمارے خلاف، اس کے لیے اقدامات کی ضرورت پہ زور دے رہے ہیں۔ ملکی سلامتی اتنی کمزور نہیں، جو ایک تقریر سے خطرے میں پڑ جائے، حقائق کو چھپانا درست نہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے سے پہلے کی طرح اب بھی کالعدم تنظیموں کی اتحادی جماعت ہے۔ جو لوگ آئین کے عین مطابق سیاست کر رہے ہیں، انکی زندگی اجیرن بنائی جا رہی ہے، جو لوگ آئین کے دائرے میں آنا ہی نہیں چاہتے، اس تضاد کو لیکر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں، یہ ایک نئے بحران کو جنم دیگا۔

یہ جو بات کر رہے ہیں کہ وہ شدت پسندوں کا رخ تعلیمی اور صحت کے شعبے کی سرگرمیوں کی طرف موڑ سکتے ہیں، وہ تو ان خدمات کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جس کے ذریعے اپنی جڑیں مضبوط بناتے ہیں، یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم اور صحت جیسی خدمات شہریوں کو فراہم کرے، آپ کبھی نہیں سنیں گے کہ سویڈن جیسے کسی ملک میں وہاں کے عمران خان نے کینسر ہاسپٹل بنایا ہو اور الطاف حسین جیسے کسی آدمی نے ایمبولنس سروس چلائی ہو، یہ کام تو ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہیں اور دفاع فوج کی، یہ پالیسی اور مائنڈ سیٹ سرے سے نامناسب اور غلط ہے۔ جب ریاست ناکامی کا سامنا کر رہی ہو تو یہ عناصر پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ پالیسی ختم کرکے ہمیں جمہوری بنیادوں پہ ریاست کو کھڑا کرنا چاہیئے۔ اس معاملے پر پیپلز پارٹی دباؤ میں نہیں آئیگی، یہ ہمارا اصولی موقف ہے۔

اسلام ٹائمز: ترقی یافتہ دنیا میں بھی شدت پسندی ہے اور دہشتگردی کی بھیانک کارروائیاں ہو رہی ہیں، اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
نیئر حسین بخاری:
پوری دنیا میں جہاں بھی تشدد اور مریضانہ سوچ کا اظہار ہو رہا ہے، یہ اسی منحوس درخت کی شاخیں اور برگ و بار ہیں، مغربی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے جس پودے کو مسلمانون کے وسائل پر تسلط جمانے کیلئے کاشت کیا تھا، یہ سلسلہ 60ء کی دہائی سے کیمونزم کے مقابلے میں مذہب کے تحفظ کے نام پہ شروع ہوا اور آج مذہب ہی اسکا نشانہ بنا ہوا ہے۔ یہ فقط پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کو احساس ہونا چاہیئے کہ غیر متوازن طریقہ اور تشدد کو ہتھیار بنانے کے کیا نتائج ہوتے ہیں۔ جن طاقتوں نے مسلمانوں لیڈروں بشمول شاہ فیصل اور ذوالفقار بھٹو شہید کو قتل کروایا اور آج عالم اسلام اور مسلمانوں کیخلاف انکی نفرت اور دشمنی کا کھل کر اظہار ہو رہا ہے۔ شاہ ایران سے لیکر موجودہ سعودی رجیم تک مسلم حکمرانوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے ان کا ساتھ دیا، آج تک اسکی سزا ہماری نسلیں بھگت رہی ہیں۔ لیکن برائی بھلائی اور نیکی کو ختم نہیں کرسکتی، نہ ہی غالب آسکتی ہے، اس کا ثبوت نیوزی لینڈ میں عوام کا ردعمل اور وہاں کی وزیراعظم کا طرزعمل ہے۔

معصوموں کے خون کا حساب بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے، جو کبھی رائیگاں نہیں جائیگا، لیکن مسلم دنیا اور مغربی معاشرے کو غفلت سے جاگنا چاہیئے، انسانیت کی نقاء کا سوال پیدا ہوچکا ہے، سارے عالم انسانیت اور پوری دنیا کو سمجھنا چاہیئے کہ اسلام امن کا دین ہے، اسلاموفوبیا کو ہوا دینے والے نہ صرف مسلمانوں کے دشمن ہیں بلکہ وہ تمام انسانوں کے دشمن ہیں، انکا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے نہ صرف ریاستوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی، بلکہ کو میڈیا کو اس انفارمیشن کے دور میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ افسوسناک یہ ہے کہ پہلے مسلم یوتھ جو ہتھیار کے طور ہر استعمال کیا گیا اور اب مسلمانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مغرب میں پنپنے والی سفید فام نسل پرستی کی موجودہ متشددانہ شکل القاعدہ اور داعش کا تسلسل ہے، اس کے اسباب بھی وہی ہیں اور اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں، یورپ کو امریکہ کی سازشوں کے مقابلے میں محتاط انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 784179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش