0
Thursday 21 Mar 2019 20:07

بی جے پی والے لوگ ہندوستان میں ڈکٹیٹرشپ لاگو کرنا چاہتے ہیں، ہاردک پٹیل

بی جے پی والے لوگ ہندوستان میں ڈکٹیٹرشپ لاگو کرنا چاہتے ہیں، ہاردک پٹیل
ہاردک پٹیل کا تعلق بھارتی ریاست گجرات سے ہے۔ احمد آباد کے ایک کالج میں مختلف سرگرمیوں کے بعد 2015ء میں ایک عوامی تحریک Patidar Reservation Agitation کی رہنمائی کی، جس دوران انہوں نے گجرات میں متعدد ریلیوں کی سربراہی کی۔ بھاجپا حکومت کی غلط پالیسیوں کیخلاف ایک ریلی کے دوران انکو احمدآباد پولیس نے گرفتار کیا۔ ہاردک پٹیل نے دو سال قبل انڈین نیشنل کانگریس کیلئے اسمبلی کی انتخابی مہم بھی چلائی تھی اور اب آخرکار 12 مارچ 2019ء کو ہاردک پٹیل نے باضابطہ طور پر کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ اسلام ٹائمز نے ہاردک پٹیل سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے کانگریس میں شامل ہونیکا فیصلہ کیوں اور کیسے کیا۔؟
ہاردک پٹیل:
میں نے وہی کیا جو میں ملک اور عوام کے لئے مناسب سمجھتا ہوں۔ ہمارا آئین بھی ہمیں نمائندہ منتخب کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ اگر میں بغیر کسی پارٹی کا رکن بنے بے باکی سے اپنی بات کہہ سکتا ہوں، سماج کے لئے کچھ کرسکتا ہوں تو کسی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے بعد یہ کام میں مزید کامیابی کے ساتھ کر پاؤں گا۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ کانگریس ہی کیوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسی پارٹی کے سابقہ رہنماؤں نے ملک کو آزاد کرایا تھا۔ سبھاش چندر بوس سے لیکر پنڈت نہرو تک اور مہاتما گاندھی سے لیکر مولانا آزاد تک ہر کوئی کانگریس سے وابستہ تھا۔ متحدہ ہندوستان کے تخلیق کار سردار پٹیل بھی کانگریس سے تھے۔ تو کانگریس نے نہ صرف ملک کو آزاد کرایا بلکہ اسے ترقی کی راہ پر بھی لیکر گئی۔ کانگریس نے بڑے بڑے ڈیمز بنوائے، سڑکیں تعمیر کرائیں، کارخانے قائم کئے، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے اداروں کا قیام عمل میں لائی، اس لئے میں نے کانگریس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کیوں کوئی علیحدہ سیاسی جماعت نہیں بنائی جبکہ عوام کی بھرپور حمایت کی بنا پر آپ ایسا کرسکتے تھے۔؟
ہاردک پٹیل:
بالکل ضروری نہیں کہ علیحدہ پارٹی ہی قائم کی جائے۔ میرا مقصد ملک اور سماج کے لئے بہتر کام کرنا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ملک اور سماج کے لئے کانگریس کا حصہ رہتے ہوئے بہتر کام کرسکتا ہوں۔ اس لئے میں نے علیحدہ پارٹی قائم نہیں کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کانگریس کی حکومتوں نے سب کے لئے کام کیا ہے۔ کانگریس نے کبھی دو فرقوں کو، دو قوموں کو آپس میں لڑانے کا کام نہیں کیا ہے، کانگریس نے آزادی کے بعد سے ہی نوجوان، دلت، کمزور اور پسماندہ طبقات کے لئے اسکیمیں بنائی ہیں، کروڑوں لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر اٹھایا ہے، چونكہ میں نوجوان ہوں، اسی لئے میں نے طے کیا ہے کہ کانگریس سے گجرات کے عام نوجوانوں کو جوڑا جائے۔

اسلام ٹائمز: بی جے پی کا الزام ہے کہ آپ کانگریس کے ایجنٹ تھے، وہ کہتے ہیں کہ پہلے آپکو کانگریس نے پروجیکٹ کیا اور اب پارٹی میں شامل کرلیا۔؟
ہاردک پٹیل:
دیکھیئے میرے خلاف ملک کے ساتھ غداری کے دو مقدمے عدالت میں ہیں۔ گجرات کے ہی ایک ضلع میں داخل ہونے پر مجھ پر پابندی عائد ہے۔ احمد آباد کے ایک علاقہ میں میں جا نہیں سکتا ہوں۔ کیا ایجنٹ ایسے ہوتے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت نے ہمارے خلاف 32 سے زائد مقدمہ درج کرائے۔ گجرات سے چھ مہینے کے لئے مجھے جلاوطن کر دیا گیا تھا۔ میں 9 مہینے تک جیل میں رہا۔ کیا کسی کو ایسے پروجیکٹ کیا جاتا ہے۔ اگر کانگریس پارٹی کسی کو ایسے پروجیکٹ کرتی ہے تو میں ہر کسی کو پروجیکٹ کرنے کے لئے تیار ہوں۔

اسلام ٹائمز: آپ جس پٹیل طبقہ سے سامنے آئے ہیں، وہ تو بی جے پی کا کور ووٹر ہے، گجرات کے سابق وزیراعلٰی مادھو سنگھ سولنکی کے وقت سے پٹیل بی جے پی کیساتھ چلا گیا، آپ اسے کانگریس میں کس طرح واپس لائینگے۔؟
ہاردک پٹیل:
یہ افواہ بی جے پی پھیلا رہی ہے کہ پٹیل اس کا ووٹر ہے۔ پٹیل طبقہ نے ایک وقت میں بی جے پی کو ووٹ دیا، لیکن جب سے میں فعال ہوا ہوں، بی جے پی کا یہاں کیا حال ہوا ہے، آپ کو معلوم ہے۔ ایک دور تھا کہ جب بی جے پی میں 50 پٹیل ممبر اسمبلی ہوا کرتے تھے، لیکن 2017ء کے اسمبلی انتخابات میں گھٹ کر ان کی تعداد 25 رہ گئی، اسی طرح کانگریس کے پاس صرف 8 پٹیل ممبر اسمبلی ہوا کرتے تھے، اب یہ بڑھ کر 20 ہوگئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بات سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔

اسلام ٹائمز: 2019ء کے پارلیمانی انتخابات میں آپ کن مسائل پر لوگوں سے ووٹ حاصل کرینگے۔؟
ہاردک پٹیل:
اگر گجرات کی بات کریں تو یہاں خواتین، کسان، نوجوان اور مزدور ہمارے لئے اہم ایشو و مسائل ہونگے، بس یہ سمجھ لیجیئے کہ دوسری پارٹیوں کی طرح ہمارے مسائل دہلی میں طے نہیں ہوں گے۔ ہم نوجوانوں اور کسانوں کے مسائل اٹھائیں گے، جب تک ہم نوجوانوں کو اہمیت نہیں دیں گے، تب تک ملک کے حالات ایسے ہی رہیں گے۔ ہمارے ایشو مذہب، ذات کے نام پر نہیں ہونگے، ہمارا ایشو فوج کا نہیں ہوگا، ہمارا ایشو یہ ہوگا کہ ہماری فوجیں مزید مضبوط ہوں۔

اسلام ٹائمز: آپ پر بھاجپا نے ایک مقدمہ درج کیا ہوا ہے، جسکے ہوتے ہوئے آپ شاید الیکشن نہیں لڑ پائیں گے۔؟
ہاردک پٹیل:
ہاں مجھ پر عوامی تحریک کے دوران بی جے پی نے غلط مقدمہ بنایا تھا، جس میں مجھے دو سال کی سزا ہوچکی ہے۔ اس معاملے میں مجھے ہائی کورٹ سے ضمانت لینی ہے، اگر ہائی کورٹ منع کرتا ہے تو میں الیکشن نہیں لڑ پاؤں گا اور مجھے اس کا کوئی غم بھی نہیں ہوگا۔ میں مکمل سنجیدگی کے ساتھ کانگریس کے ساتھ سیاسی زندگی کا آغاز کر رہا ہوں، ایک انتخاب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں کانگریس کی خاتون لیڈر پریانکا گاندھی کے سیاست میں آنے کا کانگریس کے حق میں کتنا اثر ہوگا۔؟
ہاردک پٹیل:
پریانکا گاندھی نے گجرات کی اس سرزمین سے جو مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کی زمین ہے، اس سے اپنے قومی سیاسی زندگی کا آغاز کیا، اس کے لئے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ گجرات کی زمین سے پریانکا گاندھی، پنڈت نہرو، مہاتما گاندھی اور سردار پٹیل کے خوابوں کو آگے بڑھانے کا کام کریں گی، ایسا میرا ماننا ہے۔ بی جے پی کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ پریانکا گاندھی کے آنے سے اثر نہیں پڑے گا، تو پھر وہ بار بار پریانکا کا نام کیوں لے رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پریانکا کے نام سے ان لوگوں کو گھبراہٹ ہو رہی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ پریانکا گاندھی کی آندھی نریندر مودی کو ختم کر دے گی۔

اسلام ٹائمز: بھارت میں بی جے پی کیخلاف کانگریس کی قیادت میں سیاسی اتحاد کی کوششیں ہو رہی ہیں، اس حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں۔؟
ہاردک پٹیل:
دیکھیئے اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بھارت کو بچانے کا ہے۔ 2019ء کی لڑائی آئین بچانے کی لڑائی ہے۔ اس وقت تمام پارٹیوں کو چاہیئے کہ وہ سماج وادی پارٹی ہو یا بھوجن سماج پارٹی ہو، انہیں اپنے اپنے اختلافات بھلا کر ایک ساتھ آجانا چاہیئے۔ میں یہ بات سمجھ سکتا ہوں کہ ہر ریاست کی مختلف سیاست اور ہر پارٹی کے الگ الگ فوائد ہوتے ہیں، لیکن 2019ء کا الیکشن اس لئے اہم ہے کہ اگر اس سال ملک غلط ہاتھوں میں چلا گیا تو پھر کبھی ملک میں انتخابات نہیں ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: اگر ملک غلط ہاتھوں میں چلا گیا تو پھر کبھی یہاں انتخابات نہیں ہوںگے، یہ جملہ حقیقت سے کتنا قریب ہے۔؟
ہاردک پٹیل:
دیکھیئے آزاد ہندوستان میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ جنتر منتر (نئی دہلی) پر مودی حکومت کی ناک کے نیچے بھارتی آئین کی کاپیاں جلائی گئیں۔ امبیڈکر مردہ باد کے نعرے لگائے گئے۔ ایسا ہندوستان میں پہلی بار ہوا ہے کہ نوجوانوں کے روزگار مانگنے پر ان کے خلاف غداری کے مقدمے درج کئے گئے۔ آج ’’سی بی آئی‘‘ پر سوال اٹھ رہے ہیں، ’’آر بی آئی‘‘ پر سوال اٹھ رہے ہیں، سپریم کورٹ کے جج پہلی بار عوام سے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آج ہندوستان میں گائے کے نام پر قتل ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری حد سے بڑھ گئی ہے۔ یہ تمام واقعات اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ ملک اندر سے تبدیل ہوچکا ہے۔ ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بی جے پی والے لوگ ہندوستان میں ڈکٹیٹرشپ لاگو کرنا چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 784389
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش