0
Sunday 7 Apr 2019 09:06

جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال کیلئے نریندر مودی ذمہ دار ہیں، غلام نبی آزاد

جموں و کشمیر کی تشویشناک صورتحال کیلئے نریندر مودی ذمہ دار ہیں، غلام نبی آزاد
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے غلام نبی آزاد بھارت کے ایک مشہور سیاست دان ہیں، جو ابتداء سے ہی کانگریس پارٹی سے منسلک ہیں۔ وہ کئی شعبوں کے وزارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ فعلاً غلام نبی آزاد بھارتی پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ منموہن سنگھ کے دورِ حکومت میں وزیر امور پارلیمان رہے۔ آندھرا پردیش اور کرناٹک اسمبلی انتخابات میں پارٹی کی ذمہ داری سنبھالی اور دونوں ریاستوں میں کانگریس کو کامیاب کیا اور بعد میں جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی بھی بنے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر مسلسل نو مرتبہ فائز رہے اور اٹھارہ برس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ 1980ء میں آل انڈیا یوتھ کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1982ء میں ڈپٹی وزیر برائے قانون اور کمپنی افئرز پر فائز ہوئے۔ غلام نبی آزاد 2 نومبر 2005ء کو جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی منتخب ہوئے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے غلام نبی آزاد سے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارتی جنتا پارٹی سے آپکا کیا اختلاف ہے اور کیا آئندہ ہونیوالے الیکشن میں بھارتی عوام بھاجپا پر دوبارہ بھروسہ کرسکتی ہے۔؟
غلام نبی آزاد:
بھارتی عوام جانتی ہے کہ نریندر مودی ملک کے آئین کی پاسداری نہیں کر رہے ہیں اور ملک کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ آئین ملک کے لئے لازمی ہوتا ہے اور جو کوئی بھی پارٹی حکومت کی کرسی پر جلوہ افروز ہوتی ہے، اُسے آئین کی تابع داری کرنی پڑتی ہے، تاہم مودی خود اور اُن کے دوسرے رفقاء آئین کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ہیں بلکہ اپنی من مانی چلا کر ملک کے عوام کو ڈرانا اور دھمکانا چاہتے ہیں۔ جب الیکشن میں کسی سیاسی پارٹی کی جیت ہوتی ہے تو ملک جیت جاتا ہے، تاہم اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت ہوئی تو ملک کو کئی طرح کے خطرات کا سامنا ہوگا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر نیوز چینلوں پر بحث کرنے میں اپنی خدمات انجام دے کر ملک کے عوام کو فریب دے رہے ہیں، جبکہ کئی نیوز چینلوں کی جانب سے حزب اختلاف کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ الیکشن میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی جھوٹ کا سہارا نہیں چھوڑ رہی ہے اور ہر ایک معاملے میں لوگوں سے غلط بیانی کر رہی ہے۔ میرے خیال سے رائے دہندگان باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں اور وہ بہتر فیصلہ صادر کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: واضح ہے کہ بھاجپا کا انتخابی منشور فرقہ واریت پر مبنی ہے، کانگریس کیا کہہ کر لوگوں سے ووٹ حاصل کریگی۔؟
غلام نبی آزاد:
ہماری جماعت ہندو اور مسلمان کے نام پر الیکشن نہیں لڑتی۔ ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے سے لڑا کر الیکشن لڑنا بی جے پی کا کام ہے۔ بھارت میں گذشتہ پانچ سال سے وزیراعظم نریندر مودی کی سرپرستی میں حکومت کے نام پر ڈکٹیٹرشپ رائج ہے۔ ہمیں الیکشن ہندو اور مسلمان کے نام پر نہیں لڑنا ہے، یہ کام بی جے پی کا ہے۔ کانگریس نے کبھی ہندو مسلم کے نام پر سیاست نہیں کی ہے۔ ہمارے لئے ہندو بھی اتنا ضروری ہے جتنا مسلمان۔ ہمارے لئے ہندو بھی ہمارا ہی خون ہے۔ یہ ملک تبھی تک ہندوستان ہے، جب تک یہاں ہندو اور مسلمان پیار و محبت سے رہیں گے۔ ہندو اور مسلمان کے نام پر الیکشن لڑنے والے زہر کے بیچ بوتے ہیں۔ ہمیں ملکر رہنا ہے اور ملک کو تقسیم سے روکنا ہے۔ آج بی جے پی جس ریاست میں بھی ہارتی ہے تو مودی ایک دم ہندو مسلمان لڑائی کراتے ہیں۔ آج راہل گاندھی اتفاق سے اس پارلیمانی حلقہ سے الیکشن لڑ رہے ہیں، جہاں مسلمانوں کی آبادی پچاس فیصد ہے۔ اب گذشتہ دو دن سے مودی اسی موضوع کو اچھال رہے ہیں کہ راہل گاندھی مسلم حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ کیا یہ کہنا ایک وزیراعظم کو زیب دیتا ہے کہ کون مسلم حلقہ اور کون غیر مسلم حلقہ انتخاب سے الیکشن لڑ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے مذاکراتی عمل کو آپکی پارٹی کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔؟
غلام نبی آزاد:
اول تو یہ کہنا چاہوں گا کہ جموں و کشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی دفعہ 370 گذشتہ سات دہائیوں سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ جموں کشمیر کا ملک کے ساتھ 26 اکتوبر سال 1947ء کو الحاق ہوا اور اسی وقت دفعہ 370 بھی وجود میں آئی۔ کانگریس کا ماننا ہے کہ جموں کشمیر کے تینوں خطوں کے لوگوں کی خواہشات کے حل کے لئے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔ ہماری حکومت آئے گی تو تمام متعلقین کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات شروع کئے جائیں گے، کیونکہ جب مذاکرات شروع کرنے سے پہلے شرائط رکھی جاتی ہیں تو کچھ لوگ اسی کو بہانہ بناکر مذاکراتی عمل میں شمولیت نہیں کرتے ہیں، جس کے باعث یہ عمل ناکام ہو جاتا ہے۔ ہمارا انتخابی منشور بھی یہی ہے کہ غیر مشروط مذاکرات شروع کئے جائیں گے، جس کے لئے سول سوسائٹی سے تین مذاکرات کاروں کو مقرر کیا جائے گا۔ ہم اقتدار میں آنے کے بعد تمام متعلقین کے ساتھ غیر مشروط بات چیت کریں گے۔ بات شروع کریں گے تو معلوم ہوگا کہ کون کیا کہتا ہے۔ متعلقین کو مطمئن کرنا حکومت کا کام ہوتا ہے۔ شرطیں رکھنے سے مذاکرات شروع میں ہی ناکام ہو جاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ مقبوضہ کشمیر میں نافذ کالے قانون افسپا کے خاتمے کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
غلام نبی آزاد:
جموں و کشمیر میں افسپا اور ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ گذشتہ تیس برسوں سے نافذ ہیں، جو بہت بڑا عرصہ ہے۔ پنجاب میں چودہ برسوں کے بعد ہی افسپا کو ہٹایا گیا تھا، لہٰذا ہم جموں کشمیر میں افسپا کے نفاذ پر نظرثانی کریں گے، جس سے فوج کو بھی عسکریت پسندی کو ختم کرنے کے مکمل اختیارات ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی پامالیاں بھی نہیں ہوں گی۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں نہیں ہوتی ہیں تو میں بحیثیت وزیراعلٰی گواہ رہ چکا ہوں کہ میں نے اپنے زمانے میں خود تین قبریں کھدوائیں تھیں، جن سے بانہال، کوکرناگ اور بانڈی پورہ کے تین بے گناہ ریڑی چلانے والوں کو نکالا گیا، جنہیں پاکستانی تربیت یافتہ جنگجو ہونے کے الزام میں مارا گیا تھا۔ تین پولیس افسروں کو انعام اور ترقی دینے کے لئے بے گناہوں کو مارنا انسانیت نہیں ہے۔ کوئی بھی حکومت، میڈیا، شخص یا مذہب یہ برداشت نہیں کرسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر تشویشناک صورتحال سے گزر رہا ہے، اس خون خرابے کی ذمہ داری آپ کس پر عائد کرتے ہیں۔؟
غلام نبی آزاد:
جموں و کشمیر میں موجود مشکل حالات کے لئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ذمہ دار ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ 2014ء تک حالات ٹھیک ہوگئے تھے۔ کیا وجہ ہے کہ 2014ء سے لے کر آج تک حالات پھر 1990ء کی طرح ہوئے۔ اس کے لئے اگر اس ملک کا کوئی ایک آدمی ذمہ دار ہے تو وہ نریندر مودی ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس بھی کشمیری عوام کی کم دشمن نہیں ہے۔ پولیس نے بھی کم زیادتیاں نہیں کیں۔ میں سلام کرتا ہوں ان پولس والوں کو جنہوں نے اپنی جانیں دیں، لیکن بے گناہوں کا خون نہیں بہایا۔ پولیس میں ایسے ناسور بھی تھے، جو اپنی ترقی اور پیسے کے لئے معصوم لوگوں کا قتل کرتے رہے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے کیوں بی جے پی کوئی سیاسی پہل کرنے کیلئے تیار نہیں ہو رہی ہے۔؟
غلام نبی آزاد:
میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ مسئلہ کا حل اور راستہ بات چیت و مذاکرات ہے۔ کوئی اس حقیقت سے انحراف کرے تو افسوس کی بات ہے۔ آج لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ کس سے بات چیت کی جائے۔ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ کشمیر میں حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔ بھاجپا کو سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھنا چاہیئے اور مشورہ کرنا چاہیئے۔ اگر بھاجپا کی اعلٰی قیادت کو کوئی پریشانی ہے تو وزیر داخلہ کو بات چیت کے لئے پہل کرنی چاہیئے۔ ہمیں ہر حال میں بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم چاہے کچھ بھی کریں، لیکن ہمیں بات چیت و مذاکرات کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیئے۔ ہمارا ماننا ہے کہ اپنے لوگوں سے بات کرنے میں پریشانی کی بات نہیں ہونی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 784394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش