0
Wednesday 27 Mar 2019 22:04

تحریک آزادی ہند میں آر ایس ایس کا کوئی تعاون نہیں تھا، ڈاکٹر کنہیا کمار

تحریک آزادی ہند میں آر ایس ایس کا کوئی تعاون نہیں تھا، ڈاکٹر کنہیا کمار
ڈاکٹر کنہیا کمار کا تعلق بھارتی ریاست بہار سے ہے۔ بھارت میں رواں سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بیگوسرائی بہار سے کمونسٹ پارٹی آف انڈیا کی ٹکٹ پر قسمت آزمائی کررہے ہیں۔ دہلی کی معروف یونیورسٹی جے این یو (جواہر لعل نہرو یونیورسٹی) سے پی ایچ ڈی کرچکے ہیں اور اب مختلف سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ کنہیا کمار ’’بہار ٹو تہاڑ‘‘ اور ’’وعدہ‘‘ سمیت متعدد کتابوں کے مصنف ہیں اور آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لیڈر بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے کنہیا کمار سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قائین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں بھاجپا کی جانب سے آپ پر ملک کیساتھ غدار کا جرم عائد کیا گیا تھا، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر
کنہیا کمار: دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کے کارکنان اب منہ نہیں کھول پارہے ہیں۔ مودی حکومت کی ناکامیوں نے انہیں گونگا بنا دیا تھا، تو چارج شیٹ فائل کرنے کے بہانے انہوں نے اپنے کارکنان کو بولنے کے لئے ایک ایشو تھما دیا تھا۔ یہ اپنے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ دیکھو، چارج شیٹ فائل ہوگئی۔ اب اس کا شور مچاؤ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ چارج شیٹ ایک بہانا ہے اصل نشانہ 2019ء کے الیکشن ہیں۔ آپ اس حکومت کا طریقہ کار سمجھے نہیں۔ ان کو تو حکومت چلانا تک نہیں آتی۔ اگر جے این یو طلباء یونین کا صدر ہونے کے ناطے جے این یو میں ہونے والے ہر واقعہ کے بارے میں مجھے معلوم ہونا چاہیئے تو یہاں کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو بھی تو معلوم ہونا چاہیئے کہ جے این یو میں کیا ہورہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھاجپا یہ سب کچھ سیاسی فائدے کے لئے کررہی ہے۔؟
ڈاکٹر کنہیا کمار:
دیکھیئے چناؤ آنے والا ہے اور حکومت جانے والی ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران مودی حکومت نے فرضی معاملے ہی اٹھائے ہیں تاکہ حقیقی مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جاسکے۔ اب انتخابات قریب ہیں اور ایک مرتبہ پھر نیشنل اور انٹی نیشنل کا ایشو لے کر شور مچایا جارہا ہے۔ بھاجپا حکومت بار بار اپنا موقف تبدیل کر رہی ہے کیونکہ وہ ڈری ہوئی ہے۔ حکومت کو بھی کہیں نہ کہیں یہ اندازہ ہے کہ عوام انکا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ عوام کے غصے و دباؤ کا نتیجہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں کو بھی اپنے اپنے مفاد چھوڑ کر ایک ساتھ ہونا پڑرہا ہے۔ محسوس ہورہا ہے کہ ہندؤ ووٹ بیلٹ میں بی جے پی کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا تو اس مایوسی میں حکومت تمام ہتھکنڈے اپنا رہی ہے کہ کس طرح سے اپوزیشن پارٹیوں کو بدنام کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کو لگتا ہے کہ ملک کے ساتھ غداری جیسے اہم قوانین کا مودی حکومت نے مذاق بنا دیا ہے۔؟
ڈاکٹر کنہیا کمار:
دیکھیئے، چاہے وہ شہریت بل کا معاملہ ہو، چاہے ریزرویشن کا معاملہ ہو یا پھر پاٹیدار تحریک کا معاملہ ہو۔ جس نے بھی مخالفت کی اس پر مودی حکومت نے ملک کے ساتھ غداری کا چارج لگا دیا۔ پاٹیدار تحریک کے رہنما ہاردک پٹیل پر بھی غداری کا چارج لگایا گیا۔ شہریت بل کی مخالفت میں بولنے والے آسام کے سماجی کارکنان اکھل گوگوئی کے خلاف بھی اسی قانون کا استعمال کیا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس قانون کا مذاق ہی بنا دیا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ جے این یو کو لیکر ہونے والی حب الوطنی اور غداری کی بحث اور واقعہ دونوں کے مرکزی رول تھے، آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے۔؟
ڈاکٹر کنہیا کمار:
میرا ماننا ہے کہ یہ حکومت اپنے آپ کو قوم پرست تو کہتی ہے لیکن ملک کے خلاف ہونے والی سرگرمیوں کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر حکومت غداری کے واقعہ کو لیکر سنجیدہ ہوتی تو چارج شیٹ تین سال بعد نہیں پہلے ہی دائر ہوچکی ہوتی، مقدمہ چل چکا ہوتا۔ یہاں تک کہ اس معاملہ میں اگر کوئی مجرم قرار دیا جاتا تو اسے سزا بھی مل چکی ہوتی۔ یہ حکومت اس معاملہ میں قطعی سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان لوگوں نے پوری سازش خود تیار کی ہے۔ سازش کے تحت ایک مرتبہ پھر قوم پرستی اور غداری کی بحث اس لئے اٹھانا چاہتے ہیں کیوںکہ ان کے پاس اب بولنے کے لئے کچھ رہ ہی نہیں گیا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ملک کے خلاف نعرے بازی ایک سنگین معاملہ ہے۔ غداروں کے خلاف اب تک کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔؟ میں اب بھی کہہ رہا ہوں کہ تیزی سے ٹرائل چلایا جائے، پولس ثبوت اکٹھا کر کے جلد عدالت میں رکھے، سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ اس معاملہ کو کس طرح پیدا کیا گیا تھا۔ جب معاملہ عدالت میں جائے گا تو آر ایس ایس کا پردہ فاش ہوجائے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ بھی پارلیمانی الیکشن میں بھاجپا کے مدمقابل بہار سے ایک امیدوار ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے کہ بھاجپا کا جادو چناؤ کے دوران اپنا اثر پھر سے دکھائے گا۔؟
ڈاکٹر کنہیا کمار:
دیکھیئے بی جے پی کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔ یہ تمام پرانے مسائل کو اٹھا کر فائدہ اٹھا چکے ہیں چاہے رام مندر کا مسئلہ ہو یا پھر کوئی اور معاملہ۔ بابری مسجد اس لئے نہیں گرائی گئی تھی کہ انہیں مندر بنانا تھا بلکہ مسجد اس لئے گرائی گئی تھی کیونکہ حکومت سازی کرنی تھی۔ رام کے نام پر ناتھو رام کی سیاست لوگ سمجھنے لگے ہیں۔ کافی دنوں سے آر ایس ایس سیاسی بحث کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے تک یہ پردے کے پیچھے سے کام کرتی تھی لیکن کسی سیاسی بحث کا حصہ نہیں تھی لیکن اب اس کا اصل چہرہ سامنے آگیا ہے۔ مہاتما گاندھی کے قتل میں آر ایس ایس کا ہاتھ تھا، اس بارے میں لوگ بات کرنے لگے ہیں۔ تحریک آزادی میں ان کا کوئی تعاون نہیں تھا، اس پر بات ہونے لگی ہے۔ کس طرح آر ایس ایس نے ترنگے کی مخالفت کی، کس طرح آئین کی مخالفت کی، یہ باتیں اب لوگ جاننے لگے ہیں۔ یہ جو چاہے کرلیں۔ ہمارے جو واجب سوال ہیں کرتے رہیں گے جیسے کہ 15 لاکھ کا کیا ہوا، کالا پیسا کہاں گیا، روزگار کہاں ہے، ہجومی تشدد کیوں ہورہا ہے، اس ملک میں سماجی کارکنان کو کیوں مارا جارہا ہے۔؟ ہم یہ سب پوچھنا بند نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ بھاجپا کے مدمقابل پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، الیکشن کے حوالے سے بھارتی عوام کے نام آپکا کیا پیغام ہے۔؟
ڈاکٹر کنہیا کمار:
دیکھیئے آپ جانتے ہیں کہ بھارت کن حالات سے گذر رہا ہے۔ کس طریقے سے ہماری جمیوریت پر حملہ کیا جارہا ہے۔ عدلیہ، مساوات، انصاف اور برابری کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حکومت اور اسکے کارندے کھلی دہشتگردی پر اتر آئے ہیں۔ اس الیکشن میں ایک طرف پیسوں کی حکمرانی ہے تو دوسری طرف جمہوریت کو بچانے والے لوگ ہیں۔ میں ان تمام لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ 2019ء کے انتخابات اہم اور تاریخی ہیں۔ اس الیکشن میں تمام لوگوں کو انتہا پسندوں کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کے تمام طبقوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جمہوریت اور آئین کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوجائیں۔ اس مہم کو آگے بڑھانے کے لئے میں آگے آچکا ہوں اور لوگوں سے تعاون کا خواہاں ہوں۔ اگر عوام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو مجھے تعاون دیں۔ یہ لڑائی ایک فرد کی لڑائی نہیں ہے بلکہ یہ لڑائی تمام لوگوں کی لڑائی ہے۔ یہ لڑائی سچ اور جھوٹ کی لڑائی ہے۔ اس لئے مجھے تعاون کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 784395
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش