0
Thursday 21 Mar 2019 23:09
مسلمان ممالک میں ہونیوالی دہشتگردی میں مغربی طاقتوں کا ہاتھ رہا ہے

کیوی وزیراعظم کے واضح موقف سے دہشتگردی کے متعلق دوغلے پن کا باب بند ہو جائیگا، مشاہد حسین سید

کیوی وزیراعظم کے واضح موقف سے دہشتگردی کے متعلق دوغلے پن کا باب بند ہو جائیگا، مشاہد حسین سید
پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنماء مشاہد حسین سید 1952ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، انکے والدین نے تحریک پاکستان میں فعال کردار ادا کیا، انہوں نے لاہور کے فورمینز کالج سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، امریکہ سے خارجہ امور میں ماسٹر کیا، امریکی کانگریس میں انٹرنشپ مکمل کی، صحافت اور تعلیم میں روشن کیریئر کے حامل رہے، سول سروس اکیڈمی کے پاکستان ایڈمنسٹریٹیو اسٹاف کالج میں سفارتکاروں کی تربیت پہ مامور رہے، پنجاب یونیورسٹی سے منسلک ہوئے، لیکن فوجی حکمراں پر تنقید کیوجہ سے انہیں ادارے نے برطرف کر دیا گیا۔ 1982ء میں وہ انگریزی روزنامہ دی مسلم کے ایڈیٹر بنے۔ اس دوران وہ باقاعدگی سے ٹائمز آف انڈیا اور دی ہندوستان ٹائمز سمیت دنیا کے معروف اخبارات نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور تہران سے شائع ہونیوالے ایکو آف اسلام سمیت مختلف اخبارات و جرائد میں لکھتے رہے۔ 1997ء میں، وفاقی کابینہ میں شمولیت سے قبل وزیرِاعظم نواز شریف کے مشیر بھی رہے۔ 1999ء میں پرویز مشرف کے ہاتھوں نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مشاہد حسین بدستور چار سو چالیس روز قید میں رہے۔ 2003ء میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کی ٹکٹ پر سینیٹ میں منتخب ہوئے، بعد ازاں مشرف کے زبردست حامی بنے، 2004ء مقتول بلوچ رہنما اکبر بگٹی سے مذاکرات کرنiوالی ٹیم میں بھی شامل تھے، 2008ء صدارتی امیدوار نامزد کیے گئے، 2012ء میں پھر ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہوئے، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع و دفاعی پیدوار اور قائمہ کمیٹی برائے امورِ خارجہ، کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے سربراہ رہے۔ 2017ء کے آخر میں مسلم لیگ (ق) سے نون لیگ کیساتھ اندرون خانہ مراسم کیوجہ سے سبکدوش کر دیئے گئے، فروری 2018ء میں نون لیگ میں دوبارہ شمولیت اختیار کرکے مارچ 2018ء میں اگلی مدت کیلئے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ میاں نواز شریف کی پالیسیوں اور موقف کا ہمہ وقت دفاع کرنیوالے بین الاقوامی امور کے ماہر، مصنف، پالیسی ساز، لیگی رہنماء سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین، پاک چائنہ انسٹیٹیوٹ سنٹر کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹروہو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: اس تاثر کے باوجود کہ ترقی یافتہ دنیا حقائق کو درست انداز میں سمجھ کر مسائل کی پیش بندی اور انکا حل تلاش کر لیتی ہے، نیوزی لینڈ واقعہ پہ یہ تقسیم کیوں ہے کہ یہ شوٹنگ ہے یا دہشتگردی۔؟
مشاہد حسین سید:
یہی ایک وجہ ہے جو دہشت گردی کے خاتمے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، یہ بحث ہمارے ہاں بھی تھی، اب بھی ہے کہ حریت پسندی، جہاد، یا ڈرون حملوں کا انتقام ہے، حالانکہ ہمارے ہاں کوئی ایسی تفریق نہیں تھی، جس سے یہ سمجھنے میں مشکل ہوتی کہ یہ فساد اور دہشت گردی کے علاوہ کچھ نہیں۔ نیوزی لینڈ کے واقعہ کے بعد ایک بحث تو ہوئی ہے لیکن جس ملک میں یہ واقعہ ہوا، وہاں کی وزیراعظم نے بہت زیادہ واضح انداز میں بغیر کسی لگی لپٹی کے، کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور صاف صاف اسے دہشت گردی ہی قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس مسئلے پر قابو پانے میں زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔ معاشرہ بھی تقسیم نہیں ہوگا۔ قانون سازی میں بھی آسانی ہوگی، تفتیش میں بھی الجھن نہیں ہوگی، کوئی سازشی تھیوری بھی کامیاب نہیں ہوگی، حکومت کے متعلق دوغلے اور منافقانہ سلوک کا شبہ بھی نہیں پیدا ہوگا، اس واقعہ پر سیاست بھی نہیں ہوگی۔

ڈبل گیم کا تصور بھی نہیں ابھرے گا، لوگ عدم تحفظ کا شکار نہیں ہونگے، دہشت پھیلانے والے اثاثہ قرار نہیں پائیں گے، ذاتی، سیاسی اور کاروباری رقابت کی بنیاد پہ ہونیوالے جرائم کو دہشت گردی کیساتھ خلط ملط بھی نہیں کیا جاسکے گا۔ اثر اس پالیسی بیانات اور حکمران طبقے کی سوچ کا ہی ہوتا ہے، بے شک باتیں ایک سے زیادہ قسم کی ہوتی بھی رہیں، جیسے ہمارے ہاں یہ عام ہے کہ شور بہت ہوتا ہے، لیکن عملی طور پر وقوع پذیر وہی ہوتا ہے، جو حکمران اشرافیہ چاہتی ہے۔ اس صورت میں اگر یہ ڈیبیٹ چلتی بھی رہے تو یہ اتنا خطرناک نہیں ہوگا، جو متضاد بیانیوں کی وجہ سے ہمارے ہاں ہوتا ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے بیانات سے مغرب میں موجود ابہام اور دنیا میں دہشت گردی سے متعلق دوغلا پن ختم ہوسکتا ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے۔

اسلام ٹائمز: سفید بالادستی کے خواہشمندوں کے عزائم سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا، اسکی وجہ سے مغربی دنیا میں کیا منفی اثرات مرتب ہونگے۔؟
مشاہد حسین سید:
ویسے تو عام خیال یہی پایا جاتا ہے کہ مغرب خود ایک مسئلہ ہے، خود اپنے لیے بھی اور باقی دنیا کیلئے بھی، مغربی طاقتوں کی جارحانہ، متعصابانہ اور مفاد پر مبنی جاری پالیسیوں سے اس تاثر کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے، وہ شاید اپنے آپ کو اس صورتحال سے بالا سمجھتے ہیں اور شدت پسندی اور منظم طریقے سے ہونیوالی قتل و غارت کو صرف باقی دنیا کا مسئلہ سمجھتے ہیں، اسی لیے وہاں دہشت گردی کے متعلق بہت تحقیق ہوئی ہے، اپنے تئیں اس مسئلے میں وہ ابہام کا شکار نہیں ہیں، لیکن سفید فام نسل پرستی اور برتر ہونے کے متعلق انہوں نے اس طرح سے نہیں سوچا، جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ایک دہشت گردی کی شکل ہے، وہاں یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ نفرت پہ مبنی رویہ ہے، جسکی وجوہات معاشرتی اور معاشی ہیں، جبکہ دہشت گردی کو سیاسی پہلو سے زیادہ پرکھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پورا معاشرہ ہی اسکا شکار ہے، جس طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پورا عالم اسلام یا مسلمان شدت پسند اور دہشت گرد ہیں۔ لہذا وہ اس کے منفی اثرات کا بھی جائزہ اسی انداز میں لیں گے اور اسکا تدارک بھی کرینگے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ مسلمان ممالک میں ہونیوالی دہشت گردی میں مغربی طاقتوں کا ہاتھ رہا ہے، ہم اکیلے اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: عمومی طور پر تو اس سے اتفاق کیا جاسکتا ہے، لیکن اس واقعہ میں تو مسجد اور مسلمانوں کو چن کر نشانہ بنایا گیا ہے، کیا ہم اسے دہشتگردی نہ گردانیں۔؟
مشاہد حسین سید:
اگر اس تناظر میں دیکھیں گے تو یہ نائن الیون کے بعد پیدا ہونیوالی مخصوص فضاء کا نتیجہ ہے، جس کو بنیاد بنا کر امریکی حکومت نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کا آغاز کیا، جس سے مسلمانوں کے متعلق نفرت کو ہوا ملی، حتیٰ سکھوں کو بھی مسلمان سمجھ کر نشانہ بنایا گیا، اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مختلف ممالک میں مسلمانوں کیخلاف تعصب پایا جاتا ہے، جو کبھی تشدد کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح خاکوں کا مسئلہ ہے، ہمارے ہاں دہشت گردی اتنی زیادہ ہوئی ہے کہ یہ اب ایک روایت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی پرتشدد کارروائی ہو تو اسے دہشت گردی ہی گردانا جاتا ہے۔ یہ شرمناک فعل ہے، مسلمانوں کو دنیا کو یہ سمجھانا ہوگا کہ دہشت گردی صرف یہ نہیں کہ جس کیلئے کوئی تنظیم موجود ہو، ٹریننگ کیمپ ہوں، کوئی ریاست انکے پیچھے ہو، بلکہ یہ جو کچھ ہوا ہے، یہ دہشت گردی ہی کی ایک شکل ہے۔

اس واقعہ میں بھی ایک گروہ ملوث پایا گیا ہے، یہ کوئی نفسیاتی عارضہ نہیں، نہ ہی صرف مجرمانہ ذہنیت اس کے پیچھے کارفرما ہے، خدا نہ کرے یہ سلسلہ دوبارہ چلے، لیکن یہ باور کروانے میں وقت لگے گا۔ اس میں وقت اس طرح لگتا ہے کہ جب دوسروں کیخلاف دہشت گردی ہوتی ہے تو خود آپ کو یہ سمجھنے میں دقت ہوتی ہے، نائن الیون کے وقت بھی، بے شک وہ ایک سازش ہی تھی، لیکن مسلمان ممالک میں جشن بھی منائے گئے تھے، بعد میں ان خوشی منانے والوں کو خود ہی القاعدہ اور دہشت گردی میں ملوث گروپوں سے نقصان اٹھانا پڑا اور اظہار لاتعلقی کیساتھ اپنے بیانیے میں تبدیلی لانا پڑی۔ باقی مغربی دنیا کو الگ رکھ کر اگر اس وقت نیوزی لینڈ کی بات کریں تو انکی وزیراعظم نے اسے دہشت گردی ہی کہا ہے، مسلمانوں کو احساس بھی دلایا ہے کہ انہیں دلی طور پر اسکا دکھ ہے، وہ اپنی ذمہ داری پوری کرینگی۔

آئندہ ایسے واقعات کو روکنے کیلئے اقدامات بھی کرینگی۔ انہوں نے صرف اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ ان کے مقابلے میں امریکہ اور دوسری طاقتوں کا رویہ اب بھی واضح طور پر منفی ہے، جو درست نہیں۔ کیوی وزیراعظم نے پاکستانی نژاد شہری کا بھی ذکر کیا ہے، اب ظاہری طور پر وہ وہی بات کر رہی ہیں، جو ہم پوری مغربی دنیا سے مطالبہ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کو اسلاموفوبیا کیخلاف پوزیشن لینا چاہیئے، یہ ضروری ہے۔ یہ جو نیریٹو تشکیل پا رہا ہے مغرب میں مہاجرین اور مسلمانوں کیخلاف اس کو توڑنا پڑیگا۔ اسوقت مسلمانوں کیلئے دنیا میں ہر طرح کی دہشت گردی کیخلاف اپنی بات ایک دہشت گردی کے مخالف کے طور پر کروانا ایک چیلنج ہے، مشکل نہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں جن تنظیموں کے متعلق دنیا کا مطالبہ ہے کہ انکے خلاف کارروائی کی جائے، ان گروہوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جانا چاہیئے یا انکا صفایا ہونا چاہیئے۔؟
مشاہد حسین سید:
ہم جو مطالبہ دنیا سے کر رہے ہیں، اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اپنا گھر ٹھیک کر لیں، چین کے لئے یہ بات سبکی کا باعث ہے کہ جس تنظیم کا اس نے اقوام متحدہ میں 3 بار پاکستان کے کہنے پر دفاع کیا ہو، وہ پلوامہ واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لے۔ ایسی ندامت والی صورتحال سے گریز کرنا چاہیئے اور ہمیں اپنے قریبی دوست کو اس طرح کی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیئے۔ اب چین بھی یہ واضح کرنا چاہتا ہے کہ وہ پاکستان اور ہندوستان کے ساتھ آزادانہ ثالثی کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، جو یہاں کی اکثریت کا نظریہ ہے، ضروری ہے اس پر مباحثہ ہو، یہ فیصلے بھی ای بنیاد پہ ہونا چاہیئں، اس میں یہ سب واضح ہو، خود ان کالعدم گروہوں کو بھی پتہ ہونا چاہیئے کہ وہ ایک چھوٹی سے اقلیت ہیں، جو اپنا فیصلہ مسلط نہیں کرسکتے، اس پر جو پاکستان کا قانون ہے، اس کے مطابق کارروائی ہو۔ ہم نے لیکن اس چیلنج کو کبھی اس طرح نہیں لیا، ضروری یہ ہے کہ کسی کو پاکستان پر سوچ مسلط کرنیکی اجازت نہ دی جائے۔ 16 دسمبر 2014ء کے سانحے کے بعد قومی ایکشن پلان مرتب کیا گیا تھا اور قومی قیادت نے نفاذ کا فیصلہ کیا تھا، کچھ چیزوں پر عمل نہیں ہوا، جن پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے، یہ پانچ سال پرانا ہمارا اپنا فیصلہ ہے اور یہی ہمارے قومی مفاد میں ہے۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر چین ہی پاکستان کیلئے سفارتکاری کے فرائض انجام دیگا، پاکستان اپنے قومی مفاد کو کسطرح آگے بڑھائیگا۔؟
مشاہد حسین سید:
میں سمجھتا ہوں کہ پلوامہ واقعہ کے بعد جس طرح پارلیمنٹ، حکومت اور تمام طرف سے جو یکجہتی دکھائی گئی ہے، یہ اتفاق رائے اب برقرار ہے کہ نینشل ایکشن پلان کے تحت پاکستان ضروری کارروائی کریگا، چین کا اس حوالے سے اپنا کوئی موقف نہیں، چین وہی کریگا جو پاکستان اسے کہے گا۔ جو اقدامات کئے جا رہے ہیں، پاکستان میں انکی روشنی میں شاید اب چین کو یہ مشورہ دیا جائے کہ یو این او میں اب پہلے والی پوزیشن کی ضرورت نہیں۔ چین پہلے طرح اب بھی ناراض نہیں، یہ تعلقات توقعات سے کہیں گہرے ہیں۔ بھارت کے ذریعے جو دباؤ ڈالا جاتا ہے، وہ دونوں کیخلاف ہوتا ہے، پاکستان کے بھی اور چین کے بھی، اس لیے دونوں کو ایکدوسرے کی ضرورت ہوتی ہے، ایکدوسرے کو چھوڑ نہیں سکتے۔ پہلے چین واحد طاقت ہے، جنہوں مغربی بیانیے کے برخلاف بھارت پر دباؤ ڈالا ہے مذاکرات کیلئے، ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اس وقت پاکستان اور چین کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے، دونوں پر مختلف ممالک اپنا اپنا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ چین اور پاکستان کے مؤقف میں تعلقات کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اسلام ٹائمز: شدت پسند گروہوں کیخلاف حالیہ اقدامات ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے سے بچنے کیلئے کافی ہونگے۔؟
مشاہد حسین سید:
امید تو ہے کہ ایسا ہوگا، یہ جو اقدامات ہیں، ان کا فیصلہ ہم نے مل کر خود ہی کیا تھا۔ قومی ایکشن پلان پاکستان کا مشترکہ فیصلہ ہے، فیصلے پر عملدرآمد میں تاخیر ہوئی ہے، لیکن یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کے لیے یہ بڑا اہم موقع تھا، جب ہم نے بھارت کو بھرپورجواب دیا ہے، 20 سال بعد قوم اور قومی قیادت ایسے متحد ہوئی ہے۔ امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور پاکستان اس کام میں اس کی مدد کرسکتا ہے، اس لیے امریکہ میں اختلاف پایا جاتا ہے، امریکہ کو پاکستان کی حکومت اور فوج کی شدید ضرورت ہے۔ امریکہ کو جھوٹ اور نالائقی کی وجہ سے افغانستان اور عراق جنگ میں بری طرح ناکامی ہوئی ہے۔ جس سے پاکستان کو بہترین موقع ملا ہے کہ آگے بڑھے اور پاکستان کے اندر بھی اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ پاکستان اگر سمجھداری سے کام لے تو ہمارے ہاتھ خالی نہیں ہیں، آسانی سے امریکہ سمیت تمام اداروں اور ممالک کے دباؤ سے نکلا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا نواز شریف اور آصف زرداری کی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے۔؟
مشاہد حسین سید:
موجودہ صورتحال میں جمہوری اصولوں کی نفی ہو رہی ہے، انتقام پہ مبنی سلسلہ جاری ہے، اس سے ملک کا نقصان ہوگا، پاکستان کے استحکام، دفاع، تعمیر و ترقی کے لیے نواز شریف نے تاریخی کامیابیاں حاصل کیں ہیں اور ملک کی سلامتی، ملک کی سالمیت اور جمہوریت کی بالادستی سے مشروط ہیں۔ لیکن اب انہی اصولوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے، ملک کے لیے یہ بڑا اہم موقع تھا، جب ہم نے بھارت کو بھرپور جواب دیا ہے، 20 سال بعد قوم اور قومی قیادت ایسے متحد ہوئی ہے۔ پاکستان کو اسوقت دنیا میں اہم ترین ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن اگر ہم صرف مخالفت کی وجہ سے اپوزیشن رہنماؤں کو تختہ مشق بناتے رہے تو ملک کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے، لامحالہ جس کا فائدہ پاکستان کو کمزور کرنیوالی قوتوں کو ہوگا، یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ کون سیاست کریگا اور کسے سیاست کا حق حاصل نہیں۔
خبر کا کوڈ : 784501
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش