0
Tuesday 26 Mar 2019 20:11
پاکستان کیخلاف جارحیت کی غلطی کرنا بھارت کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی

ہمارے معاشرے میں جنت برائے فروخت کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، میاں افتخار حسین

عوام کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے تمام سیاسی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا
ہمارے معاشرے میں جنت برائے فروخت کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے، میاں افتخار حسین
میاں افتخار حسین 5 اپریل 1958ء کو پبی ضلع نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ انکے والد میاں محمد رفیق ایک محنت کش انسان تھے، جنہوں نے فوج میں بطور وائرلیس آپریٹر فرائض انجام دیئے۔ گورنمنٹ کالج پشاور میں داخلہ لینے کے ساتھ ہی پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوگئے۔ تھرڈ ایئر میں اپنے کالج کے پختون اسٹوڈینٹس فیڈریشن کے صدر بن گئے، جبکہ فورتھ ایئر میں پختون ایس ایف کیجانب سے یونین کا صدارتی الیکشن لڑا، جسے وہ جیت نہ سکے۔ 1979ء میں بی اے کیا۔ بی اے کے دوران اپنی ماموں زاد سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ میاں افتخار نے 1980ء میں پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1982-83ء کے سیشن میں ایم اے سوشل ورک کی ڈگری حاصل کی۔ 1980ء میں یونیورسٹی کے طالبعلم کی حیثیت سے پختون ایس ایف کے صوبائی صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے 1983ء میں ایم اے پشتو کی ڈگری بھی حاصل کی۔ 1986ء میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔  1988ء میں صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑا مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ اسکے بعد 90ء کا الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ صوبائی اسمبلی میں اے این پی کے پارلیمانی سیکرٹری اور ضلعی ڈیڈک کمیٹی کے چیئرمین بنے۔ 1993ء کا الیکشن پی پی پی کے مقابلے میں صرف 149 ووٹوں سے ہارا۔ 1997ء کا الیکشن پھر جیتا۔ 2002ء کا الیکشن پھر پی پی پی کے مقابلے میں ہارا، لیکن 2008ء کا الیکشن جیت لیا اور صوبائی وزیر اطلاعات، ٹرانسپورٹ اور کلچر مقرر کئے گئے۔ 2013ء کے انتخابات میں اپنی جماعت کے اکثر امیدواروں کی طرح وہ بھی ناکام ٹھہرے۔ اسوقت وہ اے این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہیں۔ منجھے ہوئے اور مدبر سیاستدان میاں افتخارحسین ملکی اور بین الاقوامی حالات پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ انکو صورتحال کا خوب ادراک بھی ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے ان سے گفتگو کی، جسکا احوال قارئین کی نذر ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی سی پیک منصوبے میں روڑے اٹکا رہی ہے، اسکی حقیقت کیا ہے؟
میاں افتخار حسین:
عوامی نیشنل پارٹی ایک جمہوری، پرامن اور ترقی پسند جماعت ہے۔ ملک اور قوم کی ترقی سمیت قانون کی حکمرانی کیلئے سیاسی میدان میں سرگرم عمل ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی سی پیک کی بھرپور حمایت کرتی ہے لیکن اس حوالے سے ہمارے چند اہم جائز اور بنیادی تحفظات ہیں، جس کے حوالے سے اسفندیار ولی خان و دیگر مرکزی قائدین حکومت چین کے اہم سرکاری حکام کو آگاہ کر چکے ہیں۔ سی پیک میں مغربی روٹ بشمول کوریڈور، دہشتگردی سے تباہ حال صوبے کیلئے تعلیم، صحت، تاجر برادری، نوجوان طبقے کیلئے روزگار، خواتین کی ترقی و بنیادی وسائل اور حقوق کی فراہمی کیلئے سی پیک میں منصوبے شامل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ قبائلی اضلاع کی عوام کی زندگی کو بہتر کرنے اور اس منصوبے میں سب سے زیادہ حصہ قبائلی عوام کو دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ صوبہ خیبر پختونخوا، قبائلی اضلاع کے عوام اور بلوچستان کے عوام اس عظیم عالمی منصوبے سے محروم نہ رہ سکیں۔ ہمارا موقف ہے کہ چینی حکومت سی پیک کے مسئلے پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر مشاورت کرے اور تمام سیاسی پارٹیوں اور صوبوں کے جائز مطالبات کو سنجیدگی کے ساتھ سن کر اس پر غور کیا جائے تاکہ حقیقی معنوں میں اس عظیم عالمی منصوبے سے حکومت چین اور پاکستان کے تمام صوبے مستفید ہوسکیں۔ منصوبے پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کرنے سے پاک چین ترقی کا ایک نیا سفر شروع ہوگا جو دوستی کو مزید مضبوط کر دے گا۔

اسلام ٹائمز: وقتی طور پر پاک بھارت کشیدگی تھم چکی ہے، آنے والے دنوں میں پھر سے خطے کا امن داؤ پر لگ سکتا ہے؟
میاں افتخار حسین:
 پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، ہم لڑائی کو ترجیح میں نہیں رکھتے، لیکن ہماری امن کی خواہش کو کمزوری ہرگز نہ سمجھا جائے۔ بھارت نے فضائی حدود کی خلاف ورزی کی جسکا اسے بھرپور منہ توڑ جواب دیا گیا ہے اور آئندہ بھی کسی قسم کی جارحیت کی گئی تو اسی طرح سے جواب دیا جائے گا۔ بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت کی غلطی کرنا اس کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ پاکستان نے ہمیشہ سے خطے میں امن کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے، ہماری عوام نے دہشت گردی کے خلاف دنیا میں سب سے زیادہ قربانی دی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے پاکستان کی قربانیوں سے انکار کسی طور ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ افغان امن مذاکرات میں پاکستان کا کردار بہت مثبت رہا ہے۔ بھارت کو ایک سے زائد مرتبہ مسائل کا حل بات چیت کے ذریعے طے کرنے کا کہا جاچکا ہے لیکن بھارت نے ہر وقت کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر بات چیت کے عمل کو سبوتاژ کیا ہے۔ انڈیا کو چاہیئے کہ اپنی اصل جنگ غربت اور افلاس کے خلاف لڑے۔ پاکستان تمام ممالک کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے۔ بھارت کو چاہیئے کہ حقائق کو تسلیم کرے، وقت کا تقاضا بھی ہے کہ عالمی برادری مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنی قراردادوں پر عمل کرانے کیساتھ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔ عالمی طاقتیں بھارت پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ پاکستان کے اصولی اور شفاف موقف کو بھرپور سپورٹ کریں۔ وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ دوست ممالک کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ مزید بڑھا دے تاکہ دنیا کے سامنے اپنی پالیسی کے خدوخال اُجاگر کئے جا سکیں۔

اسوقت بی آر ٹی منصوبہ خیبر پختونخوا حکومت کے گلی کی ہڈی بن چکا ہے، آپکی نظر میں کوتاہی کہاں پر ہوئی؟
میاں افتخار حسین:
بی آر ٹی منصوبے کیوجہ سے صوبائی حکومت کی کارکردگی عوام کے سامنے آگئی ہے۔ اس منصوبے میں عوام کا پیسا ضائع کیا گیا، انتہائی ناقص پلاننگ کے تحت اس منصوبے پر کام کیا جارہا ہے۔ 18 بار بی آر ٹی کے نقشے میں تبدیلی کی گئی۔ اس حکومت کا یہ پہلا بڑا منصوبہ تھا جو آئے روز اپنی خراب حالی کی وجہ سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ دوسروں کے بس منصوبوں کا مذاق اڑانے والے خود اپنے بی آر ٹی کی وجہ سے نشان عبرت بنتے جارہے ہیں۔ نیب کو چاہیئے کہ بس منصوبے کی تحقیقات شروع کرے اور منصوبے کی عدم تکمیل کی انکوائری کیساتھ ذمہ داروں کا تعین کرے۔ اس ایک پراجیکٹ سے متعلق آئے روز نئی تاریخیں دی جارہی ہیں۔ بی آر ٹی پراجیکٹ عام شہری کی مشکلات اور پریشانی کی عکاسی کرتا ہے۔ غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیئے، یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے ٹریفک کا پورا نظام متاثر ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ میٹرو منصوبے میں تاخیر، لاگت میں اضافے کا ذریعہ بن کر قومی خزانے پر بوجھ بن رہی ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ سرکاری منصوبوں کیلئے ٹائم لائن کی پابندی کی کرے، تاخیر کے باعث لاگت میں اضافے کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: نیوزی لینڈ حملے کے بعد وہاں کی حکومت کے کردار کو کیسا دیکھتے ہیں اور اس کے مقابلے میں پاکستان کا کردار کیسا ہوتا ہے؟
میاں افتخار حسین:
 نیوزی لینڈ کا سانحہ انتہائی افسوسناک سانحہ تھا، جس نے تمام عالم اسلام اور دیگر دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اپنے کردار اور مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی اعلٰی مثال قائم کر دی ہے، کسی بھی مذہب میں دہشتگردی کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ پہلی بار نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن پاک اور وزیراعظم کے مشرقی لباس میں شہداء کے لواحقین سے اظہار یکجہتی اور انکے کیلئے شہداء پیکج کے اعلان نے نئی تاریخ رقم کی ہے، جو حقیقی معنوں میں لائق تحسین ہیں۔ اس سانحہ میں شہید ہونے والے نعیم راشد کی بہادری کو دنیا سلام کررہی ہے۔ نیوزی لینڈ اور پاکستان میں بہت فرق ہے، وہاں یکجان ہوکر دہشت گردی کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ میرے اکلوتے بیٹے میاں راشد شہید کے قاتل کو بچانے کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں جو نہ صرف اپنا گناہ قبول کرچکا ہے، بلکہ لوگوں نے اسے شناخت بھی کیا ہے۔ عالمی سظح پر پاکستان سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے کوششیں کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن یہاں معاملات الٹ ہیں، جب دہشت گردوں کو ثابت ہونے کے باوجود رہا کیا جائے تو دہشتگردی کیسے ختم ہوسکتی ہے؟ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں پر پاکستان کو ہلال امتیاز مل چکا ہے لیکن موجودہ صورتحال میں دہشتگردوں کی رہائی اس ایوارڈ کی توہین ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جنت برائے فروخت کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے لیکن کوئی اس کے خلاف آواز اٹھانے والا نہیں۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومت کے رویئے کو کیسا دیکھ رہے ہیں؟
میاں افتخار حسین:
موجودہ حکومت کا بس چلے تو اپوزیشن جماعتوں کو کرش کر دے، ہم پر مسلط کئے گئے وزیراعظم اسوقت پاگل پن کا شکار ہیں۔ احتجاج جمہوریت کا حسن ہے اور ملک میں بسنے والے ہر شہری کو اپنے مطالبات کیلئے پرامن طور پر آواز اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ حکمران اپوزیشن سے خائف ہیں اور اپنے غیر جمہوری رویہ سے سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانے کیلئے نیب کو استعمال کر رہے ہیں۔ راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر لاٹھی چارج کیا گیا اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ پُرامن مظاہرین پر تشدد اور لاٹھی چارج سے حالات خراب ہوئے، ہمیں وہ وقت بھی یاد ہے جب اسلام آباد کے ڈی چوک میں 126 دن تک دھرنا دینے والوں نے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا تو انہیں روکنے والا کوئی بھی اہلکار موجود نہیں تھا۔ آج وہی لوگ سیاسی مخالفین کو بزور شمشیر دبانے کی کوشش میں لگے ہیں۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے خلاف کیس کراچی کی بجائے اسلام آباد منتقل کرنے کا کیا جواز بنتا ہے؟ مرکزی حکومت سندھ حکومت کی اکثریت و مقبولیت سے خائف ہے اور طاقت کے زور پر پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ ہم احتساب پر یقین رکھتے ہیں تاہم اسے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ شفاف اور غیر جانبدار بلا امتیاز احتساب کیا جائے اور اس کا آغاز حکومتی عہدیداروں سے ہونا چاہیئے اور نیب کو بطور ہتھیار سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ ملک میں جمہوریت کے بغیر کوئی دوسرا نظام نہیں چل سکتا اور تمام مسائل کا حل جمہوریت میں ہے۔ عوام کی حکمرانی یقینی بنانے کیلئے تمام سیاسی قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ میثاق جمہوریت کے ذریعے تمام سیاسی و مذہبی قوتوں کے پاس جمہوریت کی بقاء کیلئے متحد ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جمہوریت کو درپیش مشکلات اور مسائل کا حل نکالنے کیلئے تمام سیاسی قوتوں کو مصلحتوں سے نکلنا ہوگا اور عوام کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور جمہوری اداروں کے استحکام و مضبوطی کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھانا ہونگے۔ ملک میں عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی روایت ختم ہونی چاہیئے، عوامی رائے کے نتیجے میں بننے والے حکمرانوں کے راستے میں حائل رکاوٹوں کے خاتمے کے بغیر ملک و قوم کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہے گا جس سے ملک کمزور اور بدنام ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 785128
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش