0
Sunday 31 Mar 2019 21:17
خیبر پختونخوا میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد 26 لاکھ تک پہنچ گئی ہے

آج تک کسی تنظیم نے طالبعلم اور تعلیم کی بہتری کی بات نہیں کی، ضیاء اللہ بنگش

ہم نجی سکولوں کے ہرگز خلاف نہیں ہیں، ان سکولوں نے 37 فیصد تک حکومت کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے
آج تک کسی تنظیم نے طالبعلم اور تعلیم کی بہتری کی بات نہیں کی، ضیاء اللہ بنگش
وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے مشیر برائے ابتدائی و ثانوی تعلیم ضیاء اللہ بنگش 1987ء کو ضلع کوہاٹ کے گاؤں محمد زئی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کوہاٹ کے نجی سکول سے حاصل کی اور پھر اسی سکول سے میٹرک بھی کیا۔ گورنمنٹ کالج سے بی اے کرنے کے بعد پشاور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ آپ ملکی اور بین الاقوامی سطح کی مختلف ورکشاپس میں حصہ لینے کے ساتھ مختلف کورس میں ڈپلومہ ہولڈر بھی ہیں۔ شروع سے ہی سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ اسی تناظر میں 1989ء میں ایک تنظیم قائم بنائی جس کے تحت سماجی بہبود کے ساتھ تعلیم اور خصوصاََ تعلیم بالغان کیلئے جدوجہد کرتے رہے۔ 2003ء میں صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔ صحافت میں آپ نے بہت جلد نام بنا لیا اور پریس کلب کوہاٹ کے جوائنٹ سیکرٹری منتخب ہوئے۔ کوہاٹ پریس کلب کے دو مرتبہ جنرل سیکرٹری رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ ضیاءاللہ بنگش عمران خان کے ساتھ اسوقت سے دلی وابستگی رکھتے ہیں جب 1996ء میں وہ شوکت خانم میموریل ہسپتال لاہور کیلئے فنڈ ریزنگ کیلئے کوہاٹ آئے، اس دوران آپ نے مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ سیاست میں انٹری کے حوالے سے ضیاء اللہ بنگش بتاتے ہیں کہ وہ حادثاتی طور پر سیاست میں آئے۔ علاقے کے مشران نے انہیں یا ان کے چچا میں ایک کو سیاست میں لانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے قرعہ اندازی ہوئی تو قرعہ ضیاءاللہ بنگش کے حق میں نکل آیا۔ علاقہ عمائدین اور عوام کی رائے سے آپ نے 2011ء میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ سال 2012ء میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات میں آپ کو صوبے کا ڈپٹی جنرل سیکرٹری چنا گیا۔ اپنے سیاسی کیرئر کے پہلے پارلیمانی انتخابات یعنی 2013ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیابی حاصل کرکے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2018ء کے انتخابات میں پھر قسمت آزمائی کی اور پی کے 82 سے بھرپور کامیابی حاصل کی۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلٰی محمود خان نے ضیاءاللہ بنگش کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں صوبے کے سب سے بڑے محکمے "ابتدائی و ثانوی تعلیم" کی ذمہ داریاں سونپی۔ ابتدائی و ثانوی تعلیم نہ صرف صوبے کا سب سے بڑا محکمہ ہے بلکہ نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی انتہائی حساس اور اہم ذمہ داری بھی اسی محکمے کے سپرد ہے۔ اس محکمے کے زیر انتظام 30 ہزار سکولوں کا وسیع جال بچھا ہوا ہے۔ لاکھ کے قریب اساتذہ درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ دفاتر میں ہزاروں کی تعداد میں کلریکل سٹاف خدمات انجام دے رہا ہے۔ اسلام ٹائمز نے ضیاءاللہ بنگش کے خصوصی گفتگو کی جو قارئیں کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: دیگر محکموں کی طرح ابتدائی و ثانوی تعلیم نے بھی 100 دنوں کا پلان تشکیل دیا، اس پلان کے شعبہ تعلیم پر کیا اثرات مرتب ہونگے، چیدہ چیدہ نکات بیان فرمائیں؟
ضیاء اللہ بنگش:
جب ہمیں 100 دنوں کا پلان بنانے کی ہدایت کی گئی تو شروع شروع میں ہم نے اس جانب توجہ نہیں دی، لیکن جب وزیراعظم کے آفس کی جانب سے مانیٹرنگ کا آغاز ہوا اور وزیراعظم نے بھی سختی سے ہدایات کیں تو پھر ہم نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے سوچ و بچار کے بعد ایک ٹیم بنائی۔ میری خواہش تھی کہ 100 دنوں میں ایسا پلان مرتب کروں جس کی بنیاد پر آئندہ 5 سال کی پالیسی مکمل طور پر سامنے آجائے اور ہمیں روڈ میپ مل جائے، جس پر چل کر شعبہ تعلیم کی ترقی اور معیاری تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ ہمیں اس ورکنگ اور ایکسرسائز کا بہت فائدہ ہوا جس کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے، ہم نے گذشتہ 5 سال کا جائزہ لیا، میں ضرور کہوں کا کہ سابق وزیر تعلیم محمد عاطف خان نے ابتدائی و ثانوی تعلیم نے بہت کام کیا۔ پچھلے ادوار میں ہم نے پالیساں بنائیں، سکولوں میں مسنگ سہولیات کی فراہمی کا عمل شروع کیا، ہم نے فیصلہ کیا کہ گذشتہ پالیسی کو جاری رکھا جائے گا جبکہ آئندہ پانچ سال میں معیاری تعلیم اور درس و تدریس پر کام کیا جائے گا۔

100 روزہ پلان کے تحت ہم پرائمری سکولوں میں کم سے کم اساتذہ کی تعداد 4 رکھیں گے، 40 طلبہ ایک اساتذہ کا فارمولہ بھی تبدیل کررہے ہیں۔ ہرچند کہ اب بھی ایک ٹیچر 80، 80 ببچوں کو پڑھا رہا ہے جس کا ہمیں ادراک ہے۔ اسی لئے اب 20 طلبہ ایک استاد کی پالیسی لا رہے ہیں۔ ہر کلاس میں 20 طلبہ سے زیادہ بچوں کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس مقصد کیلئے پرانے فرنیچر کو ختم کرکے نئے فرنیچر متعارف کر رہے ہیں، جس کے تحت کرسی اور میز کا سائز انتہائی چھوٹا ہوگا، اس طریقے سے کلاس رومز میں گنجائش پیدا ہو جائے گی۔ ہم پرائمری سکولوں میں ٹاٹ سسٹم کو بالکل ختم کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے ٹینیور کے پہلے 7 ماہ کے دوران ہی 17 ہزار اساتذہ بھرتی کرلئے ہیں، مزید 12500 اساتذہ کی بھرتی کی منظوری لے لی ہے۔ پرائمری سکولوں کو جاذب نظر بنانے کیلئے کلرفل بنا رہے ہیں۔ ان سکولوں میں بچوں کی دلچسپی کا سامان مہیا کریں گے۔ ابتدائی طور پر 10 ہزار پرائمری سکولوں کا بنیادی اسٹرکچر تبدیل کر رہے ہیں۔ سکولوں کو بلیک بورڈ سے وائٹ بورڈ اور پھر ڈیجیٹل بورڈ پر منتقل کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اب ہم ابتدائی کلاسوں میں کانسپٹ بیسڈ تدریس کا سلسلہ شروع کریں گے۔ ریاضی، انگریزی اور اردو کے مضامین کی اسسمنٹ کریں گے۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت نے سرکاری سکولوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے، عملی اقدامات کا آغاز کب ہوگا، اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کی بھرتی کیلئے کیا میکنزم بنایا گیا ہے؟
ضیاء اللہ بنگش:
صوبے میں ڈراپ آؤٹ کی شرح کم کرنے اور سکولوں سے باہر بچوں کو داخل کرانے کیلئے سرکاری سکولوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے سروے شروع کردیا ہے۔ ہم یونین کونسلوں کی سطح پر سکولوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کریں گے۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ہم مزید نئے اسکول نہیں بنائیں گے، جن سکولوں میں کمروں کی ضرورت ہے فوری طور پر تعمیراتی کام شروع کرائیں گے۔ سیکنڈ شفٹ سے بھی کام نہ بنا تو پھر قریبی عمارتوں کو کرائے پر حاصل کرکے درس و تدریس کا عمل شروع کریں گے۔ سیکنڈ شفٹ کیلئے نجی سکولوں کی خدمات بھی لینے کا پلان ہے۔ جہاں تک سوال اساتذہ کی کمی یا بھرتی کا ہے تو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جن جن سکولوں میں سیکنڈ شفٹ شروع کی جائے گی وہاں دن کے اوقات میں پڑھانے والے اساتذہ کو سیکنڈ شفٹ میں پڑھانے کی پیشکش کی جائے گی۔ ڈبل ڈیوٹی پر انہیں الگ سے نتخواہیں دیں گے۔ جہاں اساتذہ دستیاب نہیں ہونگے ہم مارکیٹ سے پڑھے لکھے طبقے کو عارضی بنیادوں پر نوکریاں دیں گے۔

اسلام ٹائمز: قبائلی اضلاع کا اختیار چونکہ اب صوبے کو مل گیا ہے ایسے میں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد بھی بڑھنے کا اندیشہ ہے، کیا قبائلی اضلاع میں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کیلئے سروے کیا جائے گا؟
ضیاء اللہ بنگش:
سکولوں سے باہر بچوں کو سکولوں میں لانا بہت بڑا ٹاسک ہے۔ اس کے ساتھ ڈراپ آؤٹ کی شرح بھی کم کرنے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز کردیا ہے۔ قومی سطح پر سروے کے مطابق خیبر پختونخوا کے 18 لاکھ بچے اسوقت سکولوں سے باہر ہیں۔ یہ سروے اسوقت کیا گیا جب قبائلی علاقے صوبے کا حصہ نہیں بنے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق قبائلی اضلاع کے 8 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، یعنی اب خیبر پختونخوا میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد 26 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ہم آئندہ ماہ اپریل سے انرولمنٹ مہم شروع کر رہے ہیں جس کا آغاز ضلع خیبر سے کریں گے۔ اس مہم کا افتتاح وزیراعظم یا وزیراعلٰی کریں گے۔

اسلام ٹائمز: پالیسیوں اور منصوبوں پر چیک رکھنے اور عملدآمد کرانے کیلئے کیا میکنزم وضع کیا گیا ہے؟
ضیاء اللہ بنگش:
ہم نے سیکرٹری تعلیم سے لے کر ڈائریکٹر اور اضلاع کے ڈی ای اوز کو جوابدہ اور مانیٹر بنا دیا ہے، میں خود وزیراعلٰی کو جوابدہ ہوں گا۔ اس مقصد کے کیلئے ہر 15 دنوں بعد سیکرٹری تعلیم ڈائریکٹر اور دیگر ماتحت افسران سے ٹاسک رپورٹ طلب کرتے ہیں اور پیشرفت کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہر ماہ میں سیکرٹری سے رپورٹ مانگتا ہوں اور پالیسیوں اور منصوبوں پر پیشرفت کا جائزہ لیتا ہوں جبکہ میں خود ہر 3 ماہ بعد وزیراعلٰی کو شعبہ تعلیم پر بریفنگ دیتا ہوں۔ ہم نے ٹریفک سگنلز کی طرح کا ایک نظام متعارف کرایا ہے، جب ٹاسک حوالے کئے جاتے ہیں تو ریڈ لائٹ کا نشان آویزاں ہو جاتا ہے، جو منصوبے ٹریک پر آجائیں اس کیلئے زرد لائٹ لائٹ کا نشان لگایا جاتا ہے اور جب منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے تو اسے سبز بتی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: قبائلی اضلاع کے سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری بڑا مسئلہ ہے، اسی طرح گھوسٹ سکولوں کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہیں، ان سکولوں کو سٹریم لائن کرنے کیلئے کیا اقدامات کئے جارہے ہیں؟
ضیاء اللہ بنگش:
حاضریوں کا مسئلہ خیبر پختونخوا میں بھی تھا جس کیلئے ہماری سابق حکومت نے انڈیپینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ (آئی ایم یو) کا ادارہ متعارف کرایا، اس اقدام سے خیبر پختونخوا کے سرکاری سکولوں میں حاضری 99 فیصد ہوگئی ہے۔ اب ہم نے آئی ایم یو کا دائرہ قبائلی اضلاع تک بھی بڑھا دیا ہے جبکہ حال ہی میں صوبائی اسمبلی میں آئی ایم یو کو مستقل اتھارٹی بنانے کا بل پیش کردیا ہے۔ ہم نے آئندہ 6 ماہ کیلئے قبائلی اضلاع کے 600 سکولوں کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ضمن میں 350 سکولوں کیلئے فنڈز جاری کردیئے ہیں۔ قبائلی اضلاع کے شعبہ تعلیم کا بجٹ 18 ارب ہے، جس میں 4 ارب ترقیاتی کاموں کیلئے مختص ہوتے ہیں، ان اضلاع میں 2400 اساتذہ کو ایٹا ٹیسٹ کے ذریعے بھرتی کیا ہے۔ مزید 4 ہزار اساتذہ بھرتی کریں گے، مجموعی طور پر 8 ہزار اساتذہ کی کمی ہے۔

اسلام ٹائمز: سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے تبادلوں کا ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے، اساتذہ دن بھر اپنے تبادلوں کے کیلئے دفاتر کا چکر لگاتے رہتے ہیں، اس تدراک کیلئے کیا کیا جارہا ہے؟
ضیاء اللہ بنگش:
جب میں نے چارج سنبھالا تو میں حیران رہ گیا کہ صبح سے شام تک اساتذہ صرف اپنے تبادلوں کیلئے ہی سرگرداں رہتے ہیں۔ اس جھنجٹ سے مستقل چھٹکارے کیلئے ای پوسٹنگ ٹرانسفر پالیسی متعارف کر رہے ہیں جس کے تحت اساتذہ کا سارا ڈیٹا کمپیوٹرائزڈ ہوگا۔ 3 سال کا ٹینیور مکمل کرنے کے بعد اساتذہ کے خود کار طریقے سے تبادلے ہونگے۔ میں آپکو بتاتا چلوں کہ اب صرف سال میں ایک مرتبہ جنرل تبادلے ہونگے، تبادلوں کا بڑا آرڈر اب صرف مارچ، اپریل میں جاری ہوا کرے گا۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت نے اساتذہ کے سرکاری سطح ہر انتخابات کا عندیہ دیا ہے، اس فیصلے کی ضرورت کیوں پڑی؟
ضیاء اللہ بنگش:
دراصل اساتذہ تنظیموں کے مسائل ایک ہیں، لیکن تمام تنظیمیں الگ الگ طریقوں سے ان مسائل کو پیش کرتی ہیں۔ میں نے سوچا جب مسائل ایک ہیں تو پھر ایسوسی ایشن بھی ایک ہونی چاہیئے۔ اس لئے میں نے ان تنظیموں سے کہا کہ وہ انتخابات کرائیں اور صوبائی سطح پر ایک ایسوسی ایشن بنائیں تاکہ اساتذہ کو درپیش مسائل کا حل نکالا جاسکے۔ مجھے اس امر پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ مجھ سے جس تنظیم کے عہدیدار بھی ملتے ہیں وہ اساتذہ کی اپ گریڈیشن ترقی و دیگر مراعات کا مطالبہ کرتے ہیں، آج تک کسی تنظیم نے طالب علم اور تعلیم کی بہتری کی بات نہیں کی۔

اسلام ٹائمز: یکساں نظام تعلیم کا نعرہ گذشتہ دور میں لگایا گیا، لیکن آج تک یکساں نظام تعلیم کا مقصد سمجھایا نہیں جاسکا؟
ضیاء اللہ بنگش:
وزیراعظم کی ہدایات کے تحت ایک قوم، ایک نصاب کے تحت مرکزی سطح پر ایک ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی گئی ہے، اس کمیٹی میں تمام صوبوں کو نمائندگی دی گئی ہے۔ اسی کے ساتھ اس کمیٹی میں دینی مدارس، نجی سکولوں سے لیکر تمام اسٹیک ہولڈر کی نمائندگی شامل ہے۔ اسی کمیٹی کے مختلف اجلاس ہو چکے ہیں۔ خیبر پختونخوا نے اپنی تجاویز دیدی ہیں، ان تجاویز میں پرائمری سکولوں میں نرسری سے دوئم تک مادری زبان جن میں صوبے میں بولنے والی زبانیں، پشتو، ہندکو، سرائیکی، چترالی و دیگر شامل ہیں۔ اسی طرح تیسری جماعت سے قومی زبان ادرو کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، جبکہ سیکنڈری تعلیم سے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے، ہم نے اپنی تجاویز دیدی ہیں اب دیگر صوبوں کی تجاویز اور اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ایک نصاب کیلئے عملی اقدامات کا آغاز کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: نجی سکولوں کو قواعد میں لانے کیلئے پرائیویٹ سکولز ریگولیٹری اتھارٹی، (پی ایس آر اے) قائم کی گئی لیکن آج بھی نجی اسکول قوائد کی مسلسل خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں؟
ضیاء اللہ بنگش:
میں اس پلیٹ فارم سے میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نجی سکولوں کے ہرگز خلاف نہیں ہیں، نجی سکولوں نے 37 فیصد تک حکومت کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے۔ نجی سکولوں سے متعلق زیادہ تر خلاف ورزیاں فیسوں کی مد میں کی جاتی ہیں۔ جب پی ایس آر اے فیسوں سے متعلق کوئی فیصلہ کرتی ہے تو نجی سکول ہائیکورٹ یا پھر سپریم کورٹ چلے جاتے ہیں، چونکہ عدالتیں مقدم اور ہم عدالتی فیصلوں اور احکامات کا احترام کرتے ہیں، بیرکیف پی ایس آر اے کو ہدایت کی ہے وہ قانون کے تحت اپنا کام جاری رکھے۔

اسلام ٹائمز: تعلیمی بورڈز میں اصلاحات کے بارے میں بتائیں اور اسسمنٹ کا کیا فائدہ ہورہا ہے؟
ضیاء اللہ بنگش:
امتحانات میں اصلاحات ناگزیر ہیں، پرچوں کے ماڈلز کو تبدیل کیا جانا بہت ضروری ہے، ہم امتحانی نظام کو بھی بہتر بنانے کے خواہاں ہیں۔ اسی کے ساتھ نقل کے تدراک کیلئے اس مرتبہ خصوصی ایپ متعارف کرادی ہیں۔ اب انسپکٹر امتحانی ہالوں کا سرپرائز وزٹ نہیں کریں گے، بلکہ صبح پرچہ شروع ہونے سے ختم ہونے تک ہالوں میں ہی موجود رہیں گے اور اپنے موبائلز سے خصوصی ایپ کے ذریعے پل پل کی رپورٹ مرکزی نظام کو بھیجیں گے، جس ہال میں نقل ہوگی اس کے پرنسپل کے خلاف کارروائی کریں گے جبکہ نجی سکولوں کی رجسٹریشن منسوخ کردیں گے۔ اسسمنٹ کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے اساتذہ اور طلبہ کی تعلیمی صورتحال کا پتہ چل جاتا ہے۔ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کے کہ آئندہ تعلیمی سال سے آٹھویں کا امتحان بورڈز کے زیرِ اہتمام ہوگا جبکہ نویں کا بورڈ ختم کردیا جائے گا، صرف دسویں کا بورڈ امتحان ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 786180
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش