0
Tuesday 9 Apr 2019 19:15

امیر اور طاقتور طبقے کو غریبوں پر ترجیح دینے والا نظام انصاف دہشتگردی سے خطرناک ہے، میاں فرخ حبیب

امیر اور طاقتور طبقے کو غریبوں پر ترجیح دینے والا نظام انصاف دہشتگردی سے خطرناک ہے، میاں فرخ حبیب
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء میاں فرخ حبیب فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی ہیں، ستمبر 2018ء میں وزیراعظم نے انہیں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے ریلوے مقرر کیا۔ حالات حاضرہ اور ملکی سیاست کے اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھنے والے رہنماء کیساتھ موجودہ ملکی اور سیاسی صورتحال اور حکومت کو درپیش چیلنجز سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: سپریم کورٹ کیطرف سے نااہل قرار دیئے گئے سیاستدان کی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کا کیا جواز ہے۔؟
میاں فرخ حبیب:
اس میں دو باتیں ہیں، ایک تو یہ وزیراعظم کو اختیار اور صوابدید حاصل ہے کہ کس کو اجلاس میں شرکت کیلئے بلاتے ہیں، جہانگیر ترین صاحب خود تو نہیں آئے، انہیں بلایا گیا ہے تو انہوں نے آکر بریفنگ دی ہے۔ کیونکہ وہ خاص شعبے کی باریکیاں سمجھتے ہیں، زراعت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ انکا بڑا مضبوط پس منظر ہے ایگرکلچر کا، ان کے وہاں آنے میں بات کرنے میں کیا حرج ہے۔ یہ معاملہ لیگی دور حکومت جیسا نہیں ہے، جہاں مریم نواز کا اربوں روپے کے فنڈز پہ کنٹرول تھا، ان کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں، نہ انکے کہنے پہ ترقیاں اور تبادلے ہو رہے ہیں، ماہرین کو باہر سے بھی تو بلا لیا جاتا ہے، انہیں کسی محکمے یا ادارے کا سربراہ تو بنایا نہیں گیا، صرف انکی رائے لی گئی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انکا مقابلہ سزا یافتہ مجرموں کیساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خدمت کرنا چاہتے ہیں، ہمارے لیے قابل اعتماد ہیں، حکومت ان کی رائے اور تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اتنے شدید اختلافات اور آئے روز کے جھگڑوں کیساتھ حکومت چلائی جا سکتی ہے، کیا درست فیصلے ممکن ہیں؟
میاں فرخ حبیب:
یہ کوئی مشکل نہیں ہے، نون لیگ نے تین دہائیوں تک حکومت کی ہے، لیکن ان کے وزراء آپس میں بات تک نہیں کرتے تھے، عابد شیر علی نے رانا ثناء اللہ کو دہشت گرد اور قاتل تک کہا تھا، رانا ثناء اللہ نے عابد شیر علی کے والد کو پاگل قرار دیا۔ اصل کردار لیڈرشپ کا ہوتا ہے، عمران خان کی قیادت میں کسی کو شک نہیں، یہ پارٹی حسن ہے، سیاسی اشرافیہ اور معاشی مافیا کے بل بوتے پر سیاست کرنیوالی پارٹیوں میں تو کسی کو بات کرنے کی اجازت نہیں، یہ پارٹی میں آزادی اظہار اور جہموری رویوں کی دلیل ہے، لیکن اس کے لئے بہتر طریقہ ہونا چاہیئے، میڈیا میں نہیں اچھالنا چاہیئے تھا۔ اسی طرح جہاں تک پندرہ منٹ کیلئے کسی کے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں آنے کا معاملہ ہے تو دیکھیں شرجیل میمن جیسے لوگ پبلک اکاونٹس کمیٹی میں بٹھائے گئے ہیں، اپوزیشن کو تو یہ حق اور جواز ہی نہیں پہنچتا کہ پی ٹی آئی پہ اعتراض کریں۔

اسلام ٹائمز: پہلے سے موجود مہنگائی کو کنٹرول کرنیکے بجائے پیٹرولیم مصنوعات سمیت تمام اشیائے صرف کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا جواب صرف یہ ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کرپٹ اور نااہل ہے۔؟
میاں فرخ حبیب:
ہاں یہ بات درست ہے کہ مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، یہ فیصلے بوجھل دل اور مجبوری کیساتھ لے رہے ہیں، یہ کسی کو خوش کرنے یا کسی کی جیب بھرنے کیلئے نہیں لئے جا رہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کسی بھی سطح پر عوام پہ بوجھ ڈالا جائے، لیکن گذشتہ تین ماہ میں 35 فیصد تک عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھی ہیں، ٹیکسز بھی کم کئے ہیں، جس کی وجہ سے ریوینو میں بھی کمی آئی ہے، آئندہ چند ماہ میں ان شاء اللہ بہتری آئیگی، عوام کو مایوس نہیں کرینگے۔ پچھلے ادوار میں پندرہ ہزار ارب کے قرضے لے گئے اور مصنوعی طریقے سے معیشت کو چلایا گیا، اسکا خمیازہ آج پاکستان بھگت رہا ہے۔ ہم اس کے باوجود اپوزیشن کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ چارٹر آف اکانومی تشکیل دیں اور ملک کو آگے لیکر چلیں۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن کو ساتھ لیکر پاکستانی معیشت کو پٹڑی پہ لانا خوش آئند ہے، کیا ماضی کے برعکس پی ٹی آئی حکومت ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے چوروں کو تحفظ دینے کا منصوبہ بھی رکھتی ہے، عمران خان جسکے شدید مخالف تھے۔؟
میاں فرخ حبیب:
حالات کا فرق ہے، پہلے جو ایمنسٹی اسکیم نون لیگ نے پیش کی تھی، وہ حکومت کے آخری دنوں میں تھی، جس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ وہ کچھ لوگوں کو رعایت دینا چاہتے ہیں، لیکن ہماری حکومت جتنی بھی اسکیمیں اور پروگرام لا رہی ہے، وہ شروع ہی میں لانچ کیے جا رہے ہیں، جس سے ہمیں مخالفت اور عوامی رنج و غصے کا بھی سامنا ہے، لیکن ملکی بقاء اور ترقی کیلئے یہ ضرروی ہے کہ جو درست صورتحال ہے، وہی قوم کے سامنے رکھی جائے۔ اس سے ریونیو اکٹھا ہوگا، جو کسی کی جیب میں نہیں جائیگا، ملکی خزانے میں آئیگا، اس کی ہم ضمانت دیتے ہیں۔ اس پر اعتراض تو تب ہونا چاہیئے، جب یہ رقوم اکٹھی کرنے کا مقصد اپنی تجوریوں کو بھرنا ہو یا اپنے کاروبار کو منافع بخش بنانا ہو۔ یہ ملک کی ضروریات پوری کرنے کا ایک طریقہ ہے، ٹیکس نیٹ میں لوگوں کو لانے اور انہیں اعتماد دلانے کیلئے اس کا اعلان کیا گیا ہے، سب کو کوشش کرنی چاہیئے کہ اسے کامیاب بنائیں اور اس کے نتائج دیکھیں، اصل چیز نتائج ہیں، اگر مثبت نہ ہوں تو پھر مورد الزام ٹھہرایا جائے، ہر کام کرنے سے پہلے اعتراضات کی بارش یہ ملک کے مفاد میں نہیں، ہر چیز کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیئے۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ بلیک اکانومی زیادہ ہے، رئیل اسٹیٹ سمیت مختلف طریقوں سے رقوم چھپائی گئی ہیں یا روکی گئی ہیں، انہیں کاروبار کا حصہ بننا چاہیئے، اسکا ایک طریقہ یہ بھی ہے، اسے آزمانے میں کیا حرج ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ یہ سب کچھ بغیر کسی سمت اور مقصد کے تعین کے کیا جا رہا ہے، یہ سب سوچ سمجھ کر عمل میں لایا جا رہا ہے۔ ٹیکس ریفارمز اور زراعت سمیت تمام شعبوں میں اصلاحات لائی جا رہی ہیں، یہ اسکیم ان ٹیکس ریفارمز کا حصہ ہے، جس کا مقصد ریونیو کو بڑھانا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ادارے تباہ کرکے جانیوالوں نے سب کچھ ایڈہاک ازم پہ چلایا ہے، جسے سدھارنا آسان نہیں، لیکن ہماری کوشش ہے کہ معیشت جلد از جلد استحکام میں آجائے۔ یہ چوروں اور ڈاکووں کا زمانہ تو ہے نہیں، جمہوری نظام کے کچھ تقاضے ہیں، وہ پورے کئے جا رہے ہیں ساتھ جو لوگ ٹیکس چوری اور بدعنوانی میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی بھی جاری ہے، اس پہ کوئی کمپرومائز نہیں ہو رہا۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف حکومت کہتی ہے کہ پاکستان میں کمزور اور طاقتور کیلئے الگ الگ قانون ہے، دوسری طرف کڑے احتساب کی بات بھی کرتے ہیں، یہ سیاسی عزم کی کمی ہے یا کچھ چھپایا جا رہا ہے۔؟
میاں فرخ حبیب:
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے نظام میں عام آدمی کیلئے انصاف کی کوئی گنجائش نہیں، اگر آپ امیر ہیں تو ادارے بے بس نظر آتے ہیں، عدالتیں چھٹی کے دن بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہیں، آپ کو گھر بیٹھے ریلیف مل جاتا ہے، ادارے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں، ساری دنیا کے سامنے جب آپ کو بلایا جاتا ہے کہ اربوں روپے کا حساب دیں، صرف یہ بتا دیں کہ یہ رقوم اور جائیداد آپ کے پاس کیسے آئی ہے تو آپ کرایہ پہ رکھے لوگوں کو آگے کرکے سیاسی کھیل شروع کر دیتے ہیں، عدالت آپ کی مدد کیلئے آگے آتی ہے، اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوسکتا ہے، نظام عدل اور احتساب آپ میں جڑے ہوئے ہیں، سیاسی نظام کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کیلئے ضروری ہے کہ عدالتیں غریب اور امیر کیلئے ایک جیسے قانون کو لاگو کروائیں، فیصلوں سے لوگوں کو مایوسی نہ ہو۔

امیر اور طاقتور کیلئے گھر کی دہلیز پر انصاف کا پروانہ فراہم کرنیوالا نظام دہشت گردی سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔ ہمارا نعرہ بھی انصاف ہے اور کوشش بھی یہی ہے کہ مالی بدعنوانی کے خاتمے کیساتھ میرٹ کو لاگو کریں، لیکن اس میں دیر لگے گی، اگر ہمیں کامیابی نہ ہوئی تو خطرناک مایوسی جنم لے گی۔ عوام کا خون چوسنے والی تمام قوتوں کا اس پر اتحاد ہے کہ کسی شعبے میں اصلاح ہو، نہ انصاف کا بول بالا ہو، تاکہ وہ ظلم و فساد کا بازار گرم رکھیں۔ پاکستان کے لوگ عمران خان سے ایسی ہی امید رکھتے ہیں کہ اس فرسودہ نظام کا خاتمہ ہوگا، اسی لیے وہ ہر طرح کی مشکل برداشت کرنیکے لیے تیار ہیں، ہم بھی پرعزم ہیں، قوم کی امیدوں پر پورا اتریں گے، یہ ہماری اخلاقی جرات ہے کہ سنگین ترین بحران کو قوم کے سامنے رکھتے ہیں اور مایوسی سے بچنے کی ہر تدبیر آزما رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 787750
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش