0
Wednesday 10 Apr 2019 21:52

جس طرح ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، اسی طرح جلد معاشی استحکام بھی قائم کرینگے، ہمایوں اختر

جس طرح ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، اسی طرح جلد معاشی استحکام بھی قائم کرینگے، ہمایوں اختر
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء ہمایوں اختر خان 1955ء میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم برن ہال کالج ایبٹ آباد، گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی، کینیڈا سے ایگریکلچر میں ماسٹر کیا۔ 1990ء سے 2007ء تک رکن قومی اسمبلی رہے۔ 1997ء سے 1999ء تک چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ رہے۔ 1999ء میں مشرف مارشل لاء کے بعد شریف فیملی کیساتھ زیرعتاب رہے، 2001ء میں چوہدری برادران کیساتھ مسلم لیگ قاف کی بنیاد رکھی، 2002ء سے 2007ء تک وفاقی وزیر تجارت اور کامرس رہے۔ 2012ء میں چوہدری برادران سے اختلافات کیوجہ سے ہمخیال گروپ بنا کر مسلم لیگ نون کیساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کی، لیکن بعد میں اختلافات کیوجہ سے الیکشن نہیں لڑا۔ اس دوران انکے بھائی سینیٹر ہارون اختر 2015ء سے 2018ء تک وزیراعظم کے معاون خصوصی رہے۔ 2018ء میں انہوں نے دوبارہ پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرکے سیاست میں قدم رکھا، لاہور سے عمران خان کی چھوڑی ہوئی سیٹ سے الیکشن میں حصہ لیا۔ واضح رہے کہ انکے والد جنرل اختر عبدالرحمان چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور 1979ء سے 1987ء تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔ ہمایوں اختر 2014ء میں قائم کئے گئے تھنک ٹینک، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز کے بانی اور چیئرمین ہیں۔ اپنے والد کی وفات کے بعد انہوں نے پاکستان میں بڑے بھائی اور اپنے کزن جہانگیر ترین کیساتھ مل کر ریاض باٹلرز کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں تاندلیانوالا شوگر انڈسٹری قائم کی، اب پی ٹی آئی کے اہم قائدین میں شمار ہوتے ہیں۔ انکے ساتھ موجودہ معاشی صورتحال اور سیاسی اتار چڑھاؤ کے دوران حکومتی پالیسیوں سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: معیشت کی بدترین صورتحال کے باوجود وفاقی وزراء کس طرح ہزاروں نوکریوں کی خوشخبری دے رہے ہیں۔؟
ہمایوں اختر خان:
میرے خیال میں اچھا سوچنے اور امید دلانے میں کوئی حرج نہیں، یہ جو نوکریوں کی بات کی گئی ہے، ایک تو اس میں قوم کو امید دلائی گئی ہے، جس کی بنیاد سمندر میں تیل تلاش کرنیوالی کمپنیوں کا کام ہے، ہمیں یہ بہت زیادہ توقع ہے کہ یہ ذخائر نکل آئیں گے اور قوم کو خوشخبری ملے گی، جس کا فائدہ کسی ایک فرد یا حکمران طبقے کو نہیں ہوگا بلکہ ہر فرد اس سے فیض یاب ہوگا۔ نیا پاکستان ہاوسنگ پروجیکٹ کے ایک لاکھ پنتیس ہزار گھروں کا آغاز کیا جا رہا ہے، یہ کام ہم لوگوں کیلئے کر رہے ہیں، اللہ ہماری نیت کو جانتا ہے، ان شاء اللہ اس سے زیادہ کام ہوگا، لوگوں کیلئے، عام آدمی کے فائدے کیلئے کوئی بھی کام کرے تو ممکن نہیں کہ وہ کام پورا نہ ہو، مایوسی ان لوگوں کیلئے ہے، جو صرف کرپشن کے ذریعے مال بنانے کی غرض سے سیاست میں آتے ہیں اور اقتدار کو ذریعہ بناتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: یہ دعوے تو حکومت جب سے آئی ہے جاری ہیں، معیشت کو بہتر بنانے کیلئے حکومت کا روڈ میپ کیا ہے۔؟
ہمایوں اختر خان:
ہماری معیشت اس وقت تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے، ابھی ہمیں تین مرحلوں کو عبور کرنا ہے، پہلے اکانومی کو ریسکیو کیا گیا، اگست میں ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا، اب اس حالت سے باہر آچکے ہیں، دوسرا مرحلہ اسٹیبلائزیشن کا ہے، یہ استحکام کی پالیسی ہر دور میں آتی رہی ہے، ہم بھی اپنا رہے ہیں، اس میں دیر لگتی ہے، اس کی روشنی میں اعداد و شمار دیکھیں تو وہ ویسے ہی ہیں، جو پی پی پی اور نون لیگ کے دور حکومت کے ابتدائی مہینوں کے ہیں، کوئی فرق نہیں ہے۔ ہر لحاظ سے ہماری پالیسی اور اس وقت تک کی کارکردگی سب سے بہتر ہی نظر آئیگی۔ یہ ہم اس کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ جو خسارے ہمیں ورثے میں ملے، کسی حکومت کو نہیں ملے۔ اب ہم نے کیا کرنا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، جو دو سال سے آدھا بلین ڈالر کی رفتار سے نیچے جا رہے تھے، وہ جنوری سے بڑھنا شروع ہوگئے ہیں، آج دس ارب سے زیادہ کے ذخائر ہیں، اگست میں آئے تھے تو یہ نو ارب کے قریب تھے، اسی طرح کرنٹ اکاونٹ اور بیرون ملک خسارہ، جسکی وجہ سے معیشت کو شدید مشکل کا سامنا تھا، اس میں 37 فیصد کمی آئی ہے، کرنٹ اکاونٹ خسارے میں پچھلے ماہ 72 فیصد کمی آئی تھی۔ یہ خسارے مسلسل کم ہو رہے ہیں، اب معیشت اس طرح استحکام کی طرف جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: یہ اعداد و شمار اپنی جگہ درست ہیں، لیکن عام آدمی کی زندگی تو روز افزوں مہنگائی کیوجہ سے تلخ ہو رہی ہے۔؟
ہمایوں اختر خان:
مہنگائی میں بے شک اضافہ ہوا ہے، لیکن اسکی وجہ کیا ہے، اسی وجہ کو کم کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سارے پراسس میں ڈالر اوپر چلا گیا ہے، انرجی کی قیمتوں میں ری ایڈجسمنٹ کرنا پڑی ہے، جس سے قیمتیں اوپر چلی گئی ہیں، اسکی وجہ کوئی غبن یا فراڈ نہیں، یہ ملکی معیشت سے جڑی ہوئی مجبوریاں ہیں۔ نون لیگ کے دور میں پہلے چھ سات ماہ میں مہنگائی کی شرح اس وقت سے زیادہ تھی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں 25 فیصد کی شرح تک مہنگائی گئی تھی، زیادہ سے زیادہ ایک سے ڈیڑھ سال کے عرصے میں اس بحران سے نکل جائیں گے۔ ہماری معیشت خساروں سے پاک اور بڑھنے والی ہوگی۔ اگر ہمارے بعد کوئی اور حکومت آتی ہے تو انہیں یہ رونا نہیں رونا پڑے گا کہ یہ ہمارے لیے مشکلات کے علاوہ کچھ چھوڑ کر نہیں گئے۔ حکومت نے خصوصی طور پر ادویات کی قیمتوں میں ہونیوالے اضافے کو دیکھا ہے، اس پر توجہ دی جا رہی ہے، کریک ڈاون بھی کیا گیا ہے، اس طرح کی جو چیزیں کنٹرول کی جانی والی ہیں، وہ بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ کورٹ نے کہا تھا کہ جو ادویات مارکیٹ میں نہیں ہیں اور وہ بنانے والے یا باہر سے منگوانے والے کو مہنگی پڑتی ہیں تو انکی قیمت میں اضافہ کیا جائے، لیکن وہ دستیاب ہونی چاہیں، اس کے علاوہ اگر کوئی بے ضابطگی سامنے آتی ہے تو اسے برداشت نہیں کیا جائیگا۔

 اسلام ٹائمز: معیشت کو درپیش مسائل اور پالیسیوں کے تسلسل میں اہم چیز آئی ایم ایف سے معاہدے ہیں، کیا حکومت اسکے متعلق پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے گی۔؟
ہمایوں اختر خان:
ظاہر ہے، جمہوریت ہے، تمام فیصلے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر ہی کئے جاتے ہیں، لیکن جب ہم نے اکنامک ریفارم بل پیش کیا تھا تو اپوزیشن کا سنجیدہ پن سامنے آگیا تھا، بل کی کاپیاں ہی پھاڑ دی گئی تھیں، ابھی جو مفاد عامہ متاثر ہو رہے ہیں، اسکی وجہ لیگی دور حکومت کے گیس اور بجلی کے نقصانات ہیں، جو چھ سو ارب سے زیادہ کے تھے۔ چار سو پچاس بجلی اور ایک سو پچاس گیس سیکٹر کے تھے، اب یہ کیسے ایسے مشورے دے سکتے ہیں، جن سے قوم کو کوئی خوشخبری اور نوید دی جا سکے۔ اب اگر یہ قیمتیں نہ بڑھاتے تو کمپنیاں دیوالیہ ہو جانا تھیں، جس کا نقصان ملک کو اٹھانا پڑتا۔ اسی طرح اگر ہم وہ ٹیکس ریٹ رکھتے پیٹرول اور ڈیزل میں جو لیگی حکومت میں تھا تو ایک سو ارب کا ریوینیو آنا تھا، لیکن ہم نے نہیں کیا، تاکہ عام آدمی زیادہ مشکل میں نہ پڑے۔

اسلام ٹائمز: حکومت نے جو اربوں ڈالر عرب اور غیر عرب دوستوں سے لئے ہیں، عام آدمی کی زندگی میں اسکے اثرات کیوں نظر نہیں آرہے۔؟
ہمایوں اختر خان:
ہاں یہ بالکل درست ہے، یہ سارا پیسہ ملک میں آیا ہے، لیکن کسی نے کھایا نہیں، پچھلی حکومت نے خسارے چھوڑے اور قرضے لیے، یہ سارا پیسہ ان قرضوں کی ادائیگی میں جا رہا ہے، ہم نے تو آکر زرمبادلہ کے ذخائر کو کم ہونا بند کرکے اس میں اضافہ کیا ہے، اب بہتری آنا شروع ہوگی۔ یہ ساری تکنیکی بحث عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے، لیکن اس کی وجہ سے ہر آدمی کی زندگی متاثر ضرور ہوتی ہے، اسکا ہمیں احساس ہے۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم سمیت تمام حربے آزمانے کے باوجود بھی لوگوں نے ٹیکس نہیں دیئے، جو حکومت کیخلاف زبردست عدم اعتماد کا اظہار ہے، کیا ایسے میں حکومت اپنا کام کرسکتی ہے۔؟
ہمایوں اختر خان:
ہم نے صرف ایمنسٹی اسکیم نہیں دی، بلکہ کچھ اقدامات بھی کئے ہیں، بے نامی رولز کا اطلاق کر دیا ہے، جو پہلی حکومت نے دو سال تک سرد خانے کی زینت بنا دیئے تھے، اسی طرح اقدمات کئے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ میں جو کالا دھن چلا جاتا تھا، وہ واپس آئے گا، تیسرا یہ کیا گیا ہے کہ آف شور اکاونٹس کی تفصیل اکٹھی کی ہے، جو ایک لاکھ باون ہزار ہیں، اب اسکے بعد ایک جارحانہ ٹیکس اسکیم سے پہلے تاجروں اور کاروباری طبقے کی درخواست پر ایک دفعہ ایمنسٹی اسکیم لائی جائے، اس لیے یہ ڈیمانڈ پوری کرنے کے بعد پکڑ دھکڑ بھی ہوگی۔ یہ ہماری حکومت کا آغاز ہے، کسی کو کسی اسکیم کی وجہ سے چھوڑا نہیں جا رہا، نہ چھوڑا جائیگا، ہم آج بھی اس موقف پہ قائم ہیں کہ کسی چور کو تحفظ دینے کیلئے کسی قسم کی کوئی ایمنسٹی نہیں دی جانی چاہیئے۔ پہلی حکومت کی اسکیم بالکل ان اصولوں سے عاری تھی، اس اسکیم میں اور پہلی والی میں یہی فرق ہے۔ اپوزیشن کام خراب کرنا چاہتی ہے، لیکن حکومت کام میں تسلسل کے ذریعے سیاسی اور معاشی استحکام لے آئیگی، اس میں پوری قوم ہمارے ساتھ ہے۔
خبر کا کوڈ : 787830
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش