0
Sunday 14 Apr 2019 19:57

دوبارہ بھاجپا کی حکومت آئی تو بھارت سیکولرزم کے بجائے انتہاء پسندوں کا اڈہ بن جائیگا، مولانا غفران ساجد

دوبارہ بھاجپا کی حکومت آئی تو بھارت سیکولرزم کے بجائے انتہاء پسندوں کا اڈہ بن جائیگا، مولانا غفران ساجد
مولانا غفران ساجد قاسمی بھارتی ریاست بہار کے ضلع مدھوبنی سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا قاسمی مشہور آن لائن روزنامہ اخبار بصیرت آن لائن کے چیف ایڈیٹر ہیں۔ مولانا قاسمی دارالعلوم دیوبند کے کنوینئر بھی ہیں۔ انہوں نے عالم اسلام کی مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند سے عالم فاضل کی سند حاصل کی ہے، مولانا غفران ساجد قاسمی یوں تو پیشہ سے ایک استاد ہیں اور ایک عرصہ تک انہوں نے درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے ہیں، لیکن صحافت سے انکا واسطہ شروع سے ہی رہا، 2003ء میں انہوں نے ندائے بصیرت کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا، جسکے وہ چیف ایڈیٹر تھے، سالہا سال سے مولانا قاسمی بسلسلہ ملازمت سعودی عرب میں مقیم تھے، 2002ء میں سعودی عرب سے  واپسی کے بعد ’’بصیرت آن لائن‘‘ ملٹی لینگول کے نام سے ایک نیوز پورٹل جاری کیا. مولانا غفران ساجد بصیرت انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھی ہیں، اسلام ٹائمز نے مولانا غفران ساجد قاسمی سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پہلے یہ جاننا چاہیں گے کہ ابھی بھارت کے کیا حالات ہیں۔؟
مولانا غفران ساجد:
بھارت بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ معاشی سطح پر ملک دیوالیہ کا شکار ہے۔ جی ڈی پی کی شرح میں گرواٹ آچکی ہے۔ آبرو ریزی اور خواتین کے استحصال کی شرح میں گذشتہ پانچ برسوں کے دوران سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ تشدد، نفرت اور اشتعال انگیزی کی شرح گذشتہ ستر سالوں کے دوران سب سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ مہنگائی میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا ہے۔ ملازمت ملنے کے بجائے ایک کروڑ ملازمتیں کم ہوگئی ہیں۔ غربت، جہالت اور پسماندگی میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ کسانوں کی خودکشی کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔ گائے کے نام پر ہجومی تشدد کرکے سو سے زیادہ مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کا قتل کیا گیا ہے۔ کرپشن اور رشوت خوری کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جرائم کی وجہ سے دنیا بھر میں ہندوستان کا شمار ناپسندیدہ ملک کے طور پر ہونے لگا ہے۔ یہی کچھ حالات ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت میں پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں، آپ ان انتخابات کو 2014ء کے انتخابات جیسا دیکھتے ہیں یا کچھ مختلف۔؟
مولانا غفران ساجد:
دیکھیئے یہ انتخابات 2019ء عام انتخابات سے مختلف ہیں۔ یہ صرف اقتدار کے حصول اور حکومت بنانے والے انتخابات نہیں ہیں۔ یہ الیکشن آزاد ہندوستان کی ستر سالہ تاریخ میں بے پناہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دو نظریہ کے درمیان مقابلہ ہے۔ یہ ڈکٹیٹرشپ اور سیکولرزم کے درمیان لڑائی ہے۔ اس لئے اس الیکشن کو ہلکا لینا اور اسے عام الیکشن کی طرح سمجھنا سیاسی پارٹیوں، ووٹرز، رائے دہندگان اور دانشوروں کے لئے بہت بڑی غلطی سمجھی جائے گی اور اس کے نتائج اگر 2014ء کے طرح ہوئے تو شدید خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اس الیکشن پر خصوصی توجہ دینے اور اس میں سیکولر پارٹیوں کو فتح سے ہم کنار کرانے کے لئے ہر ایک شہری اور سیاسی پارٹی کو قربانی دینی ہوگی، تب جاکر کامیابی مل سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر دوبارہ بی جے پی کی حکومت آتی ہے تو اسکے کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں اور کیسے بھاجپا کو ان انتخابات میں شکست سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔؟
مولانا غفران ساجد:
دیکھیئے گذشتہ برسوں کے دوران جس طرح آئینی اداروں کی خود مختاری پر حملہ کیا گیا ہے۔ کسانوں، کمزوروں، دلتوں، اقلیتوں اور مسلمانوں کو ہراساں اور پریشان کیا گیا ہے۔ فوج، عدلیہ، ایجنسیاں اور دیگر قومی اداروں کا غلط استعمال کیا گیا ہے، اس سے واضح ہو رہا ہے کہ ایسے انتہاء پسند عناصر کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو ملک کا آئین بھی محفوظ نہیں رہ پائے گا۔ جمہوریت تہہ و بالا ہو جائے گی اور ہندوستان سیکولرزم کے بجائے انتہاء پسندوں کا اڈہ بن جائے گا۔ اس سے نجات حاصل کرنے، خوف و دہشت کے خاتمہ اور ایسے عناصر کی حکومت کو روکنے کے لئے سیاسی پارٹیوں کو بڑی قربانی دینی ہوگی، خاص طور پر کانگریس جیسی پارٹیوں کو نمایاں کردار ادا کرنا ہوگا، تب جاکر ایسے عناصر کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ کانگریس کا چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرنا ملک کی سالمیت کے لئے ضروری ہے، اگر کانگریس چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد نہیں کرتی ہے۔ علاقائی پارٹیوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتی ہے تو 2019ء کا نتیجہ 2014ء سے کچھ مختلف نہیں ہوگا اور ملک پر ایک مرتبہ پھر جمہوری اقدار کی دھجیاں اڑانے والی پارٹی برسر اقتدار آجائے گی۔

اسلام ٹائمز: کانگریس نے مختلف ریاستوں میں وہاں کی مقامی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا ہے، کیا آپ اس اتحاد سے مطمئن نہیں ہیں۔؟
مولانا غفران ساجد:
کانگریس نے اگرچہ مختلف ریاستوں میں سیاسی اتحاد قائم کیا ہے، لیکن اس نے اتحاد کی اس مہم میں مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کو نظرانداز کیا ہے۔ ہندوستان کے متعدد صوبوں میں ایسی سیکولر پارٹیاں ہیں، جن کا اپنے خطے میں اثر و رسوخ ہے۔ وہاں اس کی سیاسی نمائندگی ہے، لیکن کانگریس نے ان کے ساتھ اتحاد سے گریز کیا ہے۔ آسام کی مثال سب سے واضح ہے، جہاں 2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس کو صرف تین سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اور اتنی سیٹوں پر آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نے بھی کامیابی حاصل کی۔ سیکولرم کے تحفظ اور بی جے پی کے بڑھتے کے قدم کو روکنے کے لئے یو ڈی ایف اور اس کے لیڈر مولانا بدر الدین اجمل نے بڑی قربانی دی ہے، لیکن اس کے باوجود کانگریس کی طرف سے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں آیا ہے۔ اس کے علاوہ کرناٹک اور تمل ناڈو میں ایس ڈی پی آئی کا اثر و رسوخ ہے۔ ایم آئی ایم بھی ایک مضبوط پارٹی بن چکی ہے۔ تلنگانہ کے علاوہ مہاراشٹرا، بہار اور یوپی میں اس کے لیڈر سرگرم ہیں۔ ممبران اسمبلی اور کاونسلر موجود ہیں، لیکن کانگریس نے اپنے اتحاد میں ان پارٹیوں کو بھی شامل نہیں کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں ان مذکورہ علاقوں میں کانگریس نے سیاسی اتحاد کی ضرورت محسوس نہیں کی۔؟
مولانا غفران ساجد:
دیکھیئے کانگریس کا یہ طرز عمل سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کانگریس مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں کے وجود کو ختم کرنا چاہتی ہے یا پھر آر ایس ایس اور بی جے پی سے وہ اس قدر خوفزدہ ہے کہ مسلمانوں کو شامل کرنے میں اسے اپنی سیاسی ناکامی نظر آرہی ہے۔ یہ ہم بھی پوچھنا چاہتے ہیں کہ آخر مسلمانوں کا قصور کیا ہے۔ آخر مسلمان بھی ہندوستان کے آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ بھارت کے دستور کے مطابق انہوں نے بھی اپنی سیاسی تنظیمیں رجسٹرڈ کرائی ہیں۔ سیاسی طور پر وہ مضبوط ہوچکے ہیں۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی ہے۔ اس کے باوجود ایسی مسلم لیڈر شپ والی پارٹیوں سے گریز کرکے کانگریس بھی شاید یہی پیغام دینا چاہتی ہے کہ اسے صرف مسلم ووٹ چاہیئے، مسلم قیادت اسے منظور نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کے پیش نظر بھارتی عوام کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
مولانا غفران ساجد:
دیکھیئے ان انتخابات میں کن لوگوں کو اقتدار تک پہنچانا ہے، کسے اپنا ووٹ دینا ہے، یہ مرحلہ بہت اہم اور بیش قیمت ہے۔ جمہوریت میں الیکشن کے ایام بہت قیمتی ہوتے ہیں۔ اس موقع پر لیا گیا بہتر فیصلہ پانچ سال تک انسان کو مطمئن اور پُرسکون رکھتا ہے۔ ذرا سی غلطی کی بنیاد پر پانچ سال تک پچھتانا پڑتا ہے۔ اس لئے ووٹ ڈالنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لیں، غور کرلیں۔ گذشتہ پانچ برسوں کا جائزہ لیں، پھر کسی کے حق میں بٹن دباکر ووٹ ڈالیں، تاکہ 2014ء سے اب تک جس طرح عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، آئندہ پانچ سالوں میں پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

اسلام ٹائمز: میڈیا سے چونکہ آپ وابستہ ہیں تو پوچھنا چاہوںگا کہ ایسے حالات میں میڈیا کا رول کیا ہونا چاہیئے اور گذشتہ پانچ برسوں میں بھارتی میڈیا کا رول کیسا رہا۔؟
مولانا غفران ساجد:
میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ مظلوموں اور کمزوروں کی مدد میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھارت میں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ جھوٹ کی بنیاد پر خبریں نشر کی جا رہی ہے۔ حقائق چھپائے جا رہے ہیں اور فرضی خبروں کے ذریعے عوام کے ذہن کو پراگندہ کیا جا رہا ہے۔ ٹی آر پی کے حصول اور پیسوں کی لالچ میں میڈیا ہاؤسز جانبدارانہ رپوٹنگ کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں صحافت کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ جب ملک کا ہر سنجیدہ شہری میڈیا کے رویہ پر نالاں اور پریشان ہے۔ آج میڈیا حقائق بتانے کے بجائے جذبات سے کھیلنے لگا ہے۔

ایک جھوٹ کو اتنی مرتبہ بیباکی اور خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے کہ عوام کے ذہن میں وہی سچ بن کر رچ بس جاتا ہے۔ ٹی وی چینلز کے اینکروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں ہیں۔ وہ حکومت سے سوال کرنے کے بجائے اپوزیشن پارٹیوں کے ترجمان سے سوال کرتے ہیں۔ برسر اقتدار پارٹیوں کا احتساب کرنے کے بجائے گذشتہ حکومتوں سے حساب مانگتے ہیں۔ صحافیوں کے رویئے اور انداز کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ٹی وی چینلز میں صحافتی اقدار کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ موجودہ میڈیا کا یہ رویہ افسوسناک، شرمناک اور میڈیا کے لئے بدترین زوال کی علامت ہے۔
خبر کا کوڈ : 788310
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش